Monday 3 July 2017

ارتقاءپسندوں کے دعوے ناقص کیوں ہیں؟

ارتقاءپسندوں کے دعوے ناقص کیوں ہیں؟

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#58(حصہ اول)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

پچھلی اقساط میں نظریہ ارتقاءکا فوصلی ثبوت کے ملنے اور سالماتی حیاتیات کے نقطہ نظر سے ناقص ہوجانے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔  ان دو اقساط میں ان حیاتیاتی واقعات اور عمومی تصورات کو زیر غور لایا جائے گا جن کو ارتقاء پسند فکری اور نظریاتی ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ موضوعات خصوصی طور پر اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ یہ واضح کرتے ہیں کہ ارتقاء کو سہارا دینے کے لئے کوئی سائنسی دریافت موجود نہیں ہے۔ یہ موضوعات ارتقاء پسندوں کے جھوٹے اور فریبی ہتھکنڈوں سے پردے اٹھاتے ہیں۔

جاندار نسلیں اور تبدل

تبدل ایک جینیاتی اصطلاح ہے جس کا اشارہ اس جینیاتی واقعہ کی طرف ہے جس کے نتیجے میں کسی نسل کا ایک فرد یا پورا گروہ کسی دوسری نسل کی خصوصیات اپنالیتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کے تمام لوگ تقریباً ایک ہی طرح کی جینیاتی معلومات کے ہامل ہیں مگر پھر بھی کسی کی آنکھیں ترچھی ہوتی ہیں، کسی کے بال سرخ ہوتے ہیں، کسی کی ناک لمبی ہوتی ہے اور کسی کا قدم کم ہوتا ہے۔ یہ تمام فرق اس کے اندر موجود جینیاتی معلومات میں تبدل کے امکان پر منحصر ہوتا ہے۔ ارتقاءپسندکسی نسل کی اس تبدل کے امکان کو اپنے نظریئے کے ثابت ہونے پر محمول کرتے ہیں۔ حالانکہ تبدل ارتقاءکا ثبوت ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ تو کسی بھی جاندار کے اندر موجود جینیاتی معلومات کا مختلف طرح سے عمل پیرا ہونے کا نتیجہ ہے۔ تبدل کے ذریعے پہلے سے موجود جینیاتی معلومات میں کسی نئی خصوصیت کا اضافہ نہیں ہوتا۔ نظریہ ارتقاءکے لئے اہم سوال تو یہ ہے کہ بالکل نئی معلومات کس طرح حاصل ہوتی ہیں جس کے ذریعے ایک نئی نسل وجود میں آجائے۔

کسی جسم میں تبدل ہمیشہ پہلے سے موجود جینیاتی معلومات کی حدود کے اندر واقع ہوتا ہے۔ جینیاتی سائنس میں یہ حدود” جین پول“ یا ”جینیاتی نشیب“ کہلاتی ہیں۔ کسی نسل کے جینیاتی نشیب میں موجود تمام خصوصیات مختلف طریقوں سے تبدل کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر تبدل کے ذریعے مشترک کیفیتوں کے باوجود بڑے گروہ سے مختلف انواع کے لمبی دموں اور چھوٹی ٹانگوں کی خاصیت والے رینگنے والے جانوروں کی کچھ نسلوں میں آسکتی ہے کیونکہ اس انواع کی جینیاتی نشیب میں یہ معلومات موجود تھیں۔ لیکن اس تبدل سے رینگنے والے جانور پر اگا کر پرندے نہیں بن سکتے اور نہ ہی ان کا تحول بدل سکتا ہے۔اس طرح کی تبدیلی ان کی جینیاتی معلومات میں اضافے پر مشروط ہے جوکہ تبدل کے طریقے سے ہرگز ممکن نہیں ہے۔ جس وقت ڈارون نے اپنا نظریہ تشکیل کیا تھا اس وقت وہ ان ٹھوس سائنسی حقائق سے سراسر ناواقف تھا۔ اس کے نزدیک تبدل کی کوئی انتہا یا حد نہیں تھی۔ ۴۴۸۱ءمیں اپنے ایک مضمون میں وہ کہتا ہے:

