Monday 4 December 2017

کالم ، بلاگ اور کہانی

کیا آپ ایک اچھا لکھاری(رائیٹر)بننا چاہتے ہیں

سبق نمبر:13

کالم ، بلاگ اور کہانی

(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اس نشست میں ہم کالم ، بلاگ اور کہانی کے بارے میں  مختصر جانیں گے کہ یہ کیا ہوتے ہیں اور  انکی پہچان یا انداز کیا ہوتا ہے، ساخت کیا ہوتی ہے، لکھتے ہوئے کن باتوں کا دھیان رکھا جاتا ہے۔

کالم

اخباری صحافت میں کالم کا آغاز خبروں کے علاوہ ایک کالم میں کسی موضوع پر ہلکا پھلکا تبصرہ یا جائزہ، یا کسی موضوع کے حق یا مخالفت میں کوئی مختصر تحریر لکھ دی جاتی تھی۔ ایک کالم میں ہونے کی وجہ سے شائد اس کو کالم ہی کے طور پر جانا جانے لگا۔ حالانکہ اس کا ایک کالم میں ہونا ضروری نہیں اور اب تو کالم دو، تین یا چار کالموں پر بھی پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ شائد پرانے زمانے میں جب چھاپہ خانہ اتنا جدید نہیں ہوتا تھا، کسی تحریر کو زیادہ کالموں میں لگانا مشکل امر ہوتا ہو گا۔

کالم کی پہچان یہ ہے کہ یہ اخبار کا مستقل سلسلہ ہوتا ہے اور تقریباً روزانہ یا ہفتے کے مخصوص دنوں میں لازمی چھپتا ہے اور ایک ہی لکھاری اس کو لکھتا ہے۔ یعنی ایک کالم اخبار میں ایک مخصوص جگہ ایک ہی لکھاری لکھتا ہے کوئی دوسرا اس جگہ چھپ نہیں سکتا۔ اگر چہ جگہ کی پابندی اب کم ہو گئی ہے مگر ادارتی صفحات ہی کی مخصوص جگہ پر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کالم چھپتے ہیں۔ بعض کالم ادارتی صفحات کے علاوہ بھی چھپتے ہیں لیکن ان کے لیے بھی کسی مخصوص صفحے پر ہی چھپنا ضروری ہوتا ہے۔

کالم کی دوسری پہچان یہ ہے کہ یہ اخباری پالیسی کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہوتا اور عموماً لکھنے والے کی اپنی رائے یا تجزیے پر مشتمل ہوتا ہے۔ کالم میں اگرچہ دنیا جہان کے موضوعات کو سمیٹا جاتا ہے مگر ہر کالم کی ایک مخصوص پہچان ہوتی ہے جس کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ کے کالم کی پہچان ایک سیاسی کالم کے طور پر ہے تو اس کو سیاسی موضوعات کے گرد ہی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگرچہ کبھی کبھار آپ سیاست سے ہٹ کر بھی لکھ سکتے ہیں مگر آپ کے قارئین آپ سے سیاسی موضوعات ہی کی توقع رکھتے ہیں تو مستقل طور پر آپ اس موضوع سے باہر نہیں جا سکتے۔ اسی طرح اگر ایک کالم مزاحیہ ہے تو اسکو مزاحیہ تحریروں ہی میں لکھنا لکھاری کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کالم فیشن کے بارے میں ہے تو زیادہ تر تحریریں فیشن کی دنیا کے بارے میں ہی ہونا چاہیں۔

ویسے تو کالم  کئی قسم کے ہو سکتے ہیں مگر موٹی موٹی اقسام اگر دیکھی جائیں تو کالم تجزیاتی، تحقیقاتی، سیاسی، ناصحانہ  ، یعنی نصیحت وغیرہ، فیشن ، کھیل، ادب ، سماجیات، معاشیات، کھانا پکانا، تنقید، کتابوں پر تبصرہ اور حالات حاضرہ پر تبصرہ وغیرہ ہو سکتی ہیں۔

کالم بحرحال ایک اخباری تحریر ہی ہے اور اس کو لکھنے کے لیے ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کہنہ مشق کالم نگار گاہے کچھ اصول و ضوابط کو نظر انداز کر سکتے ہیں مگر ان کو بہتر اندازہ ہوتا ہے کہ وقتی طور پر موضوع یا اپنے مخصوص انداز سے ہٹنے سے ان کے قارئین پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر آپ مستقل طور پر ایسی غلطیاں کریں گے جو کالم کو کالم کی پہچان نہ دے سکیں تو آپ کبھی بھی اپنے کالم کے مستقل قارئین کا حلقہ نہیں بنا سکیں گے۔ ان غلطیوں میں کالم کا انداز تحریر بدلتے رہنا، موضوعات کے تنوع کے چکر میں چوں چوں کا مربع بنا دینا، دلچسپی پیدا کرنے کی خاطر سنجیدہ کالم کو مزاحیہ بنانے کی کوشش کرنا یا مزاحیہ کالم میں سیاسی سنجیدگی گھسیٹ لانے کی کوشش کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

