Friday 1 December 2017

جشن عید میلاد النبی

الحمد للہ رب العالمین ،والصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین: اما بعد

مولف؛ عمران احمد سلفی

عنقریب کچھ دنوں کے بعد ہمارے اوپر ربیع الاول کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے،ہم ہر سال 12/ ربیع الاول کے دن اکثر لوگوں کو عید میلاد النبیﷺ مناتے ہوئے دیکھتے ہیں،لوگ اس دن کی تیاری بڑے زور و شور سے کرتے ہیں،بچے ،بوڑھے اور مردو خواتین نئے کپڑے زیب تن کئے سڑکوں اور بازاروں میں نظر آتے ہیں ،علماء کرام کی قیادت میں اور قوم کے ارباب حل و عقد کی سیادت میں مردو زن کے اختلاط کے ساتھ ایک شاندار جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے،جس میں ایک طرف علما کرام نبی کریم ﷺ کے محبت کا دم بھرتے تھکتے نہیں ہیں تو دوسرے طرف امت مسلمہ کے نوجوان میوزک کے دھن پر نعت نبی بجا کرناچتے اور تھرکتے تھکتے نہیں ہیں،اور اس دن میلاد نبی ﷺ نہ منانے والے یا میلاد کے جلوس میں شریک نہ ہونے والوں کے متعلق علماء کرام اپنی تقریروں اور خطبات جمعہ کے ذریعہ عوام الناس کےذہن میں اس بات کو راسخ و پیوست کر دیتے ہیں کہ وہ سب کے سب زندیق ہیں،بدمذہب و لادین ہیں،اور یہ لوگ نبی ﷺ سے محبت نہیں کرتے،اور نہ ہی انہیں صحابہ سے محبت ہے۔
اللہ رب العالمین نے اپنے مومن بندوں کو یہ حکم دیا کہ اصول دین اور عبادات کے تمام تر تنازع اور اختلافات کو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنتوں کی روشنی میں حل کریں،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً}
ترجمہ: اے ایمان والوں! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ،پھر اگر کسی چیزمیں اختلاف کو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالی ٰ کی طرف اور اس کے رسول ﷺ کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے،یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔(النساء/59)
کتاب و سنت ہی شریعت اسلامیہ کے مصادر اصلیہ ہیں اختلاف و تنازع میں ان کی طرف رجوع کیا جائیگا۔
یہ بات کسی بھی صاحب خرد و با شعور شخص سے مخفی نہیں کہ اللہ تعالی ٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کونبی ﷺ کے لئے چن لیا ،جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک مشہور روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا " اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا،تو محمد ﷺ کے دل کو تمام بندوں میں سب سے بہتر پایا،تو اللہ نے انہیں چن لیااور ان کو نبوت و رسالت دے کر دنیا والوں کے لئے بھیجا،پھر محمد ﷺ کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا،تو اصحاب محمد ﷺ کے دلوں کو اپنے بندوں میں سب سے بہتر پایا،تو انہیں آپ ﷺ کا ساتھی اور صحابی بنایا "(مسند احمد/1/379/حسن)،انہوں نے نزول وحی کا زمانہ پایا،قرآن مجید براہ راست نبی ﷺ سے سیکھااور اس کی تفسیر آپ ﷺ کے ارشادات کی شکل میں اپنے کانوں سے سنی اور آپ ﷺ کی سنن مبارکہ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا،اس لحاظ سے وہ قرآن و حدیث کے سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ فقیہ ہوئے،ان سے بڑا عالم یا فقیہ نہ کبھی آیا اور نہ قیامت تک آئے گا۔
اللہ رب العالمین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے اپنی رضا مندی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ" وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ " ترجمہ : اور جو مہاجرین و انصار سابق و مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔(سورہ توبہ/100)
اور ایک مقام پر جہاں اللہ نے ان سے رضا مندی کا اعلان کی وہیں ان پر سکینت نازل فرما کر ان کے مقام و مرتبہ کو دوبالاکیاجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے" لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً "ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے،ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر سکینت نازل فریاما اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (سورہ فتح/18)۔
اور ایسے ہی اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کے دور کو خیر القرون میں شامل کرتے ہوئے فرمایا کہ "خَيرُ النَّاسِ قَرنِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم "ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھر وہ لوگ جو ا س کے بعد ہونگے،پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہونگے۔(صحیح بخاری /2652/صحیح مسلم/2533)۔
قرآن مجید کے ایک مقام پر اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ایمان صادق کو ان کے بعد آنے والے باقی تمام لوگوں کے لئے معیار قرار دیا ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے " فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ" ترجمہ : پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں(اور نہ مانیں)تو وہ (اس لئے کہ آپ کی )مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔(سورۃ البقرۃ/137)
