Saturday 9 December 2017

مضمون لکھنے کےچند مزید آسان طریقے

کیا آپ ایک اچھا لکھاری(رائیٹر)بننا چاہتے ہیں

(سبق نمبر:8)

مضمون لکھنے کےچند مزید آسان طریقے

معروف قلم کار محمود فیاض صاحب لکھتے ہیں کہ
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ لکھنا اچھی آواز کی طرح خداداد صلاحیت ہے اور ہر کوئی اچھا نہیں لکھ سکتا۔بیشک اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی آواز ایک اللہ تعالی کی نعمت ہے۔ مگر حقیقت میں گیت ، لکھنا، مصوری، یا کوئی بھی فن، دست قدرت نے ہر انسان کے اندر سیکھنے کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ البتہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس فن کو دیکھ یا پڑھ کر سیکھ جاتے ہیں اور کچھ کو اساتذہ کی رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہے۔ گروپ ھذا اسی کی ایک کڑی ہے جہاں دوستانہ گپ شپ میں سیکھنے کی کوشش جا رہی ہے۔
مگر ایک بات طے ہے، اگر آپ کی لگن سچی ہو، دل سے کام کرنے کا ارادہ ہو، اور اپنی خامیوں پر غصہ کرنے کی بجائے انکو کھلے دل سے سدھارنے کا عزم ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کم عرصے میں زیادہ بہتر لکھنا نہ سیکھ سکیں۔

اچھا لکھنا بھی کسی زبان سیکھنے کی طرح ہے۔ جیسے بچہ پہلے ایک دو لفظ بولنا سیکھتا ہے، پھر ٹوٹے پھوٹے جملے بنانے لگتا ہے اور بالاخر اس کو اپنا مدعا بیان کرنا آ جاتا ہے۔ اسی طرح اچھے اساتذہ اچھا جملہ بنانے کو لکھنے کے فن کی ابتدا اور معراج دونوں سمجھتے ہیں۔ جس کو اچھا جملہ کہنا آ گیا اسکا بہت سارا سفر ایک جست میں طے ہو گیا۔
ایک بار میں نے انور مقصود صاحب کے انٹرویو میں سنا وہ کہہ رہے تھے کہ اچھا جملہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تو میں نے (اپنی جہالت میں) سوچا کہ یہ کیا بات ہوئی جملہ تو کوئی بھی بنا لیتا ہے۔ برسوں بعد انکی بات سمجھ میں آئی۔ جو کام ایک اچھا جملہ کر دیتا ہے، وہ پورا مضمون بھی نہیں کر سکتا۔جملہ بنانے سے متعلقہ سبق نمبر 6 کا مطالعہ کریں۔

اسی طرح ایک اور معروف قلم کار انورغازی لکھتے ہیں

شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔
پہلا طریقہ ”روزانہ ڈائری لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں روز مرّہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار تجربات گواہ ہیں۔

دوسرا طریقہ ”کہانی لکھنا“ ہے۔ننھی منی ، چھوٹی چھوٹی، مختصر اور دلچسپ کہانیاں لکھنے سے آہستہ آہستہ لمبی اور طویل تحریر لکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ شروع شروع میں مختصر اخلاقی کہانیاں لکھنے کی مشق کریں اور کسی استاد سے اصلاح لیتے رہیں۔

تیسرا طریقہ ”کسی تحریر کی تلخیص وتسہیل“ ہے۔ کسی بڑے ادیب کی تحریر کو غور سے پڑھ کر اس کا ایسا خلاصہ نکالنا جس میں معنی ومفہوم تو اصل تحریر کا ہو، البتہ الفاظ اور اندازِبیان نو آموز لکھاری کا اپنا ہو۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معیاری تحریر کو لے کر اسے تین مرتبہ پڑھا جائے۔ پہلی مرتبہ سمجھنے کے لیے، دوسری مرتبہ سمجھانے کے قابل ہونے کے لیے، تیسری مرتبہ آسان اور مختصر ودلچسپ انداز میں تلخیص وتسہیل کرنے کے لائق ہونے کے لیے۔ تین مرتبہ مطالعہ کرلینے اور اہم چیزوں پر نشان لگانے کے دوران اگر کوئی مشکل یا تحقیق طلب لفظ آجائے تو اس کا معنی دیکھ کر متبادل آسان لفظ منتخب کریں، پھر تحریر کا ایک ایک پیرا لے کر اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔ اس طرح مشق کرنے سے بھی لکھنا آ جاتا ہے۔
نوٹ:میں خود (عمران شہزاد تارڑ  *لکھاری* گروپ کا ایڈمن) طریقہ نمبر 3 پر عمل کرتے ہوئے بیسیوں مضامین تالیف کر چکا ہوں۔

