Thursday 13 July 2017

مادے سے بھی آگے کا راز


مادے سے بھی آگے کا راز

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#65

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
 
انتباہ:-
آگے آنے والی اقساط زندگی کا اہم راز افشاءکرتی ہیں۔ اس کو دھیان سے پڑھنا ضروری ہے کیونکہ اس کا موضوع ظاہری زندگی کے متعلق نظریئے میں بنیادی تبدیلی لانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس باب کا موضوع محض ایک نقطہ نظر، ایک مختلف تجویز یا ایک روایتی فلسفی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر ایمان والے یا بغیر ایمان والے کے لئے بھی اعتراف لازم ہے اور جس کی سچائی کو جدید سائنس نے مکمل طور پر ثابت کردیا ہے۔

جو لوگ اپنے ماحول کے بارے میں حکمت اور ضمیر کے تقاضوں کے مطابق غور و فکر کرتے ہیں ان کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات کی تمام جاندار اور غیر جاندار چیزیں صرف تخلیق کا ہی نتیجہ ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق کون ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر تخلیق اپنے آپ کو کائنات کی ہرچیز کے ذریعے باور کرواتی ہے تو پھر یہ بذاتِ خود کائنات کا حصہ یا کائنات کی بنائی ہوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طور پر کسی کیڑے مکوڑے نے خود اپنے آپ کو نہیں بنایا نہ ہی نظامِ شمسی نے اپنی تخلیق آپ کرکے تمام چاند ستاروں کے نظام کو ترتیب دیا ہے۔ اسی طرح نباتات، انسان، جرثومے، لال خون کے خلئے اور تتلیوں نے بھی خود اپنے آپ کو نہیں بنالیا۔ جس طرح اس سلسلہ مںں واضح کیا گیا ہے کہ ان تمام چیزوں کا اتفاق سے وجود میں آنا ایک انتہائی ناقابل فہم بات ہے۔ اسی لئے مندرجہ ذیل خلاصہ نکالا گیا ہے کہ جو کچھ بھی دنیامیں نظر آتا ہے وہ تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن نظر آنے والی کوئی بھی چیز یہ تخلیق کار نہیں ہے۔ ان چیزوں کا تخلیق کار ان تمام چیزوں سے مختلف اور برتر ہے۔ وہ ایک ایسی عظیم الشان قوت ہے جو کہ آنکھ سے اوجھل ہے لیکن اس کے وجود کا ثبوت اور اوصاف اس کی تخلیق کی ہوئی ہر چیز میں نمایاں ہیں۔ وہ تخلیق کار ﷲ ہے۔

حیرت انگیز طور پر یہی وہ نقطہ ہے جس پر آکر ﷲ کے وجود سے منکر لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی سوچ کو اس طرح ڈھال دیا گیا ہوتا ہے کہ وہ ﷲ کی ذات کا اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ نہ لیں۔ ان کی گمراہ سوچ ان کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ وہ تمام کائنات میں موجود ﷲ تعالیٰ کے وجود کی سچائی کا اعتراف کریں یا اس بات کا برملا اظہار کرسکیں کہ زمین اور آسمان میں موجود ہر چیز ایک اعلیٰ تخلیق کار کے سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔ ان تمام حقائق کی نفی کرنے کی خاطر وہ لوگ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ نظریہ ارتقاءاس جھوٹ اور اس جھوٹ کو عملی جامہ پہنانے کی جان توڑ کوششوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