نسلوں کے اندر تبدل ارتقاءکی دلیل نہیں ہے

اپنی کتاب ”اوریجن آف اسپیسز“ میں ڈارون نے دو مختلف تصورات کو الجھا دیا۔ ایک تو ایک ہی نسل کے اندر تبدل اور دوسرا ایک بالکل نئی نسل کی نموداری۔ مثال کے طور پر ڈارون نے کتوں کی مختلف اقسام کے اندر تبدل کا معائنہ کیا اور قیاس کیا کہ کتوں کی کچھ اقسام مختلف نسلوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔حتیٰ کہ آج بھی ارتقاء پسند نسلوں کے اند تبدل کو ”ارتقاء“ کی شکل بناکر پیش کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ نسلوں کے اندر تبدل ارتقاء نہیں ہوتا۔ کتوں کی چاہے جتنی بھی اقسام ہوں وہ کتا ہی رہتا ہے۔ کتوں اور کسی نسل کے جانور کے درمیان عبور کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا۔
تصویر نمبر ایک دیکھیں۔

قدرت میں تبدل کے نظام میں کسی حد کا موجود ہونا کئی مصنفوں کے خیال میں ممکن ہے جبکہ میں کسی ایک بھی ایسی سچائی کو ڈھونڈنے سے قاصر ہوں جس کی بنیاد پر اس یقین کی تعمیر کی گئی ہے۔“۳۴۱۔ اپنی کتاب اوریجن آف اسپیسیز میں اس نے مختلف مثالوں کے ذریعے تبدل کو اپنے نظریئے کا سب سے اہم ثبوت قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارون کے نزدیک جانوروں کی نسل کشی کرنے والے وہ لوگ جو مویشیوں کی مختلف انواع کی نسل کشی کے ذریعے زیادہ دودھ دینے والے مویشی پیدا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ بالآخر ان مویشیوں کو ایک مکمل طور پر نئی جاندار نسل میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ لاحدود تبدل کے بارے میں ڈارون کے تصور کا اندازہ اس کی کتاب اوریجن آف اسپیسز کے اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے:

”مجھے اس بات میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی کہ بھالوﺅں کی ایک ایسی نسل کی افزائش انتخاب طبعی کے ذریعے ہو جوکہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ آبی خصوصیات کی حامل ہو۔ ان کے منہ بڑے سے بڑے تر ہوتے جائیں جب تک کہ ایک وہیل مچھلی نما ضخیم مخلوق وجود میں آ جائے“۔۴۴۱

ڈارون کا اس قدر عقل سے عاری مثال کا پیش کرنا صرف اس کے زمانے کی قدیم اور محدود سائنسی معلومات کی وجہ سے تھا ۔لیکن اس کے بعد ۰۲ صدی میں سائنس نے جینیاتی استقلال کا اصول قائم کر دیا ہے جو کہ جانداروں کے اوپر کئے گئے کئی تجربات پر مبنی ہے ۔اس اصول کے تحت چونکہ نئی انواع کو تشکیل دینے کے مقصد سے کئے گئے نسل کشی کی تمام تجربات ناکام رہے تھے اسی لئے اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ جانداروں کی مختلف نسلوں کے درمیان سخت حدود متعین ہیں جس کی وجہ سے نسل کشی کرنے والوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مویشیوں کی مختلف انواع کی آپس میں نسل کشی کے ذریعے کوئی اور نسل تشکیل کردیں جس طرح ڈارون کا مفروضہ تھا۔

نارمن میک بتھ اپنی کتا ب ’ڈارون ری ٹرائڈ ‘میں نظریہ ڈارون کی تردید کرتا ہے اور لکھتا ہے:

