Saturday 29 July 2017

ہمعصر الحاد پر ایک نظر

ہمعصر الحاد پر ایک نظر

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#80

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

دنیا کے ہر مذہب میں خدا کے تعارف، اس کے اقرار، اس سے انسان کے تعلق اور اس تعلق کے حامل انسان کی خصوصیات کو مرکزیت حاصل ہے۔ مختصراً، مذہب خدا کا تعارف اور بندگی کا سانچہ ہے۔ جدید عہد مذہب پر فکری یورش اور اس سے عملی روگردانی کا دور ہے۔ لیکن اگر مذہب سے حاصل ہونے والے تعارفِ خدا اور تصورِ خدا سے انکار بھی کر دیا جائے، تو فکری اور فلسفیانہ علوم میں ”خدا“ ایک عقلی مسئلے کے طور پر پھر بھی موجود رہتا ہے۔ خدا کے مذہبی تصور اور اس سے تعلق کے مسئلے کو ”حل“ کرنے کے لیے جدیدیت نے اپنی ابتدائی تشکیل ہی میں ایک ”مجہول الٰہ“ (deity) کا تصور دیا تھا جس کی حیثیت ایک فکشن سے زیادہ نہیں تھی۔ جدیدیت نے آدمی کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ وہ اس مفروضہ ”خدا“ سے تعلق طے کرنے میں بھی آزاد ہے۔ جدیدیت نے خدا کے مذہبی تصور کا مکمل انکار کیا، لیکن ایک افسانوی اور عقل ساختہ ”خدا“ کا تصور پیش کر کے خدا پرستی اور آزاد روی کا التباس باقی رکھا۔ اس طرح جدیدیت نے انسان کو مذہب سے لاتعلق ہونے کا راستہ اور جواز فراہم کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ صنعتی ترقی، صنعتی کلچر، جدید تعلیم، سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ، اور جدید سیاسی اور معاشی نظام نے اس سوال کو بالکل ہی غیر اہم بنا دیا۔ جدید دنیا میں مذہب کے مطابق خدا کو ماننے والوں کی حیثیت اب پسماندہ ذہن اور کلچر رکھنے والے ریڈ انڈینز کی طرح ہو گئی ہے۔

الحاد سے عام طور پر خدا کا انکار مراد لیا جاتا ہے، اور دہریت اس کی فکری تشکیلات اور تفصیلات پر مبنی ایک علمی مبحث اور تحریک ہے۔ آج کی دنیا میں الحاد فرد کی داخلیت میں مستحکم ہو گیا ہے اور دہریت ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کر گئی ہے جو خدا کو ماننے کے مذہبی عقیدے اور غیر مذہبی رویے کے خلاف جارحانہ لائحہ عمل رکھتی ہے۔ الحاد اور دہریت اب کوئی علمی یا عقلی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک سماجی اور ثقافتی صورت حال بن گئی ہے، جس نے کہیں کہیں ایک تحریک کی شکل بھی اختیار کر لی ہے۔ اب دہریت اپنے پھیلاؤ اور دفاع کے لیے ”تحریکی“ ذرائع استعمال کر رہی ہے اور سیاسی طاقت اور سرمائے کی بڑی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔

جدیدیت نے خدا کے مذہبی تصور کا مکمل انکار کیا، لیکن ایک افسانوی اور عقل ساختہ ”خدا“ کا تصور پیش کر کے خدا پرستی اور آزاد روی کا التباس باقی رکھا۔ اس طرح جدیدیت نے انسان کو مذہب سے لاتعلق ہونے کا راستہ اورجواز فراہم کیا۔

مغربی تہذیب نے ”ترقی“ کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کاری (ویسٹرنائزیزشن) اور جدید کاری (ماڈرنائزیشن) کو عالمی سطح پر فروغ دیا۔ ان دوعوامل کے پیدا کردہ نئے سماجی اور ثقافتی حالات میں دنیا کے مذاہب بخارات کی طرح تحلیل ہو گئے۔ مسلم دنیا میں مغرب کاری اور جدید کاری کے منصوبوں کو جزوی کامیابی تو یقیناً ہوئی لیکن وہ اسلام کی بیخ کنی کرنے میں نہ صرف ناکام رہے، بلکہ انہیں ہر سطح پر مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جو الحادی اور اباحتی مقاصد معاشی ترقی، سیاسی پالیسی اور ثقافتی تبدیلی سے بالواسطہ حاصل نہ کیے جا سکے، دہریت کی تحریک اب انہیں جعلی علوم، سیاسی دھونس اور معاشی دباؤ سے براہ راست حاصل کرنا چاہتی ہے۔

