Monday 14 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،22

اسلام اور خانقاہی نظام

بابا بھٹو سائیں کی قبر پر:سندھ لاڑکانہ شہر میں گڑھی خدا بخش گاوں میں ہم واقع بھٹو کے دربار پر گئے-بھٹو کادربار ان کے خاندانی قبرستان میں واقع ہے-بھٹو سائیں کی قبر ہے تو پختہ مگر عارضی ہے کیونکہ اس پر بہت بڑا دربار اور مزار بنانے کا پروگرام ہے جو کہ اب مکمل ہو چکا ہے-وسیع و عریض مزار بنانے کے لئے سارے گاوں کوایک دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ آخری مرحلے پرتھا‘کہ بھٹو سائیں کی بیٹی جو کہ تب وزیراعظم ہوا کرتی تھی-بابا اسحاق نے آٹھویں ترمیم کے وار سے اس کی حکومت کا کام تمام کردیا-یہ ترمیم ضیا الحق اپنے دور میں بنا گئے تھے-ضیا الحق“نے مارشل لاءکے آرڈر سے بابا بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تھا اور اب بی بی بھٹو کا تختہ بھی ضیا الحق کی ترمیم نے الٹ دیا'تب یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا-پھر یہ بی بی صاحبہ دوبارہ وزیراعظم بنیں-تو انہوں نے دوبارہ چھوڑے ہوئے پروگرام پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کردیا‘ جس کے مطابق سرکاری خزانے سے 28کروڑ روپے بھٹو سائیں کے دربار کی تعمیر پہ لگا دیئے -حقیقت یہ ہے کہ ان دنیا دار حکمرانوں اور مغرب کے تربیت یافتہ دانشوروں کو نہ تو دین کی خبر ہے اور نہ ہی دنیا کے اعتبار سے ان کا کوئی کام عقل و خرد کا ساتھ دیتا نظر آتا ہے-دین جوکہ ہماری دنیا کے سنوارنے کا ضامن ہے اور اس کے بغیر دنیا کی بہتری کا تصور ہی نادانی ہے‘اس اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے‘کہ جب وہ فوت ہونے لگے تو فرمایا:مجھے ان دو پرانی چادروں میں دفن کر دینا کیونکہ نئی چادروں کی زندہ لوگوں کو مجھ سے زیادہ ضرورت ہے -( بخاری: کتاب الجنائز باب موت یوم الا ثنین )
28کروڑ کی قبر : اب عوامی خدمت کا ڈھنڈورا اور عوامی حکومت کا ڈھول پیٹنے والی پیپلز پارٹی کی شریک اور اب بلا شرکت چیئر پرسن سے اہل عقل یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اپنے باپ کی قبر پر آپ نے جو 28کروڑ لگانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان نہ ہی سہی‘سندھ کی بات بھی نہیں کرتے-کیا آپ نے لاڑکانہ کے بے گھروں کو گھر دے دیا-کیا کچی بستیوں کو پختہ کردیا ؟.... اور ہم لاڑکانہ کی بات بھی نہیں کرتے” گڑھی خدا بخش“ جیسی چھوٹی سی گوٹھ کے غریبوں کو آپ نے پختہ مکانات بنا دئیے ہیں؟ ....جو باپ کی قبر پر آپ نے 28کروڑ روپیہ خرچ کر دیا ہے اور یہ پیسہ انہی عوام کا ہے جنہیں جمہوریت کے سنہری فریب میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ حکومت آپ کی ہے‘ اور جب پیسہ خرچ کرنے کی باری آتی ہے تو انہی عوام کا پیسہ سوئٹرز لینڈ کے بینکوں میں جمع ہوجاتا ہے اور باقی ماندہ مردہ لوگوں کی قبروں پر لگنا شروع ہو جاتاہے-پچھلی دفعہ فیصل صالح حیات نے نصف کروڑ کے قریب روپیہ اپنے باپ کی گدی پر خرچ کردیا تھا اور دوسری بار عوامی حکمران نے 28کروڑ کی قبر بنانے کا پروگرام بنا لیا .... وہ قبر کہ جس کی نگہداشت کرنے والے غریب کی ایک دن کی تنخواہ صرف چند روپے بھی نہیں ہے-ان غریبوں کے پیسے کو جو کہ ان کے پاس ان کی امانت ہے‘اس سے قبریں بنانا شروع کر دیتی ہے اور ایک قبر 28کروڑ کی بنتی ہے!! اپنے باپ کی قبر پر اس انداز سے بے تحاشہ مال و دولت خرچ کرنا اور وہ بھی پرایا ....