Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،28

اسلام اور خانقاہی نظام

قلندر کے دربار پر: قلندر ‘ مستی اور دھمال .... تینوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ‘ کیونکہ قوالوں اور نورجہاں نے تصوف کے بول یوں بولے ہیں اور اپنے بولوں کا اختتام یوں کیا ہے-
'مست مست مست دما دم مست قلندر لال شاھباز قلندر مست مست'
 مستمستی کے مناظر: اب ہم نے سچ مچ یہاں مستی کے مناظر دیکھے- زائرین مرد اور عورتیں کمرہ نما برآمدوں اور بڑے سے ہا ل میں لیٹے ہوتے تھے-ایک جگہ مستی لانے والی اشیاء کے کش لگ رہے تھے ‘اوریہ لوگ دنیا وما فیھا سے بے نیاز مستیوں میں گم تھے-اس دربار کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ ہر شام کو دربار کے دروازے پر ڈھولکیوں کی تھاپ پر خوب دھمال ہوتی ہے-تب عورتوں اور مردوں کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا‘ جبکہ دربار کے بیرونی صحن میں اب بھی دھمال جاری تھی-
کنواری لڑکی اور قلندر میں شادی کا کھیل: اور جو میلے یعنی قلندر کی شادی کے دن ہوتے ہیں‘ ان کی تو بات ہی نرالی ہے - ۸-۷-۶ شعبان کو شادی کا تین روزہ جشن ہوتا ہے -- یہ بات معروف ہے کہ قلندر کی شادی نہ ہوئی تھی - لہٰذا یہ شادی پھر پرانے وقتوں میں تو یوں منائی جاتی تھی کہ ایک لڑکی دربار کے اندر بٹھا دی جاتی‘ اور کہا جاتا کہ اس کے ساتھ قلندر کی شادی ہوئی ہے ‘ اور پھر وہ لڑکی شادی کے بعد مر جاتی .... اب وہ کیسے مرتی ہوگی ؟- اس کا تصور ہی دل دھلا دیتا ہے--
کیا شہباز قلندر کا دربار ہندوں کا دربار ہے ؟ بہرحال قلندر کے مرید آج بھی اس مہینے میں شادی نہیں کرتے-اب وہ لڑکی والی جاہلانہ رسم تومفقود ہے مگر شادی کا تصور ہنوز موجود ہے- اور اب اس تصور کو عملی روپ اس طرح دیا جاتا ہے کہ لال شہباز کے دربان - لال داس ہندو - جوکہ اس دربار کے متولیوں میں سے ہے ‘ مہندی نکالتا ہے اور شادی کی باقی ماندہ رسومات ادا کرتا ہے- یاد رہے ! مہندی نکالنا خالص ہندوانہ رسم ہے‘ جو شادیوں پر سر انجام دی جاتی ہے- چنانچہ لال داس اپنے مذہب کے مطابق مہندی نکال کر لعل شاھباز کی شادی سر انجام دیتا ہے - یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن سیدوں نے اس دربار کی گدی سنبھالی ہوئی ہے‘ وہ بھی لال داس کے مرید ہیں - چنا نچہ یہ وہ دربار ہے کہ جہاں سندھ کے ہندو بھی سلام کرنے آتے ہیں-اور مسلمان کہلانے والے بھی سلام کرنے آتے ہیں.... اور لاڑکانہ کے ایک بزرگ نے مجھے بتلایا کہ” سہون سے ذرا دور ” سن “ کے باسی جی ایم سید نے ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب غالباً ” قلندر نامہ “ تحریر کی تھی- لائبریریوں میں آج بھی مل جاتی ہے- اس نے ثابت کیا تھا کہ یہ دربار - اس کے پجاری اور جو بعد میں ولی مشہور ہوئے ‘ در حقیقت سب ہندو تھے - اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی تولیت آج بھی لال داس ہندو کے ہاتھ میں ہے - کہ جس کی سربراہی میں سب مل کر مست مست کرتے ہوئے دھمالیں ڈال رہے ہیں-
 پتھر کا دل چاندی کے خول میں : قلندر کی قبر پر لوہے کے بڑے بڑے تین ” گلّے“ پڑے تھے‘ جنہیں خزانہ کہا جاتا ہے - عورتیں اس میں نوٹ ڈال رہی تھیں اور چمٹ چمٹ کر آہ و زاری میں مصروف تھیں - یہاں ایک پتھر کا ٹکڑا بھی چاندی کے خول میں لٹک رہا تھا - کہتے ہیں کہ ”یہ قلندر کا دل ہے “ بہرحال ہر کوئی اس دل کو عقیدت سے چھو رہا تھا -- اسی طرح دربار کے دروازوں پر جابجا چاندی کے پترے چڑھے ہوئے ہیں - لوگ اس چاندی کو بوسے دے رہے تھے -- جبکہ قبر پر تو سجدہ ریزی خوب ہو رہی تھی-پچھلے دنوں قلندر کے دربار کا گنبد گر گیا اور درجنوں مرید مارے گئے- اس کے بعد کروڑوں روپیہ صرف کر کے نیا گنبد بنایا گیا ہے- عالم چنا اور وہابن چیونٹی: تو یہ تھا قلندر کا دربار کہ جس کا چرچا کرنے میں سب سے زیادہ کردار اس دربار کی مریدنی نورجہاں کے گانے نے ادا کیا ہے.... اور اس کے بعد جس کی وجہ سے اس دربار کے چرچے میں قدرے اضافہ ہوا‘ وہ ہے ” عالم چنا“ کہ وہ دنیا کا سب سے طویل قامت شخص تھا‘ جسے پوری دنیا میں بہت زیادہ شہرت مل چکی تھی- وہ اس دربار کے جاروب کشوں میں شامل تھا- یہیں رہتا تھا ہمارے ایک ساتھی نے اسے ایک ہوائی سفر میں سمجھایا تھا کہ تو شرک نہ کر‘ اللہ کا موحد بندہ بن - کہ جس نے تجھے بنایا ہے‘ تو وہ فوراً کہنے لگا کہ” تو وہابی ہے مجھ سے بات نہ کر“ اتفاق کی بات ہے کہ ہمیں یہ ملا ہی نہیں وگرنہ میں اسے ضرور یہ کہتا کہ -- دیکھ ! اگر لمبے قد کی وجہ سے آج لوگ تیر ی عزت کرتے ہیں تجھے دیکھنے آتے ہیں- جاپان ا ور امارات جیسی بیرونی حکومتیں تجھے اپنے ہاں دعوت دیتی ہیں‘ تاکہ تجھے دیکھیں - تو غور طلب بات تو یہ ہے کہ اس عزت کاسبب کیا ہے ؟ لا محالہ وہ لمبا قد ہے- تو یہ لمبا قد کس نے دیا ہے ؟ یہ اسی نے کیا ہے کہ جس مالک نے تیرے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ کیا تھا- اور اس مالک نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی بنایا اور وہی ہے جس نے تجھے بنایا ....مگر افسوس ہے کہ تو قلندر کی قبر پر پڑا ہے  ....تو ! تو اس زرافے سے بھی گیا گزرا ہے کہ جس کا قد اور گردن تمام جانوروں سے لمبی ہے- مگر وہ اللہ کا بنایا ہوا جانور ایسا توحید پرست ہے کہ کبھی کسی زرافے کے سامنے نہیں جھکا- اس نے کبھی کسی اڑنے والے شاھباز کو اپنا دستگیر اور غوث نہیں مانا .... لوگ اس زرافے کو بھی دیکھنے جاتے ہیں- بڑا خوبصورت اور لمبا جانور ہے - مگر تجھ سے کس قدر افضل اور برتر ہے یہ -- کہ وہ چڑیا گھر میں رہتا ہے ‘اپنے کسی ہم جنس کی قبر پر نہیں رہتا، 
شاھباز کر ے پرواز تے جانے راز دلاں دے“ افسوس ہے تمہاری ایسی انسانیت پر....ایسی ذھنیت پر....کہ اس سے تو چیونٹی بہتر ہے جو حشرات الارض کہلواتی ہے اور تم اشرف المخلوقات کہلاتے ہو....تم کتنے پست ہو.... اور چیونٹی کی سوچوں کی پرواز کتنی بلند ہے .... کس قدر اعلی.... اور کس قدر ارفع ہے‘ کہ اللہ نے اس کی سوچ کا تذکرہ قرآن میں کردیا ہے ”شاید کہ اتر جائے ترے دل میں چیونٹی کی بات (مزید قصہ حضرت سلیمام علیہ السلام پڑهئیے)“ مگر مجھے اب بھی ڈر ہے .... کہ اے قبروں پہ جھکنے والے ! کہیں تو چیونٹی کو بھی ” وہابن “ تو نہ کہہ ڈالے گا؟ ہاں تو ذرا سن - اور مزید کان دھر کہ اس چیونٹی کی اللہ کے ہاں کیا قدر ہے ؟اس کی قدر کو دیکھ اور اس کی عظمت کا اندازہ کر کہ یہ عظمت جو اسے اللہ نے دی ہے تو توحید کی برکت سے دی ہے - صحیح بخاری ”کتا ب الجہاد “میں تعلیقاً مروی ہے -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ( پہلے وقتوں میں ) نبیوں میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا -اس پر نبی نے چیونٹیوں کی بستی کو جلا دینے کا حکم دیا- چنانچہ وہ بستی جلا دی گئی -اس پر اللہ تعالیٰ نے اس نبی کی طرف وحی بھیجی ! اَ ن قَرَ صَتکَ نَملَة اَحرَ قتَ اُ مَّةً مِنَ الاُ مَمِ تُسَبِّحُ ترجمہ : تجھے ایک چیونٹی نے کاٹا تو - تو نے امّتو ں میں سے ایک امّت کو جلا دیا ‘ کہ جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے- یعنی اللہ نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میری عبادت کرنے والی توحید پرست امّت کو راکھ کا ڈھیر کیوں بنادیا ؟ آگ کی سزا کیوں دی؟ کیونکہ آگ کی سزا صرف اللہ ہی کو لائق ہے- وہی آگ میں جلانے کی سزا دے گا- اور یہ سزا اہل شرک کے لئے ہے‘ مشرکین کے لئے ہے کہ جو جہنم کا ایندھن بنیں گے موحدین کے لئے نہیں- اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے(آمین)جاری ہے...
تالیف :عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...