Monday 25 December 2017

مطالعہ کیسے کریں۔۔؟

کیا آپ ایک اچھا لکھاری(رائیٹر)بننا چاہتے ہیں

(سبق نمبر:17)

مطالعہ کیسے کریں۔۔؟

(جمع و مرتب:عمران شہزاد تارڑ،استفادہ تحاریر از فاروق طاہر اور بنت الھدی )

"علم رب ذوالجلال کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے۔علم ہی کی ذریعے دنیا و آخرت کی فوز و فلاح حاصل کی جاسکتی ہے۔علم کو نہ تو دولت و طاقت کے بل پر حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وجاہت اور اقتدار کے ذریعے۔صرف تمناؤں اور آرزؤں کے ذریعہ بھی حصول علم ممکن نہیں ہے۔علم کا حصول ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ دولت انھیں عطا کی جاتی ہے جو اس کی سچی طلب رکھتے ہیں اور اس کے حصول میں ہمہ تن مصروف و مشغول رہتے ہیں۔ علم کی ترقی اور استحکام میں مطالعہ کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔ مطالعہ علم کی فروانی اور افزائش کا ذریعہ ہے۔علمی ترقی و عروج کا راستہ مطالعہ و کتب بینی سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔مطالعہ و کتب بینی کے بغیر علم میں نکھار و کمال ناممکن ہے۔مطالعہ کی عادت کے ذریعہ ہی طلبا اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور علم و حکمت کے نوادرات کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ہم سے پہلے کے زمانے کے طلباء میں مطالعہ کا جو ذوق و شوق پایا جاتا تھااب وہ ناپید ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔"(از:فاروق طاہر)

مطالعہ کے چند بنیادی اصول:

مطالعہ کے چند اصول ہوتے ہیں ان اصولوں پر عمل پیر ا ہوکر مطالعہ کو سود مند اور تضیع اوقات سے پا ک بنایا جاسکتا ہے۔۔مطالعہ کے تعلق سے اس بات کا علم ضروری ہے کہ ہمیں کیا پڑھنا ہے، کیوں پڑھنا ہے اور کیسے پڑھنا ہے ۔انھیں عناصر کو مطالعے کے اصول کہا جاتا ہے۔

"مطالعہ عمر کے کسی حصے میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر خود کو مطالعے اور سیکھنے سے اپنے آپ کو مبرا نہیں سمجھنا چاہیے۔ مطالعے اور سیکھنے کے عمل کے رکنے سے زندگی رُک جاتی ہے۔ باشعور زندگی میں کوئی اسٹیج ایسا نہیں آتا، جب انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مجھے کچھ نیا سیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کسی انسان کے ذہن و دماغ پر یہ بات سما جائے کہ اب مجھے پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے سب کچھ معلوم ہوگیا ہے تو سمجھ لیں کہ اس پر علم و دانش کے دروازے بند ہونے لگے ہیں۔

مطالعے کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے، اس کے بغیر انسان مضبوط نہیں ہوسکتا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لکھنے کا آغاز پڑھنے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ پڑھنا کئی قسم کا ہوتا ہے۔ صرف مزے لینے کے لئے پڑھنا، تاکہ وقت بھی پاس ہوجائے اور دلچسپ باتوں کے پڑھنے سے طبیعت بھی ہشاش بشاش ہوجائے۔ نمبر دو، امتحان کے لئے پڑھنا، تاکہ امتحان میں پاس ہوجائیں۔ جیسے ہی امتحان کے دن ختم ہوئے مطالعے کی کتابیں اسٹور کی نذر ہوگئیں۔۔۔ لیکن یہاں میری مراد اس طرح کے بے ثمر مطالعے کی نہیں۔۔۔ بلکہ ادبی مطالعے سے ہے۔

ادبی طریق مطالعہ کیا ہوتا ہے؟:

اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کتاب کا مطالعہ کیا جا رہا ہے، اس سے کچھ حاصل کیا جائے۔ جس تحریر کا بھی مطالعہ کریں، اس میں سے موتیوں کو چن چن کر نکال لیا جائے۔ آپ کسی بھی تحریر کو انتہائی گہرائی سے اور تجزیاتی طریقے سے مطالعہ کریں۔ اس میں استعمال کئے گئے نئے اور عمدہ الفاظ، خوبصورت تراکیب، محاورات، ضرب الامثال، مصرعے و اشعار، الفاظ کی مختلف قسمیں، یعنی مترادف، متضاد، ذومعنی وغیرہ اور تشبیہات و استعارات کو الگ الگ سمجھیں اور پھر انہیں اپنے پاس نوٹ کریں۔ یعنی مطالعے کو کثیرالمقاصد، کثیرالفوائد اور جامع بنانے کی کوشش کریں۔ سرسری انداز میں یا کسی ایک پہلو پر ہی انحصار نہ کریں۔

