Tuesday 11 July 2017

تخلیق کی سچائی

تخلیق کی سچائی

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#63

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
 
اس سلسلہ  کے سابقہ حصوں میں نظریہ ارتقاءکا ایک سائنسی حقائق سے منحرف نامعقول مقالہ ہونے کا تجزیہ کیاگیا ہے۔ جدید سائنس نے علمِ معدوم حیاتیات و نباتات، حیاتیاتی کیمیا اور علمِ تشریح جیسے شعبوں میں کی گئی تفصیلی تحقیق کے ذریعے واضح طور پر اس سچائی کو اجاگر کردیا ہے کہ صرف اﷲ نے تمام جانداروں کی تخلیق کی ہے۔ بلکہ اس سچائی کا اعتراف کرنے کے لئے حیاتیاتی کیمیا کی تجربہ گاہوں اور ارضیاتی کھدائیوں سے حاصل کئے گئے پیچیدہ نتائج کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ناقابل یقین حکمت کی علامات و نشانات قدرت میں موجود ہر شے اور ہر جاندار میں واضح ہیں۔ چاہے وہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہو یا سمندر کی گہرائیوں میں موجود ننھی سی مچھلی ، ان کے جسم اس اعلیٰ نوعیت کے نقشے اور تکنیکی مہارت کا شاہکار ہیں کہ وہ کسی انسان کی تخلیق ہو ہی نہیں سکتے۔ شعور، سمجھ اور بعض اوقات تو دماغ سے ہی عاری جاندار اس پیچیدہ نوعیت کے کام سرانجام کرنے کے اہل ہوتے ہیں جن کا انسان اپنی تمام عقل و شعور کے ساتھ بھی کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ یہ عظیم حکمت، نقشے اور تخلیق جس سے تمام کائنات مغلوب ہے ایک زبردست خالق کی موجودگی کا اعلان کرتی ہیں۔ وہ خالق صرف اور صرف ﷲ تعالی کی ذات ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو بہترین خصوصیات سے نوازا ہے اور اس کی ہر تخلیق میں اس کی قوت اور موجودگی کے واضح نشانات موجود ہیں۔ آنے والی اقساط میں ﷲ تعالیٰ کے تخلیقی معجزات میں سے کچھ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

شہد کی مکھی اور اس کے چھتے کا تعمیراتی معجزہ

شہد کی مکھیاں اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ شہد پیدا کرتی ہیں اور اس کا اپنے چھتے میں ذخیرہ کرلیتی ہیں۔ ان کے چھتے کی شس پہلوساخت کے بارے میں ہر ایک کو علم ہے لیکن کیا اس پہلو پر کبھی غور کیا گیا کہ مکھیاں ہشت پہلو یا پانچ پہلو چھتے کی بجائے خصوصی طور پر شش پہلو چھتہ ہی کیوں بناتی ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ریاضی دان ایک دلچسپ نتیجے پر پہنچے۔ ایک شش پہلو ساخت کسی بھی رقبہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے بہترین اقلیدسی شکل ہے۔ ایک شش پہلو خانے کی تعمیر میں کم سے کم موم لگتی ہے لیکن یہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ شہد کا ذخیرہ کرسکتا ہے۔ اسی لئے شہد کی مکھی نے اپنے کام کو احسن ترین طریقے سے انجام دینے کے لئے بہترین شکل کا انتخاب کیا ہے۔(تصویر نمبر ایک دیکھیں)