”اس مسئلے کا مرکز یہ ہے کہ آیا جاندار نسلیں ایک دوسرے سے لامحدود حد تک مختلف ہیں یا نہیں ۔ لیکن یہ بات تو ثابت ہے کہ تمام نسلوں میں استقلال ہے۔ ہم سب نے ان مایوس نسل کشوں کی کہانیاں سن رکھی ہیں جنہوں نے اپنا کام ہر حد تک کیا کہ وہ دیکھ سکیں کہ کوئی حیوانی یا نباتاتی نسل نقطہ ابتداء پر واپس جاتی ہے کہ نہیں۔لیکن دو تین صدیوں کی شدید محنت کے بعد بھی آج تک کوئی کالا گلاب یا کالا کنول کا پھول پیدا نہیں ہوسکا“۔۵۴۱

لوتھربربانک کا شمار قابل ترین نسل کشوں میں ہوتا ہے اور اس نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ”ممکنہ ترقی کی کچھ حدود ہیں اور ان حدود کا تعین قانون کرتے ہیں۔“۶۴۱

ڈنمارک کا سائنسدان ڈی یو۔ایل۔ جوہانسن اس معاملے کا خلاصہ اس طرح پیش کرتا ہے:

”ڈارون اور والس نے جس تبدل کے اوپر زور دیا تھا وہ ایک خاص نقطے سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا کیونکہ اس طرح کے تبدل کے اندر’غیر معینا رخصت کا راز موجود نہیں ہوتا۔“ ۷۴۱

اسی طرح ڈارون نے گالا پاگوس کے جزیرے پر جوچڑیاں دیکھی تھیں وہ محض تبدل کی مثال ہیں ، ارتقاءکی نہیں۔ حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ان چڑیوں کے اندر کسی قسم کا لامحدود تبدل پیش نہیں آیاتھا جس طرح کہ ڈارون نے دعویٰ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان چڑیوں کی زیادہ تر اقسام جوکہ ڈارون کے حساب سے ۴۱ مختلف نسلوں کی نشاندہی کر رہی تھیں، وہ آپس میں نسل کشی بھی کرتی تھیں جس کے حساب سے یہ چڑیاں ایک ہی انواع کا تبدل تھا۔ سائنسی مشاہدے کے مطابق اس چڑیا کی چونچ، جو کہ تقریباً تمام ارتقائی کتب میں قیاس کے طور پر موجود ہے ،وہ دراصل تبدل کی ہی ایک مثال ہے اور اسی لئے نظریہ ارتقاءکے ثبوت کے طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

پیٹر اور روز میری گرانٹ نے گالا پاگوس کے جزیروں پر کئی سال ان چڑیوں کی مختلف اقسام کے مشاہدوں کے ذریعے ڈارون کے نظریئے کے ثبوت کی تلاش میں گزارے۔ ان کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ایسے کسی قسم کے ارتقاء کا پیش آنا ممکن ہی نہیں جس کا نتیجہ نئی خصوصیات کا وجود میں آنا ہو۔۸۴۱

جراثیم کش دوا سے مزاحمت اور ڈی۔ ڈی۔ ٹی سے مدافعت ارتقاء کا ثبوت نہیں ہیں

ارتقاء پسند اپنے نظریئے کے ثبوت کے طور پر ایک مفروضہ جراثیموں کی جراثیم کش دوائیوں سے مزاحمت کا پیش کرتے ہیں۔ کئی ارتقائی ذرائع جراثیم کش دواﺅں سے مزاحمت کو جانداروں کی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ترقی کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دعویٰ ان کیڑوں کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے جوکہ ڈی دی ٹی جیسی کیڑا مار دوائی کے خلاف مدافعتی قوت پیدا کرلیتے ہیں۔ لیکن ارتقاءپسند اس موضوع پر بھی شدید غلطی کا شکار ہیں۔

