Tuesday 29 November 2016

فکر و نظر کا اعتدال اور غیر منہجیت پکّے دماغوں کا کچّا خیال !

فکر و نظر کا اعتدال اور غیر منہجیت پکّے دماغوں کا کچّا خیال !

عبد المحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ نے مالکی عالم دین ابن ابی زید القیروانی کے ایک مختصر سے متن کی بڑی ہی جامع شرح فرمائی ہے اس شرح کا نام انہوں نے رکھا ہے قطف الجنی الدانی: شرح مقدمہ رسالہ ابن ابی زید القیروانی۔ اس میں محترم شارح نے عقیدہ کی بابت گمراہ فرقوں کے مابین اہل سنت والجماعۃ کے مقام و سطیت یا مقام اعتدال کی وضاحت رقم کی ہے ۔تمہید اٹھاتے ہوئے موصوف نے آپ ﷺ کی امت کو وسط امت قرار دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہودیوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ جفا کا معاملہ کیا۔ وہ انبیاء کے قتل کے مرتکب ہوئے ،ان پرگندے الزامات عائد کئے اور انہیں اذیت پہنچائی ۔ دوسری طرف نصاریٰ نے حـضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلے میں بڑا غلو کیا انہیں ابن اللہ قرار دیا اور ان کی عابدانہ تعظیم کی، لیکن امت محمدیہ کا معاملہ انبیاء سابقین اور اپنے نبی محترم محمد ﷺ کے ساتھ دونوں کے مقابلے مختلف ہے اس لحاظ سے یہ امت ایک معتدل امت قرار پاتی ہے ۔حائضہ عورتوں کے بارے میں یہود کی سختی اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا سب منقطع کر دیتے ہیں۔ کھانے پینے کا عمل بھی ایسی عورتوں سے جدا رہ کر ہی انجام دیتے ہیں۔ جبکہ نصاریٰ کا عمل اس کے بر عکس ہے وہ اثبات میں ایسا مبالغہ کرتے ہیں کہ حالت حیض میں جماع بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس امت کا اور اس کے افراد کا طرز عمل بین بین ہے، یہ امت نکاح یعنی جماع کے سوا حائضہ عورت سے ہر طرح کا رابطہ رکھتی ہے اس معنی میں امت محمدیہ کے یہاں اعتدال اور وسطیت ہے ۔علامہ آگے فرماتے ہیں : جس طرح امت محمدیہ امت وسط یعنی اعتدال والی امت ہے اسی طرح اہل سنت و الجماعۃ گمراہ فرقوں کے مابین درمیانی جماعت یعنی معتدل گروہ ہیں ۔ اہل سنت کے مذکورہ اعتدال اور وسطیت کی وضاحت انہوں نے کچھ مثالوں سے کی ہے بعض مثالیں درج ذیل ہیں:۱۔ اللہ کی صفات کے مسئلے میں اہل سنت کا نقطۂ نظر ایک معتدل نقطۂ نظر ہے : مشبہہ اللہ کی صفات کو اللہ کے لئے ثابت ضرور کرتے ہیں لیکن ا ن کے اس اثبات میں تشبیہ و تمثیل کا فتنہ بھی موجو د ہوتا ہے ۔ یعنی جب مشبہہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ’’ید‘‘ اپنے حقیقی معنی میں ہے یا اللہ کے پاس واقعی ہاتھ ہے تو وہ یہ بھی کہتے ہیں ’’ ید اللہ کأیدینا‘‘ اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں کی طرح ہے ۔تشبیہ کاروں کے برعکس تعطیلی فرقہ ہے جسے عقیدہ کی کتابوں میں معطِّلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس فرقے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک اثبات صفات تشبیہ، صفات کو مستلزم ہے پھر اپنے اس گمان کے مطابق انہوں نے اللہ کی تمام صفات کا انکار کیا اور اس انکار کو تنزیہہ کا نام دیا ۔ ان کی تنزیہہ جہاں تنزیہہ کے بجائے تعطیل اور انکار ہے وہیں عین تشبیہ بھی ہے (لیکن یہ بحث طویل ہے ) اہل سنت کا نقطۂ نظر تشبیہ کی برائی اور تعطیل کی جرأت سے پاک ہے۔ مثلاً اہل سنت کہتے ہیں ’’ ید‘‘ اپنے حقیقی معنی میں ہے یعنی اللہ کے پاس ہاتھ ہے لیکن ہاتھ مخلوق کے مشابہ نہیں ہے بلکہ اس کے شایان شان ہے جس کی کیفیت صرف وہی جانتا ہے ۔۲۔ بندوں کے افعال سے متعلق بھی دو انتہائیں ہیں ایک انتہا جبریہ کی ہے ۔ جبریہ کے نزدیک بندہ مجبور محض ہے اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اس کی ہر حرکت شجر و حجر کی حرکتوں جیسی ہے ۔دوسری انتہا قدریہ کی ہے وہ افعال کے معاملے میںسارا اختیار بندے کو دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے افعال کا خالق بندہ ہی ہے، تقدیر کوئی چیز نہیں ہے ۔ان دونوں انتہاؤں کے بیچ اہل سنت کا مسلک ہے ،اہل سنت بندے کو اس کے افعال میں اختیار تو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اختیار بندے کے لئے مستقل تسلیم نہیں کرتے بلکہ اللہ کی مشیئت اور اختیار کے تابع قرار دیتے ہیں ۔۳۔ وعد وعید سے متعلق بھی دوسخت نظریات ہیں ۔ ایک نظریہ مرجئہ کا ہے ان کے بقول گناہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ کہتے ہیں ’’لا یضر مع الایمان ذنب کما لا ینفع مع الکفر طاعۃ‘‘ جس طرح کفر کی حالت میں اطاعت بے فائدہ ہے اسی طرح ایمان کی حالت میں گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ہے ۔دوسرا نظریہ خوارج اور معتزلہ کا ہے انہوں نے وعید میں مبالغہ کیا اور وعد ہ کا پہلو درکنار کردیا۔ ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب ایمان سے خارج ہے اور ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا۔ ان دونوں خطرناکیوں کے بیچ اہل سنت کا مسلک مسلک اعتدال ہے وعدہ کے نصوص کو بھی مقام دیتے ہیں اور وعید کے نصوص کو بھی درجہ دیتے ہیں اس اجمال کی تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے خارج تو نہیں ہوگا لیکن گنہ گار ہوگا اللہ آخرت میں اسے چاہے گا تو معاف کردے گا اور چاہے گا تو عذاب دے گا اگر عذاب دے گا تو جہنم میں ہمیشہ نہیں رکھے گا ۔یہ بعض مثالیں جو بیان کی گئی ہیں عقیدہ سے متعلق علامہ عبد المحسن کی بیان کردہ ہیں ۔ غور فرمائیے تو ایسے سیکڑوں مسائل ہیں جن پر بات کرتے ہوئے ملت کے علماء اسلام کے اعتدال اور منہج سلف کے حاملین سلفیت کے اعتدال کی وضاحت فرماتے ہیں تعدد ازدواج، تبدیلی مذہب ، اہل بیت ، مشاجرات صحابہ ، مسئلہ کربلا ، حدیث ،تفسیر قرآن وغیرہ اہم ترین عناوین ہیںجن کے تحت اعتدال اور وسطیت کی وضاحت کی جاتی ہے ۔وسطیت کا معنی ہر جگہ بین بین ہی نہیں ہے بلکہ خیر اور افضل کا بھی ہے اس کے باوجود اعتدال کی وضاحت درمیانی حیثیت سے ہزار بار کی جاتی ہے ۔اس رسالے کا نام ’’اعتدال‘‘ ہے کون کہہ سکتا ہے کہ اعتدال سلفی اور سنّی نام نہیں۔یا اعتدال کی نمائندگی کسی خاص مکتب فکر کا امتیاز ہے۔