الحاد کا مطلب فکری مرض اور نظری کوتاہی، یا صرف ہٹ دھرمی اور عناد و تکبر کی بنیاد پر خالق و مالک کی موجودگی کا انکار کرنا ہے۔ الحاد عقلی مرض، فکری بگاڑ، اور قلبی تاریکی کا نام ہے، جو مُلحِد کو کم عقل اور کم ظرف بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سوائے محسوسات میں آنے والے مادیات کے کسی اور چیز کے احساس یا ادراک کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، چنانچہ وہ مادیات پر مبنی افکار کو انسان اور اس کے عقائد پر لاگو کرنے پر اٹل رہتا ہے، لیکن وہ ناکام و نامراد رہ جاتا ہے، اور اس جیسے شخص کا یہ یقین ہوتا ہے کہ انسان تو صرف ایک مادی چیز ہے، جس پر مادیات سے متعلقہ سارے قانون لاگو کئے جاسکتے ہیں۔

اس جیسے ملحدانہ افکار محض مادّیت اور روحانیت سے عاری افکار پر منحصر عقلیات کی طرف انسانی جھکاؤ کی وجہ سے ساری انسانیت کے لئے باعثِ خطرہ ہیں؛ ملحد انسان چونکہ وہ کسی معبود و خالق کی موجودگی کا یقین ہی نہیں رکھتا ہے، اس لئے وہ جس وقت چاہے، اور جو چاہے بلاخوف و خطر کرلے گا، کیونکہ اس کے اندر کسی معبود کا ڈر ہی نہیں رہتا ہے، اور اس کی وجہ سے انسانی فطرت میں بگاڑ اور اس کے ہلاک و برباد ہونے کا خطرہ رہتا ہے، علاوہ اس کے الحاد اللہ تعالی کی ذات کا انکار، اور اس کے حق کو کسی دوسرے کے لئے استعمال کرنے کا نام ہے۔

تمام مذاہب  کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا  درپیش ہے ۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم انداز میں   آسمانی مذاہب کے خلاف   شکوک و شبہات  کی   یلغار  کی گئی ہے  ، ملحدین وجود باری تعالیٰ،  تصوررسالت ،   عقیدۂ آخرت، کتاب اللہ اور  انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخی حیثیت کو جھٹلاتے  اورطرح طرح کے سوالات کے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ  کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں  پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں  پر کھڑے تھے  وہ  انکے فلسفیانہ  وساوس کی  یلغار   کے سامنے ذیادہ دیر نہ  ٹھہر سکے اور  الحاد انکے  معاشروں  میں بہت آسانی سے جڑ پکڑتا چلا گیا ۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت کا دہریت کے سامنےاتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد  بھی دلا گیا، وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ  شاید  تمام مذاہب ہی  ایسے  خودساختہ  اور متضادنظریات  کی بنیاد پر کھڑے اور مکرو فریب کے ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں  ،  لیکن  الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت  مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے،   ملحدین کے لیے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا  علمی ، عقلی اور تاریخی طور پر ممکن نہ تھا، باقی عقائد توحید، آخرت وغیرہ  کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہیں جنہیں مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت یا  رد نہیں کیا جاسکتا  اور اسلام ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت واضح اور محکم دلائل و براہین بھی رکھتا ہے اس لیے انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی  مثلا کمزور اور  من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اکابرین اسلام  کی کردار کشی،  اسلام کا تمسخر، اسلامی سزاؤں کے خلاف پراپیگنڈہ، عقائد میں فلسفیانہ انداز میں  شکوک و شبہات پیدا کرنا، پیش گوئیوں پر اعتراضات کرنا۔مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دینا، مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے  خاص موضوعات ہیں، یہ  اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے  اور انکی دل آزاری کے لیے انتہائی  گری ہوئی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں یہ تجزیہ نگاروں ، کالم نگاروں، صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں  موجود ہیں  جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے ، زہریلے مضامین ، جھوٹی کہانیاں  پیش کرتے اور معمولی قصے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیلا تے ہیں ، سوشل میڈیا دیکھیں تو اسلام کے خلاف ایک پورا  محاذ نظر آتا ہے، مختلف پیجز اور عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ ، فریبی اور گمراہ کن تحاریر اور ان سے  بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے، تصاویر تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

