Monday 17 July 2017

ڈارونی افراد کا جھانسا تمام انسانیت کے خلاف ایک شرمناک حرکت ہے!

ڈارونی افراد کا جھانسا تمام انسانیت کے خلاف ایک شرمناک حرکت ہے!

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#70

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

سابقہ تقریبا 150 سالوں سے عوام کو با ضابطہ طور پر ڈارون کی تھیوری پر یقین کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔

دنیا کے لیے بالآخر لازمی ہوگیا ہے کہ اس باطل کو اب ختم کردیا جاۓ جس کا نام "ڈاروینیزم" ہے۔

ڈاروینی لوگوں نے ان 350 ملین آثار متحجّرہ (فوسل) کو چھپایا ہے جو تخلیق کو ثابت کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ انھوں نے اس حقیقت کو بھی چھپایا ہے کہ تغیرپذیر فوسل کسی بھی صورت میں موجود نہیں ہے!

انھوں نے اس حقیقت کو بھی دنیا سے چھپاۓ رکھا کہ کوئی بھی لحمیہ (پروٹین) اتفاقا" وجود میں نہیں آسکتا اور لوگوں کو اس جھوٹ پر یقین کرنے پر مجبور کیا کہ "زندگی اتفاق سے وجود میں آئی ہے۔"

انسانی فرضی ارتقا کے لیے انھوں نے مصنوعی کاسۂ سرکی جانب بطور ثبوت اشارہ کیا۔  

انھوں نے فریب کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے فرضی فوسل بنائیں اور سالوں نہایت بے شرمی سے ان کا مظاہرہ کیا ہے۔

انھوں نے درسی کتابوں میں ارتقا کے لیے بطور فرضی ثبوت، "اکوائن ایوؤلوشن سیریس" کا استعمال کیا جسے غلط جانا جاتا ہے۔

انھوں نے "انڈسٹریل ایوؤلوشن ماتھز" کے استعمال کی بھی کوشش کی جسے انھوں نے پتنگوں کو (پروانوں کو، ماتھز ) درختوں پر چپکا کر بنایا اور ارتقا کا قدرتی انتخاب کے ثبوت کے طور پر ان کے فوٹوز کھینچیں۔

انھوں نے کیمبرئن فوسلز کو 70 سالوں تک چھپاۓ رکھاجو تخلیق کے پختہ ثبوت ہیں۔

انھوں نے اس جھوٹ کو پھیلایا کہ تغیّر اور قدرتی انتخاب زندگی کی نئی ضورتوں کو جنم دیتے ہیں جبکہ یہ بیان سائنسی طور پر ناممکن ہے!

اور اب وہ ان فوسلز سے سہمے ہوۓ ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ارتقا وقوع پذیر ہوا ہی نہیں!

 فوسلز جن سے لوگوں کا اکثر ان کے باغیچوں میں، سمندر کے کناروں پر یا زیر زمیں معدنی کانوں میں سامنا ہوتا ہے اور کسی بھی شخص کو وہ آسانی سے مل سکتے ہیں وہ ڈاروینی لوگوں کے لیے لفظی طور پر، کابوس میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

ڈارونیت پسند جو کہ زندگی کی ابتدا کو ارتقاء کی اصطلاحات میں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ صرف ایک واحد پروٹین اپنے آپ کیسے وجود میں آیا۔

ارتقا کو ماننے والے چاہے کتنے بھی جھوٹی اور فارمولوں سے بھری کتبا٫ لکھیں، کتنے بھی جالی فوسلس پیدا کریں، تخلیق پر سائنسی شواہد کو جس طریقے سے بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں اور ارتقاء کی جھوٹی وضاحتیں دینے والے پوسٹرس ہر جگہ لگائیں اور پوری دنیا میں انہیں ارتقاء کی نمائش کے طور پے پیش کریں، پر ان میں سے کچھ بھی ان کی شکست کی حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔ یہ اس لئے کہ وہ ایک بھی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ کہ آخر صرف ایک پروٹین بھی کیسے وجود میں آیا۔پروٹین ،زندگی کا سب سے بنیادی جزو، کا خود بہ خود وجود میں آنے کا امکان صفر ہے۔

