Wednesday 9 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام13

اسلام اور خانقاہی نظام

اسی ہندوستان پر غزنی کے مسلمان محمود غزنوی نے 16 حملے کئے -سترھواں(17) حملہ کرتے ہوئے سلطان جب سومنات کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ سومنات کے مندر میں ہندوں کا دیوتا جو سونے کا بنایا گیا ہے اور اس مندر کے درمیان چاروں طرف مقناطیس لگانے کی وجہ سے فضا میں معلق ہے‘ اس کے بارے میں ہندو راجہ اور پرجا(عوام) کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک یہ دیوتا ہم سے راضی ہے ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ....چنانچہ سلطان نے سب سے پہلے اس مندر کو فتح کیااور اندر داخل ہوئے -دیوتا پر تلوار کا وار کیا -وہ ٹوٹا اور اس کے اندر سے ہیرے جواہرات فرش پر گرنے لگے ....اب ہندوں نے جب اپنے مشکل کشا کو ٹوٹتے اور گرتے دیکھا تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے اور سلطان جس کی طرف رخ کرتا ‘ یہ اس کے سامنے بچھ بچھ کر گرنے لگے-یہاں پر مجهے افغنستان کے مجاہدین کی بات یاد آئی کہ جسے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکها جائے گا جب افغنستان کو فتح کیا تو یہاں مذہبی پیشواوں کے طویل اور قدیم قد آور بت(مجسمے)موجود تهے اس وقت کئی ملکوں نے کہا کہ یہ بت ہمیں دے دو ہم اس کے بدلے سونا چاندی ہیرے زیورات ڈالر دینے کیلئے تیار ہیں تو مجاہدین نے جواب دیا:کہ مسلمان بت شکن تو ہو سکتا ہے لیکن بت فروش نہیں....لیکن افسوس!جو مسلمان بتوں کو توڑنے والا تها آج پهر قبروں کے نام پر بتوں کا پجاری بن گیا ہے....
 عیسائیوں کی جہالت: اسی طرح یورپ کے عیسائی جو بیت المقدس پر قابض ہو چکے تھے-ان سے بیت المقدس واپس لینے کیلئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جہاد کی تیاریاں شروع کردیں -تب یورپین ملکوں کے تمام عیسائی اپنی افواج سلطان کے مقابل لے آئے -ان افواج کی قیادت برطانیہ کے رچرڈ -فرانس کے بادشاہ فلپ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک کر رہے تھے ....سلطان نے اللہ کی مدد سے ان سب کو شکست دی اور بیت المقدس عیسائیوں سے چھین لیا -بیت المقدس کے لئے جو جنگیں عیسائیوں سے لڑی گئیں انہیں صلیبی جنگیں کہا جاتا ہے -ان جنگوں میں یورپین ملکوں کی تباہی کااندازہ اس سے لگائیے اور ساتھ ہی ان کی اخلاق باختگی اور جہالت کا بھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ہماری ساری افواج تو سلطان کے مقابلے میں تباہ ہوگئی ہیں تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ بڑے لوگ چونکہ گناہوں کے کام کرتے ہیں ‘ اس لئے اللہ ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں کرتا -چنانچہ انہوں نے معصوم بچوں کی ایک فوج 1212ءمیں فرانس سے بھیجی لیکن مارسلز کی بندر گاہ تک پہنچتے پہنچتے یہ بچے تتر بتر ہوگئے اور خود راستے میں عیسائیوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ‘ لوٹ مار کی اور غلام بنا کر بیچ ڈالا - یہ تھی کفار کی مشرکانہ ضعیف الاعتقادی....توہم پرستی اور جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ....جس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس توحید کا اجالا تھا اور اس اجالے اور روشنی کی معیت میں انہوں نے تلوار چلائی تو اندھیرے چھٹتے گئے اور روشنی پھیلتی گئی....مگر ....آہ کہ آج وہی اندھیرا ہے وہی ضعیف الاعتقادی....توہم پرستی ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے ان کا شکار ہیں- جب 65 ءکی جنگ ہوئی‘ اللہ تعالیٰ نے انڈیا کے خلاف مسلمانوں کی مدد کی‘ تو خانقاہی لوگ کہہ اٹھے کہ” یہ جنگ تو مزاروں میں مدفون سبز پوشاک والے بزرگوں نے جیتی ہے -وہ بموں کے گولے زمین پر پہنچنے سے قبل ہی کیچ کرلیا کرتے تھے -اور وہی گولے پھر دشمن پر پھینک دیتے تھے -“ چنانچہ اللہ کو غیرت آئی اور 1971 ءکی جنگ میں ہماری ایک لاکھ فوج ہندو کے نرغے میں تھی اور جنرل اروڑہ ‘ جنرل نیازی کے تمغے اتار رہا تھا- سادہ لفظوں میں ہندو اس"کو ذلیل کر رہے تهے-اس وقت یہ مزاروں والے سبز پوشاک والے بابے کہاں تهے؟
