Tuesday 29 November 2016

ماہ صفر اورنحوست و بد شگونی کی حقیقت

ماہ صفر اورنحوست و بد شگونی کی حقیقت
(حافظ اکبر علی سلفی)
الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ، اما بعد :ماہ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے ، اس ما ہ کی فضیلت کی بابت میرے علم کے مطابق کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات مروی ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو بے برکت اور برا سمجھا جائے اور کوئی حلال و پر مسرت کام کو انجام دینے سے رکا جائےیا روکا جائے۔زماہ صفر سے متعلق عرب جاہلیت کا عقیدہ:اس ماہ کے تعلق سے عرب جاہلیت کے یہاں دو غلط باتیں پائی جاتی تھیں۔(۱) اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہوگا ۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ إِنَّمَا النَّسِیءُ ُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ}(التوبۃ : ۳۷)’’مہینوں کو آگے پیچھے کردینا کفر میں زیادتی ہے ‘‘۔(۲) اس ماہ سے بدشگونی لیتے تھے اور اسے منحوس قرار دیتے تھے، جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’وَلَا طِیرَۃَوَلَا صَفَرَ‘‘(صحیح البخاری: ۵۷۵۷،وابوداؤد : ۳۹۱۱، واللفظ لہ )۔’’کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے ‘‘۔معلوم ہوا کہ ماہ صفر سے بدشگونی لینا اور اسے منحوس سمجھنا دور جاہلیت کے عرب کا عقیدہ تھا۔ز کیا کسی مسلمان کے لئے ماہ صفر وغیرہ سے بدشگونی لینا اور اسے منحوس سمجھنا جائزہے؟بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر سے بدشگونی لیتے ہیں اور اسے منحوس سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے ۔میں کہتا ہوں کہ یہ قول فاسد ہے کیونکہ ماہ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول کر اللہ کے رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کو ’’ فتح خیبر‘ ‘ سے نوازا تھا۔ دیکھیں: ( تجلیات نبوت : ص: ۲۷۹۔۲۸۸ودیگر کتب سیر)۔اس پر مزید یہ کہ ان کے دامن میں اپنے قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ’’ صحیح‘‘ اور ’’ معقول‘‘ دلیل نہیں ہے ۔دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اخیر میں رحمت کائنات ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ تو اس کی بابت عرض ہے کہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی دلیل نہیں ہےکیونکہ آپﷺ کا مزاج ماہ صفر کی وجہ سے نہیں بگڑا تھا بلکہ وہ اللہ کی مرضی تھی اور آپ اگر اس ماہ میں بیمار نہ ہوتے تو کسی اور ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ کی وفات کا سبب بنتا ۔ اور اگر ماہ صفر میں آپ کا بیمار ہونا ما ہ صفر کی نحوست کی دلیل ہوسکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجۂ اولیٰ منحوس قرار پائے گا کیونکہ آپ ﷺ کی وفات اسی ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے ۔ اور جب ماہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی وفات کی وجہ سے منحوس نہیں تو پھر ماہ صفر رسول اللہ ﷺ کے بیمار ہونے کی وجہ سے کیونکر منحوس قرار پائے گا ؟۔بعض حضرات اس ماہ میں شادی یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے ہیں اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اس ماہ میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تھا ۔اس کی بابت عرض ہے کہ یہ فکر بھی باطل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ماہ صفر ۷ ؁ھ میں شادی کی تھی اور یہ وہی مہینہ ہے جس میں ۱۵یا ۱۶یا ۱۸ صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ دیکھیں: ( تجلیات نبوت :ص: ۲۸۴۔۲۸۸)کیا فعل رسول ﷺ ان کے لئے نمونہ نہیں ہے؟ یہ اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ فعل رسول ﷺ کو پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے ایک نئی چیز ایجا دکرتے ہیں ۔ اللھم اھدھم وارحمھم۔اور بعض حضرات ماہ صفر سے نہیں بلکہ انسان یا بلی وغیرہ سے بدشگونی لیتے ہیں اور اسے منحوس سمجھتے ہیں ۔مثلاً: اگر بلی کسی بدشگونی لینے والے کے سامنے سے گزر جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ بس جس کام کے لئے جارہا تھا اب وہ کام نہیں ہوگا کیونکہ بلی نے راستہ کاٹ دیا ہے ۔ اس وجہ سے وہ کام کو انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان جب اس کاکوئی کام خراب ہوجاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے میں نے فلاں کا چہرہ دیکھا تھا ، وہ منحوس ہے ، یہ اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔راقم کہتا ہے کہ مذکورہ دونوں عمل کے ارتکاب سے انسان ’’شرک‘‘ کا مرتکب بن جاتا ہے۔دیکھئے : ( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی بتحقیق الہلالی :۱/ ۴۴ ۲ح :۲۹۳و اسنادہ حسن وحسنہ المحقق و سنن ابوداؤد: ۳۹۱۰والصحیحۃ :۱؍۷۹۱،ح:۴۲۹،وصححہ ابن حبان والترمذی و الالبانی)محترم قارئین : کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی بھی مہینے یا انسان یا جانور وغیرہ سے بدشگونی لے اور اسے منحوس سمجھے کیونکہ انسان کا کسی چیز سے بدشگونی لینا ،گویا اس چیز کو نافع وضار تصور کرنا ہے ۔ جبکہ نافع اور ضار فقط اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّۃَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوکَ بِشَیْء ٍ لَمْ یَنْفَعُوکَ إِلَّا بِشَیْء ٍ قَدْ کَتَبَہُ اللَّہُ لَکَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ یَضُرُّوکَ بِشَیْء ٍ لَمْ یَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَیْء ٍ قَدْ کَتَبَہُ اللَّہُ عَلَیْکَ‘‘۔(سنن الترمذی بتحقیق الالبانی : ۲۵۱۶، وصححہ الترمذی والالبانی )۔ ’’جان لو ! اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے ‘‘۔اور یہ بھی یاد رہے کہ کوئی بھی مصیبت انسان کو اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں چھو سکتی ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔دیکھیں : (التغابن : ۱۱)۔اس پر مزید یہ کہ کسی مسلمان کے لئے ایسے عقیدہ کو اپناجائز ہو سکتا ہے ،جس کی تردید نبی ﷺنے کی ہو ؟ ہر گز نہیں ۔زبدشگونی لینے کا انجام :ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اچھا شگون لے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ اچھا شگون لیتے تھے اور اسے پسند فرماتے تھے۔ دیکھئے:(صحیح بخاری: ۲۷۳۱،۵۷۵۶)۔ لیکن اگر کوئی بدشگونی لیتا ہے تو وہ شرک کا مرتکب ہوگاجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اَلطِّیَرۃُ شِرْکٌ‘‘۔(ابوداؤد بتحقیق الالبانی : ۳۹۱۰، وصححہ ابن حبان و الترمذی و الالبانی) ’’ بدشگونی شرک ہے ‘‘۔اس کے علاوہ اس حدیث کا بھی مصداق ہوگا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لَیسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْ تُطُیّرَ لَہٗ‘‘۔ (الصحیحۃ :۵؍۲۲۸،ح: ۲۱۹۵)۔ ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ،جو بد شگونی لے یا جس کے لئے بد شگونی لی جائے ‘‘۔ز بدشگونی نہ لینے کا عظیم فائدہ:ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے کہا : ’’ مجھے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے افق کی جانب دیکھیں ، میں نے دیکھا تو ایک سوادِ اعظم نظر آیا، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے۔ پھر صحابہ کرام کے پوچھنے پر کہ وہ کو ن لوگ ہونگے؟ آپ نے فرمایا : ’’ہُمُ الَّذِینَ لاَیَرقُونَ وَلاَ یَسْتَرْقُونَ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ، وَلاَ یَکْتَوُونَ، وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ‘‘۔(صحیح بخاری : ۵۷۰۵، صحیح مسلم : ۲۲۰)۔’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرتے ہیں، نہ کرواتے ہیں ، نہ بدشگونی لیتے ہیںاور نہ ہی داغ کر علاج کراتے ہیںبلکہ صرف اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔معلوم ہوا کہ بد شگونی نہ لینے والے حضرات ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے ۔ سبحان اللہ .زاگر کسی چیز کی وجہ سے دل میں بدشگونی پیدا ہو تو۔۔۔۔ایک انسان بدشگونی نہیں لینا چاہتاہے لیکن کسی چیز کی وجہ سے اس کے دل میں بدشگونی پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اس بدشگونی کی طرف دھیان نہ دے اور اس کی وجہ سے اپنے کام کو عملی جامہ پہنانے سے نہ رکے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُہُ أَحَدُکُمْ فِی نَفْسِہِ، فَلَا یَصُدَّنَّکُمْ ‘‘۔(صحیح مسلم:۵۳۷ )۔’’ بد شگونی ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے نفس میں محسوس کرتے ہیں لیکن یہ ( بد شگونی ) تم کو ( کسی کام کو انجام دینے سے ) نہ روکے ‘‘۔بلکہ بلا جھجھک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کر گزرئے اور جو کچھ اس کے دل میں ہوگا وہ اللہ پر توکل کی وجہ سے اللہ اس کو ختم کردے گا ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ‘‘(ابوداؤد بتحقیق الالبانی : ۳۹۱۰ ، والصحیحۃ:۱؍۷۹۱، ح: ۴۲۹،وصححہ ابن حبان والحاکم والترمذی والالبانی)۔’’ اور ہم میں سے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے ختم کردیتا ہے ‘‘۔لیکن یاد رہے کہ اگر کوئی بدشگونی کی وجہ سے اپنے کام کو انجام نہ دے ،تو ’’ شرک ‘‘ کا مرتکب ہوگا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ یہ دعاپڑھے۔’’ اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ‘‘۔ جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مَنْ أَرْجَعَتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہِ؛ فَقَدْ أَشْرَکَ ، قَالُوا: وَمَا کَفَّارَۃُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ یَقُولُ أَحَدُہُمُ: اللَّہُمَّ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ ‘‘ (عمل الیوم واللیل لابن السنی : ۱؍۴۴ ۲،ح :۲۹۳وصححہ الالبانی فی الصحیحۃ :۱۰۶۵وحسنہ شعیب فی تحقیق المسند للامام احمد :۱۱؍۶۲۳،ح:۷۰۴۵)۔’’ جس شخص کو بد شگونی اس کی حاجت ( کو پورا کرنے ) سے روک دے تو اس نے شرک کیا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کا کفارہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ یہ دعا پڑھ لے :’’ اے اللہ ! نہیں ہے کوئی بدشگونی مگر تیری ہی بدشگونی (تیرے ہی حکم سے ) اور تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ‘‘۔اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو بد شگونی سے کوسوں دور رکھے اور اچھے فال کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فا طمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...