Monday 7 November 2016

مقلدین کے شبھات کا غیر جانبدارانہ جائزہ

*مقلدین کے شبھات کا غیر جانبدارانہ جائزہ*

جس طرح قادیانی، پرویزی، قبوری، رافضی اور دوسرے گمراہ فرقے قرآن و حدیث سے (غلط استدلال اور تحریف کرتے ہوئے) اپنے غلط عقائد ثابت کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح مقلدین بھی آئمہ اربعہ کی تقلید کا واجب ہونا قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہیں، اس بحث میں مقلدین کے انہیں شبھات کا ازلہ کیا جائے گا ان شاءاللہ
پہلا  شبھہ: اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھو (النحل 43,الاانبیاء7) مقلدین کا خیال ہے کہ اس آیت میں تقلید کا حکم موجود ہے۔الجواب1-اس آیت سے تو جتنے (اھل الذکر) اہل علم گزر چکے اور جتنے قیامت تک آئیں گے سب مرآد ہیں لیکن مقلدین کا تو دعوی ہے کہ مسلمانوں پر ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ فیصلہ ہم عقلمند اور تعصب نے رکھنے والے مقلدین پر چھوڑتے ہیں کہ آیا اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں!! 2-اس آیت میں زندہ اہل علم سے پوچھنے کا زکر ہے یا فوت شدہ اہل علم سے؟ ظاہر ہے جسے کسی مسئلے کا علم نہیں وہ کسی زندہ عالم سے ہی جا کر مسئلہ پوچھے گا لیکن حیرت ہے مقلدین کی عقل پر کہ یہ لوگ اس آیت سے فوت شدہ اہل علم (آئمہ اربعہ) کی تقلید کا واجب ہونا ثابت کرتے ہیں 3-کتب فقہ کے مطابق غیر نبی کی بات پر بنا دلیل عمل کرنے کا نام تقلید ہے تفصیل یہاں ملاحظہ کیجیے، جبکہ اس آیت میں کہیں بھی بنا دلیل مسئلہ پوچھنے (تقلید) کا حکم موجود نہیں 4-عرف عام میں بھی اہل علم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں کہلاتا، آج مقلدین اپنے اپنے علماء سے مسائل پوچھ کر ان پر عمل کرتے ہیں تو کیا خیال ہے وہ اپنے علماء کے مقلد کہلائیں گے یا آئمہ اربعہ کے؟ 5-خیر القرون اور قرون وسطی میں سے کسی اہل علم نے آج تک اس آیت سے تقلید کے وجوب پر استدلال نہیں۔
دوسرا شبھہ: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔ (النساء:59) الجواب:  1:- اطاعت کے حوالے سے احادیث میں ایک قاعد ہ بیان ہوا ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے: لا اطاعة فی معصیت اللہ(جس کام میں ) اللہ کی معصیت ہوتی ہو اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں (مسلم) اور انما الاطاعة فی المعروف یعنی اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔(بخاری )  اب یہ بات کیسے معلوم ہو گی کہ علماءو فقہاءکی بات کتاب و سنت کے موافق ہے یا خلاف؟ ظاہر ہے کہ یہ تبھی پتہ چل سکتا ہے جب انسان کو علماءو فقہاءکے اقوال کی دلیل کتاب و سنت سے معلوم ہو گی کیونکہ اگر اسے کتاب و سنت سے دلیل معلوم نہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اُن کی وہ باتیں بھی مان لے جو کتاب و سنت کے خلاف ہیں، جبکہ تقلید کہتے ہیں بغیر دلیل بات ماننا ، یعنی اس آیت سے تو تقلید کا رد ثابت ہوتا ہے۔  2:- اولی الامر میں تو قیامت تک آنے والے تمام ا مراء،علماء، فقہاءاور مجتھدین شامل ہیں ، جبکہ مقلدین کا تو دعویٰ ہے کہ انسان پر صرف چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید لازم ہے، تو اس آیت اور پورے قرآن میں ائمہ اربعہ کی تقلید کا ذکر کہاں موجود ہے؟ تیسرا جواب: اس آیت کے آخری حصے میں واضح ذکر موجود ہے کہ جب تم کسی بات میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول علیہ الصلاة والسلام کی طرف لوٹاو۔ یعنی اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے نہ کے کسی اُمتی کی تقلید کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔  3:- سلف صالحین میں سے کسی نے اس آیت سے آئمہ اربعہ کی تقلید کا وجوب ثابت نہیں کیا۔
تیسرا شبھہ: اور اتباع کر اس کی، جس نے میری طرف رجوع کیا (لقمان:۱۵)
الجواب:  1:- اتباع دلیل کے ساتھ کسی کی بات ماننے کو کہتے ہیں جس کی تفصیل تقلید کے مفہوم میں بیان کی جا چکی ہے اسلیئے اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت کرنا ہی سرے سے کذب بیانی کے سوا کچھ نہیں۔  
2:- اگر مان بھی لیا جائے کہ اس میں تقلید کا ذکر ہے تو کیا ہر اس شخص کی تقلید واجب ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے؟  
3:- امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفی ۷۷۴ھ) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: "یعني المومنین" یعنی تمام مومنین کے راستے کی اتباع کر (تفسیرابن کثیر 106/5) مقلدین بتائیں کیا تمام مومنین کی تقلید واجب ہے؟
