Monday 7 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،6


اسلام اور خانقاہی نظام


مکلی کا سب سے بڑا ولی عبداللہ شاہ اصحابی: ہمارا وفد پانچ ساتھیوں پہ مشتمل تھا -جمیل راہی ‘ منظور احمد ‘ محمد اسلم ‘ بھائی محمداور راقم جبکہ حیدر آباد سے کچھ ساتھی بھائی ہارون وغیرہ بھی ہمارے ساتھی بنے- ان میں برادرم ابو آفتاب -عبداللہ اصحابی کے دربار پہ بہت آیا کرتے تھے -اب اللہ نے ان کے سینے کو کتاب وسنت کے نور سے منور کردیا ہے- آفتاب کو ہدایت کیسے ملی ؟ یہ سوال جب میں نے اپنے اس بھائی سے کیا تو کہنے لگے” میری ہدایت کا باعث یہی دربار بنا -“میں نے تعجب سے پوچھا” وہ کیسے ؟ “ تو کہنے لگے- ”یہاں جو حرکات دیکھتا تھا ‘ فحاشی کے مناظر ملاحظہ کرتا تھا اور اوٹ پٹانگ قصے کہانیاں سنتا تھا توآخر ایک روز انہی خرافات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا وہ دین جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور جس نے پوری دنیا میں انقلاب بپا کردیا تھا -وہ یہی ہے ؟....اور اگر وہ دین یہی ہے تو پھر اسے ماننے سے میں رہا- چنانچہ اس کے بعد میں نے تحقیق شروع کی ‘ قرآن و حدیث کا مطالعہ شروع کیا.توحید کے موضوع پر چند ایک کتابوں کا مطالعہ کیا اور پھر اللہ نے میری ہدایت کے دروازے کھول دئیے اور اب الحمدللہ کتاب وسنت کا متبع ہوں -“ ابو آفتاب کہنے لگا-” جب میں اس دربار پہ آیا کرتا تھا تب میں حیدر آباد کے شاہی محلے میں بھی گھوما کرتا تھا -اب جب اللہ نے مجھے ہدایت دی تو میں نے دعوت کا کام بھی شروع کردیا اورسب سے پہلے کام کی ابتداء اسی شاہی محلے سے کی الحمدللہ میری دعوت توحید سے میرے کئی جاننے والوں نے شرک و بدعت یعنی دین خانقاہی سے توبہ کی.-یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا خاص احسان ہے کہ جو بندہ کل تک شرک کی دلدل میں پهنسا ہوا تها آج وہ دعوت توحید کا داعی ہونے کی حیثیت سے دعوت توحید عام کر رہا ہے. میں اپنی اس دعوت سے کئی دوستوں کو اس گندے ماحول دین خانقاہی سے نکال کر کتاب وسنت کے صاف ستھرے عقیدے کی طرف گامزن کر چکا ہوں-اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی ان سے ملاقات کروا سکتا ہوں جو کہ اب موحد بن چکے ہیں-قارئین کرام ! اب مکلی کے سوا لاکھ ولیوں کی داستانیں ملاحظہ فرمائیں -سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی یہ داستانیں جو لوگوں میں مشہور ہیں ‘ ہمیں ان میں سے بعض تو بھائی ابو آفتاب کی زبانی معلوم ہوئی ہیں ‘ کچھ یہاں آنے والوں کے ہاں سے ....اور اکثر اس دربار کے خطیب مولوی طفیل احمد سے کہ جنہوں نے بعض باتیں تو زبانی بتلائیں اور مزید تفصیلات کے لئے انہوں نے مکلی کے ولیوں کے حالات پہ مشتمل اپنی کتاب دی‘ کہ جس کے پانچ حصے ہیں اور اس کا نام ”تحفت الزائرین“ ہے- تو لیجئے ! شرک کے بے سروپا پٹے اور جھوٹ کے یہ پلندے ملاحظہ کیجئے ! شاید کہ ابو آفتاب کی طرح یہ کسی اللہ کے بندے کی ہدایت کا باعث بن جائیں! رسول اللہ کے نو سو سال بعد پیدا ہونے والا جب صحابی بن گیا : جناب طفیل صاحب لکھتے ہیں : آپ( پیر عبد اللہ شاہ ) 927 ہجری میں بغداد شریف سے گجرات کے راستے سے سرزمین سندھ میں تشریف لائے- آپ چودھویں پشت میں غوث صمدانی شیخ عبدالقادرجیلانی سے جاملتے ہیں-شہنشاہ مکلی سید عبداللہ شاہ اصحابی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص قرب حاصل تھا - جس مسئلہ کی تحقیق مطلوب ہوتی یا جس حدیث شریف کی تصحیح کی ضرورت محسوس ہوتی تو براہ راست حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ عرض کرکے تحقیق اور تصحیح کرلیتے -
