Monday 7 November 2016

فقہی مذاہب کی تقلید اور سلفی منہج میں فرق


*فقہی مذاہب کی تقلید اور سلفی منہج میں فرق*

فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
ترجمہ طارق علی بروہی
(مرتب:عمران شہزاد تارڑ)
​سوال: براہ مہربانی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں کسی اسلامی مذہب کی جانب اپنا انتساب نہ کروں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ کیونکہ میں نے دونوں سلفیوں سے بھی اور سنیوں سے بھی پڑھا ہے لیکن میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی جانب انتساب کرنے کو پسند نہیں کرتا اس خوف سے کہ کہیں مجھ میں تکبر نہ پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے اگر حق بات ان دو جماعتوں کے علاوہ کسی اور جگہ سے مجھے ملے تو میں اسے قبول نہ کروں۔دوسرے لفظوں میں دراصل میں ان لوگوں میں سے نہیں بننا چاہتا جو کسی خاص مذہب کے پابند ہوتے ہیں اور بھلے دلائل ان کے خلاف جاتے ہوں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ براہ کرم اس بارے میں مجھے نصیحت فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں پہلے کچھ باتوں کو واضح کرنا ہوگا۔ اس سوال کے پہلے حصے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائل مختلف مذاہب کی اندھی تقلید کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہے لیکن پھر بعد میں وہ عمومی منہج کی پیروی کی طرف آ جاتا ہے کہ جس میں فقہی اور اس کے علاوہ بھی مذاہب شامل ہیں جیسے کہ اس نے کہا سلفی منہج یا سنی منہج۔دوسری بات یہ کہ اس نے سلفی اور سنی میں فرق رکھا ہےجبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک سلفی وہی ہوتا ہے جو سنت رسولﷺ کی پیروی کرتا ہوجو فہم سلف صالحین پر چلتا ہو۔لہذا ہر سلفی سنی ہی ہوتا ہےاور ہر سنی سلفی ہی ہوتا ہےبشرطیکہ ہم سنی ہونے کو اس کی صحیح تعریف کے مطابق استعمال کرتے وسمجھتے ہوں۔بھائی کا سوال میں یہ پوچھنا کہ: "میں نے دونوں سلفیوں اور سنیوں کے پاس پڑھا ہے ۔۔" سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے گویا کہ وہ ان دونوں میں فرق کرتے ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو اس بات کا ادراک وفہم نہیں کہ سلفیت وسنیت دونوں ایک ہی چیز ہیں، اور یہ کہ ہر سلفی سنی ہوتا ہے اور ہر سنی سلفی ہوتا ہے۔۔۔[حاضرین میں سے کسی نے کہا: شاید کہ اس سائل کی مراد سنی سے صوفی لوگ ہوں (جیسے ہمارے یہاں بریلوی دیوبندی اپنے آپ کو سنی کہلاتے ہیں) کیونکہ یہ لوگ بھی دعوی کرتے ہیں کہ ہم اہل سنت ہیں]بلگتا ہے کہ ان ناموں کے تعلق سے بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔۔اگر واقعی ایسا ہے کہ بعض صوفی اپنے آپ کو سنی کہلواتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ صوفی (بدعتی) ہیں تو یہ ایک بدترین قسم کی دھوکہ دہی ہے جس سے خبردار کرنا واجب ہے۔بہرحال میں سوال کو دہراتا ہوں اور پھر اس کا جواب دیتا ہوں۔کیا کسی مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کسی فقہی مذہب کی تقلید کرے؟یا وہ سلفی منہج پر چلے یا پھر دوسری جماعتوں اور تنظیموں کے مناہج کی پیروی کرے۔۔۔جیسا کہ تبلیغی جماعت، صوفیہ، اخوانی، حزب التحریر والے (تحریری) وغیرہ۔۔؟جہاں تک ایک مسلمان کا ان فقہی مذاہب کی تقلید کا تعلق ہے جیسے حنفی، مالکی، شافعی وحنبلی تو میں یہ کہوں گا کہ: اس مسئلے سے متعلق بنیادی اصول تو یہی ہے کہ ایک مسلمان پر فرض نہیں کہ ان مذاہب اربعہ میں سے کسی کی تقلید کرے۔اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو محض کتاب وسنت کی جانب دعوت دی تھی، اور یہ وضاحت فرمائی تھی کہ انہیں چاہیے کہ کتاب وسنت کو صحابہ کرام ؓ کے فہم کے مطابق سمجھا جائے، اور اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے۔مسلمانوں کا یہی معاملہ رہا ان چاروں آئمہ کے دور تک کہ کوئی بھی مسلمان کسی خاص مذہب کی تقلید کا پابند نہ تھا۔پس اسی بنیاد پر میں یہ کہتا ہوں کہ صحیح مؤقف یہی ہے کہ اسلام کسی مسلمان کو ان مذاہب اربعہ کی تقلید کا پابند نہیں بناتا۔ یہ بات واضح ہے ان شاء اللہ۔