 4:- سلف صالحین میں سے کسی نے اس آیت سے تقلید کے اثبات پر استدلال نہیں کیا۔
چوتھا شبھہ: (اے اللہ) ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے، ان لوگوں کے راستے کی طرف جن پر تو نے انعام کیاہے (الفاتحہ6,7)
الجواب: یہاں پر تمام ربانی انعام یافتہ لوگوں کے راستہ کا ذکر ہے بعض انعام یافتہ کا نہیں، لہذا اس آیت سے آئمہ اربعہ کی تقلید کا وجوب ثابت کرنا کذب بیانی اورجہالت ہے۔ سلف صالحین میں سے بھی کسی نے اس آیت سے تقلید کا واجب ہونا ثابت نہیں کیا
پانچواں شبھہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرو" (ترمذی:207/2)  سرفرازصفدر اس حدیث کے بارے میں "الکلام المفید" ص91 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے الجواب:  1:- یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خلافت کی اقتداء کا حکم دیا ہے نہ کہ امور دین کی جیسا کہ آگے چل کر واضح ہو گا۔  2:- بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اختلاف کیا ہے جیسا کہ کتب حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں تو انہوں نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید کیوں نہ کی؟ کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغاوت کا فتوی لگا سکتے ہیں؟  3:- ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مانعین زکاة سے جہاد کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا تھا لیکن جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دلائل دیے تو وہ مان گئےاور جہاد شروع کیا۔ کیا دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تقلید کہتے ہیں؟  4:- اگر حقیقتاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقلد تھے تو آج کے مقلدین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو چھوڑ کر آئمہ اربعہ کی تقلید کو کیوں واجب سمجھتے ہیں؟
چھٹا شبھہ:  معاز بن جبل رضی اللہ عنہ یمن گئے تھے جہاں کے لوگ معاز رضی اللہ عنہ کی باتوں پر عمل کرتے تھے۔ اور یہ تقلید ہے۔
الجواب:   معاز رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گورنر بنا کر یمن بھیجا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر کی حیثیت سے ان کے لیئے معاز رضی اللہ عنہ کی بات ماننا ضروری تھا اور چونکہ معاز رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مبعوث تھے اس لیئے ان کی بات پر عمل کرنا گویا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کرنا تھا۔
ساتواں شبھہ:  انٹرنیٹ پرہمیں ایک آرٹیکل دیکھنے کو ملا جس میں ایک جگہ لکھا ہے:"تقلید کی دو قسمیں ہیں 1
-مذموم  کہ کسی کی بات محض بے دلیل ہو اس پر عمل کرنا 
2-محمود  کہ کوی مسلہ نفس الامر میں تو مدلل ہو لیکن عمل کرنے والا دلیل کا مطالبہ نہ کرے محض حسن ظن اور اعتماد پر عمل کرے کہ یہ مسلہ یقیناً کسی نہ کسی دلیل شرعی سے ثابت ہے  یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ غیر مقلیدین حضرات تقلید مزموم والی تعریف تو سناتے ہیں لیکن تقلید محمود والی چھپاتے ہیں ۔ میرے بھائی اس طرح تو مشکوٰۃ شریف سے حدیث پڑھ کر عمل کرنے والا بھی مقلد ہے کیونکہ اس میں نہ سندیں موجود ہیں نہ سندوں کی تحقیق ہے ۔  کسی حدیث کا صحیح یا ضعیف ہونا یا کسی راوی کا معتبر یا غیر معتبر ہونا بھی امتیوں کے اجتہاد سے معلوم ہوتا ہے ان پر اعتماد کر کے کسی حدیث کو صحیح کسی کو ضعیف کہنا یا کسی راوی کو ثقہ اور کسی کو ضعیف کہنا بھی تقلید ہے-"یہاں یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ تقلید مذموم وہ ہوتی ہے جس میں مجتہد یا جس کی بھی تقلید کی جاری رہی ہے، اس کی بات بنا دلیل ہو اور مقلد ایسی بنا دلیل بات پر عمل کرے۔ جبکہ اگر مجتہد کے پاس دلیل ہے اور مقلد محض حسن ظن کی وجہ سے دلیل کا مطالبہ نہ کرے تو ایسی تقلید کوتقلید محمود کہاجائےگا۔ سبحان اللہ  1:- مقلدین بتائیں کہ انہوں نے یہ تعریف فقہ کی کس کتاب سے لی ہے؟ نیز فقہ کی کس کتاب میں تقلید کی اس تقسیم کا ذکر موجود ہے؟
 2:- حقیقت میں یہ تقسیم خانہ ساز ہے جس کا ثبوت علمائے متقدمین سے نہیں ملتا اس سے پہلے ہم کتب فقہ اور مقلدین کے معتبر علماء کے حوالوں سے تقلید کی تعریف بیان کر چکے ہیں جس میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں کہ جس مجتہد کی تقلید کی جا رہی ہے اس کے پاس دلیل ہے یا نہیں بلکہ مقلد کی بات کی جا رہی ہے کہ کیا وہ مجتہد کی بات دلیل کے ساتھ مان رہا ہے یا دلیل کے بغیر۔ یعنی مقلدین جسے تقلید مذموم کا نام دیتے ہیں اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں اور جسے مقلدین تقلید محمود کہتے ہیں اصل میں وہی تقلید ہے اور یہی تقلید مذموم ہے جس کا رد ہم نے اوپر قرآن، حدیث، اجماع، اثار صحابہ اور سلف صالحين سے ثابت کیا ہے۔حدیث کی اسناد کو تسلیم کرنا بھی تقلید ہے،
