Monday 7 November 2016

اہل علم کی نظر میں تقلید کی تعریف


*اہل علم کی نظر میں تقلید کی تعریف*

(جمع ومرتب:عمران شہزاد تارڑ)

*تقلید کا لغوی معنی!لغت کی مشہور کتاب (المعجم الوسیط) میں لکھا ہوا ہے کہ؛و(قلد) فلانا؛ اتبعہ فیما یقول او یفعل من غیر حجہ ولا دلیل؛اور فلاں کی تقلید کی؛بغیر حجت اور دلیل کے اس کے قول یا فعل کی اتباع کی) صفحہ ٧٥٤ جلد ١ مطبوعہ دارالدعوہ موسسہ ثقافیہ استنبول، ترکی-
*دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب (القاموس الوحید) میں لکھا ہوا ہے کہ؛قلد۔۔۔فلانا؛ تقلید کرنا، بلا دلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کرکے کسی کے پیچھے چلنا۔) صفحہ ١٣٤٦ مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور، پاکستان-التقلید؛ بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی (٢) نقل (٣) سپردگی۔(القاموس الوحید صفحہ ١٣٤٦ ب(مصباح اللغات میں لکھا ہوا ہے کہوقلد فی کذا؛ اس نے اس کی فلاں بات میں بغیر غور فکر کے پیروی کی (صفحہ ٧٠١)-
*عیسائیوں کی المنجد میں ہے کہ؛قلدہ فی کذا کسی معاملے میں بلا غوروفکر کسی کی پیروی کرنا(المنجد، عربی اردو صفحہ ٣١ ب مطبوعہ ؛ دارالاشاعت کراچی)-
*حسن اللغات (جامع) فارسی اردو میں لکھا ہوا ہے کہ (٤) بے دلیل کسی کی پیروی کرنا(صفحہ ٢١٦)۔
*جامع اللغات اردو میں ہے کہ؛تقلید؛ پیروی کرنا، بقدم چلنا، بغیر تحقیق کے کسی کی پیروی کرنا(١٦٦ ب مطبوعہ؛ دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی نمبر١)-
تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پٹہ" کہلاتا ہے۔
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنی ہار پہننے کے ہیں؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنی میں استعمال ہوا ہے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔ (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام) ترجمہ:انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا۔
*قاضی محمدعلی لکھتے ہیں:"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔(کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)ترجمہ: تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول و فعل میں دلیل طلب کیئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
*اصطلاح میں تقلید کے معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے قول پر، اسکی دلیل معلوم کیے بغیر عمل کرے "المعجم الوسیط، الاحکام فی اصول الاحکام ص 835"
*تقلید کا اصتلاحی معنی؛!حنفیوں کی معتبر کتاب (مسلم الثبوت) میں لکھا ہوا ہے کہ؛التقلید! العمل بقول الغیر میں غیر حجہ کاخذ العامی والمجتہد من مثلہ، فالر جوع الی النبی علیہ الصلوہ والسلام او الی الاجماع ان العامی الی المفتی و القاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتہد، قال الامام وعلیہ معظم الاصولبین ) الخ۔تقلید! نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کے علاوہ )غیر(یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کا قول لے لے پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے کیونکہ اس نص(دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے اور امام (امام الحرمین؛ من شافعیہ) نے کہا؛ اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے عام علماء (متفق) ہیں۔الخ(مسلم الثبوت صفحہ ٢٨٩ طبع١٣١٦ھ فواتح الرحموت جلد٢ صفحہ٤٠٠)۔