بہرحال میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے بارے میں صحیح اندازہ لگائے کہ اگر واقعی وہ اپنے آپ کو پاتا ہے کہ وہ اجتہاد کے مقام تک پہنچ چکا ہے اور وہ ازخود دلائل کو پرکھ سکتا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود دلائل پر نظر رکھے اور اسی چیز کی پیروی کرے جودلائل کی روشنی میں اس پر واضح ہو جائے۔اگرچہ دلائل حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی مذہب کے خلاف جاتے ہوں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اہم ترین چیز تو دلائل کی پیروی ہے۔لیکن اگر ایک مسلمان اس بات کی طاقت نہيں رکھتا کہ وہ دلائل کی معرفت وتحقیق کرے اور اجتہاد کرے، تو بایں صورت اس پر واجب ہے کہ وہ اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرے۔ ایسے علماء سے جو کتاب وسنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کے بطور مشہور ومعروف ہوں۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾​(النحل: 43، الانبیاء 7)
ترجمہ؛اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو-لہذا ایک عام مسلمان جو دلائل پر نظر رکھنے اور اجتہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اور بناکسی خاص مذہب کی پابندی کے ان سے جن دینی مسائل کی اسے ضرورت ہے سیکھے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کہتے ہیں کہ: ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہوتا ہے۔دوسرے موضوع پر جانے سے پہلے آخری بات عرض کروں گا کہ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے نامور آئمہ وعلماء کرام گزرے ہیں جو مختلف مذاہب کی جانب منسوب ہوتے تھے، جبکہ درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے (خود مجتہد تھے)۔ دراصل ان کے اپنے مذہب کی جانب نسبت کی وجہ صرف یہی ہوا کرتی تھی کہ انہوں نے اس خاص مذہب کو خصوصی طور پر پڑھا ہے (یعنی فقہی قواعد) یا پھر وہ ان کے ملکوں یا علاقوں کا عام مذہب ہوا کرتاتھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی یہ نسبت دے دی گئی، ناکہ اندھی تقلید کی وجہ سے۔مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ " کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ درحقیقت وہ تو دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا پھر حافظ ابن القیم " کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ وہ بھی دلائل کی اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے حافظ ابن حجر " کے بارے میں ہے کہ وہ شافعی تھے مگر وہ بھی دلائل کی ہی پیروی کیا کرتے تھے۔ اور عبدالحئی لکھنوی " کے بارے میں ہے کہ وہ حنفی تھے مگر درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا شیخ ابن باز وابن عثیمین ؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حنبلی تھے اسی طرح سے ان سے پہلے شیخ محمد بن ابراہیم " کے بارے میں کہ وہ بھی حنبلی تھے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ یا ابھی شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی ہیں مگر وہی بات کہ وہ بھی دلائل ونصوص کی اتباع کرتےہیں۔ان عظیم وکبار علماء کرام کا منہج یہی ہے کہ وہ دلائل کے موافق ومطابق فتوی صادر فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے سامنے کوئی صحیح دلیل آتی ہے تو وہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو تو پھر وہ اپنے مذہب کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔یعنی وہ کسی چیز کے متعلق اپنے مذہب کے احکام بیان کردیتے ہیں۔پس جب ہم کسی مذہب کی جانب نسبت کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ہم ہرگز بھی یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کو مجتہدہونا چاہیے اور دلائل کی تحقیق کرنی چاہیے۔ بلاشبہ ایک عام انسان اجتہاد کرنے یا دلائل کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تقلید کرے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خود سے دلائل کو پرکھے اور ان سے مسائل اخذ کرے تو اسے ضرور اجتہاد کرنا چاہیے کہ وہ دلائل کو دیکھے ان کی تحقیق کرے اور پھر ان کی پیروی کرے۔اور اس کا مجتہد ہونا یا دلائل پر نظر رکھنا اس بات کو مانع نہیں کہ وہ اس مذہب کی جانب منسوب ہوجائےجو اس نے پڑھا ہے، یا جو اس کے ملک میں عام ہے، یا پھر جو اس کی نظر میں حق سے زیادہ قریب تر ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خود دلائل سے استنباط نہیں کرسکتا ہو۔یہ باتیں ان مجتدین کے لیے ضرر رساں نہیں ہیں۔اور جو اس مقام تک نہ پہنچ سکتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ علماء کرام سے سوال کریں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل: 43، الانبیاء 7)،اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)-