پہلا جواب: سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے۔یعنی جب کوئی راوی یہ کہہ رہا ہو کہ میں نے نبی علیہ الصلاةوالسلام کی حدیث فلاں شخص سے سنی اور فلاں نے فلاں شخص سے سنی۔۔۔۔ تو وہ راوی گواہی دے رہا یہی وجہ ہے کہ جب راوی ثقہ نہ ہو بلکہ ضعیف و متروک ہو، نیسان کامریض ہو، لقمہ قبول کر لیتا ہو، سند اور متن میں گڑ بڑ کرتا ہو تو اس کی گواہی غیر معتبر اور روایت ضعیف ہو جاتی ہے۔ اور معتبر کی گواہی کو قبول کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے یعنی ہم گواہ کی گواہی کو اتباعِ سنت میں قبول کرتے ہیں نہ کے کسی کی تقلید میں۔
دوسرا جواب: گواہ کی گواہی کے لیے مجتہد ہونا شرط نہیں، تو کیا تقلید غیر مجتہد کی بھی جائز ہےَ؟ یقینا نہیں تو یہ تقلید کیسے بن گئی؟؟؟
تیسرا جواب: گواہ کی گواہی کو قبول کرنا اصطلاح میں تقلید کہلاتا ہی نہیں ملاحظہ کیجئے حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:  تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی  دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
چوتھا جواب: حدیث کی اسناد کو قبول کرنے اور اسماءو رجال و جرح و تعدیل وغیرہ کی بنیاد پر حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنے پر ہر دور میں اجماع رہا ہے اور اجماع کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔  رہی بات مشکوة کی تو یہ بڑا جہالت آمیز اعتراض ہے، مشکوة میں ہر حدیث کے ساتھ اس کی اصل کتاب کو حوالہ بھی موجود ہوتا ہے جس میں اس حدیث کی سند موجود ہوتی ہے۔
آٹھواں شبھہ  دیوبندیوں کے "ایک فورم" (جسے وہ حق فورم کا نام دیتے ہیں) پر ایک تھریڈ موجود ہے جس میں ملنگ نامی یوزر نے دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ سے ایک فتوی کاپی پیسٹ کیا ہے جو یہاں مع جواب پیش کیا جا رہا ہے:-ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں: اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہو کر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کر لیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔ اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ․ ورخصة: وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا: ۲۱۹۔ چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بے مہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہو کر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
 (۱) مشہور محدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروعالمسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (فتاویٰ رحیمیہ: ۸۰ جدید، بحوالہ تفسیر مظہری:۲/۶۴)
 (۲) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۵ جدید، بحوالہ حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
 (۳) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔ ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہو گئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آ چکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہو چکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۹، بحوالہ التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
 (۴) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں: وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
 (۵) شیخ احمد المعروف بملا جیون تفسیرات احمدیہ رقم طراز ہیں: قد وقع الإجماع علی أن الاتباع إنما یجوز للأربع الخ یعنی اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ اتباع صرف ائمہ اربعہ کی ہی جائز ہے آگے فرماتے ہیں: وکذا لا یجوز الاتباع لمن حدث مجتھدًا مخالفًا لھم یعنی اسی بنا پر جو مجتہد نیا پیدا ہو اور اس کا مذہب ان ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو اس کی اتباع بھی جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۱/۷۹)
 (۶) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ر وأما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۰ بحوالہ الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
 (۷) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/ ۸۰، بحوالہ فتح المبین ۱۶۶)
