Thursday 28 December 2017

زبان کی حفاظت کے فوائد اور بد زبانی کے نقصانات

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)'قسط نمبر:125'

زبان کی حفاظت کے فوائد اور بد زبانی کے نقصانات

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے "زبان" ایک بہت بڑی نعمت ہے، زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے، اس کا صحیح استعمال ذریعہ حصول ثواب اور غلط استعمال وعید عذاب ہے۔
انسان جس سے معاشرے میں مشہور و مقبول،ہر دل عزیز اور اپنی معاشرتی و معاشی، سیاسی و سماجی زندگی میں کامیاب و کامران ہوتا ہے،وہ اس کی زبان اور گفتگو ہے۔

بظاہر اگر دیکھا جائے تو زبان گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، لیکن اگر تحقیقی نگاہوں سے دیکھیں تو زبان کا سارے جسم پر تصرف اور قبضہ معلوم ہوتا ہے، جو کچھ بھی انسان کی عقل اور وہم وخیال میں آتا ہے زبان اس کی ترجمانی کرتی ہے برخلاف انسان کے دیگر اعضاء کو اس طرح خصوصیت موجود نہیں ،اس لحاظ سے زبان کو  اپنے کردار و افعال کی وجہ  تمام اعضاء پر فوقیت و اہمیت حاصل ہے۔
زبان کے کردار پر غور کیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر عبادتیں، نیکیاں بھلائیاں، بھلائی کی باتیں،حقوق العباد کی ادائیگی،نماز، ذکر، دعا، استغفار، حج کے احکام اور دعائیں، سلام کا تبادلہ، سچ بولنا، حق بات کہنا، وعظ و نصیحت، تلاوت قرآن، انصاف کی بات کرنا اور فیصلہ دینا، اقامت، اذان کہنا، نماز پڑھانا، تعلیم دینا، شکر ادا کرنا، لوگوں میں صلح کرانا، سچّی گواہی دینا، وعدہ کرنا، بیمار کی عیادت اور دعا اور بہت سے اخلاق و آداب زبان کے وسیلے سے ادا ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سی برائیوں کا تعلق بھی زبان سے ہے، جیسے کفر کے بول، جھوٹ، گالی گلوچ، جھوٹی گواہی، لعنت کرنا، غیبت، بہتان، چغلی، گندے مذاق اور ٹھٹھے، کسی کی بے عزتی، خوشامد، فحش اور بے حیائی کی باتیں کرنا، گناہ کے کاموں کے مشورے، بے ہودہ راگ، طعنہ زنی، عیب جوئی اور کتنے ہی برے اخلاق اور بے حیائی کے کام ہیں جن کا بڑا حصہ زبان ادا کرتی ہے۔
دنیا میں جھگڑے اور فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں ہی سے پیدا ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے فساد و گناہ آدمیوں سے بکثرت سر زد ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی بیشتر زبان سے ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہﷺاس کی بڑی تاکید فرماتے تھے کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے اور ہر قسم کی برُی باتوں سے بلکہ بے ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے اور جب بات کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو اور بات سے کسی خیر اور نفع کی اُمید نہ ہو تو خاموش ہی رہا جائے۔
گفتگو چاہے مختصر ہو یا تفصیلی اسے شروع کرنے سے پہلے اس کے نکات پر غور کر لیا جائے، چاہے چند منٹوں اور سیکنڈوں کے لیے ہی، لیکن سوچنا ضرور چاہیے۔پہلے تولو! پھر بولو کا اصول ہر وقت سامنے رہے، یہ بات سامنے رہے کہ اس گفتگو کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
مخاطب کی سمجھ، معیار اور مرتبے کے مطابق گفتگو کرنا، اپنے والدین، بڑی عمر کے افراد، اہل علم، اساتذہ، عزیزواقارب سے گفتگو میں بہترین انداز سے گفتگو کی جائے، عام آدمیوں، بچوں اور چھوٹی عمر والوں سے گفتگو کا انداز بھی آحسن ہونا چاہیے ۔مخاطب اور دوسرے شخص کی بات سننا اور بات مکمل ہونے پر اپنی بات کہنا۔گفتگو میں اسلامی آداب، ثقافت اور علاقائی تہذیب کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔گفتگو کرتے وقت ہلکی پھلکی مسکراہٹ اور بات درمیانی آواز میں کی جائے۔ خواہ مخواہ آواز بلند کرنا، آواز کو مصنوعی بنانا اور کرخت دار کرنا مناسب نہیں۔ہر بندہ مسلم کو اپنی زبان کے سلسلے میں توجہ دینا بے حد ضروری ہے، یہ تعلیم رسول اللہﷺکی اہم تعلیمات میں سے ہے جن پر آپﷺنے نجات کا دار مدار بتلایا ہے۔
اسی سلسلہ میں ہم ذیل کی اسطور میں مختلف پہلو کا جائزہ لیں گے ۔کہ زبان کا صحیح استعمال کا طریقہ کیا ہے اور آفات و نقصانات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

انسان کے اقوال واعمال کی اقسام:

انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے یا جو کلام بھی کرتا ہے اس کی تقریباً چار قسمیں ہیں۔

