Monday 28 November 2016

بری خبر کیسے پہنچائی جائے؟

بری خبر کیسے پہنچائی جائے؟
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ'بشکریہ عقلمند ڈاٹ کم)
ایک ناز ک مسئلہ جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے.
اہم سوالات جن کا جواب جاننا سب کے لئے ضروری ہے
ہر سال کتنے لوگ بری خبر یا اچانک صدمے سے مر جاتے ہیں؟؟
بری خبر انسانی زندگی کے لئے مہلک کیوں ہے؟؟
اچانک صدمہ خواتین کو زیادہ متاثر کرتا ہے یا مردوں کو؟؟
کیا متاثرہ شخص پر بری خبر کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے؟؟
کیا آپ کسی شخص کو بری خبر کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟؟
کسی کو بری خبر دینے کا صیح طریقہ کیا ہے؟؟
سائنسی تحقیق۔
جرمن سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس اہم موضوع پر ریسرچ کر رہی ہے ۔انھوں نے دریافت کیا کہ بری خبر یا اچانک پہنچنے والا صدمہ انسانی زندگی کیلئے کتنا مہلک ہو سکتا ہے۔کیوں متاثرہ شخص شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے؟
اور اسکا دل صیح معنوں میں ٹوٹ جاتا ہے، شدید ردِعمل بری خبر سننے کے چند مِنٹس بعد سے لیکر ایک گھنٹے کے اندر وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔یہ ردِعمل نہ صرف اچانک صدمے بلکہ اچانک ملنے والی خوشی یا لاٹری نکل آنیکی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔۵۰ سے ۷۰سال تک کی خواتین بری خبر سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ہر سال برطانیہ میں رپورٹ ہونیوالے تیس ہزار ہارٹ اٹیک کے کیسسز میں سے چھ ہزار کی وجہ کوئی بری خبر یااچانک صدمہ ہوتا ہے۔
علامات ووجوہات
بری خبر سنتے ہی ہمارے اندر ذہنی دباؤ بڑھانے والے ہارمونز کی پیداوارشروع ہو جاتی ہے۔اگر یہ ہارمونز ایک مقررہ حد سے بڑھ جائیں تودل کو خون پہنچانے والی شریانیں بندکر دیتے ہیں۔جو ہارٹ اٹیک یا جسم کے کسی حصے کو مفلوج کرنے کا سبب بنتی ہیں۔متاثرہ شخص سانس لینے میں دقت اور سینے میں شدید دردمحسوس کرتا ہے۔بروقت طبی امداد نہ ملنے پر موت واقع ہو سکتی ہے۔تو پھر بری خبر پہنچانے کا درست طریقہ کیا ہے؟آخروہ کون سے اقدامات ہیں جو ایسے موقع پر مددگار ہوسکتے ہیں؟زیرِ نظر مضمون اس سلسلے میں آپ کی توجہ کا طلبگار ہے کہ شائد آپ کی مدد کسی بجھتے ہوئے چراغ کو نئی زندگی دے سکے۔
بری خبر پہنچانے کے درست طریقے۔
اپنا موقف بیان کرنے کی صلاحیت انسانی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ہر انسان کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی بری خبر کا پیغام رساں بننا پڑتا ہے۔اور میرے لفظوں کا گمان تو یہی کہتا ہے کہ کسی پیغام پہنچانے والے کے لئے اس سے مشکل کوئی مرحلہ نہیں ہوتا کہ اسے کوئی بری خبر پہنچانی پڑے۔لوگوں کو آپ کی اصل قدروقیمت کا اندازہ کسی بھی چیز سے زیادہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہنگامی حالات یا بحرانی کیفیت میں آپ کیسا رویہ اپناتے ہیں۔آپ حالات کو درست تو نہیں کر سکتے لیکن بری خبر کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے شدید ردِعمل اور اس کے نتائج کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔جب آپ کسی ایسے ہی مشکل مرحلے سے دوچار ہوں تو کچھ اقدامات اس مرحلے کو آسان تر بنا سکتے ہیں۔
1: پہلی ترجیح
ہنگامی حالت میں آپ کی سب سے پہلی ترجیح حالات کی بہتری اور لوگوں کی بھلائی ہونی چاہیے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس قسم کی خبر دینے جا رہے ہیں بلکہ اس خبر کے اثرات و نتائج اہم ہوتے ہیں۔
2: صورتحال کی نزاکت اور حقائق کا ادراک
حالات و واقعات کے متعلق مکمل آگاہی مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتی ہے۔بری خبر کے تمام پہلوؤں پر غور کریں خواہ یہ کتنے ہی تکلیف دہ ہوں۔آپ کاذہن جب صورتحال کی نزاکت کو سمجھ جاتا ہے تو اسے بیان کرنے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔
3: متوقع ردِعمل کا تصور
