Friday 11 November 2016

’’مسلک اہل حدیث کے بارے میں چند مغالطوں کا ازالہ،اور اتباع و تقلید میں فرق"

’’مسلک اہل حدیث کے بارے میں چند مغالطوں کا ازالہ،اور اتباع و تقلید میں فرق"

(تالیف: پروفیسر طیب شاهین لودهی،شائع محدث میگزین 1987ء ، اب دوبارہ پوسٹ عمران شہزاد تارڑ)'حلقہ تعداد 4'
     
"حلقہ نمبر3"
ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) ایک مایہ ناز فقیہہ، وسیع الاطلاع محدث اور صحیح مسلم کے مشہور شارح ہیں۔ صحیح مسلم کی شرح تمام مسلم ممالک میں متداول ہے۔ مسلم کی شرح میں وہ جہاں کہیں فقہائےاسلام کی آراء اوران کے مذاہب کا ذکر کرتے ہیں، وہاں بسا اوقات فقہائے اہل حدیث کی آراء اوران کے مذاہب کا ذکر کرتے ہیں، وہ ان کا ذکر ایک مستقل حیثیت سے کرتے ہیں۔ ویسے تو شرح مسلم میں ایسے بیسیوں مقامات ہیں، مگر ہم صرف چند مقامات  یہاں پیش کرتے ہیں۔
اہل علم جانتے ہیں کہ احادیث میں حضرت عبداللہ  بن مسعودؓ، حضرت  عبداللہ بن عباسؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ وغیرہم سے تھوڑے تھوڑے لفظی اختلاف سے تشہد منقول ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے پڑھ لینے کے جواز پر تمام اہل علم متفق ہیں ۔ ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کون سا تشہد افضل ہے؟ امام شافعی اور امام مالک کے بعض اصحاب کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی تشہد افضل ہے۔ عبداللہ بن  مسعودؓ کا نقل کردہ تشہد امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل اور اہل حدیث کے نزدیک افضل ہے۔ چنانچہ علامہ نووی فرماتے ہیں:
’’وقال ابوحنیفۃ واحمد رضی اللہ عنہما وجمہور الفقآء واھل الحدیث تشھد ابن مسعود افضل لانہ عندالمحدثین اشد صحۃ وان کان الجمیع صحیحا‘‘[30]
’’امام  ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل، جمہور فقہاء اور اہل حدیث کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ کا تشہد افضل ہے کیونکہ یہ تشہد محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے، اگرچہ تمام صحیح ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس سے ہمارے عزیز دوست پروفیسر ابوالکلام خواجہ کا یہ  مغالطٰہ بھی دور ہوگیا ہوگا کہ شوافع ہی کو محدثین اوراہل حدیث کہا جاتا ہے، یا اہل حدیث امام شافعی یا کسی اورامام کی تقلید کیا کرتے تھے۔ اگرچہ منہاج فقہ میں وہ بہت حد تک امام احمد بن حنبل اورپھر امام شافعی سے موافقت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ موافقت تقلید کی بناء پر نہیں، بلکہ دلیل پر مبنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت سے مقامات پر امام شافعی کی مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب خواجہ صاحب ہی انصاف کریں، کیا مقدلین کا یہی طریقہ ہے؟ اپنے امام  کے خلاف مسلک اختیار کرنے پر اسے اہل سنت سے تو کیا، دائرہ اسلام سے بھی خارج نہیں کردیا جاتا؟ کیا پاک و ہند کے اہل حدیث حضرات کے ساتھ یہ کچھ نہیں ہورہا؟ ان کا کوئی سا عقیدہ ایسا ہے جو اہل سنت اور سلف صالحین کے عقائد کے خلاف ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ دیو بند کے ’’شیوخ الہند‘‘، ’’شیوخ الاسلام ‘‘ اور ’’پیران طریقت‘‘ کے مقلد نہ تھے، ورنہ وہ بھی بڑے بڑے نام پاتے۔ اور اب ان کی ’’غیر مقلدیت ‘‘ کی سزا یہ  ہے کہ وہ ’’انگریزوں کے پروردہ ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ....... یہ ہے دیو بند کی تحقیقات کی کل بساط !