1۔مفید: یعنی جو کام وہ کرے گا یا جو کلام کرے گا اس میں دین یا دنیا کا کوئی فائدہ ہو گا۔

2۔مضر: یعنی جس میں دین یا دنیا کا نقصان ہو۔

3۔نہ مفید نہ مضر: یعنی جس میں نہ کسی قسم کا نفع ہو اور نہ نقصان ہو۔ لایعنی کلام۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ قسم بھی مضر ہی میں شامل ہے، بے فائدہ اور لایعنی کلام کو چھوڑ دینا بھی نجاتِ آخرت کا ذریعہ بن سکتا ہے، جو وقت لا یعنی کلام میں ضائع کیا جاتا ہے اگر اس کو الله کی یاد میں صرف کیا جائے تو قرب الہٰی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔

4۔ جو مضر بھی ہے اور مفید بھی: یعنی جس میں نقصان بھی ہے اور نفع بھی ہے۔ ان چاروں اقسام میں سے قسم اول ہی سب سے افضل وبہتر ہے اور قابلِ عمل ہے، جس میں نفع ہی نفع ہے، لوگوں کو نیکی کی رغبت دلانا اور برائی سے منع کرنا اور اگر جھگڑا ہو جائے تو لوگوں میں صلح کرا دینا زبان کے بہترین فرائض اور الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کا بہترین ذریعہ وسبب ہے۔

زبان کے خطرات:

زبان اگرچہ ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے فتنے نہایت ہی بڑے ہوتے ہیں ،کسی نے کیا خوب کہا:”اللسان جِرمہ صغیرٌ، وجُرمہ کبیر وکثیر․“ یعنی زبان جسم کے اعتبار سے چھوٹی ہے، لیکن اس کا جرم بہت بڑا اور زیادہ ہے۔
سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسی بات بتلایئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں،" آپ ﷺ نے فرمایا :
 تم کہو میرا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم جاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ خطرے والی چیز جس کا آپ کو مجھ سے اندیشہ ہو کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی، پھر فرمایا: یہ (زبان ) ہے۔"(سنن ترمذی:حکم البانی صحيح) 

"ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوچھنے پر نماز، زکوۃ، روزہ، حج بیت اللہ اور جہاد کے متعلق بالتفصیل بیان فرمایا: آخر میں فرمایا: کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا : اس کو روک کے رکھ، میں عرض کیا، کیا ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں اس پر بھی ہماری گرفت ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم پائے لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے ؟" (سنن ترمذی: 2616حکم البانی صحيح)
معلوم ہوا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کے اعمال کو برباد کر سکتا ہے اور جنت کی بجائے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے۔ 

بہترین مسلمان:

نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے (اسے چاہئے یا تو) وہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ اہل ایمان کی گفتگو بہترین اور پرتاثیر ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں۔"(صحيح بخاری: 6018، صحيح مسلم:176)

ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
"فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔"(مؤطا امام مالك: 903/2 ح 737 اوسنده حسن)

"سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مسلمانوں میں سے کون افضل ہے ؟آپﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔"(صحیح بخاری:11، مسلم:163)

کہتے ہیں کہ زبان کا نشتر (لوہے كے) نیزے سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے لہٰذا بہترین مسلمان بننے کے لئے اپنی زبان پر کنٹرول اور دوسرے مسلمان کی عزت نفس کا خیال بہت ضروری ہے۔
"سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریم ﷺ سے (ان کی دوسری بیوی سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بابت ) عرض کیا : آپ کے لئے صفیہ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں تو آپ ﷺ نے (سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے) فرمایا :تو نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بھی بدل ڈالے۔" ( سنن ابي داؤد: 4875حکم البانی: صحيح)
"نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت آبرو قابل احترام ہیں۔"(بخاری: 67 )
اس حدیث میں زبان سے متعلق بھی اشارہ ہے کیونکہ زبان کے غلط استعمال سے ہی بعض اوقات کسی کی عزت و آبرو کو پامال کیا جاتا ہے۔
 
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں ، اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی ، بلا احتیاط بولنے والے ، زبان دراز اور تکبر کرنے والے ہیں"
(سنن ترمذی حدیث نمبر: 2018 حکم البانی: صحيح)
اس حدیث میں اچھے اخلاق کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ  اچھے اخلاق والا زبان دراز اور باتونی(فضول گو) نہیں ہوتا۔

جنت کی ضمانت : 

"ا ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جس نے مجھے اپنے دونوں ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دے دے۔تو میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔" (صحیح بخاری:6807،6474)

انسانی اعضاء میں زبان کے علاوہ غلط استعمال سے جس عضو کی حفاظت کو خاص اہمیت حاصل ہے وہ انسان کی شرم گاہ ہے۔ اس لئے اس حدیث میں رسول اللہﷺنے ان دونوں کے بارے میں ارشاد فرمایاہے کہ جو بندہ اس کاذمہ لے لے کہ وہ غلط استعمال سے اپنی زبان کی بھی حفاظت کرے گا اور شہوت نفس کی بھی اور انہیں خدا کے احکام کا پابند رکھے گا، میں اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا ذمہ لے سکتا ہوں۔
جس طرح زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بنا پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ایسے ہی ان دونوں کی حفاظت کی کوتاہی کرنے والوں کے لئے تنبیہ بلیغ ہے،
اسی سے ملتی جلتی ایک اور حدیث ہے
کہ "آپ ﷺ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں، زبان اور شرمگاہ ہیں۔"
(سنن ترمذی:2004،سنن ابن ماجه: 4246
حکم البانی: حسن)

