Friday 11 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام20

اسلام اور خانقاہی نظام

ککڑشاہ دربار کے گدی نشین سے ملاقات:مرغوں کی مظلومانہ اور غیر اسلامی موت اور پھر انکے پکنے کے مناظر دیکھنے کے بعد ہم درگاہ سے باہر نکل آئے-سامنے ایک شاندار کوٹھی تھی-معلوم ہوا یہ کوٹھی بابا ککڑ شاہ کے دربار کے گدی نشین کی ہے-میں نے ساتھیوں سے کہا‘یار ! اس سے ملنا چاہئے-چنانچہ ہم اس کوٹھی پر پہنچے-گدی نشیں علی بخش ہمیں کوٹھی کے لان میں مل گیا-یہ چونتیس پینتیس سالہ سانولے رنگ کا نوجوان تھا-داڑھی منڈا تھا-مونچھوں والا تھا-آنکھیں اس کی سرخ تھیں-ہم اس سے ملے اور میں نے کہا”حضرت سائیں سمن کے بارے میں آپ سے گفتگو کرنا ہے-لاہور سے آیا ہوں -“اس نے اپنے خادم کو حکم دیا اورکوٹھی کے برآمدے میں  بٹھا دو-خادم چائے بنانے لگا مگر ہم نے اسے منع کردیا-گدی نشین کا کافی دیر انتظار کیا‘مگر وہ نہ آیا-معلوم ہوا کہ وہ یہاں یوں آنے والوں کی ملاقاتوں سے بے نیاز ہے-بہر حال کوٹھی پر ڈش انٹینا لگا ہوا تھا-ٹی وی ‘ وی سی آر یہاں موجود تھا-ٹیلیفون کی سہولت بھی میسر تھی-یہ تھا ننگے پیر سمن سرکار کا گدی نشین-جو یہاں دیسی اور اصیل مرغ کھاتا ہے.اور یہ کوٹهی اس نے خود کی کمائی کی نہیں بنائی بلکہ سادہ لوح عوام کو لوٹ لوٹ کر بنائی ہے-اگلے مرحلے پھر کیا ہوتے ہوں گے..؟ ....وہی عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف سفر.... اور یہ سفر جس طرح من چاہے موجیں کرتا رہے-جب کوئی بولے گا....تو کہا جائے گا -”معرفت کی باتیں ہیں....تمہیں کیا معلوم-تمہاری تو آنکھ ہی دیکھنے والی نہیں-       “ شرک اور فحاشی "
 قارئین کرام ! ہندوں کی دیویاں اور دیوتاوں کا تذکرہ جب ہم ملاحظہ کرتے ہیں تو ان کے باہمی تعلقات میں اس قدر بے ہودگی‘بدمعاشی اور بے حیائی ملاحظہ کرتے ہیں کہ بیان نہیں کرسکتے-مثال کے طور پر مہا بھارت کے پہلے باب میں جو لکھا ہے اس کے مطابق”برہما سب دیوتوں کا استاد ہے اور یہ کہ برہما کی بیٹی کا نام سارستی تھا-برہما نے اس سے منہ کالا کرنے کا پروگرام بنایا-سارستی شرم و حیا کی وجہ سے ایک طرف ہو گئی-اس طرف برہما کی صورت میں ایک اور منہ ظاہر ہوگیا اور وہ منہ بری نظر سے سارستی کو دیکھنے لگا-پھر سارستی پیچھے ہو گئی-چنانچہ اس طرف برہما دیوتا کا یک منہ اور ظاہر ہوگیا-وہ سارستی کو اس منہ سے گھورنے لگا-پھر سارستی دوسری طرف ہوگئی تو اس طرف ایک اور( چوتھا ) منہ ظاہر ہوگیا-“الغرض برہما کے چار منہ ہوگئے-اسی طرح ”تحفة الہند“ نامی کتاب میں ہندوں کی کتابوں کے حوالے سے برہما دیوتا کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ”ایک رات برہما دیوتا نے اپنی شرمگاہ کی کوئی انتہا نہ پائی“ جبکہ شو پوران میں لکھا ہے کہ” برہما ہنس کی شکل بن کر دس ہزار سال تک دوڑتا رہا‘مگر وہ انتہا کو نہ پہنچ سکا-چنانچہ اس نے جان لیا کہ یہی( شرمگاہ ہی ) میرا خالق و مالک ہے-“(نعوذ باللہ من ذلک ) ایک پنڈت سے جب برہما کی بیٹی کے ساتھ بدمعاشی کی بات کی گئی اور دوسری لغو اور فضول کہاوت کا پوچھا گیا اور اعتراض کیا گیا تو وہ کہنے لگا-”دیکھنے والوں کو ظاہر طور پر ایسا معلوم ہوا کہ برہما نے نازیبا حرکت کی ہے‘ جب کہ درحقیقت برہما نے ایسا نہیں کیا-حقیقت تو یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں-“ قارئین کرام ! دنیائے معرفت وسلوک-ولایت و حقیقت اور تصوف و طریقت بھی کیسی دنیا ہے کہ جو چاہے بدمعاشی کرے-مریدوں کے گھروں میں جاکر عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھ جائے عورتوں کو گلے لگائے-تنہائی میں گپ شپ لگائے اور جب کوئی دیکھے تو کہہ دو-” تمہاری تو دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں-وہ ظاہر ی طور پر دیکھ کچھ اور رہا تھا مگر اسرار کے پردوں‘معرفت کی دنیا میں وہ کچھ اور کر رہا تھا-وہ تو سلوک کی منزلیں طے ہو رہی تھیں-“ اور جب اگلے روز پتہ چلتا ہے کہ پیر مریدنی کو لے کر اپنی منزل کو روانہ ہوگیا ہے-تو پھر چیختا ہے‘دہائیاں دیتا ہے اور اخبار میں خبر چھپواتا ہے کہ وہ جعلی پیر تھا‘جو اپنے مرید پیراں دتہ کی بھاگ بھری کو بھگا لے گیا ہے-ہمارے پاس گوجرانوالہ اور کراچی کے بپیروں کے لنک اور ثبوت موجود ہیں کہ جو  عورتیں پتر لینے آتی ہیں وہ پیر صاحب کے بستر کی رونق بننے کے بعد ہی جا کر پتر(بیٹا یا بیٹی) لے پاتی ہیں.ایسے ہی نہیں پیرا دتہ نام رکها جاتا باقاعدہ اس کے پیچھے ایک راز ہوتا ہے.....