جراثیم کش دوائیں’ قاتل سالمے‘ ہوتے ہیں جوکہ خردحیاتی جاندار دوسرے خرد حیاتی جانداروں کے خلاف لڑنے کے لئے پیدا کرتے ہیں۔ سب سے پہلی جراثیم کش دوائی پینسلین تھی جو ایلگزانڈر فلیمنگ نے ۸۳۹۱ءمیں ایجاد کی۔ فلیمنگ کواندازہ ہوا کہ گیلی مٹی میں پیدا ہونے والا سالما ’اسٹافائلو کوکس ‘نامی جراثیم کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس کی اس دریافت سے طبی دنیا میں زبردست تبدیلی آئی۔ خردحیاتیاتی جانداروں سے حاصل کی گئی جراثیم کش دوائیاں دوسرے جراثیم کی خلاف بے حد کامیابی کے ساتھ استعمال کی جانے لگیں۔ پھر ا یک اور نئی اور حیران کن بات دریافت ہوئی۔ وہ یہ کہ جراثیم وقت گزرنے کے ساتھ جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت تعمیر کرلیتے ہیں۔ یہ نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جراثیم کش دوائیوں کے زیر اثر آنے والے جراثیموں کا ایک بڑا حصہ مرجاتا ہے جبکہ کچھ جراثیم جوکہ اس دوائی کے اثر سے محفوظ رہتے ہیں وہ تیزی سے ایک دوسرے کی نقل کرکے کھوئی ہوئی آبادی کو دوبارہ آباد کرلیتے ہیں ۔اسی طرح سے رفتہ رفتہ جراثیم کی تمام آبادی اس جراثیم کش دوائی کی خلاف قوت مدافعت پیدا کرلیتی ہے ۔اس صورتحال کو ارتقاءپسند ’جراثیموں کا ماحول میں ڈھلنے سے ارتقاء‘کی طرح پیش کرتے ہیں اور اس میں ارتقائی پہلو نکال لیتے ہیں۔

سچائی اس سطحی تشریح سے بہت مختلف ہے۔ اسرائیلی حیاتیاتی ماہرِ طبیعیات لی اسپیٹنر کا شمار ان سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس موضوع پر بے انتہا اور تفصیلی تحقیق کی ہے۔ اسپیٹنر اپنی ۷۹۹۱ءمیں لکھی گئی کتاب ’ناٹ بائی چانس‘ یا ’ اتفاق سے نہیں ‘ کے لئے بھی مشہور ہے۔ اسپیٹنر کہتا ہے کہ گو کہ جراثیموں کی قوت مدافعت دو مختلف طریقوں سے پیش آتی ہے لیکن دونوں میں سے ایک بھی طریقہ نظریہ ارتقاء کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دو طریقے ہیں۔

وہیل مچھلی کا ریچھ کی ارتقائی

شکل ہونے کی فرضی حکایت اوریجن آف اسپیسیز میں ڈارون اصرار کرتا ہے کہ وہیل مچھلیاں ان ریچھوں کی ارتقائی شکل ہیں جنہوں نے تیرنا شروع کردیا تھا۔ ڈارون نے یہ سوچنے میں غلطی کی تھی کہ نسلوں کے درمیان تبدل کے امکانات لامحدود ہیں۔ ۰۲ ویں صدی کی سائنس نے اس ارتقائی منظر نامے کو ایک فرضی حکایت ثابت کردیا ہے۔ تصویرنمبر دو دیکھیں ۔

۱۔ مدافعتی جینیات کی منتقلی جوکہ کسی جراثیم کے اندر پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔

۲۔ جینیاتی تبدیلی کے باعث جینیاتی معلومات کا کھونا جس کے نتیجے میں قوت مدافعت تعمیر ہو جاتی ہے۔۱۰۰۲ءمیں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں پروفیسر اسپیٹنر پہلے طریقہ¿ عمل کی وضاحت کرتا ہے:

”کچھ خرد نامیہ جانداروں کے اندر قدرتی طور پر ایسی جینیات موجود ہوتی ہیں جوکہ ان جراثیم کش دوائیوں کے خلاف مزاحمت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ یہ مزاحمت اور مدافعت جراثیم کش دوائی کے سالمے کی توڑ پھوڑ یا اس کو خلئے سے مکمل طور پر نکال دینے کی صورت میں پیش آتی ہے۔ جن جانداروں کے اندر یہ مدافعتی جینیات موجود ہوتے ہیں وہ ان کو دوسرے جراثیم میں بھی منتقل کرسکتے ہیں اور ان کو بھی مدافعتی خصوصیات کا حامل بناسکتے ہیں۔ گوکہ یہ مدافعتی خصوصیات ہر جراثیم کش دوائی کے لئے الگ ہوتی ہیں پھر بھی بہت سے مرض پیدا کرنے والے جراثیم کئی جینیاتی سلسلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے ذریعے وہ مختلف انوع و اقسام کی جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرچکے ہیں“۔۹۴۱