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ رسول اللہﷺکے اس قسم کے ارشادات مبارک کے مخاطب وہ اہل ایمان ہوتے تھے جو آپ ہی کی تعلیم وتلقین سے اس بنیادی حقیقت کو جان چکے تھے،کہ اس قسم کے وعدوں کا تعلق صرف اُن لوگوں سے ہے جو صاحب ایمان اور ایمان کے بنیاری مطالبات کو بھی ادا کر تے ہوں۔

پہلے تولو۔۔پھر بولو: 

ہمیشہ دوران گفتگو تدبر و تفکر کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی انسان کو دنیا و آخرت کے آلام و مصائب سےدو چار کر سکتی ہے،
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد}ٌ (سورہ ق:18)
”انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران موجود ہوتا ہے۔"یعنی انسان کی ہر بات ریکارڈ ہوتی ہے۔

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آدمی ایک بات کرتا ہے اس میں غور و فکر نہیں کرتا اور وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی طرف گر جاتا ہے۔"(صحيح بخاری:6477)

مزید آپ ﷺ نے فرمایا:
”جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کی منت سماجت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں تجھے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ بلاشبہ ہمارا معاملہ تیرے ساتھ وابستہ ہے، اگر تو درست رہے گی تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تجھ میں ٹیڑھا پن آ گیا تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔“( سنن ترمذی:2407 حکم البانی حسن)
یعنی پہلے زبان درازی، گالی گلوچ ہوتی ہے پھر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، تو مار جسم کو ہی برداشت کرنی پڑتی ہے اسی لئے جسم کے سارے اعضاء زبان کے سامنے منت سماجت کرتے ہیں، ہر دو احادیث سے زیادہ واضح ہو گیا ہے کہ زبان کا استعمال صحیح نہ کرنے کی وجہ سے دونوں جہانوں میں خسارے کا سامنا ہے۔

خاموشی میں نجات : 

زبان کو شرور وآفات سے بچانے کے لئے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں، اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے، کیونکہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔ جو جتنا زیادہ بولتا ہے، غلطیاں بھی اتنی ہی زیادہ کرتا ہے، اور جو سوچتا زیادہ، بولتا کم ہے، وہ غلطیاں بھی کم کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔“ (سنن ترمذی:2501 حکم البانی صحيح)
 اسی طرح رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے: 
”جو اللہ اور روزِ آخرت پر اِیمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بات کہے تو اچھی کہے، ورنہ خاموش رہے۔“(صحيح البخاری::6475)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فر مایا: میں تمہیں ایسی دو خصلتیں بتادوں جو پیٹھ پر بہت ہلکی ہیں (ان کے اختیار کرنے میں آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا) اور اللہ تعالیٰ کی میزان میں وہ بہت بھاری ہوں گی؟ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ،کہ یارسول اللہ ﷺ وہ دونوں خصلتیں ضرور بتلادیجئے! آپﷺنے ارشاد فر مایا: زیادہ خاموش رہنے کی عادت اور حسن اخلاق۔ قسم ہے اُس پاک ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میں (محمدﷺ) کی جان ہے، مخلوقات کے اعمال میں یہ دونوں چیزیں بے مثل ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

زیادہ خاموش رہنے کا مطلب یہی ہے کہ بے ضرورت اور نامناسب اور ناپسندیدہ باتوں سے آدمی اپنی زبان روکے رکھے،جس شخص کا یہ طرز عمل ہوگا، قدرتی طور پر کم بولنے والا اور زیادہ خاموش رہنے والاہوگا۔ رسول اللہﷺکواس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی ضرورت تھی کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کیلئے آپﷺکو ہدایات دینی تھیں اور آپﷺاس ضرورت سے بولنے میں کوئی کمی نہ کرتے تھے۔ بتانے کی ہر چھوٹی بڑی با ت بتلاتے تھے،لیکن اس کے باوجود آپﷺکے دیکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپﷺکا حال یہ بیان فر مایاکہ ’’کاَنَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِﷺ طَوِیْلَ الصَََّمْتِ‘‘(رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے)۔

سچائی اور جھوٹ:

سچائی انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس کی بناء پر لوگ اس کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں اورسچائی انسان کو نیکی کی طرف لے جاتی ہے انسان جب ہر بات میں سچ بولتا رہتا ہے تو سچ بولنا اس کی عادت بن جاتی ہے ۔جھوٹ انسان کی ایسی مذموم صفت ہے جس کی بناء پر لوگ اس کی بات پر اعتماد بھی نہیں کرتے ہیں اور یہ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ بولتے بولتے جھوٹ اس کی ایک عادت بھی بن جاتی ہے نبی ﷺ نے ان دونوں صفتوں کو اپنی ایک حدیث کے اندر یوں بیان کیا ہے:
"سچائی کو لازم پکڑو اس لئے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جانے والی ہے اور آ دمی برابرسچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔اور جھوٹ سے پرہیز کرو اس لئے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اوربرائی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کے تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔"
صحیح بخاری: 6094،صحیح مسلم:6637۔أبو داود:4989 حکم البانی صحیح)