 (۸) شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں: أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہو گیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۱ بحوالہ نورالہدایہ: ۱/۱۰)
 (۹) سید احمد طحطاوی فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرقہ ناجیہ کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں: وھذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في المذاھب الأربعة ھم الحنیفون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون ومن کان خارجًا من ھذہ الذاھب الأربعة في ذلک الزمان فھو من أھل البدعة والنّار اور یہ نجات پانے والا گروہ آج مجتمع ہوگیا ہے چار مذاہب میں اور وہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور جو شخص اس زمانہ میں ان چار سے خارج ہے وہ اہل بدعت اور اہل نار سے ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۲، بحوالہ طحطاوی علی الدر المختار: ۴/۱۵۳)
 (۱۰) سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام اولیاء دہلوی رحمہ اللہ کتاب : راحة القلوب، میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ سید العابدین شکر گنج نے بتاریخ ۱۱/ ماہ ذی الحجہ ۶۵۵ھ فرمایا کہ ہرچار مذہب برحق ہیں (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۸۱)
اسی طرح اور بہت سے علماء ہیں جنھوں نے تقلید کو لازم قرار دیا اور خود مقلد ہو کر تقلید پر اجماع کا ثبوت دیا، چنانچہ کتب ستہ کے اکثر مصنّفین کسی نہ کسی امام کے مقلد تھے اور ان کے بہت سے بڑے علماء مقلد رہے ہیں جیسے: حافظ حدیث علامہ ان حجر رحمہ اللہ، شاہ عبد الرحیم دہلوی رحمہ اللہ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ، شیخ محمد طاہر پٹنی گجراتی وغیرہم ۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۱/۷۷)
ان حضرات کا اور ان کے علاوہ دیگر علماء کا تقلید کرنا اس بابت کی دلیل ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ ہی کی تقلید ضروری ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال موجود ہیں، جن کو تطویل کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے۔ والعاقل تکفیہ الاشارة۔Source: :http://www.darulifta-deoband.org/urd...u.jsp?id=11335
یہ فتاویٰ کا لنک ہے آپ وزٹ کر سکتے ہیں-
الجواب:  اس نام نہاد اجماع کی حقیقت کا اندازہ اس کے ماخذ سے ہی لگایا جا سکتا ہے، اجماع ثابت کرنے کے لیئے جتنے حوالے دیئے گئے ہیں سب کے سب فقہ حنفی اور حنفی علماء کی کتابوں سے ہیں۔ دیوبندی بتائیں کہ کیا اگرغیر مقلدین تقلید کے رد پر اسی طرح کا اجماع پیش کریں اور ہر عالم کی عبارت کے ساتھ کسی غیر مقلد کی کتاب کا حوالہ دیا جائے تو کیا وہ ایسے اجماع کو تسلیم کر لیں گے؟
(فما کان جوابکم فھو جوابنا۔۔۔دیوبندیوں کا جو جواب ہو گا وہی ہمارا اوپر پیش کردہ نام نہاد اجماع پر جواب ہے) حقیقت وہی ہے جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ تقلید چوتھی صدی میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے جسے کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت کرنا سوائے بدعتی کے کسی دوسرے کا کام نہیں ہو سکتا۔
اس کے باوجود ہم چند علماء و فقہاء کے نام ذکر کر دیتے ہیں جو کہ تقلید نہ کرتے تهے بلکہ تقلید کے جمود کو توڑنے میں برسر پیکار رہے:ہم چوتهی صدی ہجری کے بعد کے ہی نام پیش کرتے ہیں
حافظ ابن عبدالبرالاندلسی (متوفی463ہجری)،حافظ ابو عبداللہ شمس الدین محمد.....(متوفی 748ہجری)،حافظ ابن القیم الجوزیہ(متوفی 751ہجری)، حافظ ابن تیمیہ(متوفی768ہجری)،
قاضی ابو بکر محمد بن عمربن اسماعیل الداودی(متوفی 429ہجری)،حافظ ابو محمد علی بن احمد بن سعید...(متوفی 456ہجری)،حافظ ابن البر اندلسی (متوفی 463ہجری)،خلیفہ ابو یوسف یعقوب بن یوسف...(متوفی 595ہجری)جلال الدین سیوطی متوفی 911ہجری نے الردعلی من اخلدالی الارض و جہل ان الااجتہادی کل عصر فرض ص 132تا137میں 30علماء فقہاء کے نام لکهیں ہیں جو تقلید نہیں کرتے تھے،اسی طرح حافظ ابن حجر, شیخ ابن باز وابن عثیمین, شیخ محمد بن ابراہیم, شیخ صالح الفوزان، خطیب مالقہ علامہ ابو محمد عبدالاعظیم...، حافظ ابن حزم، حافظ تقی الدین ابو العباس...وغیرہ ایسے سینکڑوں علماء فقہاء صدیوں پہلے روئے زمین پر گزر چکے ہیں طوالت کے پیش نظر ابهی ہم نے برصغیر کے علماء وفقہاء کے نام درج نہیں کیے جس کی تفصیل کے لیے کتاب"برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش محمد اسحٰق بهٹی" کا مطالعہ کریں-
