Sunday 13 November 2016

آداب الزفاف:2

*آداب الزفاف*
(مرتب:عمران شہزاد تارڑ)
حلقہ نمبر:2
 شادی کی رات پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے دولھے کے لئے چند نصیحتیں پیش کردینا مناسب ہے۔
  یہ بات معلوم ہے کہ دولہا ایک مرد ہوتا ہے اسی لئے طبعی طور پر زیادہ ہوشیار، زیادہ عقلمند، زیادہ باحکمت اور زیادہ باشعور ہوتا ہے، بہت سے معاملات کو ازخود سمجھ لیتا اور بہت سی مشکلات کو ازخود حل کرلیتاہے۔ اسے نصیحت کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ شاید اسی لئے تاریخی اور ادبی کتابوں میں دولہے کے لئے بہت کم نصیحتیں پائی جاتی ہیں پھر بھی جو واقعات اور نصیحت کی باتیں مل سکی ہیں کافی دلچسپ، پرلطف اور مفید ہیں۔
 علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے لئے ان کے والد محترم نبی رحمت ﷺ کو پیغام دیا تو ﷲ کے نبی ﷺ نے ان سے حسن معاشرت اور حسن صحبت کی شرط لگائی([2]) ۔
 آپ ﷺ نے کوئی طویل گفتگو نہ کی، نہ ہی کوئی وعظ فرمایا بلکہ فقط چند ایسے جامع ومانع الفاظ استعمال کئے جن میں وہ سب کچھ آگیا جو ایک باپ اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے لئے چاہتا ہے۔ ایک باپ یہی تو چاہتا ہے کہ جو مرد اس کی بیٹی کا شوہر بنے وہ اس کے ساتھ اچھے انداز میں رہے، اس کے حقوق کی نگرانی وپاسبانی کرے اور اس کے حقوق ادا کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسن معاشرت کا رویہ اپنائے۔
صعصعہ بن معاویہ نے ابن الظرب کی بیٹی عمرہ کو پیغام نکاح دیا۔یہی عمرہ ہیں جن کو بعد میں تاریخ میں  ام عامر بن صعصعہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ ابوعمرہ نے صعصعہ کا پیغام نکاح قبول کیا اور اس وقت ایک مختصر اور زریں نصیحت کی، انھوں نے کہا:
“صعصعہ تم میرے جگر کا ٹکڑا طلب کرنے  آئے ہو ، تم میری بچی پر رحم کرنا --------------  نیک شوہر (سگے)باپ کے بعد (نیا )باپ ہوتا ہے”([3])۔
اس مختصر سی نصیحت میں ابو عمرہ نے بہت کچھ کہہ دیا۔ اس نے یاد دلایاکہ صعصعہ تم کوئی سامان مثلا ، فریج، ٹیلی ویزن، واشنگ مشین یا دیگر استعمال کی چیز نہیں طلب کرنے آئے ہو اور نہ ہی کوئی حیوان مثلا گائے بکری ، دنبہ یا اونٹ طلب کرنے آئے ہو بلکہ تم میرے کلیجہ کا ٹکڑا، میرے خون کا ایک حصہ، جانِ پدر، لخت جگر اور نورِنظر کا سوال کرنے آئے ہو ۔ اگر میں اپنی لخت جگر تمھارے حوالہ کردوں تو اس کا خیال رکھنا اور اس کے ساتھ رحم وشفقت کا برتاؤ کرنااور یاد رکھنا کہ ایک شوہر کو باپ کی طرح ہونا چاہئے ۔ باپ اپنی بیٹی کے ساتھ جیسا سلوک کرتا ہے ایسے ہی ایک شوہر کو بھی ہونا چاہئے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کی ہرتکلیف اور ہر دکھ درد پر تڑپ جاتا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ عام حالات میں اس کی خوشی اور آرام وراحت کے لئے ہرسامان مہیا کرتا ہے ۔ اس کے لئے غیرت مند ہوتا ہے ۔ اس کی پاسبانی ونگرانی کرتا اور ہر شر ومصیبت سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔اس کا ہرطرح خیال رکھتا ہے ۔ بیمار پڑے تو علاج کرتا اور پوری طرح آرام دیتا ہے۔ اسی طرح ایک شوہر کو بھی باپ کی طرح غیرت مند، باپ کی طرح محافظ وپاسبان، باپ کی طرح  حمایت ورعایت اور دیکھ ریکھ کرنے والا، باپ ہی کی طرح دکھوں اور مصیبتوں میں تڑپ جانے والا، اپنی طاقت بھر ہرطرح کا آرام پہنچانے میں کوشاں اور سدا خوش وخرم دیکھنے کا آرزومند ہونا چاہئے۔
