Friday 29 December 2017

حلالہ کی چھری اور مسلمان بیٹیوں کی عصمت

حلالہ کی چھری اور مسلمان بیٹیوں کی عصمت

(تحریر: جناب شفیق الرحمن شاہین)

اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں اس طریقہ سے دے کہ حالت طہر میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اگر خاوند دوران عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے۔ اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ دوسری مرتبہ طلاق دے سکتا ہے۔ اس دوسری طلاق کے بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا اور عدت گزرنے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہوگا۔ لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کیلئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہوگا نہ کہ شوہر اول کی طرف حلال ہونے کی غرض سے… اب اگر اس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو عدت کے بعد پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں شاید کوئی ایک آدھ دفعہ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ میں اس کا ذکر کیا ہے: ’’طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دو مرتبہ ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔‘‘ (بقرہ: ۲۹۹)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کی روایات کے موجب ابتدائے ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی بار طلاقیں دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے جس کا مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھا، اس صورت حال کو روکنے کیلئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ رجوعی طلاق (جس میں رجوع کا حق ہو) دو دفعہ ہے، اس کے بعد ’’امساک‘‘ یعنی عدت کے دوران رجوع کرنا یا حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً ثابت ہے، ابن جریر وغیرہم نے اسی کو ترجیح دی ہے، طوالت کے خوف سے میں تمام عبارتیں نہیں لکھ رہا۔

اب مسئلہ کے دوسرے رخ کو دیکھتے ہیں۔ ایک آدمی اپنی جہالت یا غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کا لفظ ایک ہی دفعہ کہہ دیتا ہے تو مقلدین کے نزدیک اب وہ تین طلاقوں کا تصور جو وقفہ وقفہ کی صورت میں قرآن نے دیا تھا، اس کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اب تین طلاقیں مکمل ہو گئی ہیں۔ اگر تم پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا چاہتی ہو تو تمہیں ایک یا دو راتوں کیلئے کسی سے نکاح کرنا پڑے گا پھر وہ خاوند تمہیں طلاق دے گا جس کے بعد تم پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہو۔ اس طریقہ کو جس میں عورت مستقل بسنے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف پہلے خاوند کی طرف آنے کیلئے مجبوراً نکاح کرتی ہے اس کو چشم پوشی کرتے ہوئے حلال ہونے کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مقدسہ میں وہی قرآنی اصول لاگو ہوتا تھا جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے، بطور حوالہ دو دلیلیں ہی درج کرتا ہوں۔

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر غمگین ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کس طرح طلاق دی؟ انہوں نے عرض کیا میں تو تین طلاق دے چکا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ہی مجلس میں؟ کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک ہی ہے اگر چاہو تو تم رجوع کر لو، چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا۔ (مسند احمد، ابویعلیٰ)

٭ ابوصھباء نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تین سال تک تین طلاق ایک ہی شمار ہوئی تھیں تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ (مسلم، ابودائود، نسائی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلہ کو اکثر محررین نے لکھا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ عہد رسالت میں، عہد ابی بکر میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ بقول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بعض لوگ اس سوچ بچار کے معاملے میں جلد بازی کرتے ہیں تو انہوں نے تینوں لازم کردیں۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تہدیداً اور بطور سزا کے تھا اور اس فیصلہ پر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی افسوس تھا جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب اغاثۃ اللہفان میں مرقوم ہے۔ اگر اس کو شرعی فیصلہ مستقل تسلیم کیا جائے تو عہد رسالت، عہد ابی بکر اور خود ان کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جو فیصلے تھے اس کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفی علماء نے اس کو بھی تعزیری یا سیاسی فیصلہ تسلیم کیا ہے۔ یہ بات احناف کی کتاب درمختار کے حاشیہ طحاوی پر بھی مرقوم ہے۔

لیکن اب اگر ایک شخص نے غصہ میں آ کر یکدم تین طلاقیں سنا دیں اور ان کو تین پکی طلاق شمار کر کے عورت کو اس پر حرام سمجھتے ہوئے بدنامِ زمانہ حلالہ کا مشورہ دیا جاتا ہے جسے اسلام نے ایک لعنتی فعل قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا دونوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (مسند احمد، بیہقی، نسائی، ترمذی) اور فرمایا کہ حلالہ کرنے والا کرایہ کا سانڈ ہے (ابن ماجہ، مستدرک حاکم، بیہقی)