جس شخص یا اشخاص کو آپ بری خبر دینے جا رہے ہیں ان کے ممکنہ ردِعمل کا تصور کریں۔آپ اس ردِعمل کو کیسے ہینڈل کر سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے یہ آپ کی توقع سے زیادہ شدید ہو۔زیادہ سے زیادہ امکانات کو ذہن میں رکھیں اس طرح آپ زیادہ مہارت کا مظاہرہ کر سکیں گے۔
4: درست وقت اور جگہ کا انتخاب
موبائل فون یا انٹرنیٹ بری خبر پہنچانے کا تیز ترین مگر مہلک ذریعہ ہے۔ایسے موقع پر ذاتی ملاقات بہترین ہوتی ہے کیونکہ آپ درست لہجے اور مناسب انداز کا استعمال کر سکتے ہیں۔گفتگو کے ان دو انتہائی اہم نقاط کو نظر انداز نہ ہونے دیں۔گفتگو کے لئے مخصوص جگہ کا انتخاب کریں۔پرائیویسی متاثرہ شخص کو آزادانہ اورفطری ردِعمل کا موقع دیتی ہے جو اس کی مدد کے لئے نہایت اہم ہے۔اپنا موبائل فون بند کر دیں۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی قِسم کی مداخلت نہ ہو۔تاہم بعض اوقات بری خبر کا وقت اور جگہ کا انتخاب آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔لیکن اگرضروری تیاری کا فقدان نہ ہو تو آپ کسی بھی حادثاتی صورت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
5: لوگوں کو پیشگی خبردار کریں
بری خبر سنانے سے پہلے دوسرے شخص کو ذہنی طور پر تیار ہونے کا وقت دینا بہترین حکمتِ عملی ہے۔ای۔میل یا فون کے ذریعے متاثرہ شخص کو محض ملاقات کی جگہ اور وقت کے بارے میں بتائیں اور یہ کہ آپ کوئی بہت اہم بات کرنا چاہتے ہیں۔اس موقع پر تفصیلات میں جائیں اور نا جھوٹی تسلیاں دیں۔ اصل خبر پہنچانے سے پہلے لوگوں کو اس کے متعلق فکرمند ہونے کا موقع دیں تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار ہوں۔تاہم غیر ضروری ابہام پیدا نہ کریں۔
6: سامعین کی مناسبت سے اپنا پیغام ترتیب دیں
ایسے موقع پر آپکا مخاطب ایک شخص یا کئی اشخاص ہو سکتے ہیں مثلََا آپ کے خاندان کے افراد،دوست اور عزیز وغیرہ ۔اگر آپ کسی بڑے ادارے سے منسلک ہیں اوراس حوالے سے کوئی بری خبر ہے تو آپ ایک ہی وقت میں کئی طرح کے سامعین سے مخاطب ہوتے ہیں مثلاًبورڈآف ڈائریکٹرز،ٹیم کے اعلیٰ افسران ،انتظامیہ اور عام لوگ یا میڈیا وغیرہ۔تب آپ کو ایک ایساپیغام دینا ہوتا ہے جو ہر سطح اور ہر ذہنی معیار کے لوگوں،ان کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہو۔ایسا پیغام ترتیب دیں جو ہرلیول کے سامعین کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے۔کسی پریشانی میں تمام لوگوں کو برابر شریک کرنے کی یہ حکمتِ عملی اس کی شدت میں کمی کا باعث ہو گی۔
7: الفاظ کا چناؤ
یہ الفاظ کے محتاط انتحاب اور ان کی پر اعتماد ادائیگی کا وقت ہے۔خبر جتنی بری ہوتی ہے اندیشے اُتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں اور آپ کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کواپنے پیغام میں کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔حقائق کی شو گر کوٹنگ نہ کریں۔راست گو رہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں جو حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی۔بامقصد اور اور اعلیٰ طریقے سے لوگوں کو وہ سب کچھ بتائیں جو ان کے لئے جاننا ضروری ہے۔آپ کا رویہ اور الفاظ اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنے کہ آپ خود۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی گفتگو آپکی صفات اور اقوال واعمال کے مطابق ہو۔
8: آغاز میں بولنے کے بجائے سننے کو ترجیح دیں۔
فوراً اپنے مطلب کی بات بیان نہ کریں اور نہ خبر کو سرپرائیز کے انداز میں پیش کریں۔مختصر مگر سادہ سوالات سے گفتگو کا آغاز کریں۔مثلاً آپ کیسامحسوس کر رہے ہیں؟آجکل کیا ہو رہا ہے؟ جب دوسرا شخص بول رہا ہو تو خاموش رہیں۔لوگوں کو اظہارِ خیال کا موقع کا دے کر آپ ایک حیران کن حد تک اعتماد کی فضا پیدا کر سکتے ہیں۔آپ کی حکمتِ عملی وسیع سوچ پر مبنی ہونی چاہیے۔دوسروں کے جذبات کو سمجھیں۔اپنی اور دوسرے شخص کی سوچ کو یکساں سطح پر لانے کی کوشش کریں۔اس طرح آپ اپنے مخاطب سے ایک قابلِ بھروسہ ذہنی رابطہ قائم کر سکیں گے۔جو اس کی مدد میں اہم کردار ادا کرے گا۔
