Thursday 27 July 2017

سوشل میڈیا پر ڈرون ازم کی یلغار اور ہماری ذمہ داریاں

سوشل میڈیا پر ڈرون ازم کی یلغار اور ہماری ذمہ داریاں

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#72

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

انٹرنیٹ وہ غیر معمولی ایجاد ہے جس سے ایک نئے عہد یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی طرح یہ بھی ایک میڈیا ہے جسے اصطلاحاً سائبر میڈیا کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دنیا بھر کے تعلیم یافتہ افراد کے خیالات اور اقدار کو متاثر کرنے میں یہ میڈیا، دوسرے میڈیا کی بانسبت بہت زیادہ اثر انگیز ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے ۔ مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو ایک گلوبل ویلج میں بدل کے رکھ دیا ہے ۔ میڈیا نے انسان کو ہر ہر لمحے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصوص مقاصد کے لئے کیا جانے والا پروپیگنڈا ہے ۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے ۔ مباحثوں ،فحاشی و عریانی،مختلف نظریات اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغار کی بدولت آج ہمیں معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سرور اور سب سے بڑھ کر لادینی جیسی لعنتوں کا سامنا ہے ۔
  میڈیا کے منفی کردار نے ہی آج پاکستانی نوجوانوں کو بے راہ روی اور مغربی تہذیب کا دلدادہ بنایا ہے ۔
جبکہ حکمرانوں کو روشن خیالی کا درس دیا ہے ۔ آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے ۔ میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ اگر ہم معاشرتی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگی ۔ میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لئے نصاب تعلیم میں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ، پروپیگنڈا کے رائج طریقوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ کی ایجاد سے تو ملحدوں کو عالمی سطح پر الحاد کی ترویج کے لیے ایک وسیع اور تیز ترین پلیٹ فارم مہیا ہو گیا۔اس سائبر میڈیا کی بدولت ملحدین کو صرف بیس سالوں میں وہ کامیابی ملی جو وہ پچھلی ایک صدی میں حاصل نہ کر سکے تھے، یعنی ادیان کے خلاف ایک عالمگیر اور ہمہ گیر جدوجہد.... اور اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ، آج الحاد کا دنیا بھر میں تیزی سے پھیلاو جاری ہے۔ایک عرب اخبار کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے دنیا کے مختلف زونز میں عموماً اور مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے سینکڑوں گروپس پیجز ویب سائٹ اور بلاگز ہیں ،جو آہستہ آہستہ اپنا دائرہ عمل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں ۔

آپ اس نقطہ نظر سے صرف پاکستان کی بلاگنگ دنیا میں جھانک لیں، جہاں بلاگنگ انتہائی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ہزاروں افراد بلاگنگ کر رہے ہیں۔یہاں کی بلاگنگ دنیا میں شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انگلش بلاگنگ توخیر سیکولرازم کی تبلیغ کے لیے وقف ہے ہی، اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھی کئی بلاگر ایسے ہیں جن کی تحریریں توہینِ اسلامِ کے زمرے میں آتی ہیں۔بے شک انگریزی اور اردو بلاگنگ میں یہ فرق ضرور ہے کہ اردو بلاگنگ کی دنیا میں ایسے کئی بلاگر موجود ہیں جو گستاخانہ مواد شائع کرنے والوں کی سخت گرفت کرتے ہیں، لیکن بہرحال یہ زہریلا مواد بدستور نیٹ پر نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنے متنازعہ مواد کی وجہ سے بہت زیادہ ریٹنگ بھی پا جاتا ہے۔ اس مواد کو سراہنے والے اور بلاگر کی پیٹھ تھپکنے والے بھی کئی مل جاتے ہیں۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کی انٹر نیٹ کی دنیا میں اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے وہ ہیں ، جن کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں، اور وہ کھلے عام کفریہ باتیں کر کے اور ہر طرح کی گستاخی کر کے بھی اپنے کفر کا کھل کر اقرار نہیں کرتے۔ ان کی یہی رٹ ہوتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ،بلکہ اصل مسلمان ہیں۔ یا للعجب! اللہ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر بھی یہ لوگ مسلمان ہیں تو پتہ نہیں کفر اور کیا ہوتا ہے! یہی لوگ سیدھے سادھے نوجوانوں کے ایمان پر ڈاکا ڈالنے میں سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔
تمام ملحدین کا باقاعدہ لٹریچر بھی انٹرنیٹ پر موجودہے، جس میں نظریہ ارتقاء خاص طور پر قابل ذکر ہے اور  ہمارے سلسلہ"الحاد کا علمی تعاقب " میں یہی  موضوع  زیر بحث ہے۔