مجھے دینی راستے سے  بھٹک جانے والے حضرات  کی جو  سب سے بڑی  وجہ یا   وہ  کمی جس کی وجہ سے یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوزین کا شکار ہوئے  نظر آئی  ‘وہ  ایک صالح ، علم و عمل والے شخص کی صحبت، ایک امین ناصح  کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا  تھی ۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں  نے سینکڑوں بڑی اچھی اور تحقیقی کتابوں  کا مطالعہ کیا ،  لیکن ہدایت نہیں پا سکے بلکہ الٹا مزید  گمراہ ہوتے چلے گئے۔  ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور  جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کر رہی ہو اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے ہوں، بانت بانت کی بولیاں بولی جارہی  ہوں    اور کتابیں تصنیف کی جارہی ہوں، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے  چند  اچھے برے رائٹرز کی  اہم  دینی  موضوعات پر   کتابیں منتخب کرکے  انکا مطالعہ  شروع کردینا، ہر گری پڑی کتاب کو پڑھ لینا،   کتاب کا محض  ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نا کتاب کے  انتخاب میں کسی مربی اصلاح،    اچھے  علم  والے سے مشورہ کرنا   اور نا شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی مصلح   کی  راہنمائی  کی سہی کرنا  ایسی خشکی اور بوریت  ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی  بددل یا بیزار کردے۔ یہ بے لگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حالانکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے۔
” آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی ۔یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کئے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بے ضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسااوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔
عیسائیت کی شکست و ریخت اور جدید تنویری الحاد کے غلبے کی تاریخ بتاتی ھے کہ لوگ یک دم مذھب ترک کرکے الحاد قبول نہیں کرلیتے بلکہ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ھوتا ھے جسکا آغاز تجدد پسندی سے ھوتا ھے۔ اسکا مختصر نقشہ کچھ یوں ھے:
الف: پہلے (ایک مخصوص تناظر میں) مذھب کی تاریخی تشریح و تعبیر کو رد کر کے مذھب کی انفرادی تعبیرات اختیار کرنے کا پلیٹ فارم فراھم کیا جاتا ھے
ب: یہ مذھب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرکے ذاتی زندگی تک محدود کرنے کی ابتداء ھوتی ھے کیونکہ تاریخی تناظر نظر انداز کردینے کے بعد محض الفاظ باقی رہ جاتے ہیں ہھر جن کی درجنوں تعبیرات ممکن ھوتی ھیں اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ھوتا کہ کونسی تشریح درست تشریح ھے، لہذا مذھب لازما ایک ذاتی شے بن جاتا ھے اور یہ اجتماعی زندگی سیکولرائز کرنے کا مذھبی جواز ھوتا ھے
ج) یہ جدید انفرادی تشریحات مذھب کی ایک معروضی (حاضروموجود) تناظر میں تفہیم وضع کرنے کی کوشش کرتی ھیں۔ کیونکہ حاضر و موجود تناظر مذھب سے نہیں بلکہ اس سے ماوراء کسی دوسرے تاریخی تناظر (مثلا تنویری تناظر) سے برآمد ھوکر آتا ھے لہذا اب مذھب کی تعبیر ایک دوسری تاریخ اور علمیت کے مطابق کی جانے لگتی ھے۔ گویا تجدد کے نتیجے میں فی الواقع جو تبدیلی رونما ہوتی ھے وہ یہ نہیں کہ اب مذھب کی ماورائے تاریخ کوئی آفاقی عقلی تشریح پیش کردی جاتی ھے (جیسا کہ یہ متجدیدین دعوی کرتے ھیں) بلکہ صرف اتنی تبدیلی آتی ھے کہ مذھب کا معتبر حوالہ خود اسکی اپنی تاریخ کے بجاۓ ایک غیر مذہبی تاریخ کی طرف منتقل کردیا جاتا ھے، اور بس۔ یہ مذھب کو غیر معتبر بنانے کی ابتداء ہوتی ھے
د) اس غیر مذھبی تاریخ اور علمیت میں جب مذھب کو سمونے کی کوشش کی جاتی ھے تو یہاں مذھب کی حیثیت انتہائی کمزور ھوتی ھے، یہاں مذھب کو انفرادی شناخت کے حوالے سے تاریخی تقدس بھی حاصل نہیں ھوتا۔ لہذا مذھب یہاں کبھی قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک تابع مہمل بن کر رہتا ھے، ہر وہ مقام جہاں خدا کی بات (چاھے وہ کتنی ہی قطعی کیوں نہ ھو) معروضی تناظر کے خلاف ھو لازما اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس معاملے میں خدا اپنا ذہن تبدیل کرے بصورت دیگر یہ بات رد کردینے لائق ھے (اور جدید تناظر میں خدا کی ایسی بے شمار باتیں ھوتی ہیں)
ھ) اگر خدا کو بالآخر وہی کہنا اور ماننا پڑتا ھے جو معروضی تناظر طے کرتا ھے تو ایسے خدا سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہی کیا ھے، اس مقام پر پہنچ کر لوگ مذھب کا نفسیاتی قلادہ بھی اتار پھینکتے ہیں۔ یہ الحاد کی مذھبی تابوت میں آخری میخ ھوتی ھے۔