*حنفیوں کی معتبر کتاب (فواتح الرحموت) میں لکھا ہوا ہے کہفصل؛ التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجہ) متعلق بالعمل والمراد بالحجہ حجہ من الحجج الاربع والا فقول المجتہد دلیلہ و حجہ (کاخذالعامی) من المجتہد(و) اخذ (المجتہد من مثلہ فالر جوع الی النبی علیہ) وآلہ واصحاب (الصلوہ والسلام اور الی اجماع لیس منہ) فانہ رجوع الی الدلیل (وکذا) رجوع (العامی الی المفتی والقاضی الی العدول) لیس ھذا الرجوع نفسہ تقلیدا وان کان العمل بما اخذوا بعد تقیدا (لایجاب النص ذلک علیھما) فھوعمل بحجہ لابقول الغیر فقط (لکن العرف) دل (علی ان العامی مقلد للمجتہد) بالرجوع الیہ (قال الامام) امام الحرمین (وعلیہ معظم الاصولین) وھوا المسشتھر المعتمد علیہ۔ الخ(فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت فی اصول الفقہ جلد ٢ ؛ صفحہ ٤٠٠)۔
*ابن ھمام حنفی (متوفی ٨٦١ھ نے لکھا ہے کہ؛مسالہ! التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجہ منھا فلیس الرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والاجماع منہ۔۔مسئلہ! تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے (تحریر ابن ھمام فی علم الاصول جلد ٣ صفحہ٤٥٣)۔۔۔۔اس کی تشریح کرتے ہوئے ابن امیر الحاج (حنفی متوفی ٨٧٩ھ )نے لکھا ہے کہ!)مسالہ! التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج) الاربع الشرعیہ (بلاحجہ منھا فلیس الرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والاجماع منہ) ای من التقلید علی ھذا لان کلامنھا حجہ شرعیہ من الحجج الاربع، وکذا لیس منہ علی ھذا عمل العامی بقول المفتی و عمل القاضی بقول العدول لان کلا منھما وان لم یکن احدی الحجج فلیس العمل بہ بلا حجہ شرعیہ لا یجاب النص اخذ العامی بقول المفتی واخذ القاضی بقول العدل؛(کتاب التقریر والتحبیر فی علم الاصول جلد ٣ صفحہ ٤٥٣-٤٥٤)۔
*قاضی متوفی اعلی تھانوی حنفی (متوفی ١١٩١ھ ) نے لکھا ہے کہ؛التقلید؛ الثانی العمل بقول الغیر من غیر حجہ و ارید بالقول مایعم الفعل و التقریر تغلیبا ولذا قیل فی نعض شروح الحسامی التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول اور یفعل معتقدا للحقیہ من غیر نظر الی الدلیل کان ھذا المتبع جعل قول الغیر او فعلہ قلادہ فی عنقہ من غیر مطالبہ دلیل کاخذ العامی والمجتہد بقول مثلہ ای کاخذ العامی بقول العامی واخذ المجتہد بقول المجتہد وعلی ھذا فلایکون الرجوع الی الرسول علیہ الصلوہ والسلام تقلید الہ و کذا الی الاجماع و کذا رجوع العامی الی المفتی ای الی المجتہد و کذا رجوع القاضی الی العدول فی شھادتھم لقیام الحجہ فیھا فقول الرسول بالمعجزہ والاجماع بما تقرر من حجتہ و قول الشاھد والمفتی بالاجماع ۔۔۔ الخ (کشاف اصلاحات الفنون جلد ٢ صفحہ ١١٧٨)
*علی بن محمد بن علی الجرجانی حنفی ( متوفی ٨١٦ھ ) نے کہا؛۔۔) التقلید( عبارہ عن قبول قول الغیر بلا حجہ ولا دلیل۔۔۔۔تقلید عبارت ہے (رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر کے قول کو بغیر حجت و بغیر دلیل کے قبول کرنا(کتاب التعریفات صفحہ ٢٩)-
*محمد بن عبدالرحمن عیدالمحلاوی الحنفی نے کہا؛التقلید۔وفی الاصلاح ھو العمل بقول الغیر من غیر حجہ من الحجج الاربع فیخرج العمل بقول الرسول صلی اللہ علیہ وسلم والعمل بالاجماع لان کلا منھما حجہ و خرج ایضا رجوع القاضی الی شھادہ العدول الان الدلیل علیہ مافی الکتاب و السنہ من الامر بالشھادہ والعمل بھا وقد وقع الاجماع علی ذلک۔ (تسھل الوصول الی علم الاصول صفحہ ٣٢٥)
