Saturday 11 April 2020

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ


خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

(تالیف عمران شہزاد تارڑ)

1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے. حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے کا نام 
جہیمان عتیبی (جہیمان بن محمد بن سيف العتيبي)تھا ۔ جس نے اپنے چار سے پانچ سو ساتھیوں کے ساتھ بیت اللہ کا محاصرہ کر کے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور  پچاس ہزار کے قریب لوگوں کو مسجد الحرام میں محصور کر دیا۔

نمازِ فجر کے وقت امامِ کعبہ شیخ محمد السبیل امامت کروانے کی تیاری کر رہے تھے۔
 ان کے پیچھے دائروی صفوں میں نصف لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ امام نے معمول کے مطابق نماز ادا کروائی، اس کے بعد انہوں نے مصلے پر اپنا رخ موڑ کر مائیکروفون میں دعا شروع کی۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ مسجد کی پچھلی صفوں سے کچھ لوگ کندھوں پر تابوت اٹھائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ابھی لاکھوں حاجی مکہ میں موجود تھے۔ ان میں سے جو بھی فوت ہو جاتا اس کے لواحقین کی کوشش ہوتی تھی کہ نمازِ جنازہ مسجد الحرام میں امامِ کعبہ کی امامت ہی میں ادا ہو۔ شیخ السبیل نے دعا جاری رکھی لیکن  یہ لوگ انہی کی طرف بڑھتے گئے، حتیٰ کہ بالکل قریب پہنچ گئے۔ایک آدمی نے  امام کعبہ کو ایک طرف دھکیل کر ان سے مائیک چھین لیا اور مائیک اپنے منہ کے قریب لا کر بدوی عربی میں پوری طاقت سے چیخا، ’برادرانِ اسلام، اللہ اکبر، مہدی کا ظہور ہو گیا ہے۔ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﯾﮟ۔ کچھ حوالہ جات میں جہيمان نے ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮭﯽ بعض حوالہ میں اپنے بہنوئی محمد بن عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا۔
اس دوران اس کے ساتھیوں نے اپنے تابوتوں میں چھپی کلاشنکوفیں نکال کر لہرانی اور جوابی نعرے لگانے شروع کر دیے۔ نمازی پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اسی دوران مسجد الحرام کے در و دیوار فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھے۔
اس وقت تک ریاض میں ہنگامی صورتِ حال کا آغاز ہو چکا تھا۔ شاہ خالد نے فوری طور پر مشیروں کو طلب کیا اور اس عجیب و غریب صورتِ حال سے نمٹنے کے طریقوں پر غور شروع ہو گیا۔ اسی اجلاس میں ہونے والے ایک فیصلے کے تحت سعودی عرب کی سرحدیں بند کر دی گئیں اور تمام ملک عملاً باقی دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسلامی عقائد کی رو سے خانۂ کعبہ کی حدود میں کسی قسم کے تشدد کی شدید ممانعت ہے۔ حتیٰ کہ وہاں کسی جانور کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔اس لیے نمازی بھی دہشت کے عالم میں اپنی اپنی جگہوں پر جمے باغیوں کی کارروائی دیکھتے رہے۔
مسجد میں عربوں کے علاوہ دسیوں ہزار غیر ملکی بھی موجود تھے، جن کی اکثریت کو عربی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
اسی دوران باغیوں نے چند دوسری زبانیں بولنے والے مترجم اکٹھے کر لیے تھے اور ان کی مدد سے انہوں نے نمازیوں کو اپنا پیغام سنانا شروع کر دیا۔
مکہ کے باسیوں کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ خانۂ کعبہ میں ہوا کیا ہے۔
حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ اگر وہاں قتل و غارت ہوئی تو کہیں انہیں عوام اور مذہبی طبقے کے غیظ و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سپاہیوں کے ذہنوں میں غبار تھا۔ اگر وہ کعبہ پر قبضہ کرنے والوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تو اس کے بدلے انہیں جنت ملے گی، یا کعبے کا تقدس پامال کرنے کے عوض جہنم؟
لیکن فوجیوں نے گرین سگنل ملنے کے بعد مختلف حکمتِ عملیوں پر کام شروع کر دیا۔ تین اطراف سے حملہ کیا لیکن جنگجوؤں کی عمدہ پوزیشن اور ڈسپلن کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسی دوران کسی کو بن لادن گروپ کا خیال آیا۔ وہ چونکہ مسجد کی توسیع کا کام کر رہے تھے، اس لیے ان کے پاس تفصیلی نقشے موجود تھے۔
اب معاملے کی سنگینی کھل کر سامنے آئی۔ مسجد الحرام کے اندر طویل راہداریوں، دالانوں، صحنوں، تہہ خانوں اور سرنگوں کا جال بچھا ہوا تھا، اس لیے براہِ راست کارروائی سے ہزاروں لوگوں کے نقصان کا اندیشہ تھا اور کامیابی پھر بھی مشکل دکھائی دیتی تھی۔
