Wednesday 30 November 2016

عظمت صحابہ اور احناف

عظمت صحابہ اور احناف
نہ طعنے تم ہمیں دیتے نہ یوں فریاد ہم کرتے
(ابومحمد علی زئی)
فلاں نے لکھا صحابی کا قول حجت نہیں، فلاں صحابہ کرام کے اقوال کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح کے بیشمار طعنے ہم آئے دن پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ اور ان اقوال سے یہ فہم اخذ کیا جاتا ہے کہ اہل حدیث صحابہ کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے بلکہ انکے گستاخ ہیں۔ معاذ اللہتو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کون صحابہ کے اقوال کو (تقلیدی جوتے)کی نوک پہ رکھتے ہیں اور کون محبِ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چونکہ اس طرح کی بے تکی باتیں نام نہاد احناف کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں تو بہتر یہی ہو گا انھیں وہ آئینہ دکھایا جائے جو خود انکے گھر کا ہو۔یہاں پر دو ٹوک یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کا ذاتی قول و فعل حجت نہیں، ایسا قول و فعل اس وقت حجت نہیں رہتا جب سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو اور اس طرح کی بیشمار مثالیں کتب احادیث میں مل جاتی ہیں، اور اس بات میں کوئی گستاخی نہیں جب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث مل جائے تو صحابی کا عمل ترک کر دینا ہی بجاہے کیونکہ ہم نے کلمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے، اس مختصر سی تمہید کے بعد آتے ہیں اپنے اصل ہدف کی طرف۔!!!اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو سنت کے مخالف پا کر چھوڑ دینا اگر صحابہ کی تنقیص ہے تو مندرجہ ذیل حوالوں کے جوابات مقلدین کے ذمہ ہیں۔ صحابہ کے اصل گستاخ کون؟ ملاحظہ فرمائیں۔٭دلیل نمبر:۱ فَقَالَ لَہُ أَبُو حَنِیفَۃَ: کَانَ حَمَّادٌ أَفْقَہَ مِنَ الزُّہْرِیِّ، وَکَانَ إِبْرَاہِیمُ أَفْقَہُ مِنْ سَالِمٍ، وَعَلْقَمَۃُ لَیْسَ بِدُونِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْفِقْہِ، وَإِنْ کَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَۃٌ، أَوْ لَہُ فَضْلُ صُحْبَۃٍ، فَالْأَسْوَدُ لَہُ فَضْلٌ کَثِیرٌ، وَعَبْدُ اللَّہِ ہُوَ عَبْدُ اللَّہِ، (مسندابی حنیفہ:رقم: ۱۸)ابو حنیفہ ۔ رحمہ اللہ ۔نے کہا حماد زہری سے فقہ میں افضل تھے اور ابراہیم سالم سے اور علقمہ (تابعی) ابن عمر رضی اللہ عنہ (صحابی رسول)سے فقہ میں افضل تھے ابن عمر صحابی ہونے کی وجہ سے تو افضل تھے لیکن علقمہ کو اسکے علاوہ بہت سے فضائل حاصل تھے۔تبصرہ: یہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تھے جو بچپن سے ہی فقیہ تھے، لیکن مسند ابی حنیفہ والا اپنے مطلب کیلئے ایک تابعی کی فقاہت کو صحابی کی فقاہت پر فضلیت دے رہا ہے، اور صحابی بھی وہ جن کی فقاہت کے چرچے احادیث کی کتابوں میں درج ہیں، یقیناً فقہ حنفی کے مدونین کی یہ سازش تھی کہ ایسے صحابی کی فقاہت کو نشانہ بنایا جائے جو فقیہ ہونے میں مشہور ہو تا کہ بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فقاہت خود بخود مشکوک ہو جائے۔٭ دلیل نمبر ۲: وَأَمَّا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ – رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ – فَہُوَ وَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِی حَنِیفَۃَ مِنْ حَیْثُ الصُّحْبَۃُ، فَلَمْ یَکُنْ فِی الْعِلْمِ وَالِاجْتِہَادِ وَنَشْرِ الدِّینِ وَتَدْوِینِ أَحْکَامِہِ کَأَبِی حَنِیفَۃَ، (رد المحتار:جلد:۱،ص:۵۶)اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحیثیت صحابی تو ابو حنیفہ سے افضل تھے لیکن علم، اجتھاد، دین کی نشر و اشاعت، اور احکام کی تدوین میں ابو حنیفہ سے افضل نہیں تھے۔