بلاگ

آئیے اب بلاگ کی بات کرتے ہیں، جو کالم ہی کی جدید شکل سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دوست کالم اور بلاگ کے فرق کو نہیں سمجھتے اور انکا قصور بھی نہیں ہے کہ اب یہ فرق کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ، الیکٹرانک صحافت، اور سوشل میڈیا نے دنیا کے بہت سے اصول و ضوابط بدل دیے ہیں تو اگر کالم اور بلاگ کو ایک جیسا سمجھا جانے لگا ہے تو اس میں ایسی کوئی برائی کی بات بھی نہیں ہے۔

مغربی دنیا میں تو بلاگ ایک ویب سائیٹ کی شکل میں نمودار ہوا اور یہ ایک ایک ایسی تحریر تھی جو ایک بلاگر روزانہ اپنی ویب سائٹ پر ڈالتا تھا۔ بلاگ لکھنے کا عمومی انداز ایک شخص کے کسی موضوع کا واقعے پر زاتی تاثر جیسا ہوتا ہے۔ جیسے کہ ایک لکھنے والا اپنے تاثرات ڈائری کی شکل میں لکھ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا میں بھی بلاگنگ ترقی کرتی گئی اور سارے مشہور اخبارات نے بلاگرز کو اہمیت دینا شروع کی اور بہت سے بلاگرز اخبارات میں لکھنا شروع ہو گئے۔ پاکستان میں بھی حال ہی میں کچھ بلاگرز کو ایک نئے اخبار نے اپنے ادارتی صفحہ پر لکھنے کے لیے منتخب کیا ہے اور امید ہے کہ یہ رجحان اب چل نکلے گا۔

پاکستان میں بلاگ کو کالم ہی کی طرح کا ایک آرٹیکل یا تحریر سمجھا جاتا ہے جو لکھنے والا زیادہ تر کسی ویب سائیٹ پر چھپنے کے لیے بھیجتا ہے۔ چاہے یہ ویب سائیٹ کسی اخبار کی ہو یا کوئی آن لائن میگزین ہو۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت سے بلاگرز انٹرنیشنل ویب سائیٹس پر بھی بلاگ لکھتے ہیں مگر وہ سارے انگریزی میں ہوتے ہیں جو اس نشست کا موضوع نہیں ہیں۔

بلاگ لکھنے سے متعلق چند باتیں اگر دھیان میں رکھیں تو آپ بہتر بلاگ لکھ سکیں گے۔ بلاگ ایک غیر رسمی تحریر ہے اس لیے اس میں آپ کو کالم کی طرح بہت زیادہ پابندیوں کا خیال نہیں رکھنا پڑتا۔ مگر اچھی اور متوجہ کردینے والی تحریر ایک بلاگ میں وہی ہوتی ہے جو ایک بے تکلفانہ دوست کو خط لکھنے جیسی روانی لیے ہوئے ہو۔ آپ جس موضوع پر بھی لکھ رہے ہوں، اس کا انداز قدرتی ہونا چاہیے اور اگر آپ قاری کو بہت ساری معلومات بھی دینا چاہتے ہیں تو اسکا انداز بھی ایسا ہو جیسے ہم کسی محفل میں بات کر رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے مضمون کے بارے میں بات کی تھی کہ اس میں شروع میں تعارف دینا اور آخر میں خلاصہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ بلاگ یا کالم میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ آپ اپنی بات کہیں سے بھی شروع کر سکتے ہیں اور کسی بھی نکتے پر اس کا اختتام کر سکتے ہیں۔ ضروری بات مگر یہ ہے کہ آپ اپنی بات کو اپنے پڑھنے والے تک پہنچا سکیں۔ آپ کی تحریر میں بہت زیادہ بے ترتیبی نہ ہو۔ جو بھی بات کریں آپ کا پڑھنے والا اس کے پس منظر سے واقف ہو یا کم از کم آپ کے انداز سے ظاہر ہو کہ آپ کچھ دیر بعد اس بات کی تشریح کرنے والے ہیں۔ جو سوال آپ اپنی تحریر سے قاری کے زہن میں اٹھائیں اسکا جواب اسی تحریر میں موجود ہو۔

بلاگ کے باقاعدہ چھپنے کی کوئی پابندی نہیں ہے اور چونکہ یہ ویب سائٹ کی تحریر ہے اس لیے بلاگ کے اندر آپ دوسری تحریروں کے لنکس، کسی ویڈیو کا لنک، یا کسی تصویر کا لنک بھی دے سکتے ہیں۔ اچھا بلاگ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو اپنے موضوع پر گرفت ہو۔ گرفت سے مراد یہ نہیں کہ آپ اس موضوع میں سینکڑوں کتابیں ازبر کر چکے ہوں، مگر یہ ضروری ہے کہ آپ جس موضوع پر بھی اظہار خیال کر رہے ہیں اس کے بارے میں موجود معلومات، اس شعبے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور اس موضوع کے ماہرین کے بارے میں آپ کی معلومات مکمل ہوں۔