ان طویل حوالوں پر ہم اپنے عزیز دوست سے معذرت خواہ ہیں شاید وہ اپنی گونا گوں مصروفیات کی بناء پر مذکورہ بالا کتب کا مطالعہ نہ کرسکتے، اور اگر وہ مطالعہ کرتے تو ممکن ہے وہ مذکورہ اقتباسات کو دیکھے بغیر آگے گزر جاتے۔ کیونکہ  اپنے نظریات کے خلاف کوئی چیز بہت مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔ اس لیے غنیمت ہے کہ وہ کچھ اقتباسات اور ملاحظہ فرما لیں۔
امام نووی ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
’’واعلم ان التسبیح فی الرکوع والسجود سنۃ غیر واجب ھٰذا مذھب مالک و ابی حنیفۃ والشافعی رحمھم اللہ والجمھور  واوجبہ احمد رحمہ اللہ تعالیٰ و طائفۃ من ائمۃ الحدیث بظاھر الحدیث فی الامر بہ‘‘ [31]
’ّآپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رکوع و سجود میں تسبیحات واجب نہیں سنت ہیں ........... یہ امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اورجمہوری فقہاء کا مذہب ہے جبک ہامام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیث کی ایک جماعت ، حدیث کے ظاہری الفاظ میں تسبیح پڑھنے کے حکم کی بناء پر، اسے واجب قرار دیتی ہے۔‘‘
تشہد اوّل اور تشہد ثانی کے وجوب اور عدم وجوب پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ نووی فقہائے اہل حدیث کا مذہب امام شافعی کے مذہب سے الگ اور مستقل مذہب کے طور پر بیان کرتے ہیں:
’’فیہ حجۃ لاحمد بن حنبل ومن وافقہ من فقھآء اصحاب الحدیث ان التشھد الاوّل والاخیر واجبان وقال مالک و ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہما والاکثرون ھما سنتان لیسا واجبین وقال الشافعی رضی اللہ عنہ الاوّل سنۃ الثانی واجب‘‘[32]
’’اس (حدیث) میں امام احمد بن حنبل اوران کی موافقت کرنے والے فقہائے اہل حدیث کے لیے دلیل ہے کہ تشہد اوّل اور تشہد ثانی دونوں واجب ہیں۔ امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور فقہاء کی اکثریت کہتی ہے کہ دونوں تشہد سنت ہیں۔ امام شافعی  فرماتے ہیں کہ تشہد اوّل سنت ہےاورتشہد ثانی واجب۔‘‘
علامہ نووی کی محولہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ فقہائے اہل حدیث ، امام شافعی کے مقلد نہیں، بلکہ وہ اپنی مستقل رائے رکھتے ہیں اور اگر وہ امام شافعی، امام احمد یا کسی اورامام کی موافقت کرتے ہیں تو صرف دلیل کی بناء پر ۔ وہ بالکل یکسو ہوکر منہاج سنت پر گامزن ہیں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ فقہاء کی ایک بہت بڑی اکثریت اس مسئلہ میں ان کی مخالف ہے وہ صرف نص کی پیروی کرتے ہیں۔ امام الہند شاہ ولی اللہ نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں ان کی اس منہاج کو ان کی فقہ کی خصوصیت کے طور پر بیان کیا ہے، اور تمام فقہاء نے ان کی آراء کو اپنی تصنیفات میں ایک مستقل منہج فکر کے طور پر بیان کیا ہے۔
