Saturday 22 July 2017

تخلیقی انسان یا ارتقائی انسان

تخلیقی انسان یا ارتقائی انسان

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#73

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں. ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے. قرآن و احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا، پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا، پھر اس جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے. آدم علیہ السلام کا جسم جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی. یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں. اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿30﴾
 اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے واﻻ ہوں، تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔۔(سورۃ البقرۃ:30)[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
مزید تفصیلات "انسان کی پیدائش: تخلیق یا ارتقاء  والے باب میں آئندہ اقساط میں آئے گی۔

دوسرا گروہ مادہ پرستوں کاہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں. اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی. پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیدا ہوئے. انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے. اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتاجہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کر کے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے.
شروع ہی سے مذہب کے ساتھ الحاد بھی تمام معاشروں میں رہا ہے لیکن یہ تاریخ میں کبھی بھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاءکرام علیہم الصلوٰة والسلام کے متبعین‘ ایک اللہ کو رب ماننے والے غالب رہے یا پھر شرک کا غلبہ رہا۔چند مشہور فلسفیوں اور ان کے معتقدین کو چھوڑ کر تاریخ میں انسانوں کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔

واضح کرتے چلیں نظریہ ارتقاء ایک ایسی دنیا کا فلسفہ اور تصور ہے جو زندگی کی ابتداء اور وجود کو محض اتفاقات کی صورت میں بیان کرنے کے لئے جھوٹے نظریات، مفروضات اور خیالی منظر نامے پیش کرتی رہتی ہے۔ اس فلسفے کی جڑیں ماضی میں بہت گہری ہیں اور قدیم یونان میں جاکر نکلتی ہیں۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ قدیم زمانہ میں تھیلیس، عناکسی میندر، عناکسی مینس، ایمپی ووکل وغیرہ اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔
وہ سارے لامذہب فلسفے جو تخلیق سے انکار کرتے ہیں، براہِ راست یا بالراست انداز میں ارتقاء کے تصور کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں۔ کم و بیش یہی کیفیت ان تمام نظریات اور نظامات کی بھی ہے جو مذہب کے مخالف ہیں۔
درحقیقت وہ ’’سائنس‘‘ جس پر اس نظریئے کا پورا انحصار ہے، بذاتِ خود اس امر کی شہادت دے چکی ہے، اور اب بھی مسلسل ایسی ہی شہادتیں دے رہی ہے کہ نظریہ ارتقاء کا حقیقتاً کوئی سائنسی مقام نہیں ہے۔جس کی تفصیلات سابقہ اقساط میں گزر چکی ہیں ۔مزید آئندہ اقساط میں پیش کی جائیں  گی۔

کیا انسان بندر کی اولاد ہے؟
انیسویں صدی عیسوی سے پہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا. 1859ء میں سر چارلس ڈارون )1818-1882( نے ایک کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection(یعنی "فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور") لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا. اس نظریہ کو ماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے. ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس و ادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے. گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسان بندر کا چچیرا بھائی ہے. لیکن کچھ انتہا پسندوں نے انسان کو بندر ہی کی اولاد قرار دیا. کچھ ان سے بھی آگے بڑھے تو کہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپینزی )Chimpanzee( سے پیدا ہوئے ہیں. سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے اور لمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں. مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا تھا. مگر یہ حضرات انہیں چیمپینزی، گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں.

پھر کچھ مفکرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے.
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بد کردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا:
کُونُوا قردہ خاسین
تم ذلیل بندر بن جاؤ.65:2
اس  کی تفصیلات ایک الگ مضمون "کیا موجودہ بندر مسخ شدہ ہیں"میں آگے آ رہی ہے۔

تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیری (Catastrophism)ہے جس کا بانی کوپیر (Cupier 1796-1832) ہے. جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الاعضاء کا ماہر تھا. اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے. یہ ارضی وسماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست و نابود ہو گئے. پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے. یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست و نابود ہو گئے. اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے ہیں.
(اسلام اور نظریہ ارتقاء،از احمد باشمیل )

ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی. پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کا ئی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی. یہ زندگی کی ابتداء تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں. پھر جرثومہ حیات ترقی کر کے حیوانچہ بن گیا. پھر یہ حیوان بنا. یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازوؤں والے حیوانات میں تبدیل ہوا. پھر اس نے فقری جانور)ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے (کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا. ا ور ا س کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل، فہم اور تکلم کی صلاحیتیں نہیں تھیں. بالآخر وہ صاحب فہم و ذکا ء انسان بن گیا. ان تمام تبدلات، تغیرات اور ارتقائے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے.

ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا؟

آج سے دو ارب سال پیشتر سمندر کے کنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی. یہ زندگی کا آغاز تھا. 60 کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے. پھر 3 کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے. 45 کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈی والے جانور پیدا ہوئے. 40 کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمود ہوئی. 30 کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے. یہ عظیم الجثہ جانور 4 فٹ لمبے اور 35 ٹن تک وزنی تھے. 13 کروڑ سال بعد یا آج سے 17 کروڑ سال پہلے بے دم بوزنہ(Ape) سیدھا ہو کر چلنے لگا(یعنی وہ بندر، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جد اعلیٰ ہے )اس سے 30سال بعد یا آج سے 70 لاکھ سال پہلے اس بے دم بوزنے کی ایک قسم" تپھکن تھروپس" سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی. مزید 50 لاکھ سال بعد یا آج سے 20 لاکھ سال پہلے پہلی با شعور انسانی نسل پیدا ہوئی. جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا. مزید 2 لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا. (زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص 7 تا 9 )

ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع 1859ء میں لکھی پھر اصل الانسان (Origin of man)اور پھر تسلسل انسانی (Decent of man)لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی. اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے.

تنازع للبقاء (Struggle for Existence)

اس سے مراد زندگی کی بقاء کے لیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندار باقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہو جاتے ہیں مثلاً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتے ہیں. ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہے وہ گھاس پر قبضہ جما لیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہو جاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہو جاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے.

دوسرا اصول طبعی انتخاب (Natural Selection)

مثلاً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخور ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت) اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں ہے ( خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے.

ماحول سے ہم آہنگی (Adaption)

اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے. فطرت نے اسے شکار کے لیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں. اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملے تواس کی دو ہی صورتیں ہیں. یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا شروع کر دے گا. اس دوسری صورت میں اس کے دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہو جائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیئت کے مطابق ہوں. اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہو جائیں گی. اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مد د دے سکیں.

قانون وراثت (Law of Heritance)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر 2یعنی ہیئت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا او ر گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہو گیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصول معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہو گیا.

ڈاروِن کے یہ خیالات بعض مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول ہو گئے. اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظر نامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتی. جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا (Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے. اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے زمانے میں موجود ہوتے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں. کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں. فطری انتخاب کے ذریعے، جین میں تبدیلی کر کے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً ناممکن ہے.

جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritance) کے قوانین دریافت کئے. اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہو سکی. مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ "جینیات" (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی. کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہو گئے. 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں. یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے "اتفاقی واقعات" کی مد د سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا. ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا.

اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا. کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیاء، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا. ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں. نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے. اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کر دیا جس کا نام "جدید ڈارونزم" (Neo-Darwinism) رکھا گیا.

جدید ڈارونزم (Neo-Darwinism)

اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا. مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے ) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں. مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے.

اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے "نشان زد توازن"(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے. اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی "درمیانی شکل" اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہو گئے. با الفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے "ارتقائی آباء و اجداد" کے بغیر ہی وجود میں آ گئی. اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو "تخلیق" کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے ) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے. لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کر رہا ہے ). اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے. مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہو گیا. یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہو کر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گئے ہوں گے.

یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہو جانے والی جادوئی کہانیوں میں ہو سکتی ہے. ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے.

اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا. مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا "رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا" بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا. وجہ صاف ظاہر ہے. ڈاروِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے. اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا. تغیرات (تبدیلیوں ) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ "مجموعی تغیرات" (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں.

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ "نشان زد توازن" کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے. اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے. وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہو گئے. مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کر کے تبدیل ہوئی تھیں )، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں. تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان "درمیانی (انتقالی) شکلوں" کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آ سکی. حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہو چکے ہیں.

ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں. دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی. آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کر رہے ہیں. بطورِ خاص انہی نکات پر آ کر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں.

سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ، جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا. اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہو سکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں. جس کی تفصیلات ہم  آئندہ قسط نمبر74 میں پڑھیں گے۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...