Sunday 20 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام,37

* دین خانقاہی اور دین اسلام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر37)
یہ قبے‘مزار اور جاگیریں کس وفاداری کا صلہ ہیں ؟قارئین کرام ! آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے کالم اخبار و آراء میں طاہرالقادری صاحب کے پیر اور غوث علالدین پر اس وقت قلم اٹھایا تھا جب قادری صاحب کے غوث پر لینٹر (چهت)گر گیا تھا-میں نے لکھا تھا کہ جو اپنے اوپر گرتے ہوئے لینٹر کو تھام نہ سکے-وہ بھلا لوگوں پر گرنے والی مصیبتوں کو کیونکر روک سکے گا-؟اس پر جناب ڈاکٹر صاحب کے ماہنامہ”منہاج القرآن “(اپریل ۳۹ء) نے اور گوجرانوالہ سے بریلوی مکتبہ فکرکے رسالے” رضائے مصطفٰی“نے خوب اپنا غصہ نکالا-راقم کو گالیوں سے نوازا اور جناب  علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کو بھی موضوع بحث بنایا گالیوں کا تو خیر ہم برا نہیں مناتے-اس وجہ سے کہ توحید کی خاطر ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گالیوں سے نوازا جاتا تھا:حقیقت تو یہ ہے کہ مردہ اجسام کی خاکی ڈھیریوں پر اپنی مسندیں سجا کر ‘سجادہ نشین کہلوا کر‘ککڑ/حلوے/نزرو نیاز کے مزے اڑانے والے اور سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے والے دین خانقاہی کے پیروکار اس منظر کا ادراک نہیں کر سکتے تھے جو دعوت توحید اور معرکہ آرائی کا منظر ہے-یہ اس مزے اور لطف کو کیا جانیں گے ؟جو شہادت کا مزہ اور لطف وسرور ہے-تبھی تو قادری صاحب کے اس رسالے میں ہمیں ایک یہ طعنہ دیا گیا-: کہ علامہ احسان الہی صاحب اور دیگر اکابرین جن کی سنت کو موصوف مدیر صاحب اپنائے ہوئے ہیں-ان کا جو حشر ہوا‘ اس سے ملت اسلامیہ پاکستان کا کونسا شخص واقف نہیں ہے-بس یہی کہیں گے کہ کوئی بھی ذی شعور اور فہم رسا رکھنے والا شخص اس کو عزت کی موت قرار نہیں دے سکتا-اس لئے اپنے اکابرین کے اس حشر کو سامنے رکھتے ہوئے فرمائیے کہ کیا فتو یٰ صادر کریں گے-( منہاج القرآن اپریل 93)
جواب پیش نظر ہے:جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب !علامہ ظہیر رحمہ اللہ صاحب دعوت دین کا کام کرتے ہوئے شہادت کی موت پاگئے اور”مدینة المنورہ“میں حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں جا کر مدفون ہوئے اوراس مدفن کو دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع بھی عطا فرمایا-اسی طرح مولانا حبیب الرحمان یزدانی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرتے ہوئے بم دھماکے کی نذر ہو کر شہید ہوگئے( ان شاءاللہ )جناب قادری صاحب ! یہ وہ موت ہے کہ آپ کا شعور اور فہم اس موت کو عزت کی موت قرار نہیں دیتا-اور سنئے! اگر یہ عزت کی موت نہیں اور جناب والا! اس پر مجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں‘تو پھر اب میرا فتویٰ سن لیجئے‘اور یہ فتویٰ سننے کے بعد اپنے شعور اور فہم کی خیر منائیے‘اس لئیے کہ یہ فتویٰ میرا اپنا یا میرے کسی مولوی صاحب کا نہیں بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے امام جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافتویٰ ہے-صحیح بخاری اور مسلم اٹھا کر دیکھیئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خواہش کرتے ہیں:”مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے-میرا دل چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جاوں-پھر زندہ کیا جاوں پھر شہید کیا جاوں-“جناب قادری صاحب!حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں شہید ہو رہے ہیں-یہی وہ مسجد ہے جس میں ہمارے علامہ صاحب کا جنازہ پڑھا جارہا ہے-حضر ت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس شہر میں شہید ہو رہے ہیں-اور حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ مشرکین مکہ کے ہاتھوں سولی پر لٹک رہے ہیں‘تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مثلہ کیا جا رہا ہے‘ناک کان کاٹے جا رہے ہیں ‘ کلیجہ چبایا جا رہا ہے... تو اب بتلائیے-!آپ کے ہاں عزت کی موت کونسی ہوتی ہے ؟....بہرحال ہم تو یورپ کے ہسپتالوں میں بیماری سے مرنے کو بھی ذلت کی موت قرار نہیں دیتے کہ یہ بیماریاں/حادثات سب اللہ کے اختیار میں ہیں-ہم بات صرف یہ کرتے ہیں کہ”اس فانی دنیا کو چهوڑ کر موت کی آغوش میں جانے والا غوث/مشکل کشا/دستگیر/گنج بخش/کرنی والا/داتا/غریب نواز قطعی نہیں ہو سکتا-جس پہ موت طاری ہو جائے وہ دوسروں کو زندگیاں نہیں دے سکتا“اور جو پھر بھی بندوں کو ایسے القابات دینے سے باز نہ آئے‘اسے بقول تمہارے ذی شعور اور فہم رسا رکھنے والا شخص قرار نہیں دیا جا سکتا-
چہ جائیکہ اسے نابغہ(شیخ الاسلام) عصر اور علامہ کے القابات سے نواز دیا جائے- حقیقت تو یہ ہے کہ مردوں کی قبروں پہ جمع ہونے والی نیاز کھانے والے قبروں کے پجاری کیا جانیں کہ داعی توحید/جہادی شاہینوں/کی شان کیا ہے...؟یہ وہ جہادی شاہین ہیں کہ ان کا رزق جس کے متعلق انکے امام اعظم اور امام المجاہدین سالار بدر و خندق نام نامی اسم گرامی  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جُعِلَ رِزقِی تَحتَ ظِلِّ رُمحِی میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے ہے( بخاری: معلقاً َ کتاب الجہاد باب ماقیل فی الرماح مسند احمد (92`50 / 2)یاد رکھیئے !یہ مجاہدین تو ایسا پاکیزہ اور دلاورانہ رزق کھانے والے ہیں-چنانچہ اب جو جیسا رزق کھائے گا ویسی اس میں صفات ہوں گی-تو اہلحدیث وہ جماعت ہے جو داعی توحید اور مجاہدین کی جماعت ہے-ان کے داعی توحید شاہ اسماعیل شہید اور انکے ساتھی انگریزوں اور سکھوں سے برسر پیکار رہے جبکہ خانقاہی لوگ انگریز کے قصیدے پڑھتے رہے-یہ اسی رزق کے اثرات ہیں کہ اہلحدیث آج بھی جہاد اور دعوت توحید کے لئے برسر پیکار شہادتیں پیش کر رہے ہیں اور ہمارے خانقاہی لوگ شہادت کی موت کو عزت کی موت ماننے پر تیار ہی نہیں-اس عظیم شہادت کی موت' محدثین اور علماء کرام کی ایک طویل لسٹ ہے جس کو اگر یہاں قلم بند کرنا شروع کریں تو اوراق کم پڑھ جایئں بہر حال-:
 -ہم تو یہی عرض کریں گے کہ اگر آپ شہادت میں مخلص ہیں تو شہیدوں کی جماعت میں آ جائیے وگرنہ آرام سے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر عمل کیجئے اور شہیدوں کو کوستے رہئیے-اب آپ کے جو بڑے ہیں‘ان کے اسوہ کی ایک جھلک ہم آپ کو دکھائے دیتے ہیں-مگر قبل اس کے کہ ہم آپ کو ان کی انگریز کے ہاں قصیدہ خوانی‘ حصول مفادات اور شہیدوں کو کوسنے کی دستاویز پیش کریں.... ذرا پہلے ان کی گدیوں کاجائزہ لے لیں کہ وہ گدیاں کس طرح خدائی کامنظر پیش کرتی ہیں؟ جبکہ انکی حقیقت کیاہے؟ تو آج ہم ان کے سامنے صرف ملتان کی گدیوں کے منظر پیش کرتے ہیں-وہ ملتان کہ جسے”پیری پور“بھی کہا جاتا ہے‘جسے ولیوں کا شہر کہا جاتا ہے-جس طرح سندھ میں ٹھٹھہ کے”مکلی قبرستان“ کو سوا لاکھ ولیوں کا دیس کہا جاتا ہے‘اسی طرح ملتان کو” مدینةالاولیاء“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے-جاری ہے.....تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...