چھتے کی تعمیر میں استعمال کیا گیا طریقہ بھی بے حد حیران کن ہے۔ شہد کی مکھیاں چھتے کی تعمیر کو دو تین مختلف جگہوں سے شروع کرتی ہیں اور اس کو بیک وقت دو تین لڑیوں میں بنتی ہیں۔گوکہ وہ تعمیراتی کام مختلف جگہوں سے شروع کرتی ہیں لیکن تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک جیسے شش پہلو خانے بناتی جاتی ہیں اور ان کو آپس میں ملاتی جاتی ہیں اور بالآخر بیچ میں آکر مل جاتی ہیں۔ ان شش پہلو خانوں کا مقامِ اتصال اتنی مہارت سے جڑا ہوا ہوتا ہے کہ اس جوڑ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ اس ناقابل یقین اور حیران کن تعمیراتی صلاحیت کے مظاہرے کے بعد عقل یہ تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہے کہ بلاشبہ اس کے پیچھے ایک ایسی طاقت کارفرما ہے جوکہ ان مخلوقات کو یہ تمام کام کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے ۔ارتقاءپسند اس عظیم مظاہرے کو ”جبلت“ کا نام دیتے ہیں اور اس کو شہد کی مکھی کی ایک عام صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ جبلت ہی ہے اور یہ تمام مکھیوں کے اوپر حکمرانی کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ ساری شہد کی مکھیاں بے انتہا منظم طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس جبلت اور نظام کے پیچھے ایسی حکمت موجود ہے جو اس تمام نظام کو ممکن بناتی ہے۔ یعنی کہ یہ ﷲ تبارک وتعالی ہی کہ ذات ہے جو کہ ان چھوٹی چھوٹی مخلوقات کو اپنے کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے پر معمور رکھتی ہے۔ اس حقیقت کا اعلان ۴۱ صدیوں پہلے قرآن شریف میں کردیا گیا تھا۔۔(تصویر نمبر دو دیکھیں)

﴿ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگی نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے بے شک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔ ﴾ (سورة النحل، آیات ۸۶،۹۶)

حیران کن ماہرِ تعمیرات: دیمک

دیمک کے حشرے کا گھونسلا دیکھا جائے تو حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کیونکہ ان کے گھونسلے تعمیراتی عجوبے ہیں جوکہ ۶۔۵ میٹر کی بلندی تک تعمیر ہوئے ہوتے ہیں۔ اس گھونسلے کے اندر دیمک کے حشروں کی زندگی سے متعلق تمام جدیدضروریات کا سامان موجود ہوتا ہے کیونکہ یہ حشرے اپنے جسم کی ساخت کی وجہ سے سورج کی روشنی میں نہیں نکلتے۔ ان کے گھونسلے کے اندر ہواگزاری کا نظام، آبپاشی کا نظام، سنڈیوں کے نشوونما کے لئے مخصوص کمرے، راہداریاں، مخصوص پھپھوندی پیدا کرنے کا نظام، حفاظتی دروازے، گرم اور ٹھنڈے موسم کے لئے الگ کمرے، حتیٰ کہ ان گھونسلوں میں ضروریات زندگی سے متعلق ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ان عجوبہ نما گھونسلوں کو تعمیر کرنے والے دیمک کے یہ حشر’ مکمل طور پر نابینا ہوتے ہیں۔۸۷۱

لیکن اپنے نابینا ہونے کے باوجود اگر دیمک کے حشر’ اور اس کے گھونسلے کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی گھونسلوں کا یہ تعمیراتی معرکہ ان کی جسم کی پیمائش سے ۰۰۳ گنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان حشروں میں ایک اور قابلِ ذکر خاصیت موجود ہوتی ہے۔ اگر ان کے گھونسلے کو تعمیر کے پہلے مرحلے کے دوران دوو حصوں میں تقسیم کردیا جائے اور کچھ عرصے بعد ان کو دوبارہ ملادیا جائے تو پتہ چلے گا کہ تمام راہداریاں، آبپاشی کی نہریں اور سڑکیں ایک دوسرے کو قطع کرتی ہیں۔دیمک کے حشرے اپنے کام اس طرح جاری رکھتے ہیں کہ گویا وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے اور ہمیشہ سے ایک ہی جگہ سے کام کرتے رہے ہوں۔