مال مفت دل بے رحم .... یہ کہاں کی عقلمندی ہے -دین نہ سہی-یہ کہاں کی دنیا داری ہے-؟کم از کم دنیا داری کا بھی تو کوئی ڈھنگ چائیے-لہٰذا سیدھی سی بات ہے کہ جو دیندار نہیں ہوتا ‘وہ دنیا دار بھی نہیں ہوتا-اسے دنیا میں رہنا بھی نہیں آتا-اللہ تعالی نے ایسے ہی کارناموں کی بنا بعض قوموں پر اپنا عذاب بھیج کر تباہ و برباد کردیا-قوم عاد ایسے ہی کام کیا کرتی تھی-اس قوم کے پیغمبر ہود علیہ السلام نے قرآن کے الفاظ میں انہیں یوں متنبہ کیا: اَتَبنُونَ بِکُلِّ رِیعٍ اٰیَةً تَعبَثُونَ ٭ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُم تَخلُدُونَت رجمہ :کیا تم ہر اونچی جگہ پر بے فائدہ یادگار بنا دیتے ہو؟ اور ایسی ایسی عمارتیں کھڑی کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے-( الشعراء : 129-127)
قارئین کرام ! انصاف کے ساتھ غور کیجئے!پچیس تیس صدیاں پہلے کی جو قوم تھی‘اس کی ذہنی سوچ اور آج کے لوگوں کی ذہنی سوچ اور عملی کردار میں کیا فرق ہے؟وہ بھی ایسے ہی کام کرتے تھے اور آج کے لوگ بھی ایسے ہی کارنامے سر انجام دیتے ہیں-بے نظیر بھٹو نے اسی پر بس نہیں کیا کہ 28کروڑ کی قبر بن جائے تو کافی ہے بلکہ راولپنڈ ی میں کہ جہاں بھٹو سائیں کو پھانسی دی گئی‘اس شہر میں ایک ایسی جگہ بھٹو کی یاد گار بنانے کا پروگرام بنایا گیا کہ جو ہاوسنگ سکیم بن چکی تھی-لوگوں کو پلاٹ الاٹ ہوچکے تھے-مگر پھر یہ سارا پروگرام منسوخ کیا گیا‘ یہ کہہ کرکہ بھٹو کی وہاں یادگار بنائی جائے گی - یعنی ان لوگوں کو زندوں کی کوئی خبر نہیں‘انہیں تو مردوں کا فکر پڑا ہے-زندہ لوگوں میں اگر کوئی روح یا زندگی کی رمق(سانس)ہو تو ویسے انہیں پوچھنا تو چائیے کہ کہیں مردوں نے تو آپ کو ووٹ نہیں دیئے کہ ان کی قبریں اور یادگاریں بنانے پر زور دیا جا رہا ہے-غرض یہ یادگاروں اور مردہ لوگوں کے درباروں پہ جو پیسہ لگانے کی بات ہے-اس سے اگلی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان یادگاروں پہ ٹکٹ لگا کر اور درباروں پہ نذر و نیاز لے کر دوبارہ عوام ہی کا کباڑہ کیا جاتا ہے اور خود صاحب دربار لوگوں کے لئے نفع ہی نفع ہے-تبھی تو نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اس نفع بخش صنعت کے لئے اس دربار پر قبضے کی خوب لڑائی ہوئی‘جو خونی جھڑپوں تک جا پہنچی........کچھ دوست شاید یہ کہیں کہ اس سلسلہ کے درمیان میں سیاست کہاں آ ٹپکی آپ تهوڑا حوصلہ رکهیں ہم آپکو ان درباروں خانقاہوں کی سرپرستی کرنے والے چند ایک سیاستدان اور وڈیروں کے متعلق بهی بتاتے چلیں کہ پاکستان میں یہ خانقاہیں دربار(شرک کے اڈے) باقاعدہ ایک پهلتا پهولتا کاروبار بن چکا ہے. جس میں کوئی خاص سرمایہ لگائے بغیر لاکهوں روپے کمائے جا سکتے ہیں.یہ ایک الگ بات ہے کہ اگر ان مزاروں کی عمارتوں پر کچھ خرچ کر کے ان کی زیب وزینت میں اضافہ کر دیا جائے تو پهر آسانی سے سادہ لوح عوام اور توحید کی معرفت سے دور لوگوں کے ایمان و مال کو آسانی سے لوٹا جا سکتا ہے.اب تو زیادہ آمدنی والے مزاروں کو حکومت پاکستان نے اپنے قبضے میں لے کر ان کی نگرانی اور عرس و میلا کا انعقاد محکمہ اوقاف کے سپرد کر رکها ہے.جو شرک و بدعت اور خرافات کی باقاعدہ نگرانی کرتا ہے.
.جاری ہے.........  
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...