قارئین کرام !برہما دیوتا کا قصہ آپ نے ملاحظہ کرلیا -اس قصے کو ذہن میں رکھئے اور آئیے!میرے ساتھ چلئے ! حیدر آباد اور کراچی کے درمیان مکلی کے تاریخی اور میلوں لمبے چوڑے قبرستان میں-یہاں بیسیوں دربار ہیں جو پوجے جاتے ہیں- ان میں ایک دربار کا نام ہے جس کا ہم ذکر کر چکے ”لٹن شاہ “ میں جب اس دربار پر پہنچا تو حضرت لٹن شاہ کی قبر سے سیمنٹ کا یک گولہ نکلا ہوا تھا جو دربار کے باہر کئی میٹر تک چلا گیا تھا -میں نے گدی نشیں سے پوچھا تو وہ کہنے لگا-یہی تو حضرت کی کرامت ہے-حضرت لٹن شاہ صاحب دریائے سندھ کے کنارے پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے کنارے پر رہنے والے مرید لٹن شاہ کے پل پر سے چل کر اس کے پاس آ جاتے تھے -اسی کی یاد میں یہ سیمنٹ کا گولہ ہے جو حضرت کی قبر سے نکالا گیا ہے ....!!“ اب بتلائےے ! ہندو کے برہما دیوتا اور نام نہاد مسلمان کے حضرت لٹن شاہ ولی کے واقعات میں کیا فرق ہے -؟بس پیمائش کا فرق ہے کہ برہما ابھی آگے ہے-غرض ہندو اگر انسان کی شرمگاہ جانوروں حجر شجر کی پوجا کرتا ہے تو قبروں پہ گرنے والا بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے-اور یہ رستہ وہ ہے جو شرک کے ساتھ ساتھ فحاشی کی دلدل میں بھی دھنساتا ہے-یہی وجہ ہے کہ شرک کے اڈے یعنی دربار'خانقاہیں فحاشی کے بھی اڈے ہیں-اور ایسی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں....چونکہ ان دونوں یعنی شرک اور زنا کا ایک باہمی گہرا تعلق ہے‘ اس لئے جہاں شرک کا اڈہ ہوتا ہے وہاں زنا کا کاروبار بھی چلتا ہے-شرک یہ ہوتاکہ بندہ اپنے خالق کو چھوڑ کر غیروں کو -مشکل کشا' حاجت روا دستگیر'گنج بخش غوث اعظم کرنی والا اور سفارشی مانتا ہے-اسی طرح درباروں پر جانے والی عورتیں بھی اپنے ایک خاوند کی ہونے کی بجائے کئی مرد ڈھونڈتی ہیں-تو جس طرح اللہ سب گناہوں کو معاف کردیتا ہے لیکن شرک کو معاف نہیں کرتا-اسی طرح خاوند بھی اپنی بیوی کے نخرے برداشت کرلیتا ہے-ہنڈیا میں نمک مرچ کی کمی بیشی برداشت کرلیتا ہے-اس کے الٹے سیدھے مطالبات مان لیتا ہے-مگر یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے بیوی یہ کہے کہ” میرے سرتاج! ہے تو تو بھی بڑا خوبصورت مگر وہ جو فلاں ہے نا وہ بھی ....‘ ‘ بس یہ بات خاوند کو گوارہ نہیں اور جو گوارہ کرتا ہے وہ دیوث اور بے غیرت ہے -یہی وجہ ہے کہ اللہ نے سورة نور میں زانیوں اور مشرکوں کا تذکرہ کرکے سمجھا دیا ہے کہ یہ دنوں خصلتیں عموما یکجا ہوتی ہیں-فرمایا: اَلزَّانِی لاَ یَنکِحُ اِلاَّ زَانِیَةً اَو مُشرِکَةً وَالزَّانِیَةُ لاَ یَنکِحُھَا اِلاَّ زَانٍ اَو مُشرِک وَ حُرِّمَ ذَالِکَ عَلٰی المُمِنِینَ ترجمہ : زانی مرد -زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرے گا اور زانی عورت -زانی یا مشرک مرد سے ہی نکاح  کرے گی- اور مومنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے-(النور:3 ) ککڑ شاہ کے ڈسے ہوئے ایک ہندو نوجوان سے بهائی امیر  حمزہ کی ملاقات اگلی قسط میں پڑهیں.......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...