اسپیٹنر پھر کہتا ہے کہ:

”یہ سب ارتقاءکا ثبوت ہرگز نہیں ہے۔جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت کو اس طریقے سے حاصل کرنا وہ طریقہ نہیں ہے جس کو ارتقاءکے ثبوت کے طور پر جینیاتی تبدیلی کا نقش اول سمجھ لیا جائے۔ اس نظریئے کو واضح کرتی ہوئی جینیاتی تبدیلی کا کام صرف جراثیم کے تولیدی مادے میں معلومات کا اضافہ کرنا نہیں بلکہ اس کی تمام زندگی سے متعلق نئی معلومات کا اصافہ کرنا ہے ۔جینیات کی افقی سطح پر منتقلی جینیات کو ان جینیات کے اطراف ہی پھیلاتی ہے جوکہ کچھ جاندار نسلوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں“۔۰۵۱

یہاں کسی بھی طرح کے ارتقاءکی بات نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی بھی نوعیت کی نئی جینیاتی معلومات پیدا نہیں ہوئیں۔ وہ جینیاتی معلومات جو کہ پہلے سے ہی وجود میں تھی وہ صرف جراثیم کے درمیان منتقل ہوئی ہے۔ دوسری طرح کی قوت مدافعت جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے لیکن یہ بھی ارتقاءکے ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اسپیٹنر لکھتا ہے:

”کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خرد نامیہ جاندار کسی جراثیم کش دوائی کے خلاف قوت مدافعت اپنی خلئے کے مرکز کا بے قاعدہ عمل کے ذریعے استبدال سے پیدا کرلیتا ہے۔ اسٹریپٹومائسین سلمن واکسمین اور الربٹ شاٹز نے ۴۴۹۱ میں دریافت کی۔یہ ایک ایسی جراثیم کش دوا ہے جس میں جراثیم اس طریقے سے قوت مدافعت پیدا کر لیتی ہیں۔ لیکن گوکہ جراثیم کے اندر ہونے والی اس طرح کی جینیاتی تبدیلی خرد نامیہ جاندار کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے پھر بھی اس تبدیلی کو جینیاتی تبدیلی کا وہ نقش اول قرار نہیں دیا جاسکتا جس کا دعویٰ نوڈاروینی نظریئے کو ہے۔ وہ جینیاتی تبدیلی جو کہ اسٹرپٹومائسین کو قوت مدافعت بخشتی ہے وہ اس کے رائبوسوم یا RNA میں آشکار ہوتی ہے اور اس کے سالماتی جوڑ کو جراثیم کش دوائی کے سالمے سے توڑ پھوڑ دیتی ہے۔ خرد نامیہ جاندار کے RNA کی سطح میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی اسٹرپٹومائسین سالمے کو جڑنے اور اپنی جراثیم کش ذمہ داریوں کو نبھانے سے روکتا ہے۔ یہ توڑ پھوڑ اس کے اندر خصوصیات کی کمی کی صورت میں ہوتی ہے اور اس سے جینیاتی معلومات میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اصل نقطہ تو یہ ہے کہ ارتقاء اس طرح کی جینیاتی تبدیلیوں یا بدہیئتیوں سے حاصل نہیں ہوسکتا چاہے کتنی ہی تعداد میں تبدیلیاں رونما ہوجائیں۔ ارتقاءان جینیاتی تبدیلیوں کو جمع کرنے سے عمل پذیر نہیں ہوسکتا جوکہ صرف خصوصیات میں کمی ہوتی ہے۔“۱۵۱