اگر منہج سلف کے متبعین اعتدال اور وسطیت کی دعویداری کرنے لگیں پھر یہ منہج کے معارض بات قرار دی جانے لگے تو ان تمام آیتوں اور حدیثوں سے برأت کا اظہار فر ما دیجئے جن میں وسطیت کی بات کی گئی ہے۔اعلان فرما دیجئے ’’ خیر الامور اوسطھا‘‘ عمری حدیث ہے{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ } جیسی آیتیںعمری آیات ہیں ۔منہج پر اجارہ داری کا رجحان اور منہج سے ہر کسی کے اخراج کا زعم باطل انتہائی خطرناک ہے یہ انانیت ، علمی تعصب ، کبر سنی کے لڑکپن ، آرام کر سیوں کی تنقید نگاری اور خواہ مخواہ کے اندیشوں کا نتیجہ ہے ۔صحافت احتیاط تو کر سکتی ہے اندیشوں کا گرفتار نہیں ہو سکتی ۔ صحافت دوغلی بھی نہیں ہوا کرتی ۔ یہ عجیب بات ہوگی آپ کا نقطۂ نظر کسی کے بارےمیں لا منہجیت کا ہو لیکن چند ٹکوں کی خاطر اس لا منہجیت میں تعاون بھی فرمائیے تقویٰ طہارت کا بھرم بھی قائم رہے اور مال حرام سے پیٹ بھی بھرتے رہئے ۔ بھلا کسی بھلے مانس کو یہ طریقہ زیب کب دیتا ہے ۔حد یہ ہے کہ اب منہج کا پتہ سونگھ کر بھی لگایا جاتا ہے ۔ ممکن ہے صحافت کا منہج جاننے کے لئے ناک کی ایجاد بھی عمل میں آجائے اور منہج کا پتہ اصولوں کے بجائے مشینی ناک سے سونگھ کر کیا جائے۔یہ سونگھنے والی بات پیدا کہاں سے ہوتی ہے اس کی پیدائش دراصل کچھ امتیازی مسائل کی کوکھ سے ہے یہ مسائل جہاں بہ تسلسل موجود نہیں ہوتے وہاں منہج لوگ سونگھ کر جان لیتے ہیں ۔ کیا پتہ کسی دن قرآن کی وہ سورتیں بھی نظر انداز کر دی جائیں جن کا تعلق امتیازی مسائل کے بجائے معاشرتی حقائق ، افراد کے حقوق وغیرہ سے ہے۔ فیا للعجبواعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانااور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میںٹوپی پر ٹائی کو فضیلت مولانا آزاد ایک عبقری شخصیت تھے ۔ ان کی عبقریت کالوہا بڑے بڑوں کو چاہے نہ چاہے ماننا پڑا ۔ کل سے آج تک ان کی شخصیت اور علم و فن کے متعدد گوشوں پر لوگوں نے قلم اٹھایا ہے اور خوب اٹھایا ہے ۔ مولانا ایک ہمہ جہت شخص تھے زبانوں پر عبور فصاحت و بلاغت کا دریا ، خطابت کا پر جوش آہنگ ، ادب و صحافت کی رنگین ردا، تصنیف و تالیف کی بو قلمونیت ، سیاست کا گہرا ،عمیق اور رچا ہوا دماغ ، وضعداریاں کیا نہیں تھا مولانا آزادکے پاس ۔ ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جس کا کسی نے دبے لہجے میں بھی انکار کیاہو ۔لیکن بڑے عبرت کا مقام ہے مولانا ہمہ رنگ صلاحیتوں اور واقفیتوں کے باوجود جامع مسجد کی سیڑھیوںسے چیختے رہ گئے : کہاں جا رہے ہو ۔۔۔مولانا کی دلدوز چیخوں کی گواہ دہلی کی سرزمین آج بھی ہے جب قوم نے ایک کھڑے کھڑےپیشاب کرنے والے کے پرفریب نعرے پر اپنی جان بھی نچھاور کردی لیکن مولانا جیسے وارث نبوت کی صداؤں پر توجہ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا ۔ بلاشبہ پاکستان آج بھی ٹائیوں کا عذاب جھیل رہا ہے غیروں کی غلامی اور اپنوں کی دہشت گردی اس کا مقدر ہے ۔ یہ صرف اس لئے ہوا کہ قوم نے ٹوپی پر ٹائی کو فضیلت دیا تھا۔ یہ غلطی آج پھر ہم سے ہورہی ہے ۔ اللہ خیر کرےشعبان بیدارؔ انصاری
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...