ادھر جہیمان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے مسجد کے لاؤڈ سپیکروں سے تقریروں کا سلسلہ جاری تھا۔ اب انہوں نے اپنے مطالبات پیش کرنا شروع کر دیے تھے، جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ مغربی ملکوں سے رابطے توڑ دیے جائیں، حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، امریکہ کو تیل کی فراہمی روک دی جائے، اور تمام غیر ملکیوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور ہمارے مقرر کردہ ساتھی کو امام مہدی مان لیا جائے وغیرہ وغیرہ 
ادھر فوجی دماغ سر جوڑے بیٹھے تھے کہ باغیوں سے خانہ کعبہ کو کس طرح آزاد کروایا جائے۔ کسی نے منصوبہ پیش کیا کہ سرنگوں میں پانی چھوڑ دیا جائے اور پھر اس پانی میں بجلی چھوڑ دی جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر عمل ہوا تھا اور اسی طریقے سے باغیوں پر قابو پایا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ رد ہو گیا تھا کیوں کہ ایک تو مکہ میں اتنا پانی ہی نہیں تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کو بھر سکے، دوسرے اس میں یرغمالوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔ 
بھر پور غورو فکر کے بعد جب سعودی حکام عاجز آ گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مدد حاصل کی جائے۔ اس وقت امریکی سی آئی اے کے کمانڈو سعودی سپاہیوں کو تربیت دے رہے تھے،
 امریکہ سے مدد لینے کی تجویز زیر بحث آئی
لیکن صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ اس موقعے پر امریکہ کے ملوث ہونے کے سیاسی اثرات پڑیں گے، اس لیے نگاہِ انتخاب نسبتاً نیوٹرل ملک فرانس پر پڑی۔
اس وقت فرانسیسی سیکرٹ سروس کے سربراہ کاؤنٹ کلاود الیکساندر  تھے۔ فرانسیسی حکومت کے ذریعے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ کعبہ کے اندر گیس چھوڑ دی جائے جس سے باغی بےہوش ہو جائیں گے۔
اس مقصد کی خاطر فرانسیسی خفیہ ادارے جی آئی جی این کے تین کمانڈوز کو ہنگامی بنیادوں پر سعودی عرب روانہ کیا گیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ درپیش تھا کہ سعودی قانون کی رو سے حِجَاز کی حدود میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پہلے ان تینوں کو عارضی طور پر کلمہ پڑھایا اور پھر مکہ پہنچا دیا گیا۔صحافی یاروسلاف ٹرافی موو نے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں۔
انہوں نے اپنا کام فوراً شروع کر دیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مسجد اتنی بڑی تھی اور اس کے بہت سے حصے کھلے تھے اس لیے گیس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ لیکن اسی دوران سعودی حُکّام نے دوسرا آپریشن بھی شروع کر رکھا تھا کہ مسجد میں کس طرح داخل ہوا جائے جس میں سپاہی مسجد کی دیواروں 
 میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اس طرح ایک بہترین حکمت عملی سے باغیوں پر حملہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ ان سوراخوں سے اندر گرینیڈ پھینکنا شروع کر دیے، جس سے بہت سے یرغمالی بھی ہلاک ہو گئے اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا جن میں جہیمان بھی شامل تھا اور ویسے بھی باغی ہمت ہار چکے کیونکہ اس وقت محاصرے کو 14 دن گزر چکے تھے۔
 4 دسمبر 1979 کو جہيمان سمیت 60 سے زیادہ شدت پسندوں کو حراست میں لے لیا گیا اور اس بغاوت کو ختم کرنے 
اس واقعے میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں، یہ تعداد متنازع ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس کے 127 اہلکار مارے گئے ہیں، ایک درجن کے قریب نمازی، تاہم غیر سرکاری تعداد چار ہزار کے قریب بتائی گئی۔
جہيمان اور اس کے ساتھیوں کو جنوری 1980 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جہيمان نے جسے امام مہدی(القحطانی) قرار دیا گیا تھا، وہ دوران آپریشن ہی ہلاک ہو گیا تھا۔اس طرح مسجد الحرام کو باغیوں سے آزاد کروایا گیا۔
اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے ملک کے علما سے مشاورت کے بعد شریعہ قوانین کے اطلاق کا وعدہ کیا جس کے بعد سے ملک سے مخلوط نظام پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور ملک میں سابق بادشاہ شاہ فیصل اور اس وقت کے بادشاہ شاہ خالد کی اعتدال پسند پالیسیوں کو ختم کر دیا گیا۔
اور ﺳﻌﻮﺩﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﺌﮯ۔ 