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن علماء و فقہاء کے نام درج نہیں کیے وہ اہل حدیث نہیں ایسے ہزاروں نام ہیں جو بوقت ضرورت پر پیش کیے جا سکتے ہیں-پهر بهی بڑے زور شور سے کہا جاتا ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے ایک کی تقلید کرنا لازم ہے اور اس پر اجماع ہے-
جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا فرقہ تو ہندوستان میں انگریزی دور میں معرض وجود میں آیا ؟؟ان سے مودبانہ گزارش ہے اوپر ذکر کردہ علماء و فقہاء سب کون تهے؟؟؟
نواں شبھہ: صحابہ کرام نے فتوے دیے اور لوگوں نے اس پر عمل کیا اس سے بھی تقلید ثابت ہوتی ہے۔
دسواں شبھہ: ایک فورم پر تقلید کو کچھ یوں ثابت کیا گیا ہےحضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ طواف کے بعد عورت کو حیض آجاے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا لوٹ جاے، اہل مدینہ نے کہا"لانا حذ بقو لک وندع قول زید"  (الصحیح البخاری، کتاب الحج ، باب ازا حاضت المراءۃ بعد ما افاضت: جلد 1 صفحہ 237)  " عن عکرمۃ ان اھل المدینہ سالوا ابن عباس عن امراۃ طافت ثم حاضت، قال لھم: تنفر، قالوا: لانا خذ بقولک، وندع قول زید بن ثابت۔۔۔۔۔۔ وفی روایۃ الثقفی: لانبالی بقولک افتیتنا اولم تفتنا، لا نتا بعک وانت تخالف زیدا" حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس عورت کے متعلق پوچھا جسے طواف کے بعد حیض آجاے، حضرت ابن عباس نے فرمایا: وہ واپس جا سکتی ہے ، اہل مدینہ نے کہا: ہم زید بن ثابت کی بات چھوڑ کر آپ کی بات نہیں مانتے ۔ ثقفی کی روایت میں ہے: آپ ہمیں فتویٰ دیں یا نہ دیں، ہمیں آپ کے فتویٰ کی پرواہ نہیں اور نہ ہی ہم آپ کی بات مانیں گے کہ آپ زید بن ثابت کی مخالفت کرتے ہیں "  (فتح الباری، کتاب الحج، باب اذا حاضت المراءۃ بعد ما افاضت جلد 3 صفحہ 749)
 الجواب:اس سے پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ مفتی کے فتوے پر عمل کرنا نہ تو اصطلاح میں تقلید کہلاتا ہے اور نہ ہی عرف عام میں، اختصار کے پیش نظر صرف ایک ہی حوالہ دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔ حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:۔  تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ  (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)حاصل کلام یہ ہے کہ عام آدمی کا کسی مفتی کے فتوے پر عمل تقلید نہیں ہے، لیکن اگر مقلدین کو اس کے تقلید گرادننے پر اصرار ہے تو اس طرح پھر تمام لوگ بقید حیات علماء کے مقلد ہوئے ایسی صورت میں ان کو احناف،شوافع،حنابلہ یا مالکیہ کیوں کہا جاتا ہے؟ کیونکہ آج کے عوام الناس ائمہ اربعہ سے فتوی طلب نہیں کرتے بلکہ آج کے علماء سے فتوی طلب کرتے ہیں۔  اور جہاں تک اہل مدینہ کی بات ہے تو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بات کو چھوڑ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے کو اس بنیاد پر قبول کیا کہ وہ ان کے اپنے اجتہاد اور تحقیق کے مطابق تھا کیونکہ وہ مقلدین کی طرح جاہل نہیں بلکہ عالم تھے۔ اور اگر بالفرض مان بھی لیں کہ اہل مدینہ نے زید رضی اللہ عنہ کی تقلید کی تو کیا مقلدین یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ہر معاملے میں تقلید کی؟ اور مذاہب اربعہ کی طرح ان کے نام پر زیدی یا ثابتی کہلوایا ہو؟ اور کیا وجہ ہے کہ مقلدین دلائل تو صحابہ کرام کی تقلید کے دیتے ہیں جبکہ خود صحابہ سے کم درجے کے آئمہ اربعہ کی تقلید کو واجب گرادنتے ہیں؟
گیارھواں شبھہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے جن سے حدیث ثنائی مروی ہے۔ یعنی امام ابو حنیفہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے ہیں اور فقہ حنفی حدیث ثنائی پر مبنی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی سب سے بہتر اور معتبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں (مقدمہ درس بخاری شریف للشیخ زکریا) 
الجواب1-امام ابو حنیفہ تابعی ہیں لیکن ایسے تابعی جنہوں نے صغرسنی یعنی بچپن میں صحابہ کرام کو دیکھا ہے لیکن روایت نقل نہیں کر سکے اور بعض روایات کے مطابق امام ابوحنیفہ کا کسی صحابی کو دیکھنا بھی ثابت نہیں ملاحضہ کیجیے تاریخ بغداد  (جلد 4 صفحہ 208 ت 1895 و سندہ صحیح) ، سوالات السہمی للدارقطنی (صفحہ 263 ت 383) اور العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواھیۃ لابن الجوزی (1/65 تحت حوالہ 74)۔
2-تابعین تو اور بھی بہت سارے ہیں مثلاً اویس قرنی زبان رسالت سے "افضل التابعین" کا خطاب پا چکے ہیں۔ سعید بن المسیب "اعلم التابعین" کہلاتے ہیں پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
3- اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فقہ حنفی حدیث ثنائی پر مبنی ہے تو اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور مقلدین قیامت تک اس کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے اگر واقعی امام ابو حنیفہ سے حدیث ثنائی مروی ہے تو ہم حنفی مقلدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حدیث ثنائی ہمیں بھی دکھا دیں کیونکہ ہم بھی اسے دیدہ اشتیاق سے دیکھنے کے خواہشمند ہیں لیکن حنفی مقلدین کو مایوسی ہوگی ذخیرہ کتب میں ایسی کسی حدیث کا وجود یکسر معدوم ہے۔ ممکن ہے بعض غالی مقلدین یہ کہہ ڈالیں کہ امام صاحب احادیث ثنائیہ کو سینے میں چھبائے اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں تو ہمارا سوال ہے کہ آپ کو یہ بات کیسے پتہ چلی؟ علم غیب، کشف، الہام یا کچھ اور....؟؟؟
4- احناف نے دین کو اوہام کا تابع بنا کر رکھ دیا ہے اور یہ انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب سے کوئی ثنائی روایت منقول نہیں اور جو (مسانید) کتابیں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اس میں ایسی کوئی حدیث نہیں کہ وہ صحیح، متصل اور ثنائی ہو۔ شاہ ولی اللہ امام محمد کی کتاب الاثار اور امام ابو یوسف کی امالی کے بارے میں فرماتے ہیں:"اگر صریح حق کے طالب ہوتو امام مالک کی موطاء کے ساتھ امام محمد کی کتاب الاثار اور امام ابو یوسف کی امالی کا مقایسہ کرکے دیکھو ان کے باہمی تقابل سے تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ ان میں مشرق سے مغرب تک کی دورائی پائی جاتی ہے۔کیا تمھیں کبھی یہ سننے کا اتفاق بھی ہوا ہےکہ کسی محدث یا عالم نے امالی اور کتاب الاثار کی طرف توجہ کی ہو یا ان کا اہتمام کیا ہو؟" (حجة اللہ البالغة:۱۳۸) اس طرح شاہ ولی اللہ نے مسند خوارزمی جو مسند امام اعظم کے نام سے مشہور ہے کو چوتھے طبقے میں زکر کیا ہے (حجة اللہ البالغة:۱۳۵) پھر لکھتے ہیں "روافض اور معتزلہ وغیرہ جیسےاکثر مبتدعین اس چوتھے طبقے سے اپنے غلط مذہب کے دفاع کیلئے دلائل کا اہتمام کرتے ہیں علماء بالحدیث کے معرکوں میں چوتھے طبقے کی کتب پر اکتفاء کرنا درست نہیں ہے۔الخ (ایضاً) کتاب الاثار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کل ۱۰۶۷ روایات ہیں جن میں سے صرف ۱۸۲ روایات مرفوع ہیں ۲۳ روایات اس طرح ہیں عن ابراہیم النخعی عن رسول اللہ  ۴۵۵ ابراہیم النخعی کے اقوال ہیں کچھ حماد کے اقوال ہیں اور بعض روایات اسطرح ہیں عن الحسن بصری عن رسول اللہ۔  غرض پوری کتاب میں کوئی ایسی روایت نہیں جس سے صحیح استدلال کیا جا سکے اسی طرح امالی کل ۹۱۲ روایات پر مشتمل ہے جس میں اکثر روایات مقطوع، موقوف اور مرسل ہیں صرف چند روایات مرفوع ہیں اگر کسی کو یقین نہ آئے تو خود ملاحضہ کر سکتا ہے- 
5- اصطلاحات المحدثین کی رو سے امام ابو حنیفہ رحمہ للہ کی روایات ضعیف ہیں کیونکہ محدثین نے ان پر شدید جرح کی ہے۔ دلیل کے طور پرصرف چندحوالوں پر اکتفاء کیا جا رہا ہے:۱) قال الامام بخاری فی التاریخ الکبیر (۸۱/۴) سکتوا عنہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ علامہ ابن کثیر مختصر علوم الحدیث ص ۱۱۸ پر فرماتے ہیں " جب امام بخاری کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ "سکتوا عنہ یا فیھ نظر" تو وہ انکے نزدیک سب سے ادنیٰ راوی ہوتا ہے (الرفع و التکمیل ص ۱۸۲)  یہ جرح مفسرہ ہے کیونکہ مسائل المروزی میں آتا ہے "امام احمد سے پوچھا گیا کہ راوی کی روایت کب ترک کی جائے گی ؟ انہوں نے فرمایا جب اس کی صحت پر خطاء غالب آ جائے۔۲) و قال الام مسلم فی الکنی و الاسماء ص۳۱ مضطرب الحدیث لیس لھ کبیر حدیث صحیح یعنی امام ابوحنیفہ مضطرب الحدیث ہیں ان کے پاس صحیح حدیث کا کوئی زخیرہ نہیں ہے۳َ) امام نسائی فرماتے ہیں "لیس بالقوی فی الحدیث و ھو کثیر الغلط علی قلة روایة" (کتاب الضعفاء والمتروکین:۵۸)۴) ابن سعد فرماتے ہیں "کان ضعیفاً فی الحدیث" یعنی امام ابوحنیفہ حدیث میں کمزور تھے (الطبقات۲۵۶/۶)۵) عبد الحق اشبیلی فرماتے ہیں "ولا یحتج بابی حنیفة لضعفھ فی الحدیث" یعنی ضعف فی الحدیث کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کی حدیث دلیل نہیں بن سکتی (الاحکام الکبری۱۷/۲)۶) امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں امام ابو حنیفہ پر رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں اس کتاب الرد علی ابی حنیفة میں تردید کا مرکز امام ابو حنیفہ ہیں (ص۱۴۸/۱۴)۷) اسی طرح ابو نعیم نے بھی ان پر رد کیا ہے. (الحلة ۱۹۷/۱۱/۳)۸)عبداللہ بن امام احمد نے بھی ان پر رد کیا ہے (کتاب السنة ۱۸۰/۱)۹)خطیب بغدادی