   اگر مذکورہ نصیحت کے مطابق عمل کیا جائے اور ایک شوہر اپنی بیوی کا اسی طرح خیال رکھے جس طرح ایک باپ اپنی بیٹی کا خیال رکھتا ہے توگویا ایک عورت کی زندگی میں شادی سے کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوگی صرف گھر تبدیل ہوگا لیکن طور طریقے اور آرام وراحت کے سارے اسباب پہلے ہی کی طرح میسر رہیں گے۔ وہ نئے گھر میں آکر بھی ویسے ہی خوش وخرم رہے گی اور ویسے ہی چہکتی رہے گی جیسا کہ پرانے گھر میں تھی۔
  عثمان بن عنبسہ نے عتبہ بن ابی سفیان  کی بیٹی کو پیغام نکاح دیا ، عتبہ ان کے چچا تھے اور منگیتر ان کی چچیری بہن۔ عتبہ نے عثمان سے کہا: بھتیجے تم تو میرے نہایت قریبی عزیز اور میرے نزدیک بڑے معزز ہو، میں تمھاری طلب کیسے رد کرسکتا ہوں اور تمھیں خالی ہاتھ ناکام ونامراد کیسے واپس لوٹاسکتا ہوں لیکن میری ایک بات سنو! یاد رہے کہ جس طرح تم میرے عزیز ہو ویسے ہی وہ بھی میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ تم اس کی عزت کرنا، اس کی توہین سے بچنا، ہر جگہ اس کے باپ ، اس کے بھائیوں اور اہل خاندان کی تعریف وستائش کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمھاری عزت ہماری نظروں میں اور بڑھ جائے گی اور تمھارا قد اونچا ہوجائے گا، اس کے برخلاف اگر تم نے ہماری بے عزتی اور بدنامی کی تو تمھاری عزت ہماری نظروں سے بھی گرجائے گی اور اس کی نظروں سے بھی اور تمھارا قد پستہ ہوجائے گا نیز تمھاری شخصیت داغدار ہوجائے گی([4])۔
 مذکورہ واقعات کو سامنے رکھ کر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک باپ اپنی بیٹی کے لئے اپنے داماد سے مندرجہ ذیل اخلاق چاہتا ہے :
  ١۔ اس کی بیٹی کے ساتھ اچھے انداز میں گذر بسر کرے۔
  ٣۔ اس کو آرام وراحت پہنچائے اور اسے اپنے چمن کی خوشبو بنائے۔
ایک باپ اپنے داماد سے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔
دولہن بنناگڑیا اور گڑے کا کوئی کھیل نہیں وہ ایک عظیم ذمہ داری کا نقطۂ آغاز ہے۔ دولہن کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کی خدمت اور اس کے حقوق کی رعایت کی ذمہ داری کو کبھی فراموش نہ کرے۔ بے جا غیرت اور شک وشبہ میں نہ پڑے۔ صفائی ستھرائی، زیب وزینت، بناؤ سنگار، خوشبو وغیرہ کا ہمیشہ خیال رکھے۔ صفائی ستھرائی میں ان امور کی بڑی اہمیت ہے جنھیں کتب احادیث میں سنن فطرت کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔
صفائی کے ساتھ ساتھ عطر اور خوشبو کا استعمال الفت ومحبت پیدا کرنے میں بیحد موثر ہے۔ جس طرح عورت اپنی پوشاک اور زیورات پر توجہ دیتی ہے تاکہ نظر پڑتے ہی دل میں کشش پیدا ہو ایسے ہی اسے خوشبو پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ ناک میں خوشبو پہنچتے ہی نہ صرف دل لپک اٹھے بلکہ ایک ہیجان برپا ہوجائے۔نہ کہ پیازلہسن کی بورے بنے رہے-
نوٹ:عورت بوقت ضرورت گهر میں خوشبو لگا سکتی ہے، لیکن ایسی خوشبو لگا کر گهر سے باہر نکلنا جو غیر محرم کے متوجہ کا سبب بنے قطعی جائز نہیں-