جب وہ سوال کرے تو اس بات کی بھرپور طریقے سے تصدیق کرلے کہ جس سے وہ سوال کرنے جارہا ہے وہ واقعتا ًعلماء کرام میں سے ہو اور وہ شرط بھی نہ لگائے کہ جس عالم میں پوچھنے جارہا ہوں وہ لازما ًکسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا چاہیے۔بلکہ اسے عالم جو فتوی دے تو وہ اسی کی پیروی کرے جب تک عالم کا فتوی اس عالم کے پاس موجود دلیل کی روشنی میں ہو۔
جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو کہ ان تحریکوں سے وابستگی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی طرف دعوت دیتی ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلفی/سنی منہج کی جانب منسوب کرے۔ مزید برآں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اسلام یہی ہے، کہ جس میں رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی پیروی کی جاتی ہے، اس میں دین کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔پس یقینا ًایک مسلمان سےاس منہج کی اتباع ضرور مطلوب ہے۔کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو جس پر کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ تھے چھوڑ دے خواہ کوئی بھی وجہ ہو۔کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے کہ جس پر چل کر انسان بروز قیامت نجات حاصل کرسکتا ہے ان شاء اللہ۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:‘‘فْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاری بہترفرقوں میں بٹ گئے اور میری یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ پوچھا کہ وہ ایک کون سا فرقہ ہوگا۔ فرمایا:جو اس چیز پر ہوگا جس چیز پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)​یہ ہے سلفی منہج کی حقیقت ۔کہ آپ کو اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام کی پیروی کرنی ہے۔ لہذا کیا پھر ہم ایک نومسلم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ : تمہیں اس منہج پر چلنے کی ضرورت نہیں؟ نہیں! بلکہ ہم کہیں گے کہ: تمہارا اسلام اس وقت تک سچا، صحیح اور بدعات سے پاک ہو نہیں سکتا جب تک تم اس منہج کی پیروی نہیں کرو گے، جب تک تم اس چیز کی پیروی نہیں کروگے کہ جس پر اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام تھے۔جو کوئی بھی رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا تو وہ فرقہ پرست حزبیوں میں سے ہوگا اور ان بہتر (72) جہنم میں جانے والے فرقوں میں ہوگا۔اگرچہ وہ مسلمان ہے مگر وہ حدیث میں وارد اس شدید وعید کے خدشے سے محفوظ نہیں کہ: سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔جب میں نے کہا کہ وہ اس خدشے سے محفوظ نہیں اس سے میری مراد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، کہ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو عذاب دے گا۔رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام جس چیز پر تھے اس کی مخالفت کی بنا پر یہ دو میں سے ایک قسم میں ہوگا:
1- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج کردینے والی ہو تو اس صورت میں وہ کافر ہوگا،
2- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ نافرمان وبدعتی ہوگا اور ان بہتر (72) فرقوں میں سے ہوگا جن پر اس وعید کا خدشہ ہے۔ (اللہ اعلم) پس اس طرح سے ہم نے مختلف فقہی مذاہب کی تقلید کرنے اور سلفی منہج کی پیروی کرنے میں فرق کی وضاحت کردی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان سے کسی خاص مذہب کی تقلید مطلوب نہیں۔ لیکن سلفی منہج پر چلنا مطلوب ہے یعنی دین کو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے کے مطابق سمجھنا، سلف کے طریقے کو اپنانا، یہی صحیح اسلام ہے۔ اور اس صحیح اسلام سے اس کا الگ ہونا یا تو مکمل طور پر ہوگا یا صراط مستقیم سے کسی درجے کا انحراف ہوگا جو اسے بدعتی، نافرمان، خطاء کار بنادے گا اور وہ ان بہتر (72) گمراہ فرقوں میں سے ہوجائے گا۔
یہاں پر ایک شبهہ پیدا کیا جاتا ہے ہے کہ کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچهنا بهی تقلید ہے اس کے جواب کے لئے یہ لنک وزٹ کریں،
http://dawatetohid.blogspot.com/2016/11/blog-post_7.html?m=1

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...