ہدہد

یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ہد ہد یا کٹھ پھوڑا اپنا گھونسلا درخت کے تنے کو ٹھونگیں مار مار کر بناتا ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ درختوں کے تنوں کو اتنی قوت سے سر مارنے کی باوجود اس کی دماغی شریانےں پھٹ کیوں نہیں جاتیں۔ ہدہد اپنا کام اس طرح انجام دیتا ہے کہ جس طرح ایک انسان اپنے سر کو استعمال کرتے ہوئے ایک کیل کو دیوار میں ٹھونکے۔ اگر کوئی انسان یہ کرنے کی کوشش کرنے لگے گا تو اس کو یقینا شدید دماغی صدمہ پہنچے گا جس کی وجہ سے دماغ کی شریانیں بھی پھٹنے کا خدشہ ہے۔ اس کے برعکس ایک ہدہد سخت درخت کے تنے کو ۸۳ سے ۳۴ دفعہ ۰۱۲ سے ۰۶۲ سیکنڈوں کے فاصلے سے ٹھونگیں مارتاچلا جاتا ہے اور کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہدہد کے سر کی ساخت اس کام کے لئے تشکیل کی گئی ہے۔ اس کی کھوپڑی کے اندر معطلی کا نظام موجود ہے جو کہ اس کے سر سے لگائی گئی ضربوں کی سختی کو جذب کرکے کم کردیتا ہے۔ اس کی کھوپڑی کی ہڈیوں کے درمیان نرماہٹ پیدا کرنے کے لئے نرم ریشہ¿ لحمی موجود ہوتے ہیں۔۷۹۱

چمگادڑوں کا صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام

چمگادڑیں گھپ اندھیرے میں کسی مشکل کے بغیر اڑ سکتی ہیں۔ اس کام کے لئے ان کے اندر بڑا دلچسپ راستوں کاتعین کرنے کا نظام موجود ہوتا ہے۔ اس کو صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام کہتے ہیں جس کے ذریعے آس پاس میں موجود اشیاءکا اندازہ آواز کی لہروں کی گونج سے لگایا جاتا ہے۔ ایک نوجوان شخص ۰۰۰,۰۲ لرزش فی سیکنڈ کی تکرار سے بھی کسی آواز کا اندازہ بڑی مشکل سے لگاپاتا ہے لیکن چمگادڑوں کے اندر مخصوص صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام ۰۰۰,۰۳ سے ۰۰۰,۰۲ لرزشیں فی سیکنڈ کی تکرار کی آوازوں کا با آسانی پتہ چلالیتا ہے۔ان آوازوں کو وہ چاروں طرف ۰۲ سے ۰۳ دفعہ فی سیکنڈ بھیجتا ہے۔ان آوازوں کی گونج اس قدر زوردار ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے چمگادڑ نہ صرف اپنی راہ میں موجود اشیاءکا اندازہ لگاتا ہے بلکہ اپنے تیزی سے اڑتے شکار کے جائے وقوع کا بھی بخوبی تعین کرلیتا ہے( تصویر نمبر پانچ دیکھیں )

وہیل مچھلی

ممالیہ جانوروں کو بھی سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور پانی اس مقصد کے لئے ایک بہترین ماحول نہیں ہے۔ وہیل مچھلی ایک پانی کا ممالیہ جانور ہے اور یہ مسئلہ اس کے جسم میں تنفس کے ایک ایسے اعلیٰ نظام سے حل کیاگیا ہےجوکہ کئی زمین پر رہنے والے جانداروں کے اندربھی موجود نہیں ہے۔ وہیل مچھلی ایک ایک کرکے سانس لیتی ہے ناکہ اندر باہر جس طرح عام جانور کرتے ہیں۔ جب وہ سانس کو باہر کی طرف چھوڑتی ہے تو وہ استعمال شدہ سانس کا ۰۹ فیصد حصہ باہر نکالتی ہے۔ اسی لئے اس کو نسبتاً لمبے وقفے تک سانس نہیں لینا پڑتا۔ اس کے علاوہ ان کے عضلات کے اندر ”مائیوگلوبن“ نامی مرتکز مادہ موجود ہوتا ہے جوکہ ان کو عضلات میں آکسیجن زیادہ عرصے تک رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس اعلیٰ تنفس کی مدد سے ایک فن بیک وہیل مچھلی ۰۰۵ میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگاکر ۰۴ سیکنڈ تک بغیر سانس لئے تیر سکتی ہے۔(۱۸۱) وہیل مچھلی کے نتھنے زمین پر رہنے والے جانوروں کے برعکس اس کے سر کے پیچھے موجود ہوتے ہیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ سانس لے سکے۔(تصویر  نمبر چھ دیکھیں )