 پیر کے استقبال کے لئے رسول اللہ سندھ پہنچ گئے!! جب بابا صحابی کی زندگی کی آخری گھڑیاں تھیں اور کئی دن آپ بستر علالت پر صاحب فراش رہے تو آپ نے حجرہ شریف کو دھلوانے اور خوب اچھی طرح فرش کو صاف کرنے اور پورے حجرے کو خوب اچھی طرح معطر کرنے کا حکم دیا -حجرہ شریف سجانے کے بعد آپ اور آپ کے دونوں صاحبزادوں کے علاوہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دی گئی-صرف آپ مع دونوں صاحبزادوں کے خلوت پذیر ہوئے -اچانک فخر موجودات علیہ السلام اپنے کبار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور نواسگان مختار رضی اللہ تعالی عنہ اور حضور غوث الاعظم سمیت حجرہ شریف کے اندر جلوہ افروز ہوئے -بابا صحابی اپنے صاحبزادوں سمیت کھڑے ہوئے اور قدم بوسی کاشرف حاصل کیا اور عرض کیا کہ: ” زہے نصیب اس غلام کے غمکدہ کو اپنے مبارک اور نورانی قدموں سے منور فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدوم میمنت لزوم نے میرے نصیب کو بالا کردیا “........تو سرکار دوجہاں نے فرمایا ”بیٹا میں تیرے استقبال کے لئے آیا ہوں “ اس واقعہ کی اتنی شہرت ہوئی کہ بجائے عبداللہ شاہ جیلانی کے لوگوں کی زبان پر سید عبداللہ شاہ اصحابی مشہور ہوگئے -“ قارئین کرام ! مولوی محمد طفیل صاحب کی تحریر کہ جسے انہوں نے سندھ کے مرخ میر شیر علی فاتح ٹھٹھوی کی کتاب سے نقل کیا ہے‘ اس پہ غور فرمائیں -تو پہلی بات یہ معلوم ہوگی کہ یہ صوفیا صحاح ستہ اور حدیث کی صحیح ترین کتابیں بخای اور مسلم .....سے بے نیاز ہیں-اسماءالرجال کی انہیں ضرورت نہیں‘ کیونکہ ان کو سب کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آ کر بتلا جاتے ہیں اور وہ بھی خواب میں نہیں بلکہ حالت بیداری میں -اب کھلی چھٹی مل گئی کہ ولایت کا دعویٰ کرکے جو کوئی چاہے اپنا دین بنائے اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردے - اور پھر ظلم یہ کہ وہ صحابی بن جائے ‘ مزید گستاخی یہ کہ جب وہ تصوف کی زبان میں پردہ کرنے لگے یعنی مرنے لگے تو اس کے استقبال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے آئیں -پھر یہ گستاخیاں کتابوں میں چھپ جائیں -زبان زدعام ہو جائیں اور جب ہم جیسا کوئی ان گستاخیوں پہ متنبہ کرے- کتاب و سنت کی طرف لوٹنے کی دعوت دے تو وہ وہابی قرار پاجائے -گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگوں کو نہ ماننے کے لقب سے نوازا جائے - اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ تو دین و دنیا کے مسائل کے لئے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کریں- باہم مشورے کریں ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس نہ آئیں ‘ مگر نو سو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بابا عبداللہ کو آ کر سب مسائل بتلا جائیں اور وہ بھی حالت بیداری میں!!!
 تصوف جو کہ کرشموں اور طلسمات کی دنیا ہے..جاری ہے۔۔۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...