*محمد عبیداللہ الاسعدی نے کہا۔۔۔تقلید (الف) تعریف١۔ لغوی؛ گلے میں کسی چیز کا ڈالنا٢۔ اصلاحی؛ کسی کی بات کو بے دلیل مان لینا۔تقلید کی اصل حقیقت یہی ہے لیکن فقہاء کے نزدیک اس کا مفہوم (کسی مجتہد کے تمام یا اکثر اصول و قواعد یا تمام یا اکثر جزئیات کا اپنے آپ کو پابند بنالینا ہے (اصول الفقہ صفحہ ٢٦٧، اس کتاب پر محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے تقریظ لکھی ہے)۔۔۔قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے۔اور تسلیم القبول بلادلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بلا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے-
(غیر مقلد سے چند معروضات صفحہ ١ عرض نمبر ١ مطبوعہ جمعیت اشاعت التوحید السنہ موضع حمید نزد حضروضلع اٹک)
*مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہےکہ؛کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے علماء نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہوگیا۔ کیونکہ وہ تقلید نہیں ہے بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذ کرنا ہے مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے (آپ فتویٰ کسیے دیں؟۔صفحہ٧٦ مطبوعہ؛ مکتبہ نعمانیہ ٣٦ جی لانڈھی، کراچی نمبر ٣٠)۔
*اشرف علی تھانوی دیوبندی کے ملفوظات میں لکھا ہوا ہے کہ؛ایک صاحب نے عرض کیا کہ تقلید کی حقیقت کیا ہے اور تقلید کس کو کہتے ہیں؟۔ فرمایا تقلید کہتے ہیں اُمتی کا قول ماننا بلا دلیل عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟ فرمایا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے (الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، ملفوظات حکیم الامت جلد٣ صفحہ١٥٩)۔
*سرفراز خان صفدر دیوبندی ککھڑوی لکھتے ہیں؛اس عبارت سے واضع ہوا کہ اصلاحی طور پر تقلید کا یہ مطلب ہے کہ جس کا قول حجت نہیں اس کے قول پر عمل کرنا مثلا عامی کا عامی کے قول اور مجتہد کا مجتہد کے قول کو لینا جو حجت نہیں ہے بخلاف اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف رجوع کرنا تقلید ہے کیونکہ آپ کا فرمان تو حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرح رجوع کرنا فاسئلوا اھل الذکر الایہ کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا ممن ترضون من الشھداء اور یحکم بہ ذواعدل منکم کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ شرعا ان کا قول حجت ہے (الکلام المفید فی اثبات التقلید صفحہ ٣٥-٣٦ طبع صفر المظفر ١٤١٣ھ)۔
*مفتی احمد یار بریلوی لکھتے ہیں؛مسلم الثبوت میں ہے التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجہ۔۔ ترجمہ! وہ ہی جو اوپر بیان ہوا اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا ہر قول و فعل دلیل شرعی ہے تقلید میں ہوتا ہے دلیل شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں نہ کہ مقلد اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں ان کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالموں کی بات یا ان کے کام کو اپنے لئے حجت نہیں بناتا بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات کو مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے (جاء الحق جلد ١ صفحہ ١٦ طبع القدیم)۔
*تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے یہ مراد ہے کہ کسی امام کے قول کو کتاب و سنت کے موافق پاکر اور دلائل شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کر لینا۔(شرح صحیح مسلم جلد؛٥، صفحہ ٦٣ مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور)۔
*سعدی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ؛شیخ ابواسحاق نے کہا بلادلیل قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا تقلید ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی طرف رجوع کرنا یا مجتہدین کے اجماع کی طرف رجوع کرنا یا عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا یا قاضی کا گواہوں کے قول پر فیصلہ کرنا تقلید ہے (شرح مسلم جلد ٣ صفحہ ٣٢٩)۔