اب ذرا بات کر لیتے ہیں پاکستان کی۔
خانہ کعبہ کے محاصرے کی پاکستان میں جب یہ خبر پہنچی تو لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پہلے پہلے تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ خانۂ خدا پر بھی کوئی قابض ہو سکتا ہے، پھر جب خبریں تسلسل سے آنے لگیں تو بےیقینی کی جگہ غم اور پھر غم کی جگہ غصے نے لے لی۔ 
شروع شروع میں تو یہ افواہیں بھی آئیں کہ شاید اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل ایران میں شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور آیت اللہ خمینی ملک کے سپریم لیڈر بن گئے تھے۔
لیکن آیت اللہ خمینی نے خانۂ کعبہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے  اس کا الزام امریکہ اور صیہونی طاقتوں پر دھرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس سے مسلم دنیا کے بڑے حصے میں الزام کا پرنالہ امریکہ کی طرف مڑ گیا۔ پاکستان میں 21 نومبر کے اخباروں میں جو خبریں چھپیں ان میں بڑی حد تک اس واقعے کو امریکی سازش قرار دیا گیا۔
ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف ہڑتال کی گئی اور جلوس نکالے گئے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر سینکڑوں مشتعل مظآہرین نے دھاوا بول دیا اور عمارت کے بڑے حصے کو آگ لگا دی۔لیکن بر وقت فوج نے محاصرہ چھڑوایا لیا۔
بعد میں دیگر مسلم ملکوں  میں بھی اسی قسم کی مظاہروں اور تشدد کی خبریں آئیں۔
 تو چند دنوں کے اندر اندر اس قسم کی اطلاعات گردش میں آ گئیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔ 2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چوھدری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘ لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران  بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔  
اور ویسے بھی اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی ’ان دا لائن آف فائر‘ میں ضرور کرتے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1979 کے متفرق واقعات تو لکھے ہیں لیکن  مکہ میں ہونے والے کسی آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ لکھتے ہیں کہ 1978 میں وہ لیفٹیننٹ کرنل بن گئے تھے (’میجر‘ مشرف والی تھیوری تو یہیں غلط ثابت ہو گئی)۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ 1979 میں ان کی پوسٹنگ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ان کی بطور ’میجر کمانڈو‘ مکہ میں تعیناتی خارج از بحث ہو جاتی ہے۔
اس آرٹیکل کو ویڈیو میں دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں

BEST FUTUR E TRAVEL & TOURS
WhatsApp/Call 03462115913/03005131329 
Land line:0514854234
 www.bestfuturetravel.com
www.facebook.com/bestfuturetravel
Blog:www.bestfutureconsultants.blogspot.com/
bestfuturetravel@gmail.com
 Office # 7, 2nd Floor United Centre Shamsabad, Murree Road, Rawalpindi
⛤your trust is our priority⛤

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...