شیخ الاسلام تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ (المتوفی 726ھ) اور شاگرد شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن قیم الجوزیہ (المتوفی 751ھ) سے کون واقف نہیں؟ انہوں نے اپنے زمانے میں مروجہ بدعات پر بھرپور اور مدلل تنقید کی اورمسلمانوں کو کتاب و سنت اورمنہاج سلف پر چلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے تقلید جامد پر بھی بھرپور تنقید کرتے ہوئے مسلک اہل حدیث کو خوب واضح اور منقح کیا۔ اس مسلک پر مختلف اعتراضات کو رفع کیا، مقلد فقہاء کی مخالفتوں، دشنام طرازیوں، کفر کے فتوؤں، جسمانی ایذاؤں اور قید و بند کی صعوبتوں کی پرواہ کئے بغیر اجتہاد اورحریت پسندی کے پرچم کو بلند رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن حزم  سے لے کر ابن تیمیہ  تک تقلید جامد کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہے، اگر اسے جمع کرلیا جائے تووہ  ابن تیمیہ اوران کے شاگردوں کی ان تحریروں کا عُشر عشیر بھی نہیں، جو انہوں نے مقلد فقہاء،  ان کی تقلید اور ان کے تقلیدی نظریات  کے خلاف تخلیق کی ہیں۔ مگر بایں ہمہ علمائے دیو بند انہیں مقلد اورحنبلی کہنے پر بضد ہیں، اہل حدیث حضرات کو تحقیر کے طور پر ’’غیر مقلد‘‘ کے لقب سے نوازتے ہیں اوران کو ’’اہل حدیث‘‘ کہنے سے عمداً گریز کرتے ہیں۔ فیا للعجب!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے امام اہل سنت احمد بن حنبل اور دیگر فقہائے اہل حدیث کی فقہی خصوصیات کو ایک مستقل تصنیف ’’القواعد النورانیہ الفقھیۃ‘‘ میں خوب واضح کیا ہے ۔ ہم اس کتاب کے چند اقتباسات قارئین کرام اور خواجہ صاحب کی نذر کرتے ہیں:
’’اما الطھارۃ والنجاسۃ فئوعان من الحلال والحرام فی اللباس ونحوہ............. تابعان للحلال والحرام فی الاطعمۃ والاشربۃ۔ ومذھب اھل الحدیث فی ھٰذا الاصل الجامع العظیم وسط بین مذھب العراقیین والحجازیین‘‘[33]
’’رہی طہارت و نجاست ، تو یہ لباس وغیرہ میں حلال و حرام کی دو اقسام ہیں، جو مطعومات اورمشروبات میں حلال و حرام کی تابع ہیں۔ اس جامع اور عظیم اصول میں اہل حدیث فقہاء کا مذہب ، عراقی فقہاء (حنفیہ) حجازی فقہاء (مالکیہ) کے بین بین ہے۔‘‘
بسملہ کے آیت قرآنی اور ہر سورہ کا حصہ ہونے کے بارے میں فقہائے مالکیہ، فقہائے شافعیہ ، فقہائے حنیفہ اور فقہائے اہل حدیث کی آراء بیان کرنے کے بعد نماز کے اندر اس کی تلاوت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’وکذٰلک الامر فی تلاوتھا فی الصلوٰۃ: طائفۃ لا تقرأھا لا سرا ولا جھرا کما لک والاوزاعی و طائفۃ تقرأ ھاجھرا کاصحاب ابن جریج والشافعی۔ والطائفۃ الثالثۃ المتوسطۃ: جماھیر فقھآء الحدیث مع فقھآء اھل الرأی یقرء و نھاسرا کما نقل عن جماھیر الصحابۃ مع ان احمد یستعمل ماروی عن الصحابۃ فی ھٰذا الباب فیستحب الجھر بھا لمصلحۃ راجحۃ حتٰی انہ نص علیٰ ان من صلیٰ بالمدینۃ یجھر بھا‘‘[34]
’’اسی طرح نماز کے اندر اس کی تلاوت کا معاملہ ہے۔ فقہاء کا ایک گروہ، جیسے امام مالک اورامام اوزاعی، سری یا جہری کسی طور پر بھی نماز کے اندر بسملہ نہیں پڑھتا اورفقہاء کی ایک جماعت،جیسے ابن جریج اورامام شافعی کے اصحاب، (جہری) نماز میں بآواز بلند بسملہ پڑھتے ہیں۔ اوران دونوں کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے، جو اکثرفقہائے اہل حدیث اور ان کے ساتھ ساتھ فقہائے اہل رائے (احناف) پر مشتمل ہے۔ یہ (تمام نمازوں میں) آہستہ آواز کے ساتھ بسملہ پڑھنے کا قائل ہے، جیساکہ جماہیر صحابہؓ سے منقول ہے ۔ اس کے باوجود امام احمد بن حنبل ان اقوال پر بھی عمل کرتے جو اس بارے مجیں صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں۔ چنانچہ وہ کسی راجح مصلحت کے تحت بسملہ بآواز بلند پڑھنے کو بھی مستحب ٹھہراتے ہیں۔ ان سے یہاں تک منصوص ہے کہ جو کوئی مدینہ میں نماز پڑھے وہ نماز میں بلند آواز سے بسملہ پڑھے۔‘‘