راز فاش کرنا:

"انسان اپنا راز جس شخص کے سپرد کرتا ہے وہ شخص اتنا امین ہونا چاہیے کہ اُس کے پاس ناموس امانت کے طور پر رکھی جا سکے۔اور اس کی حفاظت کرنے کے بارے میں وہ اتنا حسّاس ہونا چاہیے جتنا خود اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے محتاط ہوتا ہے۔اِمانت کسی ایسے ناقابلِ اعتبارشخص کے سپرد نہیں کرنی چاہیے جو امین نہ ہو اورراز ایسے شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے جو راز کو ناموس نہ سمجھے۔

بھید رکھنا اور دوسروں کے بھیدوں کی پاسداری کرنا ایک ایسی ا نسانی خوبی ہے جس کا تعلق سوفی صد اِرادے اور ادراک سے ہے۔جس طرح اُن لوگوں سے رازداری کی امید نہیں کی جاتی جن میں قوتِ ارادی کا فقدان ہو‘ اسی طرح کبھی یہ بھی نہیں سوچا جاسکتا کہ جو لوگ اتنے سادہ لوح ہوں کہ اپنے کاموں اور اپنی باتوں کو ہی نہ سمجھ سکیں ‘ وہ راز چھپا سکتے ہوں ۔

اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو رازدان بناتا ہے جو پہلے ہی سپرد کردہ کئی راز فاش کر چکا ہو تو یہ ایسے انسان کو رازداں بنانے والے شخص کی ناسمجھی یا بھیدی کے انتخاب میں اُس کی نا اہلی کی علامت ہے ۔ جس شخص نے اپنے دل میں اچھی طرح بٹھا لیا ہو اور اس کی آنکھیں کھل چکی ہوں ‘ اُسے زندگی بھر یوں نہ تو دھوکا کھانا چاہیے اور نہ ہی گمراہ ہونا چاہیے!

اگر انسان کسی ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو جہاں راز فاش کرناضروری ہو جائے تو اُسے چاہئیے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے بتا دے۔مگر خواہ مخواہ دل کا ڈھکنا کھول کر راز فاش کرنے سے ہر حالت میں گریز کرنا چاہیے۔ یہ بات دل سے ہرگز نہیں نکالنی چاہئیے کہ ایک دن آئے گا جب ہر جگہ بے دریغی سے دل کے سارے راز بکھیرتے پھرنے والے لوگ خود کو بھی اور اس معاشرے کو بھی جس میں وہ رہتے ہیں ‘ موت کے منہ کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں گے اور انہیں کوئی اس سے بچا نہیں سکے گا۔

انسان کو چاہیے کہ اپنی خفیہ باتوں کو اٍدھر اُدھر فاش ہونے سے بچانے کے لئیے خاص احتیاط برتے۔خاص طور پر اگر یہ باتیں معیوب یا غیر دلکش ہوں ‘ یا نتیجے کے اعتبار سے بے فائدہ ہوں تو۔۔۔ کیوں کہ ایسی حالت اکثر ایسی صورتِ حال پیدا کر دیتی ہے جو دوستوں کی شرمندگی اور دشمنوں کے مذاق کا باعث بن سکتی ہے۔

جو شخص دوسروں کے رازتمھارے پاس لاتا ہے وہ تمھارے راز بھی دوسروں تک لے جا سکتا ہے۔ اس لئے ایسے بے اعتبار لوگوں کو ہر گز ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہماری بالکل غیر اہم خصوصیات سے بھی واقف ہو سکیں ۔

احمق کا دل اُس کی زبان کی نوک پر ہوتا ہے
احمق کو رازدان بنانے سے بچنا لازم ہے۔ اِرادتاََ بدی کرنے کے علاوہ وہ بعض اوقات نیکی کرنے کا سوچتے سوچتے بھی بدی کر جاتا ہے۔

بعض راز صرف ایک شخص کی ‘ بعض ایک خاندان کی اور بعض پورے معاشرے اور قوم کی دلچسپی کے ہوتے ہیں ۔ایک انفرادی راز فاش ہو تو شخصی حیثیت‘ ایک عائلی راز منظرِ عام پر آ جائے تو عائلی حیثیت‘ اور معاشرے کے کسی بھید کے فاش ہونے سے قومی حیثیت سے دوسروں کو کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ راز جب تک سینے میں رہتا ہے صاحبِ راز کے لئیے طاقت کا کام دیتا ہے۔ مگر جب دوسروں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جو صاحبِ راز کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کہا ہے:” تیرا راز تیرا اسیر ہے۔ فاش کرتے تو تم اُس کے اسیر بن جاتے ہو۔“