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد بھول گئے ہیں کہ جو شخص حلالہ کرے یا کرائے گا تومیں اسے سنگسار کروں گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین کے ادوار میں ہمیں کہیں بھی مروجہ حلالہ کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔

٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کو یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی نیت سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا: ’’کہ یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔ (بیہقی)

٭ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے تو یہ بھی مروی ہے کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکٹھے رہیں، وہ زنا کرتے رہیں گے۔ (مغنی ابن قدامہ)

حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ رحمہ اللہ جیسے اکابر فقیہان امت اور محدثین نے بھی حلالہ کا وہ عمل جس میں صرف عورت کو پہلے خاوند کی طرف آنے کیلئے کسی سے ایک یا دو راتوں کیلئے نکاح کیا جاتا ہے کو لعنتی عمل قرار دیا ہے۔ تمام فقہاء کا اس بات پر دعویٰ انتہائی غلط اور بے بنیاد ہے۔ اجماع امت کا دعویٰ رکھتے والوں سے گزارش ہے کہ کاش وہ امام مالک رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ کے فتاویٰ پڑھ لیں، جس میں وہ حلالہ کی نیت سے نکاح کرنے کو نکاح باطل قرار دیتے ہیں۔ عطا تابعی، امام ابوایوب، امام ابن شیبہ، قتادہ رحمہم اللہ وغیرہ کے اقوال کو دیکھیں تو اجماع کے دعویٰ کی اصلیت کھل جائے گی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگردوں کا موقف بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ہے۔ (ہدایہ کتاب الطلاق)

ماضی قریب کے اکابر حنفی علماء مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حفظ الرحمن قاسمی بھی ایسے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے سرکردہ عالم اور ترجمان پیر کرم شاہ بھیروی بھی ایسے عمل کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیتے ہیں۔ اپنی مشہور تفسیر ضیاء القرآن میں لکھتے ہیں: ’’بعض علماء مثلاً اہل حدیث کی رائے ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک ہی شمار ہوتی ہے، زمانے کے بدلتے حالات میں علمائے ازھر نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ (ص ۲۴۴) پھر وہ آگے جا کر لکھتے ہیں کہ علمائے مصر والازھر کے فتویٰ کے مطابق ہی عمل کرنا بہتر ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ایچ ایم انصاری لکھتے ہیں کہ ’’اگر حلالے کا مقصد طلاق یافتہ عورت کو پہلے خاوند کیلئے جائز کروانا ہے تو یہ بات صریحاً ناجائز، بدذوقی اور حرام کاری ہے۔‘‘

جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہم تمام اس بات پر متفق ہیں کہ حلالہ کی نیت سے کیا جانے والا نکاح باطل ہے۔ چنانچہ اس وقت پوری دنیا میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کی سوچ بدلتی جا رہی ہے۔ اب کسی غیر متعصب اور نیک دل مسلمان کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے ذہن کو تبدیل کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ:

سب سے پہلے ۱۹۲۹ء میں قانون عدلیہ میں حکومت مصر نے تین طلاقوں کو ایک قرار دیا۔ ۱۹۵۱ء سے حکومت اردن نے بھی اپنے ہاں یہی قانون رائج کر دیا۔

۱۹۵۲ء میں حکومت شام نے، ۱۹۵۸ء میں مراکش نے، ۱۹۵۹ء میں عراق نے بھی۔ ۱۹۶۱ء میں پاکستان کے عائلی قوانین میں بھی حلالہ کو ممنوع قرار دیا گیا۔ معروف قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کے اس مسئلہ پر کئی مقالات موجود ہیں۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اس مسئلہ کو واضح کیا کہ ۱۹۶۱ء کے فیملی لاز آرڈیننس کے تحت حلالہ ضروری نہیں۔ مذکورہ بالا حوالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حلالہ جیسے مکروہ اور لعنتی فعل سے بچنے کیلئے مسلمان حکومتوں نے ان مروجہ فقہی عبارتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، جس کو قرآن و سنت کے مقابلے میں بنایا گیا اور تار عنکبوت کی طرح سجا لیا گیا۔