*سعیدی صاحب فرماتے ہیں؛امام غزالی نے لکھا ہے کہ التقلید ھو قبول بلا حجہ تقلید کسی قول کو بلا دلیل قبول کرنا ہے (شرح مسلم جلد ٣ صفحہ ٣٣٠)۔۔۔سعدی صاحب لکھتے ہیں تقلید کی جس قدر تعریفات ذکر کی گئی ہیں ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ دلیل جانے بغیر کسی کے قول پر عمل کرنا تقلید ہے (ایضا صفحہ ٣٣٠)۔
*سرفراز خان صفدر دیوبندی فرماتے ہیں؛اور یہ طے شدہ بات ہے کہ اقتداءواتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے(المنھاج الواضح یعنی راہ سنت صفحہ ٣٥ طبع نہم جمادی الثانی ١٣٩٥ھ جون ١٩٧٥ء)۔تنبیہ؛ اس طے شدہ بات کے خلاف سرفراز خان صاحب نے خود ہی لکھا ہے کہ؛تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے (الکلام المفید فی اثبات التقلید صفحہ ٣٢)۔معلوم ہوا کہ وادی تناقض و تعارض میں سرفراز خان صاحب غوطہ زن ہیں

خلاصہ؛ حنفیوں و دیوبندیوں و بریلویوں کی ان تعریفات و تشریحات سے ثابت ہوا کہ ١۔ آنکھیں بند کر کے بے سوچے سمجھے بغیر دلیل کے کیس غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے٢۔ قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔٣۔ تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے-
*قال عبداللہ المعتبر ؛لا فرق بین بھیمۃتنقاد وانسان یقلد ،ترجمہ:عبداللہ بن معتبر فرماتے ہیں کہ مقلد انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ۔
(اعلام الموقعین مطبوعہ شراف المطالعہ ،جق ،ص127)
*ھذا کلھن آفۃ التقلید و عدم رجو عھم الی مدارک الحدیث،عینی شرح ہدایہ میں ہے "اور یہ ساری غلطیاں تقلید کی آفت سے ہیں اور ان لوگوں کی کتب حدیث کی طرف رجوع نہ کرنے سے(الارشاد مطبوعہ انصاری ص166)
*شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نھ فرمایا:علماء رابہ پیغمبری رسانیدہ شود بلکہ بخدائے ،ترجمہ:مقلدین نے علماء کو پیغمبر کا درجہ دے دیا بلکہ خدا کا۔(فتاویٰ عزیزیہ ج 1 ص176)
*شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا:التقلید حرام ولا یحل لا حدان یا خذ قول احد غیر رسول اللہ بلا برھان،تقلید حرام ہے اور کسی کو حلال نہیں کہ سوائے رسولؐ کے کسی کے قول کو بلا دلیل اخذ کرے، (عقد الجید مطبوعہ صدیقی لاہور ،ص 39)
*علامہ زمخشری نے مثل لکھی ،ان کان للضلال ام فالتقلیدامہ فلا جرم ان الجاھل یقلدہ،ترجمہ؛اگر گمراہی کی کوئی ماں ہے تو تقلید ہی اس کی ماں ہے یقیناًجاہل ہی تقلید کرتا ہے،(اطواق الذھب مطبوعہ مصر،ص47)
*علامہ ابن حزم نے فرمایا:واھرب عن التقلید فھو ضلالۃان المقلدفی سبیل الھالک،ترجمہ:تقلیدسے بھاگ کیوں کہ وہ گمراہی ہے بے شک مقلد ہلاکت کے راستے میں ہے،(معیار الحق مطبوعہ رحمانی  ص 252)
*خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی ٤٦٣ھ لکھتے ہیں؛وجملتہ ان التقلید ھو قبول القول من غیر دلیل؛بغیر دلیل کے قول کو قبول کرنے کو تقلید کہتے ہیں (الفقہ والمتفقہ جلد ٢ صفحہ ٦٦)
