Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،29

اسلام اور خانقاہی نظام

راقم تالیف بهی حضرت سخی لال شہباز قلندر کے مزار پر جا چکا ہے.اب چند مناظر مشاہدہ کریں!
دربار کے بالکل سامنے صحن میں پنج تن پاک کا الم لگا ہوا ہے'لوگ اپنی مرادوں و دعاوں کی قبولیت  کیلئے اس کے  ارد گرد چکر(طواف) لگاتے ہیں.اور قبر کے آس پاس کچھ بابے (ملنگ)جن کی بڑی بڑی مونچهیں'دهاڑی اور کئی کئی فٹ سر کے لمبے اور گندے بال گندا لباس'شاید نہ نہانے کی منت مان رکهی ہو،نمازوں اور اسلامی احکام سے بے خبر کئی میٹر لمبا مالا  جهپنے اور چلہ کشی  میں مگن ہیں.دوسری طرف قبر پر لوگوں کی بهیڑ لگی ہوئی ہے کوئی دعا' آہ زاری کر رہا ہے تو کوئی گم سم کهڑا ہے.ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح قبر کو بوسہ یا ہاتھ لگا کر دلی مراد پوری کر لے....لوگ ڈهول کی تهاپ پر دهمالیں ڈالتے ہوئے مست ہو کر  قبر پر چادریں چڑهانے کیلئے  جوق در جوق آ رہے ہیں ایک چادر کے ساتھ دوسری چادر کو باندھ دیا جاتا ہے جس کی لمبائی سینکڑوں میٹر تک جا پہنچتی ہے.
دربار سے تهوڑا ہٹ کے کیچڑ کے ایک گهڑهے سے لوگ کیچڑ(گیلی مٹی) جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کی سرکار لال شہباز قلندر نے یہاں صابن یا تیل لگایا تها'اب اس مٹی کو بطور شفاء کیلئے اپنے جسموں پر لگا کر ساتھ ہی میں ایک گندے پانی کا کنواں ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مرشد لال قلندر صاحب یہاں نہاتے تهے. اب یہاں پر گرمی دانوں اور دیگر بیماریوں کی شفاء کیلئے یہاں غسل کیا جاتا ہے....ساتھ ایک اور گندے پانی کا گهڑها ہے"اس گندے پانی کو لوگ خرید کر بوتلوں میں ڈال کر شفاء کے طور پر استعمال کرتے ہیں....اس کے علاوہ دربار شریف پر آنے والے زائرین کے ذوق و شوق کو مد نظر رکهتے ہوئے لکی رانی سرکس' موت کا کنواں'ناچ گانا'میجک شو'ٹهیٹر'جوا خانے'شام قلندر'قوالی کی محفلیں'خرید و فروخت'الغرض کہ! ہر وہ کام جس سے شیطان کو خوش اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہو اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برعکس ہو ان تمام خرافات کو دین اسلام کا حصہ سمجھ کر سر انجام دیا جاتا ہے. سرکار سخی لال شہباز قلندر کے مزار پر خرافات(بے حیائی) تو بے شمار ہیں لیکن ہم انهیں پر اکتفا کرتے ہوئے تحریر کو آگے بڑهاتے ہیں......   
 بھٹ شاہ اور سرور نوح کے مزارات: حیدر آباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ‘ جی ٹی روڈسے دو تین کیلو میٹر ہٹ کر ‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار ہے- سندھی میں” بھٹ “ ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں -یہ صوفی شاعر چونکہ دنیا اور اہل دنیا سے الگ تھلگ ہوکر‘ اس بے آباد ٹیلے پر ریاضت کیا کرتے تھے اور صوفیانہ شعر کہتے تھے -البتہ یہ ایک الگ بات ہے اور شاید نام نہاد محبان رسول کے بارے میں نہیں ہے‘ اور وہ بات یہ ہے کہ لا رھبانیة فی الاسلام ” اسلام میں رہبانیت نہیں ہے “ تصوف شکن فرمان رسول: یعنی دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ریاضت و عبادت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے- اور ایسا کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل کے بہرحال خلاف ہے -- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ بھلا کس سے پوشیدہ ہے- کہ ایک جہادی قافلہ ایک بڑے ہی خوبصورت منظر سے گزرا‘ کہ جہاں پانی کا چشمہ تھا ‘اور سر سبز بھی تھا ‘ تو حدیث میں آتا ہےَ ترجمہ: ایک صحابی رسول ایک گھاٹی میں سے گزرا ‘ جہاں میٹھے پانی کا چشمہ تھا-وہ جگہ اس کو بہت زیادہ پسند آئی- دل میں کہا -( کتنا ہی اچھا ہو ) اگر میں لوگوں سے الگ تھلگ اس وادی میں ڈیرا ڈال لوں ( رھباینت اختیار کرلوں ) لیکن میں یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لئے بغیر نہیں کروں گا - تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو امام الانبیاء نے فرمایا تمھارا اللہ کی راہ (جہاد ) میں کھڑا ہونا اپنے گھر میں بیٹھ کر 70سال نماز پڑھنے سے بہتر ہے کیا! تم نہیں چاھتے کہ اللہ کی راہ میں لڑائی کرو ؟.... جس نے اونٹنی کے دودھ دھونے کے بقدر اللہ کی راہ میں قتال (لڑائی) کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی - (سنن الترمذی: ابواب فضائل الجھاد صحیحہ الا لبانی رقم الحدیث 1650) امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے - معلوم ہوا اسلام میں ” رھبانیت “ نام کی کوئی چیز ہے تو وہ قتال(جہاد) فی سبیل اللہ ہے- غور فرمائیں! اب یہ ساری چیزیں اجر و ثواب کا باعث ہیں- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ایک فرمان ہے-َ ترجمہ: تمہارا رب بکریوں کے اس چرواہے پرجو کسی پہاڑ کی چوٹی پر ہے -بڑا خوش ہوتا ہے جو نماز کے لئے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے - اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے اس بندے کو دیکھو ! اذان کہتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے- مجھ سے ڈرتا ہے- بے شک میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا اور اس کو جنت میں داخل کردیا-( سنن ا بی دد کتاب الصلاة باب الاذان فی السفر و صححہ الالبانی فی ارواءالغلیل للا لبانی رقم الحدیث 214)آج ولی ہی اسے مانا جاتا ہے جو جنگلوں ویرانوں اور بھٹوں کی خاک چھانتا پھرے‘ جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ بتاتا ہے‘ کہ ولی وہ ہے جو معاشرے میں رہ کر ” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر “ کا فریضہ سرانجام دے ‘ اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر ے - بہرحال --- اہل دربار کا چلن الگ ہے- دنیا سے الگ تھلگ ہو کر بھی ان کی جو عبادت وریاضت ہے ‘ وہ بھی آلات موسیقی کی محتاج ہے- چنانچہ بھٹائی شاہ کے دربار کے سامنے چوک پر ایک بہت بڑا لکڑی کا ” گٹار “ نصب ہے-یہ اس دربار کے مزاج کی پہلی علامت ہے - جی ہاں ! یہ وہ علامت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا :کہ مجھے آلات موسیقی توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے .... مگر محکمہ اوقاف کو پیسہ چاہیئے اور وہ دین کے نام پر اس ٹیلے سے خوب کمایا جا رہا ہے - پھر ہم  باب نوح “میں داخل ہوگئے!: ”ریتلا بھٹ“ کہ جو اب محکمہ اوقاف کا ”درباری بھٹ “ بن چکا ہے-اس سے واپس جی ٹی روڈ پر آئے تو پندرہ کیلو میٹر بعد ”ہالہ“شہر آگیا- جی ٹی روڈ پر ہی بہ بڑا دروازہ بنایا گیا ہے جس پر ” باب نوح “ لکھا ہوا ہے -اور پھریہ راستہ سیدھا جناب نوح کی درباری قبر پر جا کر ختم ہوتا ہے .... اس قبر کا نام کچھ اس طرح تحریر کیا گیا ہے- ” درگاہ غوث الحق مخدوم نوح“ یعنی یہ درگاہ مخدوم نوح کی ہے‘ جو اللہ کا غوث ہے.... اب یہ دعویٰ جو ان درگاہ والوں نے کیا ہے‘ تو اس کی تصدیق کے لئے آئیے اللہ تعالیٰ سے پوچھیں کہ کیا واقعی اے اللہ ! تونے مخدوم نوح کو اپنا غوث بنایا ہے؟ اللہ کی طرف سے آواز آتی ہے ....یہ آواز حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوتی ہے -- اور قیامت کے دن تک قرآن میں درج ہے- ملاحظہ کیجئے : مَاتَعبُدُونَ مِن دُونِہ اِلاَّ اَسمَائً سَمَّیتُمُو ھَا اَنتُم وَ اَبَائُکُم مَااَنزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِن سُلطَان ترجمہ : تم لوگ اللہ کے علاوہ محض بناوٹی ناموں کی عبادت کرتے ہو‘ جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے تجویز کر رکھا ہے-(جبکہ) اللہ نے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی( یوسف : ۰۴)
اسی طرح ان مزاروں/خانقاہوں پر جو بهی خرافات ہوتی ہیں ان سب کا دین اسلام سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے.بلکہ یہ سب دین خانقاہی کے پیروکاروں کی من گهڑت اور بے بنیاد جهوٹی کہانیاں قصے ہیں..جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...