عام مچھر میں موجود بہترین نقشہ

گو کہ مچھر کے بارے میں عام تصور اڑنے والے جانور کا ہے لےکن حقیقت مےں مچھر اپنی افزائشی زندگی کے تمام مرحلے پانی کے اندر گزارتا ہے اور ایک غیر معمولی نقشے کی مد د سے پانی سے باہر نکلتا ہے۔ یہ نقشہ اس کو اس کی ضرورت کے تمام اعضاءکے ساتھ مہیا کیاجاتا ہے۔ مچھر اپنے اندر موجود خاص محسوس کرنے کی حس کو استعمال کرتے ہوئے اڑنا شروع کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شکار کے جائے وقوع کا بھی اندازہ لگالیتا ہے۔ ان تمام نظاموں کے ساتھ وہ ایک ایسے جنگی جہاز سے مشابہ ہوتا ہے جو کہ گرمی، گیس، نمی اور مختلف قسم کی بو کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتا ہے۔اس کے اندر درجہ¿ حرارت کو محسوس کرتے ہوئے دیکھنے کی بھی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے شکار کو گھپ اندھیرے میں بھی تلاش کرلیتا ہے۔ مچھر کا خون چوسنے کا طریقہ بھی ایک ناقابل حد تک پیچیدہ نظام ہے۔ اپنی چھ آریوں پر مشتمل کاٹنے کے نظام کے ساتھ وہ کھال کو آری کی مانند کاٹتا ہے۔ کاٹنے کے اس عمل کے دوران ہی وہ اپنے ایک مخصوص قسم کے رسنے والے مادے کے ذریعے زخم کے ریشہ لحمی کو اس طرح سے سن کردیتا ہے کہ شکار کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کا خون چوسا جارہا ہے۔ یہ رسنے والا مادہ خون کو جمنے سے باز رکھتا ہے اور خون چوسنے کے عمل کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

اگر مچھر کے جسم سے ایک بھی خاصیت کی کمی ہوجائے گی تو وہ خون چوسنے اور اپنی آئندہ نسلوں کی افزائش کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ اس بہترین نقشے کی تحت اس بے انتہا چھوٹے سے کیڑے میں بھی تخلیق کی حکمت نمایاں ہے۔ قرآن میں مچھر کی مثال عقلمند لوگوں کے لئے اﷲ تعالیٰ کی موجودگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی گئی ہے۔

﴿ بیشک اﷲ اس سے حیا نہےں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے، وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر، وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اﷲ کا کیا مقصود ہے۔ اﷲ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہے۔ ﴾ (سورة ابقرہ ، آیت نمبر۶۲)(تصویر نمبرسات دیکھیں ۔)