دعائے قنوت کے بارے میں امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’واما القنوت فالناس فیہ طرفان ووسط ۔ منھم من لا یری القنوت الا قبل الرکوع و منھم من لا یراہ الا بعدہ۔ واما فقھآء اھل الحدیث کاحمد وغیرہ فیجوزون کلا الامرین لمجئ السنۃ الصحیحۃ بھما‘‘[35]
’’رہا دعائے قنوت کا معاملہ، تو فقہاء اس بارے میں دو کناروں پر ہیں اورکچھ  ان کے درمیان۔ ان میں کچھ فقہاء دعائے قنوت صرف رکوع سے پہلے پڑھنے کے قائل ہیں، کچھ فقہاء صرف رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے  فقہائے اہل حدیث ، جیسے امام احمد بن حنبل، تو وہ دونوں طریقوں کو جائز قرار دیتے ہیں، کیونکہ  دونوں کے بارے میں صحیح احادیث آئی ہیں۔‘‘
ابن تیمیہ کے مذکورہ بالا طویل حوالوں سے جہاں اس حقیقت کی تفہیم ہوئی ہے کہ اہل حدیث، مقلدین کے دعووں کے علی الرغم دیگر مکاتب فقہ کی طرح ایک مستقل مکتب فقہ ہے، وہاں ان کا طریق استنباط بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کسی تقلید، تعصب یا ضد میں کوئی رائے اختیار نہیں کرتے، بلکہ نصوص صحیحہ کا اتباع کرتے ہیں ، خواہ ان پر کسی کا عمل ہو یا نہ ہو۔
علامہ ابن قیم الجوزیۃ نے ’’اعلام المواقعین‘‘ میں نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ تقلید جامد کی تردید اوراس کی مذمت کی ہے اور فقہائے  حدیث کے اصولوں پر  نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ فقہاء نے جن احادیث صحیحہ کو خلاف قیاس قرار دے کر ترک کردیا تھا، علامہ ابن قیم نے ایک مستقل اور طویل باب میں ثابت کیا ہے کہ یہ احادیث نہ صرف یہ کہ قیاس صحیح کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ شریعت کے محاسن پر دلالت کرتی ہیں اور حکمت کا یہی تقاضا ہے۔ انہوں نے بہت تفصیل سے ان حیلوں کا ذکر کیا ہے جو مقلد فقہاء نے شریعت اسلامی کے احکام کو ساقط کرنے کے لیے وضع کررکھے تھے اوران کو ائمہ ابرار کی طرف منسوب کرتے تھے۔ نیز انہوں نے مقلد فقہاء (خصوصاً احناف) کی ان بوالعجبیوں کی طرف اشارات بھی کئے ہیں کہ وہ ایک حدیث کو ایک مقام پر ضعیف کہہ کر رد کردیتے ہیں ، جبکہ  وہ ان کے امام کے مسلک کے خلاف ہوتی ہے۔ لیکن  جب ضرورت ہوتی ہے تو کسی اورمسئلہ میں اسی حدیث سے اپنے مسلک پر استدلال کرتے دکھائی دیتے ہیں اوریہ درحقیقت تقلید کا لازمی نتیجہ ہے۔
چنانچہ خود ہمیں اس زمانے میں بھی اس قسم کی ’’تحقیقات‘‘ کا مشاہدہ ہوا ہے۔ حال ہی میں فوت ہونے والے ایک بریلوی عالم نے پچھلے دنوں عورت کی نصف دیت پر چلنے والی ایک بحث میں بیہقی وغیرہ کے حوالے سے ان احادیث سے بھرپور استدلال کیا، جنہیں حنفی فقہاء قرنوں پہلے ضعیف کہہ کرردّ کرچکے ، اور  ان کو ضعیف اور ناقابل استدلال قرار دینے کےلیے انہوں نے سینکڑوں صفحات سیاہ کیے ہیں۔