دولہن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی عزت اس کے شوہر کی عزت ہے اور اس کو سماج میں وہی مقام حاصل ہوگا جو اس کے شوہر کو حاصل ہے۔ اگر اس کا شوہر محترم ومعزز ہے، صاحب حسب ونسب ہے ، لوگوں کے درمیان اچھی نظروں سے دیکھاجاتا ہے تو یہی معاملہ اس کی بیوی کے ساتھ بھی ہوگا لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نتیجہ بھی برعکس ہوگا۔ لہٰذا کوئی عورت اگراپنے آپ کو پوری طرح شوہر کے برابر سمجھتی ہے تو یہ اس کی سنگین غلطی ہے۔ اسی غلط فہمی کے نتیجہ میں کچھ عورتیں بعض اوقات ایسے الفاظ کا استعمال کرتی ہیں جن کا استعمال انھیں نہیں کرنا چاہئے مثلا وہ اپنے شوہر سے کہتی ہیں کہ آپ کو میرے احترام اور میرے رتبے کا کوئی خیال نہیں رہتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سماج میں بیوی کا درجہ ومرتبہ اس کے شوہر کی حیثیت کے اعتبار سے ہی متعین ہوتا ہے اور ہرمرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل ہو اور اس کے اہل وعیال کی عزت ہو اور اسے ہر مجمع میں سرفرازی اور سرخروئی حاصل رہے۔
 ایک عورت اپنا قصہ بیان کرتی ہے کہ اس نے ایک مشہور شخصیت سے شادی کی اور کچھ دنوں کے بعد ان دونوں میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا چنانچہ عورت نے اس سے طلاق طلب کرلی۔ عورت کا بیان ہے کہ وہی لوگ جو پہلے اس کی دعوتیں کیا کرتے تھے ، اسے اپنے گھر پر بلاکر میزبانی کرتے تھے ، عزت دیتے تھے، طلاق کے بعد وہ سب کی نگاہوں میں اجنبی بن گئی ، اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ بیوی کو سماج اور معاشرے میں اس کے شوہرکے مقام ومرتبے کے لحاظ سے ہی عزت ملتی ہے۔
 دولہن کے لئے ایک اہم وصیت وہ بھی ہے جو ابوالاسود دؤلی نے اپنی بیوی کو نصیحت کرتے ہوئے اشعار میں کہے ہیں:
خُذِ العَفْوَ مِنِّي تَسْتَدِيمي مَوَدَّتِي
وَلاَ تَنْطِقِي فِي سَوْرَتِي حِينَ أَغْضَبُ([6])
(میں تجھے جوفاضل چیز دے دوں اسے لے لے, اسی میں ہماری محبت کی بقا ہے, اور میرے غصہ کی حالت میں اپنی زبان بند رکھ، کچھ مت بول)۔
غصہ کی حالت میں بھی شوہر کے دل میں بیوی کی محبت ہوتی ہے لیکن اس حالت میں کوئی تکلیف دہ یا اذیت ناک بات جب شوہر کو پہنچ جاتی ہے تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کیونکہ حالت غضب میں تکلیف اور محبت اکٹھا نہیں رہ سکتے اگر محبت زیادہ ہے تو وہ خود باقی رہے گی اور تکلیف کو بھگادے گی اور اگر تکلیف زیادہ ہوئی تو وہ خود دل پر قابض ہوجائے گی اور وہاں سے محبت کو نکال بھگائے گی۔یہی وجہ ہے کہ طلاق کے اکثرو بیشتر واقعات غصہ کی حالت میں صادر ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ شوہر غصہ میں آیا بیوی نے تکرار کی ، بات آگے بڑھائی، بات پر بات بڑھتی چلی گئی اور طلاق تک نوبت جاپہنچی۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر جب غصہ کی حالت میں ہو تو بیوی چپ سادھ لے اور پوری طرح خاموشی اختیار کئے رکھے۔ پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور شوہر اپنی طبعی حالت پر لوٹ آئے ، اس کا دل ودماغ پرسکون ہوجائے تواس مسئلہ پر ازسرنو گفتگو کرے۔
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...