مطالعہ کتنا کیا جائے؟:

اس کا کوئی جواب نہیں، بلکہ اصل چیز ہے ذوقِ مطالعہ، اگر یہ پیدا ہوجائے تو دماغ تھکتا ہے نہ دل بھرتا ہے۔البتہ مطالعہ کرتے وقت جب دل اکتاہٹ محسوس کرے تو ترک کر دینا چاہیے۔

کب تک مطالعہ جاری رکھا جائے؟

مطالعہ عمر بھر جاری رکھا جائے۔ جس شخص نے زندگی کے کسی موڑ پر خود کو مطالعے سے مستغنی سمجھ لیا، اس دن سے اس کی علمی ترقی، علمی تنزل کی جانب رخ لے گی۔

لہذا مطالعہ عمر کے کسی حصے میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر خود کو مطالعے اور سیکھنے سے اپنے آپ کو مبرا نہیں سمجھنا چاہیے۔ مطالعے اور سیکھنے کے عمل کے رکنے سے زندگی رُک جاتی ہے۔ باشعور زندگی میں کوئی اسٹیج ایسا نہیں آتا، جب انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مجھے کچھ نیا سیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کسی انسان کے ذہن و دماغ پر یہ بات سما جائے کہ اب مجھے پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے سب کچھ معلوم ہوگیا ہے تو سمجھ لیں کہ اس پر علم و دانش کے دروازے بند ہونے لگے ہیں۔

مطالعے کا آغاز کیسے کریں؟:

اپنے دل میں اس کی خوب تر اہمیت پیدا کرکے دل چسپ مگر خالص ادبی کتابوں کے مطالعے سے آغاز کر دیں۔ روزانہ مطالعہ کریں، خواہ چند صفحات یا کچھ سطریں ہی سہی۔

ذوق ادب کی آبیاری کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں؟:

علمی و ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ علم و ادب کے گلستانوں کی سیر کا خود کو عادی بنائیے۔ ورق سے عشق کیجیے۔ اچھی کتاب سے کاغذ کی پڑھیا تک آپ کی نظر سے گزرے بغیر نہ رہے۔

مطالعہ کن کتابوں کا کیا جائے؟:

معیاری و عصری ادب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا جائے۔ معیاری مصنفیں بھی ہیں اور تصنیفات بھی۔ تاہم یہ اصول پیشِ نظر رہے کہ ادب سیکھنے کے شوق میں فقط دینی و مذہبی کتاب کے علاوہ دیگر مذاہب و مسالک سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف مصنفین کے لکھے ہوئے رسالے، افسانوں اور ناولوں کو بھی پڑھا جائے، لیکن ادبی و اصلاحی مطالعے کی نیت سے، ورنہ اکثر ناولز اور افسانے ادب سے زیادہ بے ادبی و بد تہذیبی کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ مطالعہ کس طریقے سے کرنا چاہیے؟:

یہ ایک اہم ترین سوال ہے۔ نوآموزوں اور نوواردوں کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا طریقہ نہیں آتا ہے، جس کی وجہ سے وہ طرح طرح کی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ مطالعے کے بعد حاصل مطالعہ کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی مطالعے کا بھوت سوار ہوجائے تو پوری پوری رات پڑھتے رہتے ہیں۔ دو چار دن کے بعد جب مطالعے کا یہ بھوت سر سے اُترتا ہے تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مطالعے سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ مطالعے کے معاملے میں بھی وہ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ مطالعے کا بھی ایک خاص طریقہ کار ہے۔ اگر اس طریقہ کار کے مطابق مطالعہ کریں گے تو تھوڑے سے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ مطالعہ اور پڑھنے سے بوریت اور اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوں گے، جبکہ وسعتِ مطالعہ اصل چیز ہے۔ آپ اپنے بڑوں کے مشورے سے منتخب کرکے کتابیں خریدیں اور اس روش سے پڑھیں۔۔ کہ ایک کتاب کو تین مرتبہ دیکھیں۔ پہلی مرتبہ سرسری سا دیکھیں۔ چیدہ چیدہ مقامات سے پڑھتے چلے جائیں۔ دس پندرہ منٹوں میں پوری کتاب کا جائزہ لے لیں۔ کتاب کا مقدمہ پڑھیں، فہرست پر اچٹتی سی نظر ڈالیں۔ کتاب کے مصنف کے حالات جاننے کی کوشش کریں۔ کتابوں پر لکھے گئے تبصروں اور تقریظوں کو پڑھیں۔ پھر شروع سے آخر تک آٹھ دس مختلف مقامات سے ایک ایک پیراگراف پڑھتے چلے جائیں۔ جس طرح چاولوں کی دیگ کے چند دانے چکھ لینے سے پوری دیگ کا قدرے اندازہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دس پندرہ منٹ کی ورق گردانی سے بھی کتاب کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہے؟ دوسری مرتبہ اس کتاب کو بالاستیعاب پڑھیں۔یا پھر پہلی بار ہی شروع سے آخر تک غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

مطالعے کو کار آمد کیسے بنایا جائے؟:

کتاب کھولنے سے پہلے کچی پنسل کان میں اڑس لیں۔ پھر دورانِ مطالعہ کارآمد مقامات کو تین درجوں یعنی اہم، زیادہ اہم اور اہم ترین میں تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کو الگ انداز سے محفوظ کریں۔ اہم کو انڈر لائن کرلیں، زیادہ اہم کو متوازی کو انڈر لائن کے ساتھ ساتھ کتاب کے شروع میں یا آخر میں یاد داشتی صفحے پر اس کا مختصر سا اشاراتی عنوان لگا دیں۔ حاصلِ مطالعہ کو اپنی ڈائری اور نوٹ بک میں لکھنے سے بوقتِ ضرورت کام میں لایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ کتاب آپ کی ذاتی ہے تو پھر ہائی لائٹر سے اہم مقامات کو ہائی لائٹ بھی کرسکتے ہیں۔ مختلف قسم کے نشانات بھی لگا سکتے ہیں۔ سرورق کے اندرونی صفحات پر بھی یادداشتیں لکھ سکتے ہیں۔ اگر کتاب لائبریری کی ہے یا کسی سے پڑھنے کے لئے مستعار لائے ہیں تو پھر اہم باتوں کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے جائیں۔ ان نقاط کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کے طریقہ کار کو بہتر بناکر نہ فقط ذوق مطالعہ پیدا ہوگا، ساتھ ہی مطالعہ فائدہ مند اور ثمر بخش بھی ثابت ہوگا۔"(از: بنت الہدیٰ)

کن کتابوں کا مطالعہ کیا جائے:

"ہر چھپا ہوا مواد مطالعے کے لائق نہیں ہوتا۔تمام چھپے ہوئے مواد یا کتابوں کے مطالعے کی ہماری مصروف زندگی اجازت بھی نہیں دیتی۔کتابوں اور مواد کے انتخاب میں ازحد احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔کتاب کے انتخاب کے دوران اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کتاب غیر ضروری نہ ہو اور اسکول و کالج کے طلباء کے لئے یہ پابندی بھی ضروری ہے کہ وہ کتاب غیر نصابی بھی نہ ہو۔غیر نصابی کتب کا مطالعہ فارغ اوقات میں کریں ۔ غیر نصابی مواد کے مطالعے کے وقت خیال رہے کہ اس سے تعلیمی سرگرمیوں اور کارکردگی میں کوئی حرج واقع نہ ہو۔غیر نصابی کتب کے مطالعہ میں ہمیشہ معتبر اور مستند مصنفین کی کتب کا ہی مطالعہ کریں تاکہ مسائل میں الجھنے سے کماحقہ بچا جا سکے۔مطالعہ میں احتیاط لازمی ہے ۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کو توریت جیسی آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرماکر ہماری توجہ اسی جانب مبذول کروائی ہے۔طلباء کے لئے کتابوں اور مطالعہ کے مواد کے انتخاب میں اساتذہ کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔

مطالعہ کیوں کیا جائے:

علم کا مطلوب و مقصود رضاء الہی کا حصول ہے۔مطالعہ علم کے اضافے کا باعث ہوتا ہے۔اسی لئے مطالعہ بھی رضائے الہی کے لئے کیاجائے۔
مطالعہ کا مقصد حصول علم توہونا ہی چاہیئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا علم بھی ہونا چاہیئے جو اپنی ذات اور دنیا کے لئے نافع ہو۔لایعنی کتب کا مطالعہ وقت کو برباد کرنا ہے۔ا س سے فائدہ تو کجا نقصان بہت زیادہ ہوں گے۔

مطالعہ کی یومیہ مقدار کیا ہو:

مطالعہ کی مقدار اور وقت کا تعین طلبا ء کی دلچسپی اور معلومات کے انجذاب کی کیفیت پر منحصر ہوتاہے۔طلباء روزانہ اتنا مطالعہ کریں جس کو وہ آسانی سے ذہن میں محفوظ کر سکیں۔طلباء اس وقت تک مطالعہ میں غرق اور مصروف رہیں تا وقتیکہ وہ بوریت اور اکتاہٹ کا شکارنہ ہوں۔جب بھی اکتا ہٹ اور بوریت کا احساس ہو مطالعہ کو فوری ترک کردیں۔عموما دن میں پانچ گھنٹے خود کار مطالعہ (Self-Study)کو سازگار کہا گیا ہے۔ابتدا طلباء مطالعہ کے دوران جلدہی اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن روزانہ باقاعدہ مطالعہ کی عادت کے ذریعہ ان میں دلچسپی اور مطالعہ سے حظ اٹھنے کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔مطالعہ سے ذہنی تھکاوٹ کا احساس لازمی ہے۔نیند کے ذریعہ جسمانی اعضا کو آرام ملتا ہے جب کہ نیند ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے میں اتنی سود مند نہیں ہوتی ہے جتنا مطالعہ کے فوری بعد کھیل کود اور چہل قدمی ذہنی تھکاوٹ کو دور کرتی ہے۔کھیل کود اور چہل قدمی طلباء میں تازگی بھر دیتی ہے جس سے وہ پھر اپنے آپ کو مطالعہ کے لئے تازہ دم اور تیار پاتے ہیں۔

مطالعہ شدہ مواد کو کیسے یاد رکھا جائے:

نصابی مواد کو یاد کرنے کے بعد اس کو لکھنے سے مطالعہ مستحکم اور مضبوط ہوجاتاہے۔یاد کردہ مواد کو لکھنے سے معلومات نہ صرف ذہن نشین ہوجاتے ہیں بلکہ طلباء اپنی غلطیوں کی بھی آسانی سے نشاندہی کرسکتے ہیں۔مواد کو یاد کرنے کے بعد لکھنے سے نہ صرف لکھنے کی مشق ہوتی ہے بلکہ لکھنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔مطالعہ شدہ مواد کو یاد رکھنے کے لئے سمعی و بصری تعلیمی سہولتوں کا بھر پور استعمال کریں۔مشہور چینی کہاوت ہے کہ ’’کسی چیز کو ایک بار دیکھنا ہزار بار سننے سے بہتر ہے۔‘‘موثر مطالعہ کے لئے اچھا، پرسکون اور آرام دہ ماحول ضروری ہوتا ہے۔
مطالعہ کے دوران توجہ کو منتشر کرنے والی چیزوں شور،ٹی وی اور موبائیل فونس وغیرہ سے دور رہیں۔مطالعہ کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں لوگوں کا آنا جانا نہ ہو اور ماحول خاموش اور پرسکون ہو۔مطالعہ کے لئے قدرتی روشنی اور تازہ ہوا اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔اگر قدرتی روشنی میسر نہ ہوتو ایسی روشنی کا استعمال کریں جو قدرتی روشنی سے ہم آہنگ ہو۔مطالعہ کے دوران درپیش اشیاء ڈکشنری،پین، پنسل،مارکر،ربڑ،پٹری اور قلم تراش وغیرہ کو اپنے پاس رکھیں تاکہ مطالعہ میں خلل نہ پڑے۔ روزانہ مطالعہ کے لئے ایک وقت مقرر کرلیں اور اس وقت مطالعہ کے سوا کوئی دوسرا کام انجام نہ دیں۔طلباء مذکور ہ بالا امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے مطالعہ کو بامعنی اور با اثر بنا سکتے ہیں۔"(فاروق طاہر )

گروپ ایڈمن:عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان،
واٹس اپ پر " لکھاری" گروپ میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں ۔

واٹس اپ :00923462115913
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...