9: مسائل کا حل پیش کریں
اگر مسئلے کا کوئی حل موجود ہے تو اس پر توجہ دلانا آپ کا اگلا قدم ہے۔دوسرے شخص سے ملنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ ممکنہ حل تلاش کریں۔یہ متاثرہ شخص کے ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ہر مصیبت میں آسانی اور ہر دکھ میں سکھ کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور موجود ہوتا ہے۔خبر کے حوالے سے مستقبل کے بہتر امکانات کی طرف توجہ دلائیں۔حالات خواہ کتنے ہی ابتر کیوں نہ ہوں امید کی کرنیں موجود رہتی ہیں۔جو کچھ ہو چکا آپ اسے بدل تو نہیں سکتے لیکن بہتری کے لئے کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔
10: جنرلائیزیشن
صورتحال کو عمومیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔صورتحال کو زندگی کے ایک حصے کے طور پربیان کریں۔کسی خاص صورتحال کو عام زندگی کی تلخ حقیقتوں کے پس منظر میں بیان کریں۔کوئی بھی واقعہ اپنی نوعیت میں منفرد نہیں ہوتا ملتے جلتے دوسرے واقعات کا حوالہ دے کر موجودہ صورتحال کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
11: ہمدردی کا مظاہرہ کریں
گفتگو کے دوران ہمدردی کا مظاہرہ کریں مگر جذباتی نہ ہوں۔بری خبر شدید ردِعمل سامنے لاتی ہے۔آپ کو اس کا علم ہونا چاہیے۔ایک معقول ردِعمل نہ صرف دوسرے شخص کے احساسات بلکہ ان کی وجوہات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔متاثرہ شخص کو یہ احساس دلائیں کہ آپ اس کے جذبات کو سمجھتے ہیں مگر خود جذبات کا مظاہرہ نہ کریں ایسے موقع پر مثبت تاثر پیدا کرنے میں آپ کو وقت لگے گا مگریہ قابلِ قدر ہوگا خاص طور پر جب دوسراشخص بہت حساس ہو یا عدم تحفظ کا شکار ہو۔
13: اپنی ذمہ داری قبول کریں
بری خبر پہنچاتے وقت متاثرہ شخص کے جذبات کو اہمیت دیں۔اگر آپ اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں تو کھلے دل سے اس کی وضاحت کی کوشش کریں۔اپنی ذمہ داری قبول کریں اور معذرت کریں۔ کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود کو بچانے کی کوشش نہ کریں۔عاجزی و شرمندگی کا یہ رویہ دوسرے شخص کی شدتِ غم و غضب کم کرنے میں اہم کردارادا کر سکتا ہے۔
14: دیگر ارکان کو شامل کریں
معاملے میں دیگر ارکان کو شامل کرنا نہ بھولیں جو متاثرہ شخص کو اور آپ کو جذباتی و اخلاقی مدد فراہم کر سکتے ہوں مثلاً اس شخص کی فیملی کے ارکان یا کوئی اور اہم شخص۔
15: متاثرہ شخص کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں
خوشی ہو یا غم کی کیفیت ،زندگی متحرک رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ہنگامی حالات میں نہ صرف آپ پر بلکہ متاثرہ شخص پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔افسوسناک خبر پر غم کی مورت بن کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔موجودہ صورتحال میں متاثرہ شخص پر عائد ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائیں اور اس کے فرائض کی انجام دہی میں اس کی مدد کریں۔یہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور شدتِ غم میں کمی کی بہترین حکمتِ عملی بھی۔
16: پراعتماد رہیں
یہ ایک نفسیاتی اصول بھی ہے اور زندگی کی مسلمہ حقیقت بھی کہ انسانی شخصیت ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔بحران کی کیفیت میں بھی ہمیں دوسروں کا رویہ خواہ بہت کم صیح مگر متاثر ضرور کرتا ہے۔ایسے موقع پر آپ کا پراعتماد رویہ متاثرہ شخص کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔مگر یاد رہے آپ کا یہ اعتماد ہمدردی کے جذبات سے عاری نہ ہو۔محترم قارئین!زیرِنظر مضمون ہمارے قلم کی ایک حقیر سی کاوش ہے۔یقیناًکچھ پہلو ادھورے رہ گئے ہونگے کہ انسانی کوشش کبھی حرفِ آخر نہیں ہوتی ۔آرٹیکل کو مزید بہتر بنانے کیلئے ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں۔اس ضمن میں ہمارا ادارہ آپکا شکرگزار رہے گا۔
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...