ارتقاء پسندوں نے جراثیم کی جراثیم کش دواؤں سے مزاحمت کو ارتقاء کا ثبوت کہا ہے لیکن یہ ثبوت نہایت پر فریب ہے۔تصویر نمبر تین دیکھیں ۔

خلاصہ یہ کہ وہ جینیاتی تبدیلی جوکہ جراثیم کے RNA میں تبدیلی لے کر آئے وہ اس جراثیم کی اندر اسٹرپٹومائسین کے خلاف قوت مدافعت پیدا کردیتی ہے۔ اس کی وجہ رائبوسوم کے RNA کے اندر جینیاتی تبدیلی کے ذریعے توڑ پھوڑ کا عمل ہے جس سے جراثیم کے اندر کسی بھی طرح کی نئی جینیاتی معلومات کا اضافہ نہیں ہوتابلکہ اس کے رائبوسوم کی ساخت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔یعنی کہ جراثیم معزور ہوجاتا ہے۔ (یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جراثیم کا رائبوسوم صحت مند جراثیم سے کم کارگزر ہوتا ہے)۔ چونکہ اس معذوری کے تحت جراثیم کش دوائی رائبوسوم یا RNA سے جڑ نہیں سکتی اسی لئے جراثیم کش دوائی کے خلاف قوت مدافعت تعمیر ہوجاتی ہے۔ کسی بھی ایسی جینیاتی تبدیلی کی مثال سامنے نہیں ہے جوکہ جینیاتی معلومات میں اضافہ کرے۔

یہ وہی صورتحال ہے جس کے تحت کیڑے مکوڑوں کے اندر ڈی۔ ڈی۔ ٹی اور دوسری کیڑے مار دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان میں سے کئی حالات میں پہلے سے موجود مدافعتی جینیات استعمال میں آجاتے ہیں ۔ارتقائی ماہرِ حیاتیات فرانسسکو آئلا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے:

”متعدد کیڑا ماردوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لئے جن جینیاتی تبدیلیوں کی ضرورت تھی وہ غالباً ان تمام کیڑے مکوڑوں کی آبادیوں کے اندر پہلے سے موجود تھیں جن کے اوپر یہ انسان کے بنائے ہوئے مرکبات استعمال کئے گئے تھے“۔۲۵۱

اس مثال کی طرح دوسری کئی مثالوں کی وضاحت بھی جینیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کی جاسکتی ہے۔ جس طرح کہ اوپر والی مثال RNA میں جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اسی طرح دوسری تمام مثالیں بھی کیڑے مکوڑوں کے اندر جینیاتی معلومات میں کمی کے باعث سامنے اآئی ہےں۔ ان تمام مشاہدات کی روشنی میں ثابت ہے کہ جراثیم اور کیڑے مکوڑوں کے اندر موجود قدرتی قوتِ مدافعت نظریہ ارتقاءکے لئے کسی قسم کے ثبوت کی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ نظریہ ارتقاءکا بنیادی دعویٰ تو یہی ہے کہ جاندار نسلیں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ترقی پاتی ہیں۔ اسپیٹنر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نہ تو جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت نہ کوئی اور دوسرا حیاتیاتی مظاہرہ کسی بھی ایسی جینیاتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے:

”وسیع اور بسیط ارتقاءکے لئے جس نوعیت کی جینیاتی تبدیلیاں درکار ہیں ان کا آج تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ بے ترتیب طرح کی جینیاتی تبدیلیاں اس قسم کی جینیاتی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہر گز نہیں ہیں جن کی نوڈاروینی نظریئے کو لازماً ضرورت ہے۔ ان کا سالماتی سطح پر معانہ بھی اس موضوع پر کسی نئی طرح کی معلومات کا اضافہ نہیں کر سکا۔ میر اسوال یہاں پر یہ ہے کہ جس طرح کی جینیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ اب تک کیا جاچکا ہے کیا وہ اس نظریئے کو سہارا دینے کے لئے کافی ہیں؟ اس کا جواب صرف ’نہیں‘ ہے“۔۳۵۱
جاری ہے۔۔۔۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
http://ur.harunyahya.com)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے ڈرائیو وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...