ﷲ تعالیٰ کی ذات سے انکار کرنے کی غلطی کا ارتکاز کئی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں جوکہ مکمل طور پر ﷲ کی ذات سے منکر تو نہیں ہوتے پر ان کے ﷲ کے بارے میں عمومی مشاہدات غلط ہوتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں جوکہ تخلیق سے انکار نہیں کرتے لیکن خدا کے بارے میں توہماتی عقائد رکھتے ہیں۔مثلاً خدا کے اوپر ان کے یقین کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان میں رہتا ہے۔ ان کے تصور میں خدا کسی دور سیارے پر رہتا ہے اور صرف یاتو وقتاً فوقتاً دنیاوی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے، یا پھر بالکل ہی نہیں کرتا۔ اس نے کائنات کو تخلیق کیا اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑدیا۔ انسانوں کو اس نے اپنی اپنی تقدیر اور معاملات کا مختار کل نائب کردیا۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ قرآن کے مطابق اس بات پر تو یقین رکھتے ہیں کہ خدا ”ہر جگہ“ موجود ہے(نوٹ؛ذہن نشین رہے ہر جگہ موجود ہونے سے مراد اپنے علم کے اعتبار سے مراد ہے۔کیونکہ قرآن میں ارشاد ہے ،اللہ سبحانہ وتعالی آسمانوں کے اوپر عرش پر(اس کے شایان شان کیفت کے ساتھ) مستوی ہے۔طہ / 5) لیکن وہ اس بات کے اصل مفہوم سے ناواقف ہیں۔ توہم کی بنیاد پر ان کی سوچ صرف اس حد تک جاتی ہے کہ خدا ان کے اطراف ریڈیو کی صوتی لہروں یا آنکھ اوجھل کیمیائی گیس کی طرح موجود ہے۔ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ خدا کی ذات ان چھوٹی چھوٹی چیزوں تک محدد نہیں ہے۔ یہ تمام تصورات جوکہ خدا کی موجودگی کو ثابت نہیں کرسکتے دراصل ایک مشترک غلطی کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ یہ غلطی ایک بے بنیاد تعصب ہے جوکہ ان کو خدا کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے اور اس پر سختی سے جمے رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔

تعصب کیا ہے؟ تعصب کا تعلق مادّے کی نوعیت اور موجودگی سے ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ وہ مادی کائنات جو کہ آنکھ کو نظر آتی ہے وہی سچی حقیقت ہے۔ اس تصور کو جدید سائنس زمین بوس کردیتی ہے اور ایک اہم اور رعب دار سچائی پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ آنے والی سطور میں قرآن کے اندر موجود اس زبردست سچائی کی وضاحت کی جائے گی۔

برقی اشاروں کی دنیا

دنیا کے بارے میں انسانوں کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ ان تک ان کی پانچ حسیات پہنچاتی ہیں۔ دنیا آنکھوں سے دیکھی، ہاتھوں سے محسوس کی، ناک سے سونگھی، زبان سے چکھی اور کانوں سے سنے حالات کا نام ہے۔ یہ تصور بہت مشکل ہے کہ بیرونی دنیا ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی کسی چیز کا نام ہوسکتا ہے کیونکہ پیدائش کے پہلے دن سے ہی انسان ان حسیات پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن آج سائنس کے مختلف شعبوں میں جدید تحقیق بیرونی دنیا کے بارے میں پرانے تصورات کو شک میں ڈال رہی ہے۔دنیا کو یہ صرف حسیات سے محسوس کی جانے والی شے سے کہیں بڑھ کر کوئی چیز ثابت کررہی ہے۔اس نئی تحقیق اور سمجھ کا مرکز یہ بات ہے کہ انسانی مشاہدہ دماغ میں پیدا ہونے والے برقی اشارات کا جواب ہے۔ سیب کا لال رنگ، لکڑی کی سختی، ماں، باپ، خاندان، گھر، نوکری حتیٰ کہ اس ان اقساط کے صفحے بھی انہیں برقی اشاروں پر مشتمل ہیں۔ اس موضوع پر جرمنی کے مرحوم حیاتیاتی کیمیادان فریڈیرک وسٹر سائنس کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے:

”کچھ سائنسدانوں کے یہ بیانات کہ انسان محض ایک شبیہ ہے، ہر واقعہ جس سے گزراجاتا ہے وہ عارضی اور ایک فریب ہوتا ہے اور کائنات صرف ایک سایہ ہے، جدید سائنس کی رو سے ثابت ہوچکے ہیں۔“۰ ۹۱

اس نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرنے کی خاطر دنیا کے بارے میں تمام معلومات فراہم کرتی ہوئی انسان کی پانچوں حسیات کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔

انسان کس طرح دیکھتا، سنتا اور چکھتا ہے

بصارت کا عمل بتدریج سلسلوں پر مشتمل ہے۔ کسی بھی شے سے نکلنے والی روشنی آنکھ کے سامنے موجود عدسے سے گزرتی ہے جہاں پر یہ شبیہ منعطف ہوکر آنکھ کے پچھلے حصے پر موجود پتلی پر الٹی ہوکر پڑتی ہے۔ یہاں سے بصارتی احساس برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نیورون یا عصبی خلیوں کی مدد سے دماغ کے پچھلے سرے پر موجود بصارتی مرکز نامی چھوٹے سے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ گوکہ یہ عمل اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے لیکن جب بھی انسان یہ کہتا ہے کہ ’مجھے نظر آرہا ہے ‘ وہ دراصل ان مشاہدوں کے متعلق بات کررہا ہوتا ہے جوکہ اس کی آنکھ محسوس کرتی ہے، برقی کے اشاروں میں تبدیل کرتی ہے اور پھر دماغ کے اندر بھیج دیتی ہے۔ اسی لئے جب کوئی کہتا ہے کہ ’ مجھے نظر آرہا ہے ‘ وہ دراصل اپنے دماغ میں موجود برقی اشاروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

انسان اپنی زندگی میں جتنی بھی چیزیں دیکھتا ہے وہ اس کی بصارت کے مرکز میں تشکیل پاتی ہیں۔ یہ مرکز دماغ کے اندر صرف چند مکعب سینٹی میٹر کی جگہ لیتا ہے۔ چاہے وہ کتاب ہو یا کھڑکی سے باہر کا تمام نظارہ، یہ دونوں چیزیں بھی اسی مرکزمیں تشکیل پاتی ہیں۔

کسی بھی شے سے نکلنے والے روشنیوں کے بنڈل آنکھ کی پتلی پر اوندھے گرتے ہیں۔ یہاں سے یہ خاکہ برقی اشاروں میں تبدیل ہوکر دماغ کے پچھلے حصے میں موجود بینائی کے مرکز تک پہنچتا ہے۔ چونکہ دماغ مکمل طور پر بیرونی روشنی سے محفوظ ہوتا ہے اسی لئے کسی بھی طرح کی روشنی کا بینائی کے اس مرکز تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ یعنی کہ انسان روشنی بھری دنیا کا نظارہ صرف اس چھوٹے سے بینائی کے مرکز کے ذریعے ہی کرسکتا ہے جو بذاتِ خود کسی بھی قسم کی روشنی سے محفوظ ہے۔(تصویر نمبر ایک دیکھیں )

جیسے کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ دماغ مکمل طور پر روشنی سے محفوظ ہے۔ کھوپڑی کے اندر گھپ اندھیرا ہوتا ہے اور دماغ کا روشنی کے ساتھ کسی قسم کا واسطہ نہیں پڑتا۔ اس دلچسپ متناقض قول کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ کسی کے سامنے ایک جلتی ہوئی شمع رکھ دی جائے اور اس شمع کے سامنے بیٹھ کر اسے بہت دیر تک جلتے ہوئے دیکھا جائے۔ اس تمام عرصے میں دماغ کو اس شمع کی اصل روشنی سے کسی قسم کا واسطہ نہیں پڑتا ۔گوکہ اس شمع کی روشنی کا مسلسل مشاہدہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی دماغ کا اندرونی حصہ مکمل طور پر تاریک رہتا ہے۔ یعنی کہ تمام انسان اپنے گھپ تاریک دماغ کے اندر ایک بے انتہا روشن اور رنگین دنیا دیکھتے رہتے ہیں۔

آر۔ایل۔گریگوری بصارت کی اس معجزاتی قوت کے بارے میں بات کرتا ہے جس کو انسان عمومیت اور مانوسیت کے سبب خاطر میں نہیں لاتا:

”ہم لوگ دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس بات کا اندازہ بہت مشکل سے لگا پاتے ہیں کہ اس تمام معاملے میں کئی مسلوں کا دخل ہے۔ لیکن ذرا سوچئے، ہماری آنکھ کو چھوٹی چھوٹی مڑی تڑی الٹی تصویریں ملتی ہیں لیکن ہم ان کو اپنے ہر طرف الگ الگ چیزوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ پتلی کے اوپر حسیات سے نقش ہوئے خاکوں کے ذریعے ہم چیزوں سے بھری ہوئی ایک مکمل دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ ایک معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟“191

