Thursday 3 November 2016

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم

ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا ،طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بن مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا ؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد ؟ قال : نعم ، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر ۔(مسند احمد : ۴؍۲۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)’’حضرت عبد اللہ بن عبا س﷜ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید ﷜ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ ﷜ نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ﷜ نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ ﷺنے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس ﷜ کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔‘‘اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر ﷜ کی خلافت اور حضرت عمر ﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر ﷜ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر﷜ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہؓ کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر، طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لھم فیہ أناۃ فلوأمضیناھ علیہ فأمضاہ علیھم۔(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)’’حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ سے روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ، حضرت ابو بکر ﷜ کے دور خلافت اور حضرت عمر ﷜ کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر ﷜ نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر ﷜ نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔‘‘پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement) اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر ﷜ کا فیصلہ حجت (binding)ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ﷜ کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون، لازمی امر(binding) کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent)سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ ﷜ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ(judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance) کی حیثیت رکھتا تھا۔امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہؓ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، زبیر بن عوامؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔(اعلام الموقعین : ۳؍۴۴، اغاثۃ اللھفان : ۱؍۳۳۹۔۳۴۱)یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953 ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص ۲۱۹، مطبع دار السلام، لاہور)ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی (انڈیا)،مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاویٰ جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں: (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور)​ 

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...