الحاد دراصل ہر گناہ کی چابی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ یقین کر لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا(خالق) نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو پھر حکومت کے قوانین کے سوا کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔اورجب الحاد غالب آئے گا تو پھر حکومت کے قوانین بھی صرف انسانوں کو ایک دوسرے کی آزادی میں مخل ہونے سے روکنے کے لیے ہوں گے۔ یوں پھر زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت کوشی ہی رہ جائے گی۔پھر مادر پدر معاشرتی آزادی ایک انسان کو برہنہ پھرنے کا حق دے گی اور انسان کو جانوروں کی سطح پر آنے میں کوئی چیز مانع نہ رہے گی۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں آج عالم اسلام میں رفتہ رفتہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی الحاد کے اثرات قبول کر رہی ہیں۔
یوں اسلامی دنیا میں مردوں کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ عورتیں بھی، اسلام کے جداگانہ صنفی احکامات (جو فطرت کے قریب انتہائی خوبصورت احکامات ہیں)کو بنیاد بنا کر خدا کے وجود سے انکار کرنے لگیں، پھر اس کا لازمی نتیجہ خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ  ہو گا۔ کیوں کہ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو اللہ تعالیٰ نے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام ہی کے واسطے سے بتلائے ہیں۔ اور جب ایک مرد یا عورت خدا اور انبیاءکا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت یا مرد سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔(جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ پرونوگرافی کے حوالہ سے ایک علیحدہ کتاب میں تفصیلا ذکر کیا جائے گا جو ابھی راقم الحروف کے زیر تالیف ہے۔)
اورجب حیات بعد الموت اور محاسبہ کا یقین اٹھ جائے تو پھر انسان اسی دنیاوی زندگی کو لذت کا جہان بنانے کے لیے نئے نئے راستے کیوں نہ نکالے؟ پھر تو ہم جنس پرستی کاطوفان بھی اٹھے گااور اس سے آگے بڑھ کر محرم خواتین کا تقدس بھی پامال کیا جائے گا۔اور اس دنیا کو پھر ماسوائے عیاشی کے کچھ تصور نہیں کیا جائے گا۔
اگر ڈارون ازم کے خلاف شعوری جدوجہد سے خالی ہو تو اس کا فائدہ کیچڑ سے مچھر اڑانے سے کچھ زیادہ نہیں۔ ان مضر مشقوں اور کاموں کے خاتمے کا واحد راستہ اس ناک میں دم کر دینے والے مچھروں کو پیدا کرنے والے جوہڑ کو خشک کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں ڈارون ازم کے خلاف جرأت اور عقل و دانش سے آگے بڑھنا چاہیے۔اور ہر محاذ پر ان کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے ۔
ایک دفعہ ڈارون ازم شعوری طور پر جڑ سے اکھاڑ دی گئی تو الحادی تنظیمیں ڈھیر ہو جائیں گئیں اور الحاد  کا خوف اپنی موت آپ مر جائے گا۔