اور اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستےکو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے،اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"ترجمہ : اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستہ کے سوا کسی اور راستہ پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے د ن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔(سورۃ النساء/115) ۔
اس آیت کریمہ میں مومنوں سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہےکیونکہ نزول وحی کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی تھے جو اس کے سب سے پہلے مخاطب تھے،لہذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے اور ان کے طرزعمل کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اس وعید سے ڈرنا چاہئے۔مزید اس آیت کریمہ کے مفہوم کی تائید عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہیکہ " تم میں سے جو شخص اقتدا کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحاب محمد ﷺ کی کرے،کیونکہ وہ اس امت کے سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے،سب سے زیادہ گہرے علم والے،سب سے کم تکلف والے،سب سے زیادہ مضبوط طریقے پر چلنے والے ،سب سے زیادہ اچھے حال والےتھے،یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بنی ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کو قائم کتنے کے لئے منتخب کرلیا تھا،لہذا تم ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے اخلاق اور طور طریقوں میں ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ صراط مستقیم پر چلنے والے تھے"۔(جامع البیان و فضلہ لابن عبد البر /ص 926)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اوپر کتاب و سنت کے نصوص کے ذریعہ ان کے جو فضائل بیان کئے گئے ،وہ اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام کا فہم ویسے ہی ضروری ہے جیسے انسانی جسم کو روح کی ضرورت ہے،بلا روح کے انسان کے جسم کی کوئی حقیقت نہیں ویسے ہی بلا فہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرآن و حدیث کی ناقص فہم حاصل ہوگی۔
یہاں مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں ہم اپنے میلادی بھائیوں سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔
(1) ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ میلاد مصطفی ﷺ کے قائل حضرات میلاد کے جشن و جلوس کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے دلائل دیتےہیں۔
سوال یہ ہیکہ کیا جو دلائل آج میلاد جشن و جلوس کو ثابت کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے بھی ان آیات و احادیث کا وہی مفہوم سمجھا جو میلادکے قائل حضرات سمجھتے ہیں؟اگر جواب ہاں میں ہو تو کوئی تو دلیل ہوگی کہ صحابہ نے میلاد منایا ہے، اور اگر جواب نہ میں ہو تو غور کریں کے ہم اپنے مسلکی تعصب و عناد میں کہاں جا رہے ہیں؟۔
(2) اللہ کے رسول ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے،اللہ کے رسولﷺ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ تقریبا 29/ سال تک رہی۔
سوال یہ ہیکہ کیا خلفاء راشدین نے اپنی ادوار خلافت میں جشن میلاد اور جلوس میلاد کا اہتمام کیا؟ کیا اس حوالے سے کوئی صحیح تاریخی روایت ملتی ہے؟اگر ہاں تو جلوس نکالی جائے،اور اگر نہیں تو شریعت کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کیوں؟
(3) سب سے آخری صحابی حضرت ابو الطفیل واثلہ بن عامر الکنانی ہیں جو بعض محققین کے مطابق ہجرت کے 100/سال پر یا 110 / سال پر فوت ہوئے ہیں،اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کے دور کو خیرالقرون میں شمار کیا ہے۔
سوال یہ ہیکہ کیا 100 یا 110 سال تک خیر القرون میں اس جشن میلادیا جلوس میلاد کا ثبوت صحیح تاریخی روایت سے ملتا ہے؟ اگر ہاں تو کہاں ؟ اور اگر نہیں تو یہ بدعت ایمان و کفر کا مسئلہ کیوں بنا ہو ہے؟
(4) جشن اور جلوس میلاد کا موجد ابو سعید کوکبوری بن ابو الحسن علی بن محمد الملقب الملک المعظم مظفر الدین اربل ہے،جو رمضان 630 ھ میں فوت ہوا،اور اس کے جواز کا فتویٰ دینے والاابو الخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن وحیہ کلبی جو 633 ھ میں فوت ہوا ہے۔
سوال ہیکہ کیا یہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت سے ہیں؟یقینا جواب ہوگا نہیں،اور محدثین کرام ؒ نے ان دونوں اشخاص پر زبردست نقد و تنقید کیا ہے،اس قسم کے لوگوں کی سنت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کفر و زندیقیت کا فتوی کیوں؟
اس قسم کے سوالات بہت ہیں ،مگر بس اتنی سے گزارش ہیکہ ہم اپنے اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹائیں،یقینا ہم جب کتاب و سنت میں اس بدعت کا کہیں بھی وجود نہیں پائیں گے،کیوں کہ نہ اللہ نے حکم دیا،نہ نبی ﷺ نے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےاس قسم کی کسی عید کو منایا اور نہ ہی منانے کا حکم دیا۔
اللہ ہم سب کو ہر قسم کی بدعت سے بچائے آمین

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...