ایک مسلمان بھائی کا کسی دوسرے مسلمان کے بارے شادی،کاروبار وغیرہ کے حوالہ سے آپ سے مشورہ طلب کرنا، آپ کے لیے انہیں صحیح مشورہ دینا واجب ہے ۔اس صورت میں راز افشا کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں مقصود اس شخص کی توہین، تذلیل یا تحقیر نہیں ہے بلکہ مقصود ایک دوسرے مسلمان کی مصلحت اور خیر خواہی ہے

اس کے علاوہ مسلمانوں کے راز فاش کرنا اسلام اور اہلِ اسلام کے لئے کمزوری، لڑائی جھگڑا اور لُوٹ مار کا سبب ہے اور یہ تمام چیزیں بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہیں کیونکہ ایسا کرنے والے نے زمین میں فساد کی کوشش کی ہے۔اور اس نے امانت میں خیانت کی ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا ایمان لمن لا مانۃ لہ (جس کے اندر امانت نہیں اس کے اندر ایمان نہیں۔مسند احمد، جلد ۳، صفحہ ۱۳۵)۔گویا کہ ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ آدمی امین ہو، امانت میں خیانت نہ کرتا ہو۔ عربی زبان میں ’’امانت ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا منافق کی علامت بتائی گئی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق کی نشانیاں تین ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹی ،جب وعدہ کرے تو خلاف کرے ، جب امانت لے تو اس میں خیانت کرے ۔ “(صحیح بخاری: 2749،صحیح مسلم: 211)

اس حدیثِ پاک سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس طرح سپرد کی گئی کہ سپرد کرنے والے نے اس پر بھروسہ کیا ہو یہ اس کا حق ادا کرے گا یہ ہے امانت کی حقیقت۔ لہٰذا کوئی شخص کوئی بات یا کوئی کام یا کوئی چیز جو دوسرے کے سپرد کرے اور سپرد کرنے والا اس پر بھروسہ سے سپرد کرے کہ یہ شخص اس سلسلے میں اپنے فریضے کو صحیح طور پر بجالائے گا اور اس میں کوتاہی نہیں کرے گا ۔یہ امانت ہے۔ اور امانت کی اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بے شمار چیزیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ آج اس کا مفہوم بہت محدود سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارے ذہنوں میں امانت کا تصور صرف اتنا ہی ہے کہ کوئی پیسے لے کر آئے اور یہ کہے کہ یہ پیسے آپ بطور امانت اپنے پاس رکھ لیجئے،جب ضرورت ہوگی اس وقت میں آپ سے واپس لے لوں گا۔امانت اس حد تک ہی محدود نہیں۔امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں، جن کے بارے میں اکثر وبیشتر ہمارے ذہنوں میں خیال بھی نہیں آتا کہ یہ بھی امانت ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :بڑی امانت اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن یہ ہے کہ مرد اپنی عورت سے صحبت کرے اور عورت مرد سے اور پھر وہ اس کا بھید کھول دے۔“ (یعنی یہ امانت میں خیانت کی) ۔(صحیح مسلم: 3543)

طعنہ اور برے القاب:

زبان سے بہت سارے لوگ ایک دوسرے پر طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو برے القاب سے پکارتے ہیں مثلاً کسی کا نام بگاڑ کر غلط ناموں سے پکارتے ہیں اور حسب ونسب پر چوٹ کرتے ہیں ،ذات برادری کو نشانہ بناتے ہیں ،رنگ ونسل کا جھگڑا کرتے ہیں،مختلف مکاتب فکر کو لعن طعن اور مذاق اڑاتے ہیں۔ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ اللہ نے ان سب چیزوں سے منع کیا ہے اللہ رب العالمین فرماتا ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی أَنْ یَکُونُوا خَیْرًا مِنْہُمْ وَلَا نِسَاء ٌ مِنْ نِسَاء ٍ عَسَی أَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیمَانِ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ}(سورہ الحجرات:11)
:اے ایمان والو!(تمہارا)کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں ۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی نہ کرو ۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام رکھو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔"

لعنت بھیجنا:

کچھ لوگوں کا عالم یہ ہے کہ لعن وطعن ان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے وہ جب بھی گفتگو کریں گے جب بھی زبان چلانے کا موقع نصیب ہو گا کوئی لعنت ملامت نہ کریں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عام لوگوں کی بات ہی الگ ہے صاحبان جبہ ودستار کو اس کا چسکا کچھ زیادہ ہی لگا ہوتا ہے تکفیر وتفسیق ان کی شریعت بن جاتی ہے کسی کا ذکر آئے کسی مکتب فکر کی بات چل نکلے اور کافر،زندیق،لعین،رجیم ،گستاخ جیسے مغلظات نہ نکلیں ممکن نہیں ،کہ یہی ان کا ہاضمہ ہے حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا :
 ” بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے ،
 تو یہ لعنت آسمان پر چڑھتی ہے ، تو آسمان کے دروازے اس کے سامنے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ اتر کر زمین پر آتی ہے ، تو اس کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں گھومتی ہے ، پھر جب اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ اس کی طرف پلٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی ، اب اگر وہ اس کامستحق ہوتا ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ وہ کہنے والے کی طرف ہی پلٹ آتی ہے ۔
(سنن ابی داود: 4905 حکم البانی: حسن)
فرمان باری تعالی ہے:
وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ۔(سورة الهمزة:1)
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے واﻻ ہو۔"
ہم بہت سی باتیں بے سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں، اور ہمیں خیال تک نہیں ہوتا کہ یہ کلمہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ ایک مختصر سا کلمہ جنت پہنچادیتا ہے، اور بعض دفعہ وہی مختصر کلمہ جہنم کی راہ دِکھا دیتا ہے۔
جیسا کہ سورہ ق کی آیت نمبر:18 اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا ایک ایک بول محفوظ ہے، اور روزِ قیامت ان سب کا حساب دینا پڑے گا۔

زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح اِستعمال یہ ہے کہ جو لفظ بھی زبان سے نکالیں، اس کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی اور اچھی کہیں، ورنہ دینی اور دُنیوی لحاظ سے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: 

لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاس...۔(النساء:114)
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے۔"

مذاق اڑانا:

ایک مومن پر جس طرح  دوسرے مسلمان کی جان اور  اس کے  مال  کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح  اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت  و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ کسی کا مذاق اڑانا بھی ہے۔مذاق اڑانے کا  عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ  اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے  کا ایک اقدام ہے۔
اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں وغیرہ دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔(الحجرات:۱۱) 
"اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں۔"
اسی طرح محفلوں میں شرکت حرام ہے جہاں اللہ کی آیات کا مذاق ہو رہا ہو۔فرمایا:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا۔(النساء:140)
"اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے واﻻ ہے۔"
بعض لوگ محفلوں، اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی پروگرامز میں قبر، جہنم حتیٰ کہ فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے چٹکلے بیان کرتے ہیں گویا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہوں۔اور سامعین اس پر قہقہے لگاتے ہوئے تالیاں بجاتے ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول کی بات کا احترام اور تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے ۔قبر، جہنم اور اللہ کے عذاب کے ذکر سے دلوں پر ایک ہیبت اور ایک خوف بیٹھنا چاہئے۔دین کی ہر بات کا تقدس ہے ۔جو شخص دین کی کسی بات کا مذاق اڑا کر لوگوں کو ہنسائے تو صریحاً کفر ہے اور جو شخص اس استہزاء کو سنے اور اس میں ایمانی غیرت بیدار نہ ہو اور اسی مجلس میں بغیر کسی سخت مجبوری کے شریک رہے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دین کا استہزاء کرنے والے کا ہے ۔

وعدہ خلافی:

انسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے ، لیکن وہ اسے بر وقت پورا نہیں کر سکتا، وہ ایک چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے، لیکن وہ چیز اسے بر وقت مہیا نہیں ہوتی ، اسی لیے انسان ایک دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے،اس لین دین میں اکثر عہد وپیمان کی نوبت آتی ہے ، اس لیے شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو زندگی کے مختلف مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدہ پر بھروسہ کرنے کی نوبت نہ آتی ہو ، وعدہ کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے ، اس لیے وعدہ کی بڑی اہمیت ہے۔
چوں کہ وعدہ کی تکمیل معاشرے کی تعمیروتشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے،اور باہمی تعلقات کو مضبوط ومستحکم بنانے میں شاہ کلیدکی حیثیت رکھتا ہے،اسی وجہ سے قرآن کریم کے اندرسورۂ مومنون کی ابتدائی آیات میں فلاح وکامیابی سے ہمکنار ہونے والے مومنین کی جہاں دیگرصفات ذکرکی گئی ہیں وہیں ایک صفت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ وہ اپنے عہدکوپوراکرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ۔(سورہ المومنون:8)
"جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاﻇت کرنے والے ہیں۔"
ایک دوسری جگہ اللہ تبارک وتعالی نے مسلمانوں کو ایفاء عہدکی تاکید کی ہے،اور ان کو خبردار کیا ہے کہ قیامت کے دن اس بارے میں سوال کیا جائے گا
..وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴿سورہ الاسراء:34﴾
"اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔"
آپﷺنے عہد شکنی کو منافقین کی صفت قرار دیاہے،
چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، چار عادتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ چاروں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ پکا منافق ہے ۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے ، تو وعدہ خلافی کرے ، اور جب معاہدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے ۔ اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے اور اگر کسی شخص کے اندر ان چاروں عادتوں میں سے ایک ہی عادت ہے ، تو اس کے اندر نفاق کی ایک عادت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔(صحیح البخاری:3178)
خود الله تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا قرآن حکیم میں بار بار ذکر فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (سورہ الرعد:31) 
"یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا۔"
..لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ...۔( سورہ الروم:6)
" اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔"

چیخ چیخ کر بولنا​:

ہمارا دین ہمارے اخلاق میں اعتدال و توازن کی خوبصورتی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ نہ تو کسی کام کو شدت کے ساتھ کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ دوسری طرف اسکی اہمیت میں کمی کرتا ہے۔ بلکہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنا سکھاتا ہے۔ بولنے کے معاملے میں اسی خوبصورتی کو اہمیت دی گئی ہے۔