نے بھی رد کیا ہے (تاریخ بغداد ج ۱۳)۱۰) معلّمی نے بھی ان پر رد کیا ہے (التنکیل:۱۸/۱و عمدة الرعایة ۳۶)۱۱) امام ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کا بھی انکار کیا گیا ہے (کما فی التمھید)۱۲) امام ابن عدی امام صاحب کی روایتوں کا ضعف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اہل الحدیث میں سے نہیں تھے اور جس کی ایسی حالت ہو اس سے حدیث نہیں لی جاتی  (الکامل لابن عدی:۴۰۳/۲) مذکورہ بالا بحث کا ما حصل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ صادق بھی ہیں اور فقیہ بھی لیکن مذکورہ محدثین کے نزدیک احادیث کے اعتبار سے قوی نہیں اور یہ کوئی بے ادبی نہیں کیونکہ بہت سے نیک اور صلاحیت و صالحیت کے حامل راوی سئي الحفظ اور کثیر الخطاء ہوتے ہیں جیسا کہ جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔اقتباس:حقیقة التقلید و اقسام المقلدین از شیخ ابو محمد امین اللہ البشاوری حفظہ اللہ-
بارھواں شبہہ: مقلدین بار بار اعتراض کرتے ہیں کہ جب جاہل آدمی کے لیئے بھی تقلید جائز نہیں ہے حالانکہ وہ نہ تو مجتہد ہوتا ہے اور نہ عالم اور نہ خود اپنے مسائل کو حل کر سکتا ہے تو یہ بیچارہ آخر کیا کرے؟
الجواب: اس کا جواب ہم ہر بار یہی دیتے آئے ہیں کہ جاہل کے لیئے تقلید کے عدم جواز کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجتہد اور عالم بن جائے یا خود مسائل کو حل کرنا شروع کر دے کیونکہ اللہ نے ہر ایک کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آج کا جاہل یعنی عامی طبقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزارنے کی حتی الامکان کوشش کرے کیونکہ ان میں بھی عامی طبقہ موجود تھا جس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنے متبعین حق علماء کے پاس تصفیہ طلب مسائل لیکر جاتے اور متعلقہ مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث کا حکم معلوم کرتے۔اور علماء صرف کتاب و سنت کی روشنی میں حل پیش کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عامی طبقہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو جاتا اور علماء مبلغ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیتے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عامی طبقہ دلائل سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ عقل اور ایمان کی دولت ایک عام شخص کے پاس بھی ہوتی ہے اور مومن کا سینہ حق و باطل میں تمیز کرنے والے نور سے منور ہوتا ہے۔ اپنی عقل اور ایمانی بصیرت کی روشنی میں عامی طبقہ بھی دلائل کو سمجھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دل و دماغ اور نیت میں بغض و عناد کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس کو عمل بروایت کہتے ہیں نہ کہ عمل بالرائے۔ یعنی راوی کی روایت پر عمل ہوتا ہے نہ کہ اس کی رائے پر۔ یہی سب باتیں امام شوکانی نے القول المفید:۲۷، امام ابن قیم نے کتاب الروح:۲۵۶ اور امام شاطبی نے کتاب الاعتصام:۳۴۵-۳۴۲ میں کہیں ہیں جن کا خلاصہ اوپر بیان کر دیا گیا۔ 
مقلدین کی طرف سے شبھات تو اور بهی کافی ہیں
لیکن ہم انہیں پر ہی اکتفاء کرتے ہیں-
آپ نے بعض علماء کی کتابوں میں دیکھا ہو گا کہ تقلید واجب ہے۔ جیسا کہ تفسیر قرطبی ،جامع بیان العلم و فضلھ، اعلام الموقعین اور اسی طرح کتب فقہ و تفسیر وغیرہ میں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کتب میں تقلید کی تردید اور مذمت بھی بیان کی گئی ہے آپ کو تعجب ہوتا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے؟ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک عام آدمی کا کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا اور اس عالم کے علم سے فائدہ حاصل کرنا اسے ان علماء نے تقلید کا نام دیا ہے ورنہ اصطلاح شریعت میں اس کو عالم سے سوال کرنا کہا جاتا ہے یعنی  معرفة حکم اللہ فی المسئلة۔ یعنی اللہ کا حکم معلوم کرنا اس مسئلہ میں۔ تو اس سے مراد مروجہ تقلید اصطلاحی نہیں ہے اس لیئے کہ سوال پوچھنا تقلید نہیں کہلاتا ورنہ پھر تو نعوزباللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود کے مقلد قرار پائیں گے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے کہ: فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ  اگر تو اس (کتاب) کے بارے میں ذرا بھی شک میں مبتلا ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری ہے تو ان لوگوں سے دریافت کرلے جو تجھ سے پہلے (اللہ کی) کتاب پڑھ رہے ہیں (یونس:۹۴)  اس کی مزید تحقیق اعلام الموقعین ۲۳۴/۲ میں دیکھیں۔