Sunday 24 December 2017

دنیا کی تاریخ گواہ ہے، عدل بنا جمہور نہ ہوگا

دنیا کی تاریخ گواہ ہے، عدل بنا جمہور نہ ہوگا

24 دسمبر 2012 کی رات ایک فیملی اپنی بہن کا ولیمہ اٹینڈ کرکے گھر آرہی تھی کہ سندھ کے تالپور گھرانے کے چشم و چراغ سراج تالپور نے ان میں سے ایک لڑکی کو چھیڑنا شروع کیا۔ لڑکی کے بھائی، شاہزیب خان نے اسے منع کیا، جھگڑا ہوا اور تالپور کو وہاں سے جانا پڑا۔

پھر تالپور اپنے دوست، سندھ کے جتوئی خاندان کے چشم و چراغ شاہ رخ جتوئی اور دو مزید دوستوں کے لے کر ان کے گھر آیا، پھر سب کی آنکھوں کے سامنے شاہزیب خان کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے سیدھے فائر کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا اور فرار ہوگئے۔

شاہزیب کا والد ڈی ایس پی تھا، مقدمہ چلا، ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گواہ وغیرہ سب موقع پر موجود تھے، سیش کورٹ کے چچ نے شاہ رخ اور سراج کو پھانسی جبکہ دوسرے دو ساتھیوں کو معاونت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔

معاملہ جتوئی اور تالپور گھرانوں کا تھا، ایسے ختم ہوجاتا تو پھر ہمارے ملک کو پاکستان کون کہتا؟ چنانچہ مقتول کی فیملی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا گیا۔ انہیں دھمکیاں ملیں کہ اگر ہمارے بیٹے نہ رہے تو تمہاری بیٹیوں کو ایک ایک کرکے سربازار ننگا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ پھر شاہزیب خان کے مجبور والدین کو مجبوراً ایک معافی نامہ سائن کرکے عدالت جمع کروانا پڑا جس میں انہوں نے اپنی خوشی اور اللہ کی خاطر تمام مجرمان کو معافی دینے کا اقرار کیا۔

لیکن بس اتنا کافی نہ تھا، کیونکہ قتل کے ان مجرمان کے خلاف دہشتگردی کی دفع بھی عائد تھی جسے کوئی انفرادی طور پر معافی دے کر ختم نہیں کروا سکتا۔

چنانچہ پھر تالپور اور جتوئی گھرانوں نے اپنے سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے زریعے استغاثہ کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف عدالت میں دہشتگردی کی دفعہ قائم کرنے کے خلاف رٹ دائر کی گئی جس کے جواب میں سندھ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر انتہائی کمزور بیان داخل کیا گیا، نتیجے کے طور پر چند ماہ پہلے سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان پر دہشتگردی کی دفع ختم کردی۔

اب معاملہ آسان ہوگیا - نئے سرے سے معافی نامہ جمع ہوا اور آج چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ چاروں ملزمان پورے 5 سال بعد رہا ہوکر باہر آئے تو انہوں نے وکٹری کے نشان بنا رکھے تھے جیسے کوئی بہت بڑا فاتح اپنی مقبوضہ سلطنت کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے بناتا ہے۔

کیا یہ مقدمہ شاہزیب خان کے والد کی معافی سے ختم ہونا چاہیئے تھا؟ کیا اس میں ریاست کو فریق بنتے ہوئے جتوئی اور تالپور گھرانے کے ان ظالموں کو پھانسی دلوا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ظلم کا راستہ بند نہیں کروانا چاہیئے تھا؟

اعتزاز احسن کی عدلیہ تحریک کے دوران یہ نظم بہت مشہور ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ،

ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی

ریاست ہماری واقعی ماں جیسی ہے، بس شہریوں کو جتوئی، تالپور، شریف، زرداری جیسے خاندانوں سے ہونا پڑے گا۔

اگر آپ کا تعلق ان خاندانوں سے نہیں تو پھر ریاست ہوگی ڈائن جیسی، ہر شہری پر ظلم ہوگا