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی  (المتوفی 854ھ) صحیح البخاری کی مشہور شرح ’’فتح الباری‘‘ میں فقہ الحدیث کے سلسلے میں بسا اوقات ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کے ساتھ ساتھ فقہاء اہل حدیث کے مستقل مذہب کا ذکر کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی امام کے مقلد نہ تھے، بلکہ وہ تو صرف نص کی پیروی کرتے تھے۔ چنانچہ میت کی طرف سے روزوں کی قضاء کے بارے میں حافظ ابن حجر اہل علم کا مسلک بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’وقد اختلف السلف فی ھٰذہ المسئلۃ فاجاز الصیام عن المیت اصحاب الحدیث وعلق الشافعی فی القدیم القول بہ علیٰ صحۃ الحدیث کما نقلہ البیہقی فی المعرفۃ وھو قول ابی ثور وجماعۃ من محدثی الشافعیۃ قال البیہقی فی الخلافیات ھٰذہ المسئلۃ ثابتۃ لا اعلم خلافا بین اھل الحدیث فی  صحتھا فوجب العمل بھا ............ وقال الشافعی فی الجدید و مالک و ابوحنیفہ لا یصام وقال اللیث و احمد و ابوعبید لا یصام عنہ الاالنذر‘‘[36]
’’اس مسئلہ میں سلف میں اختلاف پایا جاتاہے، چنانچہ اصحاب الحدیث نے میت کی طرف سے روزوں کی قضاء کو جائز قرار دیا ہے۔ امام شافعی نے اپنے قدیم  قول میں اس رائے کو حدیث کے صحیح ثابت ہونے  پر معلق قرار دیا ہے۔ جیسا کہ بیہقی نے اسے ’’المعرفۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ یہ ابوثور اور محدثین شافعیہ میں سے ایک جماعت کا قول ہے۔ بیہقی ’’الخلافیات‘‘ میں کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ثابت ہے اور اہل حدیث میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں میرے علم میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا واجب ہے........امام شافعی اپنے قول جدید میں نیز امام مالک اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزوں کی قضاء جائز نہیں۔ امام لیث بن سعد، امام احمد بن حنبل او رامام ابوعبید قاسم بن سلام کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے  نذر کے سوا کسی روزے کی قضا نہ کی جائے۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے جہاں یہ ثابت ہوا کہ ’’اصحاب الحدیث‘‘ اپنا الگ اور مستقل فقہی نقطہ نظر رکھتے ہیں، وہاں یہ بھی معلوم ہواکہ امام شافعی سے گہرا انتساب رکھنے والے محدثین بھی بسا اوقات نصوص صحیحہ کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کو ترک کردیتے ہیں۔ خواہ انہیں امام شافعی کے قول قدیم ہی کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ نصوص صحیحہ کی مطابقت اختیار کرنے کے لیے انہوں نے یہ ’’سہارا‘‘ بہت کثرت سے استعمال کیا ہے۔ اس قسم کا اصول ہمیں فقہائے احناف اوران کے شارحین حدیث بہت کم استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ متقدمین میں سے امام طحاوی نے بہت کثرت سے تحقیق اور صحت حدیث کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ کے قول کو ترک کیا ہے۔ متاخرین میں علامہ زیلعی، ملا علی القاری، علامہ سندھی، شاہ ولی اللہ  وغیرہم نمایاں ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے تو تقلید جامد پر سخت تنقید کی ہے۔