2- اس سے پہلے آپ ملاحضہ کر چکے ہیں کہ تقلید جہالت اور بدعت ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر کیوں اتنے بڑے بڑے علماء تقلید کیا کرتے تھے؟  تو اس کا جواب یہ ہے کہ امت میں دو قسم کے علماء گزرے ہیں۔ ایک تو متعصبین اور کسالٰی جنہیں اللہ نے پوری ہدایت نصیب نہیں کی اس کی وجہ ان کی اپنی بدبختی تھی لہذا انہیں مثال میں ذکر نہ کیا جائے۔  دوسرے مشہور و معروف علماء جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلدین نہیں تھے بلکہ ان کی رائے امام صاحب کی رائے اور ان کے اجتہاد کے موافق تھی اسے موافقة الرائے والاجتہاد کہا جاتا ہے نہ کہ تقلید۔  اسی طرح جن حق پرست علماء کرام کا اجتہاد امام شافعی کے اجتہاد کے موافق ہوا انہیں لوگ شوافع کہنے لگے حالانکہ وہ امام شافعی کے مقلد نہیں تھے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان علماء کرام نے بہت سے مسائل میں ان آئمہ کی مخالفت بھی کی ہے جیسا کہ امام ابو یوسف ، امام محمد، امام عبدالحی ، امام ابن ہمام ،امام طحاوی، امام رازی وغیرہ۔
یقین کے لیئے درج زیل عبارتوں کا بغور مطالعہ کیجیے۔ قال عبد الئحی فی النافع الکبیر ۵۶ و لست ممن یختار التقلید البحت لا یترک قول الفقھاء و ان خالف الادلة الشرعیة ولا ممن یطعن علیھم و یھجر الفقھ بالکلیة۔  علامہ عبدالحی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نہ تو ان مقلدین میں سے ہوں جو ادلہ شرعیہ یعنی قرآن و سنت پر آئمہ کے اقوال کو مقدم کرتے ہیں اور مخالف دلائل شرعیہ ہونے کے باوجود چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور کلی طور پر ان کے مسائل چھوڑتا بھی نہیں ہوں۔
 اسی طرح تقریرات رافعی علی حاشیہ ابن عابدین ۱۰۹/۱ اور النافع الکبیر ۷،۸ میں لکھتے ہیں: لیت شعری ما معنی قولھم ان ابا یوسف و محمداً و زفر و ان خالفوا ابا حنیفة فی بعض المسائل لکنھم یقلدونھ فی الاصول ما الذی یریدون بھ ۔۔۔الخ  تو دیکھئے یہ علماء مقلد نہیں تھے بلکہ ان کی رائے اور اجتھاد امام ابو حنیفہ کے اجتھادات و آراء کے موافق ہوئے تھے۔  اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ المجموع شرح المہذب ۴۳/۱ میں فرماتے ہیں: و للمفتی المنتسب اربعة احوال احدھا لا یکون مقلداً لا مامھ لا فی المذھب ولا فی دلیلھ  اس عبارت کو غور سے پڑھئے اور تقلید کی بیماری سے نجات خلاصی پائیے اور اللہ کی توفیق سے سمجھنے کے بعد کسی عالم محقق کو مقلد مت کہیں۔  اسی طرح شاہ ولی اللہ عقد الجید میں فرماتے ہیں: و فی الانوار ایضاً: المنتسبون الی مذھب الشافعی و ابی حنیفة و مالک و احمد اصناف احدھا العوام والثانی البالغون الی رتبة الاجتھاد و المجتھد لا یقلد مجتھداً و انما ینتسبون الیھ لجریھم علی طریقتھ فی الاجتھاد و استعمال الادلة و ترتیب بعضھا علی بعض  شاہ صاحب کے جملہ کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ اور دیگر آئمہ کی طرف جن کو منسوب کیا گیا ہے ان میں بعض عوام اور بعض درجہ اجتہاد میں ہیں تو ان علماء کا طرز یعنی مسائل کو کتاب و سنت سے لینا ان ائمہ کے طریقہ پر تھا نہ کہ وہ ان کے مقلد تھے کیونکہ عالم مجتھد مقلد نہیں ہوتا۔  اسی طرح شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبد العزیز سب نے تقلید کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے رفع الیدین اور دیگر بہت سے مسائل میں مذہب حنفی کی مخالفت کی ہے۔ دیکھئے حجة اللہ البالغة ۲۰۹/۱  اس کے علاوہ شاہ عبدالعزیز نے فاتحہ خلف الامام میں مذہب امام شافعی کو ترجیح دی ہے دیکھئے تنقید سدید۔ یہ بھی یاد رہے کہ نہ تو امام قرطبی اور امام قاضی عیاض مالکی تھے اور نہ ہی امام غزالی، ابن جریر، ابن قیم اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ مقلد تھے۔ دیکھئے اعلام الموقعین ۲۴۱/۲ التعلیقات السنیة لعبد الحی ۳۱  اسی طرح تاریخ اھل حدیث میں احمد بن محمد الدھلوی المتوفی ۱۳۵۲ ھ لکھتے ہیں: " علامہ ابن دقیق العید، امام غزالی ، ملا علی قاری ، منصور بن محمد، عبد القادر جیلانی اور دیگر مشہور وغیرہ مشہور علماء مقلدین نہیں تھے۔ (تاریخ اہلحدیث ۵۳)  اسی طرح الفوائد البہیة ص ۱۱۶ میں ہے کہ عصام بن یوسف رحمہ اللہ نماز میں رفع یدین کرتے تھے باوجود اسکے کہ وہ مذہب حنفی کی طرف منسوب تھے۔ اسی طرح دیگر اہل التحقیق علماء کرام بھی مقلدین نہیں تھے تو قارئین محترم: علماء کرام پر جاہل ہونے کا فتوی یا گمان نہ کیا جائے وہ مقلدین کی طرح بصیرت سے خالی نہیں تھے۔
ماخوز من حقیقة التقلید و اقسام المقلدین
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...