چوتھا طریقہ ”مکالمہ“ ہے۔ تحریر سیکھنے کا ایک طریقہ دو چیزوں کے درمیان فرضی مکالمہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی شہر میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، دوسرا دیہاتی زندگی کادلدادہ ہے۔ ایک چھٹی کا دن گھر پر سستاتے ہوئے گزارنے کا عادی ہے اور دوسرا فارغ وقت میں باہر جا کر شکار یا تفریح کا شوقین ہے۔ ایک خواتین کی جدید تعلیم کی افادیت کا قائل ہے جبکہ دوسرا اسے تباہ کن اور مضر سمجھتا ہے۔ ایک کو گرمی کا موسم اچھا لگتا ہے اور دوسرے کو کڑاکے کی سردی میں زندگی کا لطف آتا ہے۔ اس طرح کے دو متضاد نظریات کے حامل افراد یا اشیا کے درمیان مکالمہ لکھنے سے مافی الضمیر کے اظہار کی بہترین مشق ہوجاتی ہے۔

پانچواں طریقہ ”مراسلہ اور مکتوب نگاری“ ہے۔ کسی قومی وملّی مسئلے پر اخبارات میں مراسلہ بھیجنا یا اپنے احباب کو سنجیدہ گپ شپ کے انداز میں خط لکھنا بھی تحریر کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ مختصر، بامعنی اور جاندار انداز میں تحریر کیے گئے مراسلے اور خطوط تحریر کی صلاحیت پروان چڑھانے کا موثر طریقہ شمار ہوتے ہیں۔ نوآموز طلبہ اس سے بھی اپنی مشق کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں۔
نوآموز کالم نگار سمجھتے ہیں کہ تحریر لکھنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے۔ نہیں میرے بھائی نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کالم لکھنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ کالم کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے اگر درج ذیل امور کا خیال رکھا جائے تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ ضروری ترمیم اور لازمی تصحیح کی جائے۔ بعض اوقات کالم نگار کا ذہن اتنی تیزی سے کام کرتا ہے کہ اس کا قلم ذہن کا ساتھ نہیں دے پاتا اور بہت سے الفاظ تحریر ہونے سے رہ جاتے ہیں، اس لیے کالم کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں کوئی لفظ رہ نہ جائے۔ اگر کوئی لفظ بلا ضرورت لکھا گیا ہو تو اسے کاٹ دیا جائے۔ اگر کالم میں کاٹ چھانٹ زیادہ ہوجائے تو اسے دوبارہ صاف صاف لکھنا چاہیے۔ کالم دوبارہ لکھتے ہوئے اس میں اچھے اضافے بھی کیے جاسکتے ہیں اور غیر ضروری چیزوں کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی لفظ کے متعلق شک اور شبہ ہوکہ اس کے ہجے یا املا درست نہیں ہے یا یہ مناسب طور پر استعمال نہیں ہو رہا تو اس سلسلے میں لغت یا کسی استاد سے مدد لینی چاہیے۔
اسی طرح اگر آپ نے کالم میں اعداد وشمار، تاریخی اورتحقیقی معلومات دی ہیں تو ان کے درست ہونے کا یقین کرنے کے لیے متعلقہ مراجع سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ماہرین سے مشورہ کرنے میں بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ کالم نگار کوچاہیے کہ اپنے کالم کو قارئین کی نظر سے بھی پڑھے۔ اگر ایسا محسوس ہوکہ کسی جگہ کالم کے مندرجات کا صحیح ابلاغ قارئین تک نہیں ہوگا یا کم ہوگا تو اس صورت میں کالم کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نو آموز کالم نگار کے لیے یہ بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے کہ اسے کسی ایسی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوجائے جو اس کی خام تحریر کو اپنی اصلاح سے کندن بنادے، یا ایسا پڑھا لکھا سمجھدار دوست میسر ہوجائے جسے وہ کالم دکھا کر مشورہ لے سکے اور اس کی ”مشاورتی اصلاح“ کی روشنی میں اپنے کالم کو بہتر سے بہتر کرسکے۔

گروپ ایڈمن:عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان،
واٹس اپ پر " لکھاری" گروپ میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں ۔

واٹس اپ :00923462115913
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...