ہم نہ تو اس قدر چیخ کر بولیں کہ دوسروں کو تکلیف ہو اور نہ ہی اس قدر آہستہ آواز میں بولیں کہ بات صاف نہ سنی جا سکے۔ بلکہ مناسب آواز میں بات کریں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی بات سنانے کے لیے چیخ کر بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ یہ ہماری عادت بن جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اپنی بات دوسروں کو سنانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ آہستہ بولے۔ آہستہ بولنے والے کی بات کو لوگ توجہ سے سنتے ہیں جبکہ زور سے بولنے والے کی بات کو سننے کے لیے کسی خاص توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی بلند آواز کانوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے گدھے کی مثال دے کر سمجھایا ہے کہ چیخ چیخ کر بولنا ناپسندیدہ بات ہے۔
" وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ اِنَّ اَنكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِہ۔(سورہ لقمان:19)
اپنی چال درمیانی رکھو اور اپنی آواز کو نیچا رکھو۔ بیشک ناپسندیدہ ترین آواز گدھے کی آواز ہے۔“
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام دنیا کے لوگوں کو حق کا پیغام دینے آئے تھے۔ نہایت مناسب آواز اور واضح انداز میں بات کیا کرتے تھے۔ سننے والا پوری بات بھی سمجھ لیتا اور اس کے کانوں کو آواز باگوار بھی نہ گزرتی۔ یہ حقیقت ہے کہ زور زور سے بولنے سے بولنے والے کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

فحش گوئی​:

بعض لوگ دوران گفتگو گالیاں(فحش گوئی) تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ فَحش اور غلیظ کَلمات زبانوں پر اس طرح رہتے ہیں کہ اُن کے نکلتے وقت ان کی قباحت کا ذرّہ برابر خیال نہیں کرتے۔وہ اس لغو عمل سے اپنی پرا گندہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بے ابرو کرتے ہیں‘ کیونکہ گالی کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں ایسے ناگوار کلمات استعمال کیے جائیں جو اسے بے آبرو کر دیں۔ اس سے کسی دوسرے کا تو کچھ نہیں بگڑتا بلکہ خود انہیں  ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ان کی اس غلیظ عادت کی وجہ سے خود تو برے ہوتے ہی ہیں ساتھ پورا گھرانا بدنام ہو جاتا ہے۔
اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ اکثر پبلک ٹوائیلٹس میں صفائی تو نظر نہیں آتی البتہ اس کے در و دیواروں پہ گالیوں اور فحش منظر کشی کے ذریعے اخلاقیات کا جنازہ نکلتا نظر ضرور آتا ہے۔ لیکن اس قوم کی اخلاقیات کا جنازہ پبلک ٹوائیلٹ سے لیکر پارلیمنٹ تک ہر جگہ نکل رہاہے‘ جو کھلے عام جرأت نہیں کر پاتے وہ باتھ روم کے در و دیواروں پہ کندہ کرتے ہیں جبکہ جرأت مند اشرافیہ میڈیا کے مختلف فورم پہ‘سوشل میڈیا، جلسہ جلوس میں یا پھر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر گالیاں بکتے نظر آتے ہیں۔ پہلے تو صرف ایک فرقے نے گالیوں کو اپنی عبادات میں داخل کیا ہوا تھا اور اب تو یہ کئی فرقوں کی عبادات کا اہم جز بن چکی ہیں۔
گالم گلوچ تو وہ فتنہ ہے جو لوگوں کو کبیرہ گناہوں میں مبتلا کر کے قتل و غارت گری تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت شخص مذاق میں بھی نہ ہی گالی دے سکتاہے اور نہ ہی گالی سن سکتا ہے۔ گالی چاہے عام انسان کو دی جائے یا خاص کو‘ جانوروں کو دی جائے یا بے جان چیزوں کو‘ زمانے کو یا حکمرانوں کو یا کسی اور مخلوق کو۔۔۔ نہایت ہی مذموم اور قبیح عمل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سے ہے گالی دینا اپنے ماں باپ کو، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا کوئی گالی دیتا ہے اپنے ماں باپ کو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :ہاں دیتا ہے ، کوئی گالی دیتا ہے دوسرے کے باپ کو پھر وہ گالی دیتا ہے اس کےباپ کو ، اور یہ گالی دیتا ہے اس کی ماں کو ، وہ گالیدیتا ہے اس کی ماں کو ۔ “
(صحیح مسلم: 263،سنن ترمذی: 1902حکم البانی صحيح)
مزید آپ ﷺ نے فرمایا:
مسلمان کو گالی دینا فسق ( نافرمانی) ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔(صحیح البخاری:6044،​صحیح مسلم:221)
کچھ لوگ تو بغیر سوچے سمجھے بے دھیانی میں ایسی گالیاں بھی بک جاتے ہیں کہ اگر اس کے معنی و مفہوم پر غور کیا جائے تو پیارے نبی ﷺ کی یہ فرمان صادق آتا ہے کہ
” بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے ۔(صحیح بخاری: 6478)۔