کچھ مخلص اسکالر حضرات صاف طور پر ڈارون ازم سے پیدا ہونے والے شدید خطرے کو واضح کرتے ہیں جس سے اس کے خلاف کی جانے والی شعوری جدوجہد کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ ڈارون ازم کے خلاف اس عقلی جدوجہد کی کوشش کا یہ جھوٹی منطق پیش کرتے ہوئے غلط اندازہ لگاتے ہیں کہ ’’ڈارون ازم کی اہمیت ہی کیا ہے؟‘‘ یا ’’کوئی بھی اب ڈارون ازم پر یقین نہیں رکھتا اس لیے اس کے متعلق زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ایسے اعتراضات اپنے نتیجتاً اثر میں ڈارون ازم کے خلاف تحریک چلانے والے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یہ اور اس جیسے دعوے مل کر بڑا عذر ترتیب دیتے ہیں تاکہ شعوری و عقلی جدوجہد میں حصہ لینے سے چھٹکارا مل جائے۔ اس بات کی مختلف وجوہات ہیں کہ اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرنے کی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے۔ جن میں سب سے پہلے ڈارون ازم کے متعلق کم معلومات ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والا عجیب قسم کا خوف ہے۔ وہ لوگ جو یہ قیاس کرتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء سائنسی ثبوتوں کی بنیاد پر کھڑا ہے یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ڈارون ازم کے خلاف لڑنے کا مطلب درحقیقت سائنس کے خلاف لڑنا ہے۔ جیسا کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سائنس ارتقاء کے عمل کو ثابت کرتی ہے تو وہ یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس سلسلہ میں دلچسپی لینی شروع کی تو وہ اس کی سوچ سے متاثر ہو جائیں گے۔ جس سے ان کی اپنے ایمان کمزور ہوں گے اور ان کے دنیا کے متعلق نظریات بدل جائیں گے۔
ایسے خطرات بے بنیاد ہیں۔ ارتقاء ایک غیرسائنسی نظریہ ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں سائنس کی ہر شاخ میں ہونے والی ہر نئی دریافت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ارتقاء کا عمل بناوٹی ہے اور یہ کہ تخلیق ایک واضح سچ ہے۔ سائنس نے جو سچ آشکار کیا ہے اس کے مطابق ﷲ نے کائنات کو اپنے حکم سے تخلیق کیا اور یہ کہ نظریہ ارتقاء کی کوئی بھی سائنسی قدروقیمت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو ڈارون ازم کی سائنس کے ہاتھوں شکست سے ناواقف ہیں، بہت سی غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ اسلام اور ڈارون ازم میں موافقت کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت کرنا لاحاصل ہے تو وہ خطرے کو بے اثر کرنے کے لئے اپنی ’’درمیانی راہ‘‘ کی تاویل پیش کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔

بہرکیف اسے اپنانا ایک بہت خطرناک اور غلط طریقہ ہے۔ سب سے پہلی اور نمایاں بات جو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں وہ یہ کہ نظریہ ارتقاء پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اپنے حمایتیوں کی تمام تر بہترین کوششوں کے باوجود، اس نظریئے کی تصدیق کسی سائنسی دریافت یا تجربے سے نہیں ہوسکی۔ درحقیقت وہ ’’سائنس‘‘ جس پر اس نظریئے کا پورا انحصار ہے، بذاتِ خود اس امر کی شہادت دے چکی ہے، اور اب بھی مسلسل ایسی ہی شہادتیں دے رہی ہے کہ نظریہ ارتقاء کا حقیقتاً کوئی سائنسی مقام نہیں ہے۔
اور دوسرا کوئی ایک بھی حوالہ قرآن سے ارتقاء کے امر کو ظاہر کرتا ہوا نہیں دیا جا سکتا، برعکس اس کے جو دعویٰ کیا جاتا ہے، بلکہ ﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اس نے (ﷲ تعالیٰ) نے زندگی اور تمام کائنات کو صرف یہ حکم دیتے ہوئے تخلیق کیا کہ ’’ہو جا (اور وہ ہو گیا)‘‘۔ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا [کافی ہے] کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے۔ (سورة يس:82) 
اس لیے آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ڈارون ازم کے خلاف شعوری و عقلی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کرنے یا ’’اسلامک ارتقاء‘‘ جیسی تصوراتی باتیں پیش کرنے کی بجائے، اپنے آپ کو اس سے متعلقہ ضرور تعلیم یافتہ کریں اور اس عظیم عقلی جدوجہد کا ساتھ دیں۔ جبکہ اب تو علم حاصل کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔
یہ شعوری و عقلی جدوجہد وسیع پیمانے پر صف بندی کیے ہوئے ہے۔ اسے تمام ٹیکنالوجیکل ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے، تمام سائنسی پیش رفت، سائنسی ترقی سے ثابت ہونے والے حقائق کو جمع کرتے ہوئے اسے صاف اور واضح ثبوتوں کے ساتھ
ڈرارون ازم کو شکست دی جا سکتی ہے۔