*حافظ ابن عبدالبر (متوفی) لکھتے ہیں کہ؛وقال ابو عبداللہ بن کویز منداد البصری المالکی؛ التقلید معناہ فی الشرع الرجوع الی قول لا حجہ لقائلہ علیہ و ذلک ممنوع منہ فی الشریعہ والاتباع ماثبت علیہ حجہ شریعت میں تقلید کا معنی یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کرنا جس کے قائل کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ شریعت میں ممنوع ہے جو (بات) دلیل سے ثابت ہو اسے اتباع کہتے ہیں (جامع بیان العلم و فضلہ جلد ٢ صفحہ ١١٧ دوسرا نسخہ جلد٢ صفحہ ١٤٣، و اعلام المو قعین لابن القیم جلد ٢ صفحہ ١٩٧، الرد علی من اخلد الی الارض وجھل ان الاجتہاد فی کل عصر فرض للسیوطی صفحہ ١٢٣( *تنبیہ؛ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے الدیباج المذہب سے ابن خویز منداد (محمد بن احمد بن عبداللہ ، متوفی ٣٩٠ھ تقریبا جرح نقل کی ہے (الکام المفید صفحہ ٢٣-٢٤(عرض ہے کہ ابن خویز منداداس قول میں منفرد نہیں ہے بلکہ حافظ ابن عبدالبر، حافظ ابن القیم، اور علامہ سیوطی اس کے موافق ہیں وہ اس کے قول کو بغیر کسی جرح کے نقل کرتے ہیں بلکہ سرفرازخان صفدر اپنے ایک قول میں ابن کویز منداد کے موافق ہیں۔ دیکھئے راہ راست (صفحہ ٣٥)۔دوسرے یہ کہ ابن خویزمذکور پر شدید جرح نہیں ہے بلکہ (ولم یکن بالجید النظر ولا قوی الفقہ) وغیر الفاظ ہیں دیکھئے الدیباج المذہب (صفحہ ٣٦٣ ت ٤٩١) ولسان المیزان (٥\٢٩١)۔۔ ابو الولید الباجی اور ابن عبدالبر کا طعن بھی صریح نہیں ہے دیکھئے تاریخ الاسلام للذھبی (جلد ٢٧ صفحہ ٢١٧) والوافی بالوفیات للصفدی (٢\٣٩ ت ٣٣٩)۔۔۔ابن خویز منداد کے حالات درج ذیل کتابوں میں بھی ہیں۔طبقات الفقھاء للشیرازی ( صفحہ ١٦٨) وترتیب المدارک للقاضی عیاض (٤\٦٠٦) و معجم المولفین (٣\٧٥) *حنفی و بریلوی و دیوبندی حضرات ایسے لوگوں کے اقوال پیش کرتے ہیں جن کی عدالت و ذات پر بعض محدثین کرام کی شدید جرحین ہیں مثلا۔۔۔١۔ قاضی ابو یوسف (٢)۔محمد بن الحسن الشیبانی (٣) حسن بن زیاد اللولوی (٤)۔ عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی وغیر ہم دیکھئے میزان الاعتدال ولسان المیزان وغیرہ۔
* جلال الدین محمد بن احمد المحلی الشافعی (متوفی ٨٦٤ھ) نے کہا۔۔۔والتقلید؛ قبول قول القائل بلاحجہ، فعلی ھذا قبول النبی (لا) یسمی تقلیدا)اور تقلید یہ ہے کہ کسی (غیر بنی) قائل کے قول کو بغیر حجت کے تسلیم کیا جائے پس اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تقلید نہیں کہلاتا، ) شرح الورقات فی علم اصول فقہ صفحہ ١٤)۔۔۔ابن الحاجب الخوی المالکی نے (متوفی ٦٤٦ھ) نے کہا؛فالتقلید العمل بقول غیرک من غیر حجہ ولیس الرجوع الی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم والی الاجماع والعامی الی المفتی والقاضی الی العدول بتقلید بالقیام الحجہ ولا مشاحہ فی التسمیہ۔۔۔پس تقلید، تیرے غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل (کانام) ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور اجماع کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے (اور اسی طرح) عامی کا مفتی کی طرف اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے کیونکہ اس پر دلیل قائم ہے اور تسمیہ (نام رکھنے) میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔۔۔(منتھی الوصول والامل فی علمی الاصول والجدل صفحہ٢١٨-٢١٩)۔
*علی بن محمد الآمدی الشافعی (متوفی ٦٣١ھ نے کہا۔۔۔اما(التقلید) فعبارۃ عن العمل بقول من غیر حجۃ ملزمہ۔۔۔ فالر جوع الی قول النبی علیہ السلام والی اجمع علیہ اھل العصر من المجتہدین ورجوع العامی الی قول الفتی و کذلک عمل القاضی بقول العدول لایکون تقلیدا۔۔۔تقلید عبارت ہے غیر کے قول پر بغیر حجت لازمہ کے عمل کرنا پس نبی علیہ السلام اور مجتہدین عصر کے اجماع کی طرف رجوع، عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔۔۔(الاحکام فی اصول الاحکام جلد ٤ صفحہ ٢٢٧)۔
*ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (متوفی ٥٠٥ھ) نے کہا۔۔۔)التقلید ھو قبول قول بلاحجہ) تقلید، بلا دلیل کسی قول کو قبول کرنے کو کہتے ہیں (المستصفی من علم الاصول جلد ٢ صفحہ ٣٧٨)۔