لہذا خوب یاد رھنا چاھیے کہ مذھب کو سمجھنے کا درست طریقہ اسکی تاریخیت (historicism) سے جڑے رہنا ہوتا ھے نہ کہ معروضی (objective) پیمانے اختیار کرتے چلے جانا، کیونکہ جنہیں معروضی حقائق سمجھ کر قبول کیا جارہا ھوتا ھے وہ درحقیقت غیر اقداری و نیوٹرل نہیں بلکہ ایک ماوراۓ مذھب تاریخ، تہذیب و علمیت سے برآمد ہو رھے ہوتے ہیں اور جن کے بذات خود ٹھیک ھونے کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ھوتی چہ جائیکہ ان کی بنیاد پر مذہب کی مرمت شروع کردی جاۓ۔ ایسی تقریبا ہر جدوجہد کا نتیجہ تجدد کے ذریعے الحاد کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ھوتا ھے۔ عیسائیت کی شکست چلا چلا کر یہ سبق سنا رہی ھے اور اسلامی دنیا کے معاملات بھی اس تاریخ سے کچھ مختلف عندیہ نہیں دے رھے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار

انہی معنی میں ھم کہتے ھیں کہ احیاۓ اسلام کا اصل مطلب خیرالقرون کی طرف مسلسل مراجعت ھے، اسکے علاوہ احیاۓ اسلام کا کوئی دوسرا معنی نہیں۔ جدید معروضی تناظر میں وضع کیا جانے والا احیاۓ اسلام کا ہر معنی اسلام کو تنویری تاریخ، علمیت و تہذیب میں ضم کردینے کا ھم معنی ھے۔

”ہرشبہہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے ، بلکہ منشاء کا علاج کرنا چاہئے۔جیسے ایک گھر کے اندر  رات کو اندھیرے میں  چوہے، چھچھوندر کودتےپھرتے تھے۔ گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی  وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ  روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے ، چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو  وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج  یہ ہے کہ دل میں علم کی شمع روشن کی جائے،ایمان میں پختگی پیدا کی جائے ۔جب انسان کا ایمان مضبوط ہو جائے تو پھر کسی اور کا حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا۔
 میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیدا ہوتے ہیں ، انکے اس مرض کا منشاء قلت ایمان ہے، ان کو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور  محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے  ۔
تعلق  مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے ، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ اس سے بہت  جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا ، یہ لم و کیف  باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...