Sunday 10 December 2017

مسجد اقصی اور گنبد صخرہ میں فرق اور مختصر تاریخ



مسجد اقصی اور گنبد صخرہ میں فرق اور مختصر تاریخ

(اشاعت:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی اور قبة الصخرہ واقع ہیں- اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں- 

اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1 میں لکھا ہے کہ ’’یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا- یہ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی جو Aelia سے لیا گیا، بکثرت استعمال کرتے ہیں- انہیں اس کا قدیم نام Jerusalem بھی معلوم تھا جسے وہ اور یشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے ہیں-‘‘ کتاب مقدس (بائبل سوسائٹی) میں اسے یروشلم لکھا گیا ہے- ’’بیت المقدس‘‘ سے مراد مبارک گھر‘‘ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے سے گناہوں سے پاک ہوا جانا ہے- اقصی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہت دور کے ہیں- ایک صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا- مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہے- بیت لحم اور الخلیل بیت المقدس کے جنوب جبکہ رام اللہ شمال میں واقع ہے- بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے- انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبة الصخرة واقع ہیں- کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی-

سب سے پہلے حضرت ابراہیم اور ان کے بھتیجے لوط نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی- 620ء میں نبی کریم جبریل کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس بہنچنے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے- مسجد اقصی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے- 
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصی یا الحرم القدس الشریف کہتے ہیں- یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے- یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں-

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے-
قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: 

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم نے اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔(سورہ الاسراء آیت نمبر 6)

اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
’’میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: مسجد اقصی، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال...۔ (صحیح بخاری: 3366، صحیح مسلم: 520)

 حضرت یعقوب نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا- پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی- اسی لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے تھے-

اسلامی عہد میں مسجد اقصی کی تعمیر:
137ق م میں رومی شہنشہاہ ہیڈرین نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا- چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے- جب نبی کریم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اس وقت یہاں کوئی ہیکل نہ تھا، چنانچہ قرآن میں مسجد کی جگہ ہی کو مسجد اقصی کہا گیا- 2ھ /624 تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا- 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا-
بیت المقدس کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح طے پانے اور مقدس شہر پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد حضرت عمرنے بیت المقدس سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھی- یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی (کیونکہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی ہی کہا گیا ہے)-

جب حضرت عمر نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں کا دورہ کیا- عین اس جگہ پہنچنے کے بعد آپ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ ہمیں کس جگہ مسجد تعمیر کرنی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تعمیر ہونی چاہیے- مگر خلیفہ دوم نے جواب دیا کہ تعمیر اس پہاڑ کے سامنے ہوگی کیونکہ مسلمان ہمیشہ مساجد کے سامنے نماز ادا کرتے ہیں- تاریخ التباری میں ہے کہ جب حضرت عمر نے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ مسجد کہاں تعمیر ہونی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ پہاڑ کے پیچھے، حضرت عمر نے فرمایا میں مسجد کی تعمیر اس پہاڑ کے عین سامنے کروں گا جیسا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کی تمام مساجد کیلئے قبلہ بنا دیا تھا-

جب خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یروشلم کی چابیاں دی گئیں تو اہل یروشلم نے خلیفہ کا استقبال نہایت جوش و خروش سے کیا- شہر میں داخل ہونے کے بعد خلیفہ دوم نے شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کیلئے اہل علاقہ سے جگہ کی بابت دریافت کیا لوگوں نے آپ کی توجہ ایک گرجا گھر کی طرف دلائی لیکن حضرت عمر نے جو جواب دیا وہ قیامت تک اسلام کے ’’فلسفہ برداشت‘‘ کی روشن مثال ہے- آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز گرجا میں نماز ادا نہیں کروں گا- مبادا کہ بعد میں آنے والے مسلمان اسے ایک فرض عمل نہ سمجھ لیں اور ہر گرجا گھر کو مسجد میں بدل نہ دیں- اس وجہ سے آپ نے وہاں نماز ادا نہ کی- حضرت عمر نے اس جگہ چند دن قیام کیا اور مسلمانوں کیلئے بلند جگہ پر مسجد کی تعمیر کی- 

آج یہ مسجد ’’مسجد عمر‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے- جب یروشلم فتح ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے ان سے کہا کہ مجھے مسجد دائود اور محراب دائود دکھائو کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں ہے- انہیں اس مقدس جگہ کے دروازے پر لے جایا گیا جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے- وہاں عرصہ دراز سے صفائی نہ ہونے کے باعث گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے داخلی دروازے کا راستہ بند ہو چکا تھا- حضرت عمر فاروق نے دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ’’میں قسم کھاتا ہوں اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہی وہ مسجد دائود ہے جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا تھا-‘‘ 

اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے اپنے بدن کے کپڑوں سے اس جگہ کی صفائی شروع کردی- یہ دیکھ کر وہاں پر موجود مسلمان بھی آپ کی پیروی کرنے لگے- اس کے بعد آپ مسجد میں داخل ہوئے- وہاں پر نماز ادا کی اور تلاوت قرآن کی- اس طرح سے وہ عمارت ایک مسجد کے روپ میں آج بھی موجود ہے-
اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کرلی- خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبة الصخرہ بنایا گیا- 1099ء (492ھ) میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ستر ہزار مسلمان شہید کردیئے- 1187ء (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرا لیا- خلیفہ عبد الملک نے مسجد اقصی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک ( 705ء تا 715ء) نے مسجد اقصی کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین کی اور ابو جعفر منصور نے اس کی مرمت کرائی-

 صلیبیوں نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیا تو مسجد اقصی میں بہت ردوبدل کیا گیا- انہوں نے مسجد میں رہنے کے کئی کمرے بنالیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں- سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں شہر بیت المقدس فتح کر کے مسجد اقصی کو دوبارہ تعمیر کیا- مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبة الصخر ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے- وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبة الصخر نہیں لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بناء پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے-

زمانۂ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ’’مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے-‘‘

قبة الصخرہ:
"قبۃ الصخرۃ (Dome of the Rock) یروشلم/بیت المقدس میں مسجد اقصی کے قریب موجود ایک تاریخی چٹان کے اوپر سنہری گنبد کا نام ہے۔ یہ ہشت پہلو عمارت پچھلی تیرہ صدیوں سے دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں ميں شمار ہو رہی ہے۔ یہ حرم قدسی شریف کا ایک حصہ ہے۔ عیسائی اور یہودی اسے Dome of the Rock کہتے ہیں۔ عربی میں قبۃ کا مطلب گنبد اور الصخرۃ کا مطلب چٹان ہے۔"(تحریر میں اضافی الفاظ عمران شہزاد تارڑ)

اموی خلیفہ عبد الملک (685ء تا 705ء) نے قبة الصخرہ کی تعمیر مکمل کی اور مامون الرشید اور معتصم کے زمانے میں اس کی تجدید ہوئی- مشہور مسلمان جغرافیہ نگار مقدسی یروشلم میں 375ء میں پیدا ہوا تھا، وہ قبة الصخرہ کے بارے میں لکھتا ہے ’’یہ ایک ہشت پہلو عمارت ہے- اس کے چار دروازے ہیں جن تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچا جاتا ہے-


 اندرونی حصہ تین ہم مرکز والانوں میں منقسم ہے جن کے ستون سنگ مرمر کے ہیں- اس کے وسط میں صخرہ ہے اور اس کے نیچے غار ہے جس میں ستر آدمی سما سکتے ہیں- صخرہ کے گرد ستونوں کا حلقہ اسے باقی حصوں سے جدا کرتا ہے، اس کے اوپر ایک دریچے دار ڈھولنا ایک خوبصورت گنبد کو اٹھائے ہوئے ہے- گنبد کی چھت تک بندی 100 باع (سواسو گز) ہے- گنبد لکڑی کے تین چوکھٹوں کا بنا ہوا ہے- نیچے والے پر سنہری تانبا چڑھا ہوا ہے، دوسرا لوہے کی سلاخوں کا ہے اور تیسرا لکڑی کا، جس پر دھات کے پترے چڑھے ہوئے ہیں- 

ہیکل سلیمانی کی تباہی:
ہیکل سلیمانی اوربیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا تھا- بیت المقدس کے اس دوربربادی میں حضرت عزیز کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر کبھی پھر آباد ہوگا؟ لیکن سو سال بعد بیت المقدس پھر آباد اور پررونق شہر بن چکا تھا- بخت نصر کے بعد 539ق م میں شہنشاہ فارس کوروش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی- یہودی حکمران ہیرو داعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمان پھر تعمیر کرلیے تھے- یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی- رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم شہر اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کردیے- 

بیت المقدس پر یہود کا قبضہ:
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی- نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی- اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے- تیسری عرب اسرائیل جنگ (جوان 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا- یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے- اسی لیے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے- 
(بشکریہ :مرکز اطلاعات فلسطین 
https://urdu.palinfo.com/ )
اشاعت فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...