*حافظ ابن القیم نے کہا؛)واما بدون الدلیل فانما ھو تقلید)۔اور جو بغیر دلیل کے ہو وہ تقلید (کہلاتا) ہے۔( اعلام الموقعین جلد ١ صفحہ ٧)۔
*عبداللہ بن احمد بن قدامہ الحنبلی نے کہا؛۔۔۔وھو فی عرف الفقھاء قبول قول الغیر من غیر حجۃ اخذا من ھذا المعنی فلایسمی الاخذ بقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم والاجماع تقلیدا۔۔۔اور یہ تقلید عرف فقہاء میں غیر کا قول بغیر حجت کے قبول کرنا ہے اس معنی کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور اجماع تسلیم کرنا تقلید نہیں کہلاتا (روضۃ الناظر وجنۃ المناظر جلد ٢ صفحہ ٤٥٠)۔
*ابن حزم الاندلسی الظاھری (متوفی ٤٥٦ھ) نے کہا؛لان التقلید علی الحقیقہ انما ھو قبول ما قالہ قائل دون النبی صلی اللہ علیہ وسلم بغیر برھان فھذا ھو الذی اجمعت الامۃ علی تسمیۃ تقلیدا وقام البرھان علی بطلانہ۔حقیقت میں تقلید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرنے کو کہتے ہیں یہ وہ تعریف ہے جس پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہوا ہے کہ تقلید اسے کہتے ہیں۔ اور اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے۔۔۔(الاحکام فی الاصول الاحکام جلد٦ صفحہ ٢٦٩)۔ 
حافظ ابن حجر العسقلانی (متوفی ٨٥٢ھ ) نے کہا؛۔وقد نفصل بعض الامۃ عن ذلک بان المراد بالتقلید اخذ قول الغیر بغیر حجۃ ومن قامت علیہ حجۃ یثبوت النبوۃ حتی حصل لہ القطع بھا، فمھما سمعہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مقطرعا عندہ بصدقہ فاذا اعتقدہ لم یکن مقلدا لانہ لم یاخذ بقول غیر بغیر حجۃ وھذا مستذالسلف قاطبۃ فی الاخذ بماثیت عندھم من آیات القرآن و احادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یتعلق بھذا الباب فامنو بالمحکم من ذلک وفوضوا امر المتشابہ منہ الی ربھم۔۔۔بعض اماموں نے اس سے (اس مسئلے کو) الگ کیا ہے کیونکہ تقلید سے مراد یہ ہے کہ غیر کے قول کو بغیر حجت (دلیل) کے لیا جائے اور اس پر نبوت کے ساتھ حجت قائم ہو حتی کہ اسے یقین حاصل ہو جائے پس اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا وہ اس کے نزدیک یقینا سچا ہے پس اگر وہ عقیدہ رکھے تو مقلد نہیں ہے کیونکہ اس نے غیر کے قول کو بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کیا اور تمام سلف (صالحین) کایہی پر اعتماد طریقہ کار ہے کہ اس باب میں قرآن و حدیث میں سے جو معلوم ہے اسے لیا جائے پس وہ محکمات پر ایمان لائے اور متشابہات کامعاملہ اپنے رب کے سبرد کیا(کہ وہی بہتر جانتا ہے)۔۔ (فتح الباری جلد ١٣ صفحہ ٣٥١ تحت حوالہ ٧٣٧٢)۔
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں کہ؛والتقلید لیس بعلم باتفاق اھل العلم۔اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید علم نہیں ہے۔(اعلام الموقعین جلد ٢ صفحہ ١٨٨)۔
خلاصہ! حنفیوں و دیوبندیوں و بریلویوں و شافعوں و مالکیوں و حنبلیوں و طاہریوں و شارحین حدیث کی ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ تقلید کا مطلب یہ ہے کہ بغیر حجت و بغیر دلیل والی بات کو (بغیر سوچے سمجھے، اندھادھند) تسلیم کرنا۔
ایک چالاکی:جدید دور میں دیوبندی و بریلوی وغیرہ حضرات یہ چالاکی کرتے ہیں کہ تقلید کا معنی ہی بدل دیتے ہیں تاکہ عوام الناش کو تقلید کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوجائے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔۔١۔ محمد اسماعیل سنبھلی نے کہا! کسی شخص کا کسی ذی علم بزرگ اور مقتدائے دین کے قول و فعل کو محض حسن ظن اور اعتماد کی بناء پر شریعت کا حکم سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور عمل کرنے کے لئے اس مجتہد پر اعتماد کی بنیاد پر دلیل کا انتظار نہ کرنا اور دلیل معلوم ہونے تک عمل کو ملتوی نہ کرنا اصلاح میں تقلید کہلاتا ہے۔(تقلید آئمہ اور مقام ابو حنیفہ صفحہ٢٤-٢٥)۔
