Tuesday 29 November 2016

فتنہ مفہوم، وسعت اور طرزِعمل

فتنہ مفہوم، وسعت اور طرزِعمل

فتنہ ‘کہنے کو تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اپنے اثرات اور مفہوم کے اعتبار سے بہت گہرا ہے۔ فتنہ گھر بار اور اہل و عیال میں بھی ہو سکتا ہے،ملک اور روئے زمین پر بھی۔ اس لیے اس کے مفہوم کو جاننا، اس کی وسعت کو سمجھنا اور اس سے بچنے کی تدابیر کرنا اور فتنہ آ جانے کی صورت میں محتاط طرزِ عمل اپنانا انتہائی ضروری ہے۔‘فتنہ’ لغت کے آئینے میںلغوی طور پر فتنہ کے معنی ہیں: امتحان اور آزمائش۔ اس بھٹی کو بھی فتنہ کہتے ہیں جس میں سونے چاندی کے میل کچیل کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔ گویا کہ آزمائش کے لمحات سے گزر کر ایک مسلمان کندن بن جاتا اور دوسرا شخص میل کچیل کی طرح علیحدہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مصیبت، مشکل، سزا، سختی، گناہ، فسق و فجوراور کفر بھی فتنے کے مفہوم میں داخل ہیں۔فتنے کا مفہوم … قرآن وسنت میںقرآن مجید میں فتنے کا مفہوم کئی معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں آزمائش ، کہیں سزا کے معنی میں، اورکہیں کفر ،کہیں فساد کے معنی میں۔ گویا کہ لفظ فتنہ کا استعمال اور اس کے معانی کو پہچاننا بھی بہت بڑا امتحان ہے۔حدیث میں بیان کردہ فتنے کا مفہوم زیادہ تر باہمی فساد، خانہ جنگی اور باہمی کشمکش کی ایسی صورتِ حال پر بولا گیا ہے جب کچھ واضح نہ ہو پائے اور اخلاقیات کی سطح اس قدر گر جائے کہ معاملات سدھرنے کی بجائے اُلجھتے چلے جائیں۔اردو دان طبقے کے ہاں فتنے کا بھی تقریباً یہی مفہوم ہے اور زیرِ نظر تحریر میں اسی کے متعلق بات کی جائے گی۔فتنے کے متعلق چند قابل غور پہلو … مذکورہ تعریف کی روشنی میں1. فتنہ، مسلمانوں کے باہمی خلفشار کا مفہوم دیتا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ محاذ آرائی فتنے کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اسی لیے بعض احادیث میں تو واضح الفاظ ہیں: «إِذَا کَانَتِ الْفِتْنَةُ بَیْنَ الْـمُسْلِمِیْنَ…» ‘‘جب فتنہ مسلمانوں کے درمیان ہو…”2. فتنہ، ذاتی یا نجی صورتِ حال میں بھی پیش آ سکتا ہے لیکن وہ محض لفظی استعمال کی سطح تک ہے مگر جسے فتنہ کہہ سکتے ہیں جس کے متعلق بہت سے احکام بیان ہوئے ہیں، وہ ایسا فتنہ ہے جو بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسے آپ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کی بیان کردہ حدیثِ صحیحین سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہسیدنا عمر نے کہا: فتنے کی بابت تم میں سے حدیثِ نبوی کسی کو یاد ہے؟ میں نے کہا: مجھے یاد ہے۔ سیدنا عمر نے پوچھا: كیسے؟ حذیفہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: آدمی کو پیش آنے والا فتنہ اس کے گھر میں بھی ہو سکتا ہے، اس کی اولاد میں بھی اور اس کے ہمسائے کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایسے کام فتنے کی اس شکل کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا عمر فرمانے لگے: میری مراد یہ نہیں۔ میں تو اس فتنے کی بات کر رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح اُٹھے گا۔ سیدنا حذیفہ کہنے لگے: امیر المومنین! آپ کو اس کی فکر کی ضرورت نہیں۔ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ سیدنا عمر پوچھنے لگے: وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ توڑا جائے گا۔ سیدنا عمر نے کہا: جب اسے توڑ دیا گیا تو وہ تو پھر بند نہیں ہو گا۔”دروازہ ٹوٹنے سے مراد سیدنا عمر کی شہادت تھی اور اُنہیں اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ سیدنا عمر کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں جو فتنہ کھڑا ہوا ،اس کا دائرہ چند ایک لوگوں تک محدود نہ تھا بلکہ اس سے خلافتِ اسلامیہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور آج تک اُمت اس فتنے کا شکار ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے كہ فتنہ بہت سے لوگوں كو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس كے اثرات ایك عرصے تك باقی رہتے ہیں۔3. فتنہ، کینسر کی طرح آہستہ آہستہ اُمّتِ مسلمہ کے جسد میں سرایت کرتا ہے۔ یہ ایک دم سے نہیں اٹھ جاتا۔ دورِ حاضر میں رونما ہونے والے فتنوں کو دیکھ لیں یا قدیم دور میں کھڑے کیے گئے فتنوں كا جائزہ لے لیں، وہ تدریجاً تباہی کی طرف بڑھتے رہے اور انجام کار بہت سے لوگوں کو لپیٹ میں لے آئے۔ سیدنا عمر کے بعد اُٹھنے والا فتنہ بھی تدریجاً بڑھا اور پھیلتا چلا گیا۔ اسے پھیلنے میں تقریباً دس سال کا عرصہ لگا۔ کیونکہ اس دور میں میڈیا اتنا تیز نہیں تھا۔ مگر آج فتنے کی آگ میڈیا کے دوش پر جلد پھیل جاتی ہے۔
بشکریہ فا طمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...