غیر معمولی قوت بصارت والے شکاری پرندے

شکاری پرندوں کی قوتِ بصارت نہایت تیز ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ فاصلے کا درست تعین کرتے ہوئے اپنے شکار کو با آسانی تلاش اور شکار کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں زیادہ بصارت کے خلئے موجود ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے بہترین قوتِ بصارت۔ چیلیں کئی ہزار میٹر پر اڑنے کے باوجود اپنی تیز آنکھوں سے زمین کو صاف طور پر دیکھ سکتی ہیں۔ جس طرح جنگی جہاز اپنے نشانے کو ہزاروں میل دور سے بھی پہچان لیتا ہے بالکل اسی طرح چیلیں اپنے شکار کو بھی دور سے زمین کے اوپر معمولی سے بھی رنگ میں تبدیلی یا حرکت سے پہچان لیتی ہیں۔ چیل کی آنکھ کی بینائی کا زاویہ ۰۰۳ ڈگری ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ کسی عام سی تصویر کو ۶ سے ۸ گنا بڑا دیکھتی ہے۔ چیل ۰۰۰۵,۴ میٹر کی بلندی پر اڑتے ہوئے ۰۰۰,۰۳ ہیکٹر کا رقبہ با آسانی دیکھ سکتی ہے۔ ۰۰۵۱ میٹر کی بلندی سے بھی وہ جھاڑی میں چھپے خرگوش کو دیکھ سکتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ غیر معمولی آنکھ کی ساخت خاص طور پر چیل کے لئے ہی تخلیق کی گئی ہے۔(تصویر نمبرآٹھ دیکھیں )

شتوری جانور (یا وہ جانور جو سرما خوابی کے عمل سے گزرتے ہیں)

شتوری جانور اپنے جسم کے درجہ حرارت کا ٹھنڈے بیرونی درجہ حرارت جتنا گرجانے کے باوجود بھی زندہ رہتے ہیں ۔یہ کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ ممالیہ جانور گرم خون کے جانور ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عام حالات میں ان کے جسم کا درجہ حرارت ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے کیونکہ ان کے جسم کے اندر قدرتی پیمانہ اس درجہ¿ حرارت کو تحدید کرتا رہتا ہے۔ لیکن سرماخوابی کے دوران چھوٹے ممالیہ جانوروں کے جسم کی عمومی حرات نقطہ¿ جمودسے تھوڑا ہی پہلے جاکر اس طرح رک جاتی ہے کہ گویا اس کو کسی چابی کے ذریعے اس نقطے پر لاکر روک دیا گیا ہو۔ جسم کا تحول بھی بڑی حد تک آہستہ ہوجاتا ہے۔ جانور بہت آہستہ سانس لینے لگتا ہے اور اس کے دل کی رفتار جوکہ عموماً ۰۰۳ دھڑکن فی منٹ ہوتی ہے وہ ۰۱۔۷ دھڑکن فی منٹ تک گرجاتی ہے۔ اس کے جسم کے اضطراری عمل سے بروئے کار آنے والے اعصاب کے سلسلے رک جاتے ہیں اور دماغ کی برقی مصروفیت نہ ہونے کے برابر ہوجاتی ہے۔ حرکت کے ختم ہوجانے سے سب سے بڑا خطرہ ریشہ¿ لحمی کا بیحد ٹھنڈے بیرونی درجہ حرات کے باعث جمنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ برف کے بلوروں کے بننے سے مرجاتے ہیں۔ لیکن شتوری جانور اپنے اندر موجود اےک خاص خصوصیت کی بناءپر اس خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔ شتوری جانوروں کے جسم کے سیال زیادہ تعداد مےں سالمی مواد پر مبنی کیمیائی اجزاءکے ذریعے جمنے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اس طریقے سے ان کے جسم کا نقطہ جمود کم ہوجاتا ہے جوکہ ان کے ریشہ لحمی کو جمنے نہیں دیتا۔۲۸۱