یہی اصول دوسری تمام حسیات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سننے، محسوس کرنے، چکھنے اور سونگھنے کے تمام عمل دماغ میں پہلے برقی اشاروں کی صورت میں پہنچتے ہیں اور پھر دماغ اپنے اپنے مخصوص مرکزوں کے ذریعے ان کا مشاہدہ کرتاہے۔ قوت سماعت بھی اسی طرح عمل پیرا ہوتی ہے۔ کان کے بیرونی حصے پر موجود عضلاتی تھیلی آوازوں کو اٹھاکر کان کے بیچ میں بھیجتی ہے جہاں سے ان آوازوں کی گونج بڑھ کر کان کے اندرونی حصے میں پہنچتی ہے۔ کان کا یہ اندرونی حصہ آوازوں کی گونج یا اہتزاز کو برقی اشاروں میں تبدیل کرکے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ جس طرح دماغ میں قوت بصارت کا مخصوص مرکز ہوتا ہے اسی طرح قوتِ سماعت کا بھی مخصوص مرکز ہوتا ہے۔ روشنی کی طرح دماغ آوازوں سے بھی مکمل طور پر محفوظ ہوتا ہے۔ اسی لئے باہر چاہے جتنا بھی شور موجود ہو۔ دماغ کے اندر بالکل سناٹا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دماغ آوازوں کا بالکل درست مشاہدہ کرتا ہے جس کے ذریعے ایک صحت مند آدمی کے کان ماحول کی دوسری آوازوں کی مداخلت کے بغیر ہر چیز صاف طور پر سن سکتے ہیں۔

دماغ کا آوازوں سے مکمل طور پر محفوظ ہونے کے باوجود جب کسی کمرے میں موجود کسی اور کی آواز کو سناجارہا ہوتا ہے تو نہ صرف وہ مخصوص آواز بلکہ وسیع رقبہ پر موجود کئی اور آوازیں بھی کان میں بخوبی پڑرہی ہوتی ہیں مثلاً کپڑوں کی سرسراہٹ، دروازوں کا کھلنا بند ہونا اور کسی ہوائی جہاز کے اڑنے کی آواز۔ اس موقع پر بھی اگر کسی بے انتہا حساس آلے کی مدد سے دماغ کے اندر کے شور کو ناپا جائے تو وہاں مکمل خاموشی ہوگی۔

کسی بھی شے کا تحرک برقی اشاروں میں تبدیل ہوکر دماغ کے اندر اثرات پیدا کرتا ہے۔انسان کا ”دیکھنا“ دراصل دماغ کے اند ان برقی اشاروں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔(تصویر نمبر دو دیکھیں )

انسان کی سونگھنے کی حس بھی اسی طرح کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر خوشبوﺅں یا پھولوں کی مہک میں موجود سیماب وش سالمے قوت شامہ کے نازک بالوں کے اندر موجود عصبی پیغامات پہنچانے والے عضو میں پہنچ کر برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر دماغ ان کا الگ الگ خوشبوﺅں کے طور پر مشاہدہ کرتا ہے۔ تمام پسندیدہ اور غیر پسندیدہ خوشبوﺅں کا مشاہدہ مکمل طور پر دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ سیماب وش سالمے بذات خود وہاں نہیں پہنچتے لیکن قوتِ سماعت اور بصارت کی طرح دماغ کے اس مخصوص مرکز تک بھی صرف برقی اشارے پہنچتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک انسان کی پیدائش کے بعد وہ جتنے بھی کڑوڑوں احساسات سے گزرتا ہے جن کو وہ بیرونی اشیاءسے تشبیہ دیتا ہے، وہ محض اس کی حسیاتی اعضاءکے ذریعے ترجمانی کئے گئے برقی اشارے ہوتے ہیں۔

