Sunday 20 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،38

اسلام اور خانقاہی نظام

ملتان کے قلعے پر قاسم باغ اور درباری مزار:ملتان کے ولیوں کے بارے میں ملتان ہی کے رہنے والے بھائی عبد المالک آگاہ کرتے ہیں ملتان کو مدینة الاولیاء یعنی ولیوں کا شہر کہا جاتا ہے مشہور ہے کہ ملتان قریباً اڑھائی لاکھ پیروں کا مسکن ہے-” پیری پور“ اڑھائی لاکھ میں سے دو لاکھ کو زندہ مانا جاتا ہے اور سوا لاکھ پیر مردہ مانے جاتے ہیں-مگر وائے افسوس ان سوا لاکھ کو مردہ بھی نہیں کہنے دیا جاتا کیونکہ ان مردوں کی پاور زندوں سے بھی زیادہ بیان کی جاتی ہے-اس ملتان کے بارے میں بہاولدین زکریا ملتانی نے کہا کہ ملتان ما بجنت اعلیٰ برابر است آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند یعنی ہمارا ملتان جنت اعلیٰ کے برابر ہے- پاوں آہستہ رکھو کیونکہ فرشتے یہاں سر بسجود ہیں-کیونکہ یہاں بڑے بڑے ولی دفن ہیں-چنانچہ آئیے اور ہم سے خاص خاص ولیوں کا تذکرہ سنئے-جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی فوجیں دیبل (کراچی ) سے ملتان تک آئی تھیں-یہ حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں چھٹی صدی ہجری تک قائم رہیں-پھر تصوف اور قبر پرستی کا دور آیا تو دیبل کے ساحل پر پہاڑ کی چوٹی پر-دربار بن گیا- حیدرآباد کا کچا قلعہ درباروں سے اٹ گیا اور ملتان کاقلعہ بھی کہ جسے مجاہدین نے ہندوں ‘ سے جہاد کر کے اس پر اسلام کا پرچم  لہرایا تھا ‘ آج وہ بھی قبر پرستی کے پرچموں کی زد میں ہے-البتہ اس قلعے کے ایک باغ کا نام محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے نام پر” قاسم باغ“رکھ دیاگیا ہے-اس قاسم باغ میں ایک بزرگ ہیں-مخدوم بہاوالدین المعروف بہاول حق:سلسلہ جنیدیہ سہروردیہ کے بانی ہیں- ان کے مرشد وجیھہ الدین اور ابو نجیب ضیاءالدین ہمدان اور زنجان کے درمیان واقع ایک قصبہ” سہرورد “کے رہنے والے تھے- اسی نسبت سے ان کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کہلایا-انہیں سماع( قوالی)سے بے حد رغبت تھی-حسن قوال ‘ عبد اللہ رومی قوال اور شیخ فخر الدین ابراہیم عراقی نے آپ کے دربار میں کلام سنایا ہے-سیر العارفین ‘ تاریخ فرشتہ ‘ اور فوائد الفواد میں سماع کی ان محفلوں کا ذکر ملتا ہے-جو ان کی خانقاہ اور حجر ے میں برپا ہوئیں اور جن میں آپ وجد و حال اور رقص و وصال کی منزلوں سے گزر ے-عبد اللہ رومی قوال نے شیخ شھاب الدین سہروردی کے دربار میں اپنا کلام سنایا تو بعد میں وہ ملتان آیا اور شیخ زکریا ملتانی نے اس کو ساتھیوں سمیت حجرے میں بلایا اور عشاء کی نماز کے بعد دو پارے تلاوت کئیے- آخر میں عبد اللہ قوال سے سماع کی فرمائش کی-ہر سال صفر کے ماہ میں شیخ زکریا ملتانی کا عرس ( شادی ) ہوتا ہے-قبر کو سال بعد غسل دیا جاتا ہے-چادر ڈالی جاتی ہے-( ہندو ادوار میں قلعہ کہنہ بت ملتان کی وجہ سے پوجا پاٹ کا مرکز تھا تو خیر سے آج بھی یہی قلعہ پوجا پاٹ کا مرکز ہے-آ ج بھی قوالی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں-پہلے بھی پھول اور عطر نذر کئے جاتے تھے‘ آج بھی پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں-اس سماع ( قوالی ) کی شریعت میں کیا حیثیت ہے ؟ ڈھول تالیوں اور سازوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا کس قدر ثواب کا کام ہے؟ محتاج بیان نہیں لوگوں کا پہلے وقتوں میں دور دراز سے کئی کئی ماہ کا سفر کر کے نذرانے لے کر دعا کے لئے آنا اور سندھ کے ہندوں کا سورج دیوتا درشن کے بعد سر اور داڑھی کے بال منڈوانا اور آج بھی دور دراز سے عرس کے موقع پر سندھیوں کا ننگے پاوں آ کر زیارت کے بعد سر منڈوانا کتنی گہر ی مماثلت رکھتا ہے-آج بھی ملتان کے نواحی دریا چناب میں جب کشتی بھنور میں پھنس جائے تو ملاح نعرہ لگاتے ہیں کہ” بہاو الحق بیڑا دھک “ قرآن گواہ ہے کہ مشرکین مکہ کی جب کشتی بھنور میں پھنستی تو وہ بھی اللہ کو خالص کرکے پکارتے ‘ مگر نجات پانے کے بعد پھر شرک کرتے-لیکن آج کا مسلمان نما ملاح تو مشکل گھڑی میں بھی دوسروں کو پکارتا ہے-انجام کار ملتان سے کراچی تک چلنے والی ایک گاڑی کا نام بھی بہاوالدین زکریا ایکسپریس رکھا گیا-وہ گاڑی چند سال پہلے سندھ کے سانگھی ریلوے اسٹیشن پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئی کہ بہت سے جاں بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوئے-ایک یونیورسٹی کا نام بھی ملتان میں زکریا یونیورسٹی رکھا گیا ‘ رزلٹ برائے نام دے رہی ہے - یہ یونیورسٹی علماء دین تو پیدا کرنے سے قاصر ہے-لیکن دنیا دار آفیسر بھی کما حقہ پیدا نہیں کرسکی-مشہور ہے کہ ملتان ایک نہ ایک دن پانی میں ڈوبے گا .... کیونکہ دریا کے پانی نے بہاوالدین کے مزار کی چوٹی کو سلام کرنے آنا ہے-جس سے لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مزار کے گنبد کی چوٹی جو شہر کی سطح زمین سے کافی بلندی پر ہے-جب پانی اس کو سلام کرنے اوپر چڑھے گا تو سارا شہر غرقاب ہوگا-مگر قبوریوں کو اس سے کیا غرض کہ چاہے سارا شہر ڈوب جائے لیکن چوٹی کا سلام ہونا چاہئے-جب 1992ء میں ملتان میں سے سیلاب کا ریلا گزرا تو فوج کے ایک ہزار جوان دن رات دریا کے بند بوسن کی حفاظت پر لگے رہے-افسوس کہ پانی کو بہاو الحق کی چوٹی تک سلام کرنے کے لئے نہ پہنچنے دیا گیا-دوسرے دن مقامی اخبار نوائے وقت میں سرخی تھی کہ”ملتان شہر کو بند بوسن نے بچا لیا “اس کا مطلب ہے کہ اڑھائی لاکھ اولیاء مدد کو نہ آئے - مدینة الاولیاء میں جو ولی ہیں ‘ کچھ کام نہ آ سکے-اب چاہئے تو یہ تھا کہ چڑھاوے اور چادریں بند بوسن پر چڑھائی جاتیں ‘ چراغ وہاں جلائے جاتے اور ملتان کو شاہ شمس اور بہاوالحق کی نگری کہنے کی بجائے بند کی نگری کہا جاتا-مگر برا ہو پیر پرستی کا کہ وہ اپنی دکان بند کرنے کو ہرگز تیار نہیں اس قلعے پر ہم مخدوم بہاوالدین المعروف بہاول حق کے دربار پہ پہنچے- ان کے بیٹے صدر الدین کی قبر بھی ان کے ساتھ ہے - گنبد کے اردگرد برآمدے میں بھی بہت سی قبریں موجود ہیں اور ہر دربار پر ایسا ہی ہوتا ہے -وجہ یہ ہے کہ دربار کے جو گدی نشین مرتے ہیں اور انکی جو اولاد فوت ہوتی ہے تو ان سب کی قبریں بھی یہیں ہوتی ہیں اور آنے والا زائر بڑی قبر کے علاوہ ان سب الحاقی چھوٹی قبروں کو بھی چومتا چاٹتا اور سجدے کرتا نظر آتا ہے-اور اگر ان درباروں پر کوئی دفن ہوناچاہے تو اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے- حضرت بہاوالحق کے بارے میں بہت سی کرامتیں معروف ہیں-مگر ایک کرامت جوسب سے زیادہ معروف ہے اور اس دربار کے ایک خادم نے جو کہ محکمہ اوقاف کا ملازم ہے‘ اس نے ہمیں بتلائی - وہ ملاحظہ ہو-جاری ہے.....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
آپ تمام اقساط نیچے دیئے گئے لنک پر پڑ سکتے ہیں
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/
اور واٹس اپ پر تمام اقساط حاصل کرنے کیلئے فضیلتہ الشیخ قاری حنیف ربانی حفظہ اللہ صاحب سے رابطہ کریں
0092 314 231 3273

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...