دین اسلام میں گالی گلوچ(فحش گوئی) کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کی مذمت میں بے شمار احادیث ہیں جن کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں۔ بس گالی گلوچ کرنے والے کو اس قبیح عمل سے بچنے کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اگر اس کی نیکیاں پہاڑ کے برابر بھی ہوئی تو قیامت کے دن وہ مفلس ہوگا۔

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا ، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی ، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی ، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا ، چوتھے کا خون کیا ہو گا ، پانچویں کو مارا ہو گا ، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلےختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(صحیح مسلم: 6579)

چغل خوری:

چغل خور شخص لوگوں کے پاس جا کر فساد اور جھگڑے کی غرض سے کوئی بات منتقل کرنا، یعنی ہر اس چیز یا راز کو کھول دینا جس کا کھل جانا نا پسندیدہ ہو، خواہ اس شخص کو ناپسند ہو جس سے متعلق نقل کیا گیا یا اس شخص کو جس کی طرف نقل کیا گيا، یا تیسرا شخص اس کو ناپسند کرتا ہو، چاہے یہ برائی قول سے ہو یا فعل سے ہو یا اشارے سے ہو، اور چاہے منقولہ چیز قول کی شکل میں یا فعل کی شکل میں، اور چاہے یہ چیز منقول عنہ کے لئے عیب اور نقص کی بات ہو یا نہ ہو۔
ہاں اگر اس کو بیان کرنے سے مسلمانوں کا فائدہ ہو، یا کسی برائی کا ازالہ ہو تو جائز ہے۔جس کی تفصیلات "غیبت" سے متعلقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔

اگر کسی شخص سے کوئی کسی قسم کی چغلی کرتا ہے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس چغل خور کی تصدیق نہ کرے، کیونکہ چغل خور فاسق اور گواہی میں غیر معتبر ہوتا ہے،ارشاد باری تعالی ہے:
"أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (الحجرات:6)
" اے مسلمانو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔" 

چغل خور دورُخہ (دوغلاپن) اختیار کرنے والا ہوتا ہے، چونکہ اس کا کام ہر ایک کے سامنے اپنی الگ تصویر پیش کر کے آپس میں پھوٹ ڈالنا ہوتا ہے، دوغلاپن اختیار کرنے والا کل روز قیامت بدترین شخص ہو گا،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سب سے برا لوگوں میں سے وہ ہے۔جو دو منہ(دو رخہ) رکھتا ہے ان لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے ۔(صحیح مسلم:6630)
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا :ان دونوں قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور کچھ بڑے گناہ پر نہیں ۔ ایک تو ان میں چغل خوری کرتا (یعنی ایک کی بات دوسرے سے لگانا لڑائی کے لئے) اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے میں احتیاط نہ کرتا۔(صحیح بخاری:1361،صحیح مسلم: 677)
مزید آپ ﷺ نے فرمایا: ’چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح بخاری: 6056،صحیح مسلم:290)

ایک اور حدیث میں  رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم کو یہ نہ بتاؤں کہ کیا چیز سخت حرام ہے؟ پھر فرمایا یہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان پھیل جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صدیق (سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم: 6636،سنن ابی داود: 4989 حکم البانی صحيح)
ان احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چغلی کتنا بڑا گناہ ہے۔
چغل خوری سے ہر مسلمان مرد و عورت کو دور رہنا چاہئے تاکہ کل روز حشر عذاب جہنم سے بچ کر جنت میں جا سکیں۔

جھوٹ:

دین اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے ۔جھوٹ‘‘ بظاہر ایک حرفی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن معنوی اعتبار سے ’’جھوٹ‘‘ کے اس لفظ کو ’’دنیا کے کسی بھی معاشرے میں پذیرائی حاصل نہیں۔‘‘
جھوٹ برائیوں کی جڑ ہے ۔کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں 
جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔
جھوٹ زبان کی خطرناک آفت اور ایک نفسیاتی مرض ہے، اگر انسان اس کا علاج نہ کرائے تو یہ مرض اسے جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔
وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا كَانُوا یَكْذِبُونَ (البقرة: 10)
" اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا۔
جھوٹ کا انجام سے متعلقہ تفصیلی معلومات کے لئے سابقہ مضمون کا مطالعہ کریں جو اس لنک پر موجود ہے
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/10/blog-post_78.html?m=1

حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کو ہر لمحہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ الله تعالیٰ سمیع وبصیر ذات ہے اور اس کی ہر حالت کو دیکھتا اور اس کی ہر بات کو سنتا ہے، اس لیے ہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے اور زبان کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ،تاکہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکل جائے جو الله رب العزت کی ناراضی کا باعث ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی اس سے دل آزاری ہوتی ہو۔ اور اسے ہر وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جس ذات نے اندرونی اسرار کو ظاہر کرنے کے لیے زبان دی ہے وہ ان تمام اسرار وباطنی خیالات کو بھی بخوبی جانتا ہے۔
اس لئے ہمارے لئے بہتر ہے کہ کم بولیں اور بات کریں تو ناپ تول کریں اور ہمیشہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں تاکہ اس کےصحیح استعمال سے ہماری نجات ہو سکے۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...