تبصرہ: یہاں پر بھی وہی چال چلی گئی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جن کے علم و فقاہت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی گواہی موجود ہے، لیکن ابو حنیفہ ۔ رحمہ اللہ ۔کی شان میں اس قدر غلو کیا گیا کہ سلمان فارسی کو ان کے سامنے بہت ہی چھوٹا کر کے پیش کیا گیا تاکہ باقیوں کی علمی حیثیت مجروح ہو جائے، صحابۂ کرام کی اس طرح تذلیل کرنا رافضیت کے چہرے پہ سنیت کا لبادہ لگتا ہے۔٭ دلیل نمبر:۳ وَلَوْ قَذَفَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہَا بِالزِّنَا کَفَرَ بِاَللَّہِ، وَلَوْ قَذَفَ سَائِرَ نِسْوَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَکْفُرُ وَیَسْتَحِقُّ اللَّعْنَۃَ، وَلَوْ قَالَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ لَمْ یَکُونُوا أَصْحَابًا لَا یَکْفُرُ وَیَسْتَحِقُّ اللَّعْنَۃَ (فتاویٰ عالمگیری: ج: ۲،ص:۲۶۴)عائشہ رضی اللہ عنھا پر زنا کی تہمت لگانے والا کافر ہے، اور باقی ازواج مطہرات پہ زنا کی تہمت لگانے والا کافر نہیں صرف لعنت کا مستحق ہے، اور اگر کوئی کہے عمر، عثمان، اور علی رضوان اللہ تعالیٰ صحابی نہیں تھے تو ایسا شخص کافر نہیں صرف لعنت کا مستحق ہے۔تبصرہ: شیعہ امی عائشہ پر زنا کی تہمت لگائے تو پرلے درجے کا کافر لیکن تمہارے یہ نام نہاد فقھاء بقیہ ازواج مطہرات سے کس دشمنی کا بدلہ لے رہے ہیں؟ کیوں ان کی پاکدامنی پہ شک کے دروازے کھولے جا رہے ہیں؟ اسی طرح خلفاء راشدین نے کیا بگاڑا تھا کہ انکی صحابیت کا منکر تمہارے نزدیک کافر نہیں؟٭ دلیل نمبر۴: حَدِیثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ عِنْدَ الرُّکُوعِ وَعِنْدَ السُّجُودِ ، فَقَال: ہُوَ أَعْرَابِیٌّ لَا یَعْرِفُ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ، لَمْ یُصَلِّ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَلَاۃً وَاحِدَۃً. (مسندابی حنیفہ: رقم:۱۶)وائل بن حجر۔رضی اللہ عنہ ۔ فرماتے ہیں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع و سجود میں رفع الیدین کرتے دیکھا تو (ابراہیم النخعی) نے کہا وہ تو دیہاتی تھا اسلامی قوانین سے واقف ہی نہیں تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک نماز پڑھی تھی۔تبصرہ: ہم نے کسی صحابی کو دیہاتی کہہ کر اسکا قول رد نہیں کیا بلکہ ہم نے دیہاتیوں کے جوتے بھی سر پہ رکھے، اللہ ہمھیں توفیق نہ دے کہ ہم کسی صحابی پر جرح کریں، یہ قول جس کا بھی ہو مصنف نے بڑی خوشی سے نقل کیا ہے، اپنی تائید میں نقل کیا اور اس قول کی کوئی تردید نہیں کی لہذا مسند ابی حنیفہ کا مصنف صحابی پر جرح کا ذمہ دار ہے، استغفراللہہم نے کسی تابعی کو صحابی پر علم و فقہ میں فضیلت نہیں دی، ہم نے کسی صحابی کی ذات کو مجروح نہیں کیا، ہم نے یہ نہیں کہا کہ عائشہ کو گالی دینے والا کافر اور باقی ازاج مطہرات کو سب و شتم کرنے والا کافر نہیں، صحابہ کے اقوال سے حدیث صحیح کی بنا پہ اختلاف کرنا انکو حجت نہ بنانا اس میں صحابہ کرام کی تذلیل نہیں نہ ہی انکی شان میں کمی آتی ہے، بلکہ شان میں کمی کرنا صحابہ کی گستاخی کرنا یہ نمونے احناف کے جید علماء سے آپ پڑھ چکے ہیں۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں صحابہ کرام کے اقوال حجت نہیں اس مسئلہ پر پوری امت کے علماء متفق ہیں بلکہ علماِء احناف بھی اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:٭ ۱۔ وَالْحَاصِلُ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ فَیَجِبُ تَقْلِیدُہُ عِنْدَنَا إذَا لَمْ یَنْفِہِ شَیْء ٌ آخَرُ مِنْ السُّنَّۃِ، (فتح القدیر:جلد:۲،ص: ۶۸)اور حاصل کلام یہ ہے کہ صحابی کا قول ہمارے لئے تب تک حجت ہے جب سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟شاباش ہمارا بھی یہی موقف ہے۔٭ ۲۔ فتاوی شامی کے مصنف ابن الھمام کا یہی قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ یَجِبُ تَقْلِیدُہُ عِنْدَنَا إذَا لَمْ یَنْفِہِ شَیْء ٌ آخَرُ مِنْ السُّنَّۃِ.(رد المحتار:ج:۲،ص:۱۵۸)اور حاصل کلام یہ ہے کہ صحابی کا قول ہمارے لئے تب تک حجت ہے جب سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔٭ ۳۔ فیض احمد اویسی بریلوی لکھتا ہے، اگر فعل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا تسلیم بھی کیا جائے تو شھادت نفی بالاستغراق پر مقبول نہیں کیونکہ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ خلوت اور جلوت اور سفر اور حضر اور جمیع مجالس میں صحبت نہ تھی۔ ( رفع الیدین:ص: ۲۵)٭ ۴۔ ظفر علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں صحابی کا قول ہمارے لئے حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔ (اعلاء السنن: ص:۱۲۶)٭دلیل نمبر۵: محمود الحسن دیوبندی رقم طراز ہیں۔!باقی فعل صحابی وہ کوئی حجت نہیں (تقاریر :شیخ الہند: ص:۳۰)مزید دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ ایک صحابی کا قول حنفیہ پر حجت نہیں ہو سکتا۔ (تقاریر :شیخ الہند: ص:۴۳)٭دلیل نمبر:۶ سرفراز خان صفدر دیوبندی فرماتے ہیں۔!اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے۔ مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ جو حیثیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقیناً کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے، اگرچہ وہ صحیح بھی ہو۔ (راہ سنت: صفحہ :۱۱۴)تبصرہ: ان حضرات کو اصول دین کا ہی پتہ نہیں اور جسے دیکھو مناظر کی سیڑھی سے نیچے قدم نہیں رکھتا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال جب نص صریح کے خلاف ہوں گے تو ایسی صورت میں انھیں ترک کیا جائے گا بصورت دیگر ہر گز نہیں۔!!!(جسکا اقرار خود سرفراز خان صفدر دیوبندی اور کبار علمائے احناف نے بھی کر رکھا ہے)یہی موقف ہم اہل سنت کا اور یہی موقف (نام نہاد)سنیوں کا لیکن اس موقف میں جو نمایاں فرق ہے وہ یہ کہ ہم نے صحابہ کرام کے اقوال کو نص کے خلاف پاتے ہوئے نہایت ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ترک کیا اور سنت کو سینے سے لگا لیا لیکن یار لوگوں نے صرف ترک ہی نہیں کیا بلکہ سینہ تان کہ گستاخانہ جملے کہے۔احناف سے التماس ہے کہ حوالے نوٹ کر لیں اور دوبارہ کسی مجلس میں ایسی جہالت پر مبنی باتوںسے اجتناب کریں کہ فلاں کے نزدیک صحابی کا قول حجت نہیں فلاں صحابہ سے محبت نہیں کرتے لوگ ہنسیں گے تم پر، تمہارا تمسخر اڑایا جائے گا ہاں تسکین دل کی خاطر اپنی محفلوں میں بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہر صاحب علم جانتا ہے کہ صحابی کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں حجت نہیں ہوتا جسکا اقرار تمہارے علماء بھی کر گئے ہیں۔والحمدللہنہ طعنے تم ہمیں دیتے نہ یوں فریاد ہم کرتےنہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں،
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...