ایک شخص جو مختلف ذرائع سے ڈارونسٹ پروپیگنڈا کا مستقل شکار رہا ہو وہ یقینی طور پر  معمولی اعتراضات سے اپنی عادی کی ہوئی سوچ کو نہیں بدل سکتا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ سائنس ارتقاء کو سہارا دیتی ہے، کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سائنس نے جو نتائج اخذ کیے ہیں ان سے ارتقاء غیر سائنسی ثابت ہوتا ہے۔ یہی بات ڈارون ازم کے خلاف چلائی جانے والی عقلی جدوجہد کی اصل روح ہے۔
جدوجہد کے موثر ہونے کے لئے یہ بات از حد ضروری ہے کہ مسلمان یک جان ہو کر کام کریں۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ منکرین کے خلاف ایک ہو کر جدوجہد کریں ایک آیت یہ بیان کرتی ہے کہ اگر مسلمان ایک ہو کر کام نہ کریں تو کیسے زمین پر بدافعالی چھا جاتی ہے۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ۔
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا۔(سورة الأنفال؛73)[
آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ” اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمان داروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہو جائے گا۔ یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا لوگوں میں زبردست فساد برپا ہو جائے گا۔“

ایسے وقت میں جب بے دینی نے دنیا کے بیشتر حصوں پر اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں، جب لاقانونیت اور دہشت تمام انسانوں کو ڈراتی ہے، جب بہت سے بے یارومددگار اور معصوم لوگوں کو دبایا جا رہا ہے، ایسے میں سچے ایمان والوں کو چاہیے کہ اپنے طور پر تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اس بے دینی کے خلاف عقلی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ اگر مسلمان آپس میں یک جہتی کرنے میں ناکام رہے، اور مختلف خطوط پر ہی سوچتے رہے تو ایسا ہونے سے اس عظیم عقلی جدوجہد کا اثر کم ہو جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات بھلا کر دینی اخلاقیات کی تشہیر کریں۔ تمام مسلمانوں کو ڈارون ازم کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جو احباب سوشل میڈیا پر ڈرون ازم کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اللہ تعالی ان کو اجزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
تمام مسلمان ممالک کی معاشرتی تنظیمیں، انجمنیں، فاؤنڈیشنز اور سوسائٹیز کو ایک مشترکہ آگاہی کے تحت ڈارون ازم کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے۔ اس بات کو خاطر میں لائے بغیر کہ کیا ان کی تنظیم کے آئین میں ڈارون ازم اور مادہ پرستی کے خلاف جدوجہد کرنا ہے بھی یا نہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کو ترک کر دیں جو ان کی فاؤنڈیشن، سوسائٹی یا تنظیم کا حصہ نہ ہوں اور نہ ہی ان خطوط پر سوچیں کہ ’’اگر ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تو ہمیں اس درد سری میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ یہ نامناسب مسلمانوں کا رویہ ہے۔
ایسے حالات میں اگر ہم نے ڈارون ازم کے خلاف عقلی جدوجہد سے بھاگنے، مختلف قسم کی تاویلیں پیش کرنے، یک جہتی اور مل کر کام نہ کرنے پر ناکامی جیسے رویے اپنائے رکھے تو ہو سکتا ہے اس وجہ سے دنیا اور آخرت میں فرسودہ الزام ٹھہرائے جائیں یہ نہایت ضروری ہے کہ مخلص مسلمان اس فحش غلطی سے بچیں۔
ﷲکی رضا حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کی کفر کے خلاف تمام ذرائع سے اپنے اپنے طور پر کی جانے والی جدوجہد ضرور، ﷲ کی مرضی سے، تمام انسانیت کے لئے بہترین نتائج سامنے لائے گی۔
اتحاد اور ملی جذبے سے سرشار ہو کر کی جانے والی مخلص کوششیں ان اسباب کا ذریعہ بنتی ہیں جس سے ’’سچ فاتح ہو گا اور جھوٹ اپنی موت آپ مر جائے گا‘‘ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے کیا جانے والا یہ وعدہ تمام ایمان والوں کے لئے جوش و خروش اور ولولے کا ماخذ ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
 بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ۔بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وه تمہاری لئے باعث خرابی ہیں۔(سورۃ الانبیاء آیت 18)

(بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
 اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...