                  عدل اور عدلیہ   

ہمیشہ سے کسی بھی ملک کے بہتر معاشرے کی تشکیل میں جہاں لوگوں کا انتظامیہ اور حکومت کا کردار رہا ہے وہاں سب سے زیادہ اہم کردار اعلی عدلیہ کا بھی ہے کیونکہ ان تمام اداروں کی دیکھ ریکھ عدلیہ کی نگرانی میں ہی ہوتی ہے جیسے انصاف کی فراہمی، آئین کی پاسداری، قانون کی بالادستی جیسے اہم فرائض شامل ہے دنیا میں جہاں جہاں یہ فرائض منصفانہ اور شفاف طریقے سے انجام دئیے جارہے ہیں وہاں کی ترقی اور خوشحالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے.

پاکستان میں امیر کا قانون الگ اور غریب عوام کا قانون الگ یہاں ایک عام آدمی کو انصاف کی پاداش میں اس دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے اسکے باوجود اسے انصاف نہیں ملتا اور انصاف کی امید لیے اس دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان فرائض کی انجام دہی ناپید ہے. جس میں انصاف کی فراہمی، آئین کی پاسداری، قانون کی بالادستی شامل ہے. اسی وجہ سے ہمارے ملک میں کرپشن، مہنگائی، رشوت خوری، قانون شکنی، زنا خوری، اور قتل و غارت گری عام ہے. اور یہ سب حالات اعلی عدلیہ کی مجرمانہ خاموشی سے وابستہ ہیں.اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں اسلامی قانون اور اسلامی معاشرے کا نام و نشان تک نہیں ہے.پاکستان کے حالات سے ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی دورہ جاہلیت راج ہے. یہاں ایک طرف تو شاہ رخ جتوئی جیسے معاشرے کے طاقتور لوگ جرم کرکے بھی پیسے کے دم پر رہا ہوجاتے ہیں اور دوسری جانب گوجرانوالہ کے دو بھائیوں کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے آج تک در بہ در بھٹک رہے ہیں۔

ایک طرف ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لیجانے والے کو رہا کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب باہر سے لوٹ کا پیسہ لانے والے کو ذلیل اور خوار کیا جاتا ہے.

اگر اعلی عدلیہ نے گاندھی جی کے تین بندر والی روایت قائم رکھی یعنی برا مت کہو، برا مت دیکھو، برا مت سنو، اور عوامی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ کی گئی تو ہمارا ملک انتشار کا شکار ہو جاتے گا.

کیونکہ جہاں قانون امیروں کے گھر کی لونڈی بن جائے جہاں پیسے کے دم پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جائے جہاں ملک کو لوٹنے والے لٹیرے اقتدار میں اور عوام مسائل کا شکار ہوں.

جہاں انصاف کے رکھوالے انصاف دینے میں حقیر ہوں جو فیصلہ دینے سے پہلے امپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہیں

جہاں ایک غیر ملکی ایجنٹ پاکستان کے شہریوں کا قتل عام کرکے دھمکیاں دے کر اور پیسے منہ پر مار کر رہا ہو جاتا ہوں.

جہاں عوامی اور عسکری اداروں پر قانون کا کوئی دیکھ ریکھ نہ ہو.جہاں ماورائے عدالت قتل پر عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہے تو وہاں بےضمیر اور بے حس لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں.جہاں وڈیرے، زمیندار اور جاگیردار باغ سے ایک پھل توڑنے پر معصوم بچوں پر کتے چھوڑ دئیے جائیں جہاں شیر خوار بچوں کی ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہو. جہاں سات سال کے بچے کو لاک اپ میں بند کر دیا جاتا ہو. یہاں قانون کا بر وقت انصاف کا فراہم کرنا اور اداروں کا دائرہ کار وضع کرنا اور عوام کو وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی اچھے معاشرے کی روایت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی.
پوسٹ بائی عمران شہزاد تارڑ
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...