٢۔ محمد زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی نے کہا کیونکہ تقلید کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ فروعی مسائل فقیہہ میں غیر مجتہد کا مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر اس مجتہد کے پاس دلیل ہے (شریعت و طریقت کا بلازم صفحہ ٦٥)۔
 ٣۔ محمد تقی عثمانی دیوبندی نے کہا۔ چنانچہ علام ابن ھمام اور علامہ ابن نجیم (تقلید) کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجۃ منھا (تیسیر التحریر الامیر بادشاہ البخاری جلد ٤ صفحہ ٢٢٤ مطبوعہ مصر ١٣٥١ھ و فتح الغفار لابن نجیم جلد ٢ مطبوعہ مصر ١٤١٣)-
اس ترجمہ اور حوالے میں دو چالاکیاں کی گئی ہیں۔١۔ اور بلاحجۃ (بغیر دلیل کے) کا ترجمہ دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کر دیا گیا ہے اصل عبارت میں مطالبے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔٢۔ باقی عبارت چھپالی گئی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع عامی کا مفتی (عالم) سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔ماسٹر امین اکاڑوی دیوبندی نے کہا!حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلائے گا اور اس دلیل کی تحقیق نہ کرنا (الاقتصاد صفحہ ٥)۔تقلید کی اس تعریف کے مطابق راوی کی روایت کو قبول کرنا تقلید الروایۃ ہے (تحقیق مسئلہ تقلید صفحہ ٣ مجموعہ رسائل جلد ١ صفحہ ١٩ مطبع اکتوبر ١٣٩١)۔
محمد ناظم علی خان قادری بریلوی نے کہا:قرآن کی آیات مجمل و مشکل بھی ہیں اس میں کچھ آیات قضیہ ہیں۔ بعض آیات بعض سے متعارض بھی ہیں صورت تطبیق اور طریقہ اندفاع اسے معلوم اسے تردد و اشتباہ پیدا ہورہا ہے تو ایسی صورت میں انسان محض اپنے ذہن وفکر اور عقل خالص ہی سے کام نہ لے بلکہ کسی متجر عالم و مجتہد کی اقتداء اور پیروی کرے اس کی طرف راہ سبیل تلاش کرے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے یہ ہے تقلید شخصی جو عہد رسالت اور دور صحابہ سے ہے۔(تحفظ عقائد اہل سنت صفحہ ٧٠٦ مطبوعہ فرید بک اسٹال ٣٨، اردو بازار لاہور)-
*سعید احمد پالن پوری دیوبندی لکھتے ہیں کہ؛علماء سے مسائل پوچھنا پھر اس کی پیروی کرنا ہی تقلید ہے (تسھیل اولہ کاملہ صفحہ ٨٢ مطبوعہ؛ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی-١)۔
*تقلید کی اس من گھڑت اور بے حوالہ تعریف سے معلوم ہوا کہ دیوبندی و بریلوی عوام جب اپنے عالم (مولوی صاحب) سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس عالم کے مقلد بن جاتے ہیں سعید احمد صاحب سے مسئلہ پوچھنے والے حنفی نہیں رہتے بلکہ سعید احمد (یعنی سعید احمد کے مقلدین) بن جاتے ہیں؟؟؟۔یہ سب تعریفات خانہ ساز ہیں جن کا ثبوت علماء متقدمین سے نہیں ملتا ان تعریفات کو تحریفات کہنا صحیح ہے۔ تقلید کا صرف یہی مفہوم ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی غیر کی بے دلیل بات کو حجت مان لینا اس تعریف پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔
تنبیہ: لغت میں تقلید کے دیگر معنی بھی ہیں علماء ان کے لغوی معنوں کو بعض اوقات استعمال بھی کیا ہے مثلا؛ ١) ابو جعفر الطحاوی، حدیث ماننے کو تقلید کہتے ہیں مثلا وہ فرماتے ہیں)فذھب قوم الی ھذا الحدیث فقلدوہ۔پس ایک قوم اس (مرفوع) حدیث کی طرف گئی ہے پس انہوں نے اس (حدیث) کی تقلید کی ہے (شرح معائی الآثار ٣-٤ کتاب البیوع باب بیع الشعیر بالحنطۃ متفاضلا)۔گزشتہ صفحات پر حنفیوں و مالکیوں و شافعیوں، حنبلیوں کی کتابوں سے مفصل نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات (یعنی حدیث) ماننا تقلید نہیں ہے۔ لہذا امام طحاوی کا حدیث پر تقلید کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ حدیثیں مانتے تھے تو کیا اب یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امام ابو حنیفہ مجتہد نہیں بلکہ مقلد تھے؟؟؟۔جب وہ حدیثیں مان کر مقلد نہیں بنتے تو دوسرا آدمی حدیث مان کر کس طرح مقلد ہوسکتا ہے؟؟؟۔٢۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ولا یقلد احد دون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔(مختصر المزنی، باب القضاء بحوالہ الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی صفحہ ١٣٨)۔۔۔یہاں پر تقلید کا لفظ مجاز استعمال کیا گیا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی شخص کی بات بلادلیل قبول نہیں کرنا چاہئے۔
*تقلید اور اتباع میں فرق:مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا  فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتائے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟
ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں،اگر یہ تقلید ہے تو پھر اس وقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :ولا تفنعو ابالتقلید ،فان ذلک عمی فی البصرۃ(میزان کبری للشعرانی  ج 1،ص10)تقلید پر بھروسہ مت کرو تقلید تو بصیرت کو اندھا کر دیتی ہے،مذکورہ عبارت میں اعمی  یعنی اندھا سے مراد آنکھوں کا اندھا نہیں بلکہ بصیرت کا اندھا ہے ۔
علامہ سبکی لکھتے ہیں:التقلید اخذ القول من غیر معرفۃ دلیلہ،ترجمہ:کسی کے قول کو اس کی دلیل جانے بغیر قبول کر لینا تقلید ہے(شرح جمع الجوامع ج 2،ص251)
علامہ بحر العلوم فرماتے ہیں :التقلید العمل بقول الغیر من  غیر حجۃ،ترجمہ:غیر نبی (امتی)کے قول پر دلیل عمل کرنا تقلید ہے(مسلم الثبوت مطبوعہ نول کشورص 624)
قال ابو عبداللہ بن خواز منداد البصری المالکی ،التقلید معناہ فی الشرع الرجوع الی قولہ لا حجۃ لقائلہ وذلک ممنوع منہ فی الشریعۃ والا تباع ما ثبت علیہ حجۃ ،ترجمہ:ابو عبداللہ بن خواز منداد مالکی فرماتے ہیں کہ تقلید کے شرعی معنی یہ ہیں کہ ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا جس کا قول حجت نہیں ہے،شریعت نے اس سے منع کیا ہے اور اتباع وہ ہے جو دلیل سے ثابت ہو۔معتنم الحصول میں فاضل قندھاری فرماتے ہیں:التقلید العمل بقول من لیس قولہ من الحجج الشرعیۃ بلا حجۃ ،فالر جوع الی النبی والی الا جماع لیس منہ،ترجمہ:تقلید اس شخص کے قول پر بلادلیل عمل کرنا ،جس کا قول شریعت میں حجت نہیں سو رسول اللہ ؐاور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں،(رد تقلید،حافظ جلال الدین القاسمی،فاضل دارالعلوم دیوبندایم اے میسور یونیورسٹی)
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی:دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینے اور اس پرعمل کرنے کے ہیں،
لغت کی ان تعریفات و تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ (دین میں) بغیر سوچے سمجھے آنکھیں بند کر کے، بغیر دلیل، بغیر حجت، بغیر غوروفکر کسی شخص کی (جو نبی نہیں ہے) پیروی کرنا تقلید کہلاتا ہے۔ لغت میں تقلید کے اور بھی معانی ہیں تاہم دین میں تقلید کا یہی مفہوم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا ہے-
اس کے علاوہ اہل علم کے بے شمار اقوال کتب میں موجود ہیں (جاری ہے...)
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...