کچھ عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ میں ایک شخص اتفاق سے مرحوم جسٹس شفیع محمدی کی عدالت میں (خلع) کا ایک مقدمہ لایا جس کا حل بعض مفتیوں اور مولویوں کی طرف سے حلالہ تجویز کیا گیا تھا، لیکن موصوف جج نے قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ کو باعث لعنت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا، بس پھر کیا ہونا تھا… حلالہ کا دفاع کرنے والے مولویوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، یہ تو بڑا ظلم ہوگیا۔ اخبارات میں بیانات، فتوے اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ حلالہ کرنے والے سانڈ پر حلالہ کی وجہ سے اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ حلالہ کا دفاع کرنے والوں کے عجیب و غریب دلائل سن اور پڑھ کر ہم بھی حیران رہ گئے کہ ان بیچاروں کی کیسے مت ماری گئی ہے، العجب۔ الامان… بلکہ برطانیہ کے ایک اخبار میں تین طلاقوں پر آئمہ کرام کے احکامات کو اس طریقہ سے پیش کیا گیا کہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ بیچارے اپنی فقہ کا کھوکھلا دفاع کر رہے ہیں یا حلالہ کے راستے ہموار کر رہے ہیں۔

ان مفتیان نے حلالہ کے مروجہ فعل کو جائز رکھنے کیلئے طرح طرح کے حیلے بہانے بنا رکھے ہیں، اس کا ثبوت ان کی ایک مستند کتاب میں کچھ اس طرح ہے: ’’تین طلاقوں کے بعد جب حلالہ کیلئے عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کر دیا جائے اور عورت کو یہ ڈر ہو کہ دوسرا خاوند اسے طلاق نہیں دے گا تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ عورت کہے میں نے اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط پر دیا کہ طلاق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہوگا، جب بھی میں چاہوں تو مرد اس بات کو قبول کر لے تو نکاح جائز ہے اور معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوگا۔ (فتاویٰ کبیری اور الکفایہ) یعنی ان حضرات کے ہاں جو مروجہ حلالہ ہے اسے جائز سمجھتے ہیں اور اس بدکاری کو جاری رکھنے کیلئے طرح طرح کی تاویلیں ان کے ہاں موجود ہیں۔

جس کے کچھ واقعات کچھ اس طرح ہیں۔ حیلوں، بہانوں اور اندھی تقلید کی وجہ سے جس طرح قرآنی آیات اور احادیث کا حلیہ بگاڑا گیا اور اپنے ناجائز کاموں کو جائز کرنے کیلئے قلم کی حرمت کو پامال کیا گیا اس سے کسی بھی سادہ مسلمان کیلئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امت مسلمہ آج اللہ کی رحمتوں سے دور کیوں ہو چکی ہے۔

٭ ایک مشہور درسی کتاب کنزالدقائق کی شرح مستخلص الحقائق (ص ۱۲۶) پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت ہو، اس کی یہ تاویل لکھی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بول کر رحمت مراد لی ہے۔

٭ اندھی تقلید کا یہ نتیجہ نکلا کہ اپنے مسلک کو ثابت کرنے کیلئے اپنے اماموں کے نام پر فرقے کھڑے کر دئیے حالانکہ یہ نبیؐ کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات اور فیصلہ کو صحیح سمجھا جائے۔ امتیوں کو یہ مقام دینے سے صراط مستقیم سے ہٹ کر کس راہ پر چل رہے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

٭ عجیب بات ہے جو علماء متعہ کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیانات داغتے ہیں وہ بتائیں کہ متعہ اور حلالہ میں کس چیز کا فرق ہے؟ مسلمان بچیاں اور بیٹیاں جو حیا کا پیکر ہوتی ہیں، جو اس مسئلہ پر بات بھی نہیں کر سکتیں، بلکہ طلاق کا مسئلہ لے کر آنے والی خواتین تو لرز کر ایسے مسائل بیان کرتی ہیں، خصوصاً حلالہ کا مسئلہ جب ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنے خاندان کی عزت اور اپنی عصمت کی حفاظت پر لگنے والے اس داغ سے کانپ اٹھتی ہیں، اپنے نصیبے پہ روتی ہیں، لیکن حلالہ کی چھری کے نیچے ان کو جیسے ذبح کیا جاتا ہے، مولویوں کی سفاکیت سے ساری عمر ڈیپریشن کا مریض بن کر گزار دیتی ہیں۔

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...