زبان کے اگلے حصے پر چار مختلف طرح کے کیمیائی نوعیت کے عصبی پیغام دینے والے اعضاءموجود ہوتے ہیں جوکہ نمکین، میٹھا، کھٹا اور کڑوا مزا پیدا کرتے ہیں۔ کئی کیمیائی مرحلوں سے گزرنے کے بعد مزے کے یہ عصبی اعضاءان مشاہدوں کو برقی اشاروں میں تبدیل کردیتے ہیں اور دماغ تک پہنچادیتے ہیں جوکہ ان کو مخصوص مزے کی طرح پیش کردیتا ہے۔ مٹھائی یا پھل کھانے کا جو مزا ہے وہ دراصل دماغ کے ان برقی اشاروں کی ترجمانی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی پہنچ باہر کی کسی شے تک نہیں ہے اور وہ کبھی مٹھائی کو دیکھ، سونگھ اور چکھ نہیں سکتا ۔مثلاً اگر زبان اور دماغ کے درمیان عصبوں کو کاٹ دیا جائے تو دماغ تک زبان سے کوئی برقی اشارے نہیں پہنچ سکیں گے اور چکھنے کی قوت ہمیشہ کے لئے کھوجائے گی۔

اس موقع پر ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے ۔جو کھانا کسی ایک آدمی کو اچھا لگتا ہے وہ ضروری نہیں کہ دوسرے کو بھی اچھا لگے یا جو آواز کسی ایک انسان کے کانوں کو بھلی لگے وہ کسی اور کو بھی پسند ہو۔ اسی موضوع پر سائنسی مصنف لنکن بارنٹ لکھتا ہے ”کبھی کسی کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کا لال رنگ یا کسی آواز کے بارے میں احساس کسی دوسرے شخص کے انہیں چیزوں کے بارے میں احساس سے مشابہ ہے یا نہیں ۔“۲۹۱

قوت لامسہ بھی انہی اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ جب کسی چیز کو چھوا جاتا ہے تو اس کو پہنچاننے کے لئے تمام معلومات کھال پر موجود حساس عصبات کے ذریعے دماغ تک پہنچ جاتی ہیں۔ چھونے کا احساس دماغ میں تشکیل پاتا ہے۔ روایتی حکمت کے برعکس چھونے کا احساس انگلیوں یا کھال پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا براہِ راست تعلق دماغ کے لمسی مرکز سے ہوتا ہے۔ دماغ کو کھال سے موصول ہونے والی برقی اکساہٹ کے نتیجے میں مختلف اشیاءکی سختی، نرمی، گرمی اور ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔ یہ برقی اکساہٹ دماغ کو وہ تمام تفصیلات مہیا کرتی ہے جس سے کسی بھی شے کو پہنچاننا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس اہم حقیقت کے بارے میں دو مشہور فلسفہ دان بی۔ رسل اور ایل۔ وٹگنسٹائن اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

”مثال کے طور پر لیموں کے موجود ہونے یا نہیں ہونے اور اس کی ابتداءسے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس معاملے کی کوئی تحقیق ممکن ہے۔ لیموں محض زبان کا ایک مزا، ناک کی ایک خوشبو اور آنکھ سے محسوس کیا گیا رنگ اور ساخت ہے۔ صرف اس کی یہی خصوصیات امتحان اور تشخیص کے قابل ہیں۔ سائنس طبیعیات کو کبھی جان نہیں سکتی۔“۳۹۱

انسان کا اپنے دماغ سے باہر موجود طبیعیاتی دنیا تک پہنچنا ناممکن ہے ۔وہ تمام اشیاءجن کے ساتھ اس کا رابطہ رہتا ہے وہ محض سماعت، بصارت اور احساس کے مشاہدوں کا مجموعہ ہیں۔ پوری زندگی کے دوران دماغ کا واسطہ کبھی بھی کسی مادے کے اصل سے نہیں بلکہ حسیات کے مرکزوں کا اس مواد پر کارروائی کی صورت میں دماغ کے اندر پیدا ہونے والے نقل سے پڑتا ہے۔ اس نقطے پر انسانی دماغ دھوکے سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ نقل ہی دراصل بیرونی دنیا میں موجود اصل مادہ ہے۔
جاری ہے۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...