Wednesday 23 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،42

اسلام اور خانقاہی نظام

ملتان کا قدیم نام اگرچہ تواریخ میں ” میسان “ ملتا ہے تا ہم اس کے دیگر نام بھی ملتے ہیں....مثلاً کشب پورہ:ہندوں کے دیوتا کی رو سے ملتان کو برہماجی کے بیٹے اور سورج دیوتاوں کے باپ کشب رشی نے آباد کیا - اور سورج پرستی کی بنیاد رکھی‘اس لئے اس کی نسبت سے اس کا نام کشب پورہ رکھا گیا-پرہلاد پورہ:کشب کا چھوٹا بیٹا پرہلاد اللہ کے وجود کا قائل تھا جبکہ اس کا باپ کشب خود کو الٰہ اور غیر فانی سمجھتا تھا- مگر کشب کے بیٹے پر ہلاد نے اپنے باپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا-اس نے توحید کی جوت جلانی شروع کر دی اور لوگوں کو الہ واحد کا قائل بنانے لگا-لڑکے کا یہ فعل باپ کو ناگوار گزرا-اس نے پرہلاد کو سزا دینے کے لئے قلعہ کہنہ کی سطح مرتفع پر ایک مندر( جسے پرہلا د بھگت نے خود بنوایا تھا )میں سونے کا مخروطی ستون بنوایا اور اس کو اندر سے خوب گرم کرکے پرہلاد کوتوحید پرستی کی سزا دینے کے لئے اس کے اندر بندھوا دیا-ہندو عقیدہ کے مطابق ستون درمیان سے پھٹا اور نرسنگھ اوتار ظاہر ہوئے‘جنہوں نے پرہلاد کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لئے اس گولڈن ستون کو مٹی کے ستون میں بدل کر ٹھنڈا کردیا- اور کشب کو قتل کرکے تخت پر پر ہلاد بھگت کو بٹھایا-وہ مندر آج بھی قلعہ کہنہ پر موجو د ہے- مندر کے اندر درمیان میں مٹی کا ستون بنا ہوا ہے-اور اوپر سے پھٹے ہوئے ستون کا نشان بنا کے سرخ رنگ کیا گیا ہے-اس ستون کی پوجا ہوتی تھی اور ملتان کا نام پرہلاد پورہ رکھ دیا گیا-اس مندر کو اب بابری مسجد کی شہادت کے رد عمل کے طور پر گرا دیا گیا ہے-سنب پورا:پرہلاد کے بعد اس کے پڑپوتے سنبہ نے ملتان میں پھر سورج دیوتا کا بت بنا کر اس کی پرستش شروع کرا دی-تب اس کے نام پر ملتان سنب پورہ کہلایا-سنبہ جذام کا مریض تھا-ان کے عقیدے کے مطابق سورج دیوتا نے سنبہ کو شفا دی تو اس نے شکرانے کے طور پر سونے کا ایک بت بنوایا اور مندر میں رکھوا دیا-اس کو ” مترا ‘ ‘ کہا جاتا تھا اور مندر کو ” اوی ستھان “ یعنی سورج دیوتا کے مندر کی اصل جگہ-مول استھان:سنسکرت زبان میں ” مولا “ کے معنی اصل اور استھان کے معنی جگہ کے ہیں-یعنی مندر کو تو” اوی استھان“ کہا جاتا تھا لیکن ملتان کو ” مول استھان “ کہا جانے لگا-بعد میں مول استھان کو زبان کے فرق کی وجہ سے ہلکا کرکے” مولتان “ بنا لیا گیا - آخر کار ” و “ کو حذف کر کے ملتان “ بنا دیا گیا- ”بت ملتان “: چینی سیاح ہیون سانگ ( بد ھ مت کا پجار ی) بدھ مت کے تقریباً تمام سٹوپوں اور خانقاہوں کی زیارت کرتا ہوا اکتوبر ۱۴۶ء میں ملتان پہنچا اور اس نے ملتان کا نام ” موستھان پورہ “ لکھا-وہ لکھتا ہے کہ یہاں پر ہندوں کے آٹھ مندر ہیں-ایک مندر جو کہ سورج دیوتا( مترا) کا ہے ‘ بہت عالیشان ہے - بت پیلے سونے کا بنا ہوا ہے اور اسے نادر جواہرات سے سجایا