کہانی

کہانی شائد تحریر کی سب سے پرانی شکل ہے۔ انسانی طبیعت ازل سے مافوق الفطرت چیزوں کے بارے میں جاننے کی خواہشمند رہی ہے اور اسی خواہش میں اس نے جنوں پریوں اور دیوتاؤں کی کہانیاں بنا رکھی ہیں۔ پہلے زمانوں میں جب چھاپنے خانے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی زیادہ تر کہانیاں سینہ بسینہ چلتی آتی تھیں اور ہر علاقے میں داستان گو ان کہانیوں کو شام کی محفلوں میں سنایا کرتے تھے۔ ان کہانیوں اور داستان گوؤں کی خاص بات یہ تھی کہ بسا اوقات ایک ہی کہانی مختلف داستان گو اپنے اپنے رنگ میں سنایا کرتے تھے اور کسی ایک داستان گو کا انداز لوگوں کو بہت بھا جاتا تھا۔ لوگ دور دور سے اس کی کہانی سننے آیا کرتے تھے۔ کہانی کو اچھی طرح سے بیان کرنا بھی ایک فن ہے۔ ماضی میں یہ فن داستان گوؤں کے پاس تھا اور آج کے زمانے میں یہی فن لکھنے والے کے پاس ہے۔

کہانی کا اچھا اور پر اثر ہونا ایک بات ہے مگر اسکو بیان کرنا دوسری بات۔ ایک اچھی اور خوبصورت کہانی کو ایک برا لکھنے والا بوریت زدہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عام سی کہانی کسی اچھے لکھنے والے کے قلم سے ادا ہو کر خاص ہو سکتی ہے۔

کہانی کی تعریف یہ ہے کہ یہ کچھ کرداروں کے بارے میں کچھ ایسے واقعات پر مشتمل ہوتی ہے جو باہم مربوط ہوتے ہیں اور کسی نکتے یا مسئلے کی تفہیم کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہانی ایسے واقعات کا سلسلہ ہوتی ہے جو کسی نتیجہ پر پہنچ کر ختم ہوتے ہیں۔

کہانی لکھنا بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ کہانی لکھنے میں لکھنے والے کی بیک وقت کئی صلاحیتیں کام آتی ہیں۔ کردار نگاری، منظر نگاری، کہانی کی بنت، اور واقعات کے تسلسل، اور ان سارے اجزا کو باہم ایسے مربوط کرنا کہ کہانی کی تسلسل اور قاری کے تصورات کا سلسلہ نہ ٹوٹنے پائے۔ ان سب کے ساتھ الفاظ و بیان کی قدرت اور کہانی کا بہاؤ بھی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری ان سب کا خیال رکھتا ہے۔

خیر یہ تو زیادہ بات ہوگئی کہ اچھی کہانی لکھی کیسی جائے۔ مگر کہانی کی ساخت میں بنیادی باتیں یہی ہیں کہ اس میں کرداروں کا خیال رکھا جائے، واقعات کی ترتیب ہونا چاہیے، اور آپ کہانی سے جو پیغام دینا چاہتے ہیں وہ ان واقعات سے واضح ہوتا محسوس ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر کہانی کا ایک اخلاقی سبق بھی ہو، مگر اگر آپ اس وجہ سے لکھ رہے ہیں تو کہانی کے آخر میں اس سبق کو واضح کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ یاد رکھیے کہانی عموماً زمانے کے حساب سے چلتی ہے یعنی پرانے سے نئے واقعات کی طرف۔ البتہ بعض اوقات اس کو الٹے رخ بھی لکھا جاتا ہے اور اس میں سب سے آخری واقعہ پہلے لکھا جاتا ہے اور پھر اسکی وجہ تلاش کرتے ہوئے پچھلے واقعات کی طرف جایا جاتا ہے۔

آخر میں ایک چھوٹی سی بات۔ زیادہ تر لکھنے والے گرائمر، اصناف سخن، اجزائے تحریر جیسی چیزوں کو بندشوں کی طرح سمجھتے ہیں اور بظاہر بڑے بڑے لکھاری بھی آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ بس قلم اٹھائیے اور لکھنا شروع کر دیجیے۔ مگر ان میں سے ہر ایک کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ ان بنیادی باتوں کا علم ہونا بحرحال ضروری ہے کیونکہ انکے بغیر آپ جو لکھیں گے وہ ایک ڈائری نما کوئی چیز تو ہو سکتی ہے مگر کوئی مروجہ تحریر نہیں۔

(https://ibnesufi.com:ماخوزاز)
مزید معلومات کے لیے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923462115913

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

گروپ ایڈمن:عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان،
واٹس اپ پر " لکھاری" گروپ میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں ۔

واٹس اپ :00923462115913
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...