برقی مچھلیاں

مچھلیوں کی کچھ اقسام مثلاً برقی مارماہی اور برقی رائیہ ماہی اپنے جسم میں پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال کرتے ہوئے دشمن سے اپنے آپ کو بچاتی ہیں اور اپنے شکار کو سن بھی کرتی ہیں۔ انسان کے ساتھ ساتھ ہر جاندار میں تھوڑی بہت بجلی موجود ہوتی ہے البتہ انسان اس بجلی کو اپنی مرضی سے اپنے نفع کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔لیکن اوپر جن جانداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے جسم میں ۰۰۵۔۰۰۶ وولٹ جتنی بجلی کا کرنٹ موجود ہوتا ہے جس کو وہ اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ان کو خود اس بے پناہ بجلی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اپنے دفاع کے لئے استعمال کی جانے والی اس قوت کو وہ تھوڑے ہی وقفے کے بعد دوبارہ اس طرح حاصل کرلیتے ہیں جس طرح کسی بیٹری کو دوبارہ برقی قوت سے بھردیا جائے۔ مچھلیاں اپنے چھوٹے جسم میں موجود اس برقی توانائی کو صرف دفاع کے لئے ہی استعمال نہیں کرتیں ۔یہ ان کو اندھیرے پانی میں راستہ ڈھونڈنے میں بھی مدگار ثابت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے وہ اشیاءکو بغیر دیکھے محسوس بھی کرسکتی ہیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے جسم میں موجود اس برقی توانائی کو اشارے بھیجنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ یہ اشارے سخت سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہوتے ہیں اور اس انعکاس کے ذریعے یہ مچھلیاں اس شے کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں مثلاً کہ اس شے سے ان کا فاصلہ اور اس کی پیمائش کتنی ہے۔۳۸۱

مکڑی کا دھاگہ

ڈینوپس نامی مکڑی کے اندرشکار کرنے کی زبردست مہارت پائی جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ایک جامد جالہ تیار کرکے اپنے شکار کا انتظار کرے وہ ایک ایسا چھوٹا اور غیر معمولی جالہ تیار کرتی ہے جو وہ اپنے شکار کے اوپر پھینک دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے شکار کو اس جالے میں اس مضبوطی سے لپیٹ دیتی ہے کہ شکار کا ہلنا جلنا محال ہوجاتا ہے۔جالے کی ساخت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ نکلنے کی کوشش سے شکار اور زیادہ اس میں الجھتا جاتا ہے۔ اگر مکڑی کی نیت شکار کو تھوڑے عرصے بعد کھانے کی ہوتی ہے تو وہ اس کو مزید اور دھاگوں سے اس طرح لپیٹ دیتی ہے گویا وہ کوئی بنڈل ہو۔(تصویر نمبر نو دیکھیں )

ایک مکڑی میکانیکی اور کیمیائی نقشے کا اتنا عمدہ جالہ کس طرح تعمیر کرتی ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس مکڑی کے اندر یہ مہارت اور صلاحیت کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی جیساکہ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے۔ مکڑی کے اندر سیکھنے اور یاد رکھنے کی فطری صلاحیت موجود نہیں ہوتی کیونکہ قدرت نے اس کو دماغ ہی عطا نہیں کیا۔ لیکن الله تعالیٰ کی مرضی اور قوت سے مکڑی کے اندر جال بنانے کی یہ مہارت موجود ہے۔ اس کے علاوہ مکڑیوں کے دھاگے کے اندر بھی اہم معجزے چھپے ہوئے ہیں۔ اس دھاگے کا قطر ایک ملی میٹر کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہوتا ہے لیکن یہ لوہے کی اسی قطر کی تار سے پانچ ) ۵( گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مکڑی کے دھاگے کی ایک اور خاصیت اس کا ہلکا وزن ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے اطراف لپٹنے والے اس دھاگے کا وزن صرف ۰۲۳ گرام ہوگا۔تصویر نمبر

لوہا صنعتی اشیاءمیں استعمال ہونے والی مضبوط ترین دھات ہے لیکن مکڑی اپنے مہین وجود سے اس دھات سے بھی کہیں مضبوط شے پیدا کرتی ہے۔ انسان لوہے کی پیداوار میں صدیوں پرانی حکمت اور تکنیکی صلاحیت کا استعمال کرتا ہے لےکن مکڑی اپنا دھاگہ بنانے میں کس حکمت اور تکنیک کا استعمال کرتی ہے؟ انسان کی تمام صلاحیتیں ایک مکڑی کی صلاحیتوں کے آگے معمولی نظر آتی ہیں۔تصویر نمبردس دیکھیں
جاری ہے ۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...