Monday 14 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،23

اسلام اور خانقاہی نظام

اب میں بھٹو کے دربار پر کھڑا ہوں.... اس پہ چاندی کا کتبہ آویزاں ہے ذوالفقار علی بھٹو کے نام کے ساتھ لکھا ہے-”شہید جمہوریت“ ....اور پھر یہ قلندرانہ بول بھی رقم ہیں:دما دم مست قلندر لعل سخی شہباز قلندر”
شہید“ ایک اصطلاح ہے ‘ جس کا تعلق اسلام کے ساتھ ہے-یہی وجہ ہے کہ کسی شہید کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں”شہید اسلام“ ہے-وجہ یہ ہے کہ شہید کا لفظ اور اصطلاح ہی اسلام کی ملکیت ہے-لہذا شہید اسلام کہنے کی مطلقا کوئی ضرورت نہیں کہ اسلام کے لئے جان دینے والے کے لئے اکیلا لفظ ”شہید “ہی کافی ہے.
اب بھٹو صاحب کے لئے”شہید جمہوریت“ کا جو لقب چنا گیا تو یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے کیونکہ جمہوریت تو انگریز کا نظام ہے-یہ عیسائیوں اور یہودیوں کا وضع کردہ حکومت کرنے کا ایک نظریہ اور نظام ہے جس کا اسلام کے ساتھ نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اسلام کے خلاف ایک نظام ہے- لہذا اس طرف نسبت کر کے اسلام کی اصطلاح تھوپ دی جائے تو یہ بھی اسی طرح کی ایک جسارت ہے کہ جس طرح جمہوریت اور سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ تھوپ کر” اسلامی جمہوریت“ اور” اسلامی سوشلزم“ کی اصطلاح وضع کی گئی-بہر حال اسلامی سوشلزم کے علمبردار”شہید جمہوریت “کے دربار پر مجاور غلام نبی صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ دربار کی خدمت گزاری اور صفائی میں مصروف تهے.میں نے غلام نبی سے پوچھا کہ” جب بھٹو صاحب کی برسی یعنی عرس ہوتا ہے تو یہاں کیا کچھ ہوتا ہے ؟“تو وہ کہنے لگا” لنگر چلتا ہے- دیگیں پکتی ہیں‘مزار پر چادریں چڑھتی ہیں قرآن خوانی ہوتی ہے بھنگڑا ہوتا ہے‘سندھی ناچ ہوتا ہے-میں نے کہا-عورتیں بھی ڈانس کرتی ہیں؟“ کہنے لگا-جی ہاں! اب میں نے کہا-” بابا بھٹو سائیں کی کوئی کرامت ہی سنا دیں ؟“ ....
اس پر وہ کہنے لگا-”کرامتیں تو بہت ہیں “میں نے کہا:کوئی ایک ہی سنا دو-“کہنے لگا- ”ایک بوڑھی عورت بیٹا لینے آئی تھی-رات خواب میں اسے شہید بھٹو سائیں ملے اور اس سے کہا: قلندر کے دربار پر چلی جا-اس پر وہ قلندر کے دربار پر چلی گئی-وہاں چار دن رہی-اس کے بعد لعل شہباز قلندر اسے خواب میں ملے اور کہا:اب بابا بھٹو سائیں کے دربار پر چلی جا-اب وہ عورت دوبارہ یہاں آ گئی-اور پھر شہید بھٹو سائیں نے اسے بیٹا دیا-بات یہ ہے کہ اب لعل قلندر سرکار اور بابا بھٹو شہید کے درمیان ایک تعلق قائم ہوگیا ہے-اس پر میں نے کہا”اچھا تو اب سمجھ میں آیا کہ بھٹو صاحب کے دربار پر لعل قلندر کیوں لکھا گیا ہے؟“غلام نبی مزید بتلانے لگا کہ”یہاں لوگ آتے ہیں-انہیں منتیں پیش کرتے ہیں-وہ کہتے ہیں:بابا بھٹو ہمارا فلاں کام کر دو-ہم فلاں نیاز دیں گے-وغیرہ وغیرہ -اور پھر بابا بھٹو ان کے کام کر دیتے ہیں-اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو یہ باتیں سننے لگا-وہ سن کر کہنے لگا-بھٹو بڑهے کرنی والے سائیں پیر ہیں-سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بابا بھٹو کرنی والا ہے تو وہ اپنی کرسی کے بارے میں کیوں نہ کچھ کر سکا-وہ کرسی کہ جس کے بارے میں بابا بھٹو نے ریڈیو اورٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ: میری کرسی بڑی مضبوط ہے. تب حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمة اللہ علیہ نے چینیانوالی مسجد رنگ محل لاہور میں خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ”یہ تکبر کا بول ہے اور میرے مولا کریم کو کبھی پسند نہیں آیا-لہذا اب اس کرسی کو الٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا“اور پھر وہی ہوا-بھٹو صاحب کی کرسی اگلے ہی روز چیف آف آرمی سٹاف نے الٹ دی تھی-پھر یہ کرنی والا بابا اپنی جان بھی پھانسی کے پھندے سے نہ بچا سکا-اور اپنی بیٹی بے نظیر بهٹو جو گولی مار کر ہلاک کر دی گئی اس کو بهی نہ بچا سکا. مگر اب منوں مٹی نیچے دب کر یہ بابا لوگوں کو بیٹے دینے لگ گیا ہے.اپنی بیٹی کے قاتلوں کو تو آج تک بے نکاب کر نہ سکا-اور دوسروں کی مشکلیں حل کرنے کو چلا.اسی طرح کہ جس طرح دوسرے بابے لوگوں کی مشکلیں حل کرتے ہیں-مگر مزید تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ بابا اپنے ہی بیٹوں شاہنواز بھٹو اور میر مرتضےٰ بھٹو کو بھی نہ بچا سکا-اور اپنی ذاتی پارٹی'پاکستان پیپلز پارٹی'کو تباہی و بربادی سے بچانے کی تو دور کی بات.اپنی پارٹی کی صدارت تک اپنے خاندان میں نہ رکھ سکا.تعجب ہے لوگوں کی عقلوں پر پهر بهی کہتے ہیں پیر سایئں بیٹے دینے والا اور مشکلیں حل کرنے والا ہے..جاری ہے....امام ضامن کی حقیقت اگلی قسط میں پڑهیں. ..
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
Facebook:shahzadtararimran@gmail.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...