اختلافات میں ترجیح احادیث کے سلسلے میں حافظ ابن حجر نے امام بخاری اور دیگر اہل حدیث کا وہی طریق بیان کیا ہے، جس کا ذکر ہم شاہ ولی  اللہ کے حوالے سے کرچکے ہیں کہ محدثین اختلاف روایات کی صورت میں حدیث کی تصحیح میں توقف نہیں کرتے۔ سوائے اس کے کہ روایات سنداً مساوی ہوں اور یہی اضطراب کا حکم لگانے کی شرط ہے۔[37]
مہر کی کم سے کم مقدار کے تعین کے بارے میں حافظ ابن حجر، فقہاء کے اقوال بیان کرتے ہوئے فقہائے اہل حدیث کا الگ اور مستقل مذہب ذکر کرتے ہیں:
’’واجازہ الکافۃ بماتر اضٰی علیہ الزوجان او  من العقد الیہ بمافیہ منفعۃ کالسوط والنعل ان کانت قیمتہ اقل من درھم و بہ قال یحییٰ بن سعید الانصاری۔ وابوالزناد، و ربیعۃ و ابن ابی ذئب وغیرہم من اھل المدینۃ غیر مالک و من تبعہ و ابن جریج و مسلم بن خالد و غیرھما من اھل مکۃ والاوزاعی فی اھل الشام واللیث فی اہل امصر و ابن ابی لیلیٰ وغیرہما من العرقیین غیر ابی حنیفۃ ومن تبعہ والشافعی و داؤد فقھأء اصحاب الحدیث وابن وھب من المالکیۃ‘‘ [38]
’’تمام علماء نے ہر اس چیز کو مہر کے طور پر ادا کرنے کی اجازت دی ہے جس پر دونوں میاں بیوی راضی ہوں یا جس پر عقد ہوجائے اورجس سے کوئی منفعت حاصل کی جاسکتی ہو۔ جیسے کوڑا، جوتا وغیرہ، اگرچہ ان کی قیمت ایک درہم سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ یہ قول اہل مدینہ میں سے امام مالک اور ان کے اصحاب کے سوا یحییٰ بن سعید، ابوالزناد، ربیعہ اور ابن ابی ذئب وغیرہم کا ہے۔ اہل مکہ میں سے ابن جریج اورمسلم بن خالد  وغیرہما کا یہی مسلک ہے، اہل شام میں سے اوزاعی بھی یہی کہتے ہیں۔ اہل مصر میں سے لیث بن سعد کا یہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ اوران کےاصحاب کے سوا اہل عراق میں سے سفیان ثوری اورابن ابی لیلیٰ وغیرہما نے یہی مذہب اختیار کیاہے۔ امام شافعی، امام داؤد ظاہری اور فقہائے اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔‘‘
صحیح بخاری کے مشہور حنفی شارح علامہ بدرالدین محمود بن احمدالعینی (المتوفی 855ھ) نے بھی بہت سے مقامات پر محدثین اورفقہائے حدیث اپنی رشحات فکر میں کسی کی  تقلید نہ کرتے  تھے۔ وہ خود اپنی آزاد رائے رکھتے تھے۔ علامہ عینی نے ان کی آزاد آراء کو ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کے ساتھ ایک مستقل دبستان فکر کی حیثیت سے ذکر کیا ہے۔ اگر اہل حدیث محض حدیث پڑھنے پڑھانے والے اورمقلد فقہاء کو کہا گیا ہوتا، جیسا کہ ہمارے عزیز دوست پروفیسر ابوالکلام خواجہ کو اصرار ہے،تو ایسے مقلد محدثین کی آراء کی کیا حیثیت کہ ان کو فحول مجتہدین کی آراء کے ساتھ یا ان کے مقابلے میں ذکر کیا جائے؟ علامہ عینی ازدیاد ایمان اوراس میں کمی کے بارے میں امام بخاری اور محدثین کے مسلک کو ایک الگ الگ اور مستقل مکتب فکر کی حیثیت سے بیان کیا ہے- (جاری ہے...)
حوالاجات:
[30] ۔ شرح مسلم للنووی جلد 4 ص115
[31] ۔ شرح مسلم للنووی جلد4 ص197
[32] ۔ شرح مسلم للنووی جلد4 ص214
[33] ۔ القواعد النورانیۃ الفقھیۃ ص1
[34] ۔القواعد النورانیۃ الفقھیۃ ص21
[35] ۔القواعد النورانیۃ الفقھیۃ ص81
[36] ۔  فتح الباری شرح صحیح البخاری للحافظ ابن حجر جلد4 ص193
[37] ۔فتح الباری جلد5 ص318
[38] ۔ فتح الباری جلد 9 ص209
------------------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...