 جہادی خلافت سے خانقاہی خلافت تک : خلیفہ اور خلافت وہ الفاظ ہیں کہ جن کے رعب سے کفر کانپ جایا کرتا تھا -اس لئے کہ خلافت مسلمانوں کی یکجہتی کی علامت تھی اور خلیفہ پوری مسلم دنیا کا حکمران ہوتا تھا‘ جو ہمہ وقت جہاد کیلئے برسرپیکار رہتا تھا ....مگر پھر ہوا یہ کہ سبائی اور مجوسی سازش کے تحت قبروں پر خلافت قائم ہونے لگی اور قبروں کے سجادہ نشین ‘ بادشاہ ‘ سید زادے اور شہزادگان ولائت کہلانے لگے -باپ کے مرنے کے بعد بیٹا قبر کا خلیفہ بننے لگا -خلافت کی اجازت سند حاصل کرنے لگا -یہ سند بالآخر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچا کر کہا جاتا تھا کہ انہوں نے یہ سند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی ہے-ولی حضرات تصوف کی ولائتیں بھی بانٹنے لگے کہ قطب ابدال اور غوث نے فلاں ولی کو اپنا خلیفہ بنا کر فلاں علاقے کی ولایت دے دی کہ تم جاکر وہاں خانقاہ قائم کرو- اب اس خانقاہ میں یہ شخص مرجاتا تو اس کا دربار بن جاتا اور پھر اس کی اولاد” سید“ کہلا کر قبر کی وارث بن کر شاہان ولائت بن جاتی اور سادہ لوح عوام کے ایمان و دولت کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں ....
جہادی خلفاء تو انصاف کےلئے اپنا دربار لگایا کرتے تھے مگر اب یہ قبریں دربار اور مزار بن کر پھیلتے گئے -حتیٰ کہ یہ جو چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوئے یہ اس قدر پھیلے کہ دو تین سو سال میں سارا عالم اسلام ان سے بھر گیا -الہٰ واحد کو جاننے والی امت قبروں کی پجاری بن گئی -خلافت کے پرچم تلے جہاد کرنے والی امت بے شمار ان گنت اور لاتعداد قبوری خلافتوں کی نذر ہو گئی - اس امت کا حال کس قدر بگڑ چکا تھا ‘ اس کا اندازہ ہمیں ابن بطوطہ کے سفر نامے سے ہوتا ہے جو ساری اسلامی دنیا گھومتا ہے' لکھتا ہے کہ میں فلاں دربار پہ گیا تو خرقہ خلافت پہنا- فلاں خانقاہ پہ گیا تو اس کے سجادہ نشین نے مجھے دستار فضیلت پہنائی اور فلاں مزار پہ گیا تو اس کے گدی نشیں نے مجھے خلعت خلافت سے نوازا-غرض کہ یہ خانقاہی نظام صدیوں پرانا ہے لیکن اللہ تعالی ہر دور میں ان شرک و بدعت کے اڈوں کے خاتمہ کیلئے مرد مجاہد پیدا کرتا رہتا ہے.. وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنی اسطاعت کے مطابق شرک و بدعت کے خلاف بر سرپیکار ہیں...چاہئے وہ قلم کی صورت ہو یا طاقت کی صورت میں........
 -امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کازمانہ727--661 ہجری کا ہے ....یہ زمانہ شرک اور قبر پرستی کے عروج کا زمانہ تھا -چنانچہ یہی وہ دور ہے کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا اور چنگیز اور ہلاکو خان کی صورت میں سارا عالم اسلام برباد کردیا گیا -صرف دمشق اور مصر کا علاقہ ہی بچ سکا کہ جہاں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جہاد کیا تھا - قارئین کرام ! آج پھر اسلامی دنیا کا یہی حال ہے -آج پهر مسلمانوں کے ملک قبر پرستی کے گڑھ بن چکے ہیں- انڈیا‘پاکستان'ایران اور بنگلا دیش وغیرہ تو اس شعبے میں سب سے ممتاز اور نمایاں ہیں -یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا ذلت ورسوائی کا شکار ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ عزت وعظمت سے ہم کنار ہوں تو اس کاا یک ہی طریق ہے کہ عقیدہ درست کیا جائے ....جہاد کے راستے پہ چلا جائے ....قبوری خلافت اور اس کے مراکز کو ختم کرکے ”خلافت علی منہاج النبوة“ کو قائم کیا جائے ....خلافت کا پر شکوہ لفظ جو آج قبروں اور مردوں سے متعلق اور معلق ہو کر مردہ ہو چکا ہے.... اسے توحید وجہاد سے وابستہ کرکے پھر سے زندہ اور شوکت وشکوہ کا آئینہ دار بنا دیا جائے -جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...