گیا ہے - عورتیں اس مندر میں سورج دیوتا کی تعریف میں مشعلیں روشن کرکے گاتی بجاتی ہیں اور پھول و عطر دیوتا کی نذر کرتی ہیں-یہ رسم بہت قدیم ہے- بادشاہ اور امراء کے خاندان والے قیمتی جواہرات اور پتھروں پر مشتمل تحائف دیوتا کو پیش کرنے سے کبھی نہیں چوکتے- قریب ہی ایک جگہ پر کھانے پینے ( لنگر ) کا انتظام ہے جہاں غرباء کے لئے کھانا اور پانی تقسیم ہوتا ہے اور بیماروں کے لئے دوائیں دی جاتی ہیں-بہت سے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دعا مانگنے کے لئے آتے ہیں-ملتان کو قدیم زمانوں سے ہی مذہبی اہمیت حاصل رہی ہے - ایک وقت تو ایسا آیا کہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہندو کئی کئی ماہ کا سفر کر کے آتے تھے -نذرانوں اور چڑہاووں کے انبار لگے ہوئے تھے-ہندو پجاری اور برہمن اس بے پناہ دولت پر سانپ بنے بیٹھے رہتے تھے-یہ پروہت اور پنڈت ملتان میں ” مترا“ کے اہم مندر اور بت کی آڑ میں پورے ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے غریب ہندوں کا بری طرح استحصال کر رہے تھے-یہ استحصال نقدی ‘ دوسری اشیاء اور عورتوں ( دیو داسیوں ) کے جسموں کی پامالی کی شکل میں ہو رہا تھا-پنڈت عقیدت مندوں کی پائی پائی نچوڑ لینے کی فکر میں رہتے تھے-ان گنت معصوم پجارنیں ان کی خواہشات نفسانی پر دن رات قربان ہوتی رہتی تھیں-صدیوں سے جو اس مندر میں بے انداز دولت اکٹھی ہو رہی تھی‘اس کا قطعا ً کو ئی مصرف نہیں تھا-پجاری اس مال و دولت پر قابض تهے-اس طرح بے پناہ مالی وسائل ملک میں گردش کرنے کی بجائے ملتان کے اس عظیم الشان مندر کی پراسرار تاریکیوں میں منجمد پڑے تھے- بالآخر مسلمانوں نے اس مندر کی استحصالی مرکزیت اور پنڈتوں کی شرمناک کار گزاریوں کا خاتمہ کیا اور صدیوں سے بے کار طریقے پر جمع شدہ بے پایاں سرمائے اور دولت کو مصرف میں لا کر اسے پھیلا دیا-قدیم سنسکرت اور برہمنی لڑیچر میں سے بھوشیہ پران میں بھی سورج دیوتا ( مترا) کے بت کاخاص طور پر ذکر آیا ہے-عرب جغرافیہ دان ” البلاذری“ نے (۴۸- ۳۸۸ء) میں اپنی کتاب فتوح البلدان میں ملتان کے مندر کا ذکرکیا ہے اور لکھا کہ مسلمانوں کو وہاں سے بے شمار جواہرات اور سونا ملا-ایک عرب مورخ ابو زید نے ( ۶۱۹ء) لکھا ہے کہ ملتان کے مندر میں جلانے کے لئے ملک آسام سے خوشبو صندل کی لکڑی لائی جاتی تھی-عرب جغرافیہ دان اصطخری ( ۱۵۹ء) مورخ ابن حوقل (۶۷۹ئ) مراکش کے جغرافیہ دان الا دریسی ( ۳۰۱۱ء) زکریا قذوینی (۲۶۲۱ئ) المسعودی (۵۱۹ئ) لکھتا ہے کہ ” جب کبھی ہندو راجے ملتان پر حملہ آور ہوتے اور مسلمان ان کے مقابلے میں عاجز آ جاتے تو دھمکی دیتے کہ ہم اس بت کو توڑ دیں گے-اس پر ہندو فوجیں واپس چلی جاتیں-یہ تھا ہندوں کا عقیدہ کہ اپنے بتوں کو مسلمانوں کے آگے بے بس بھی پاتے لیکن پھر بھی ان کی پوجا کرتے-سچ ہے کہ مشرک کی عقل ماری ہوتی ہے---جاری ہے......
تالیف :عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...