عمل ارتقا کی تعلیم اور فروغ یہ سومیرینز سے ایک ملحد کی جانب سے ہم تک آئی ہے، جسے ڈارونی حکم شاہی نے جبرا" عائد کیا جبکہ جو فوسلز تخلیق کے مستند اور ٹھوس ثبوت ہیں، انھیں ظاہر کرنے اور ان پر تبادلۂ خیالات کرنے سے باز رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔

 ان کا مقصد کمیؤنسٹ، ملحد اور مادّہ پرستوں کے دباؤ میں آکر ان سائنسی حقائق کو چھپاۓ رکھنا ہے۔ ڈاروینی افراد کو درپیش سائنسی حقائق کا ڈر ان کے نظریاتی نظام کی بدبختی کا ثبوت ہے۔

ڈاروینی افراد ان کے نظریاتی نظام پر اگر واقعی  پر یقین ہیں تب سائنس سے منکشف حقائق پر انھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سابقہ صدی کے فسطائی (فاشزم) طریقوں کو سائنس میں لپیٹنے کی کوشش کرنے کی بجاۓ، اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تب، انھیں چاہیے کہ ان کا خود کا ثبوت پیش کریں۔ لیکن وہ ایسا کبھی بھی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ارتقاء  کی حمایت میں کوئی ایک بھی سائنسی ثبوت نہیں مل پایا ہے۔ اسی لیے سائنس عمل ارتقا کو مسترد کرتا ہے!     

زندگی کا آغاز

ارتقاء کے حامی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جاندار چیزیں بے جان مادے سے ازخود وجود میں آئیں، جبکہ یہ ایک بے بنیاد واہمہ ہے جو حیاتیات(Biology) کے تمام قوانین کے منافی ہے۔
ڈارون کے ارتقاء کے نظریے کے حوالے سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان بندر کی نسل سے ہے یا نہیں؟کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایسے بہرحال بہت سے سوال ہیں جنکا ارتقاء کے نظریے نے جواب دینا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ زمین پر پہلے جاندار کا ظہور کیسے ہوا؟
ارتقاء کے حامی اس سوال کا جواب ایسے دیتے ہیں کہ پہلا جاندار ایک خلیہ تھا جو کہ بے جان مادے سے اتفاقیہ وجود میں آگیا۔ اس نظریے کے مطابق زمین پر کبھی بے جان مادے جیسے پتھر، مٹی، مختلف گیسوں وغیرہ کا وجود تھااور بارش اور بجلی کے چمکنے کے عمل سے اس بے جان مادے سے ایک جاندار خلیہ وجود میں آگیا۔
بہرحال ارتقاء کا یہ نظریہ بیالوجی کے ایک بہت بنیادی قانون کے برخلاف ہے ، جسکے مطابق زندگی، صرف زندگی سے ہی وجود میں آتی ہے۔یعنی بے جان مادہ زندگی کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بن سکتا۔
بے جان اشیاء سے زندگی کا وجود میں آنا محض ایک لا یعنی واہمہ ہے۔ یہ عقیدہ جو Spontaneous generation کہلاتا ہے، اسکے مطابق چوہے گندم سے بنے ہیں اور سنڈیاں گوشت سے از خود وجود میں آگئیں ہیں۔ جس وقت ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا تھا اس وقت زندگی کو بہت سادہ سمجھا جاتا تھا، اس وقت یہ خیال بھی عام تھا کہ خوردبینی اجسام بھی بے جان مادے سے وجود میں آتے ہیں۔
فرنچ ماہر حیاتیات لوئی پاسچر نے اس نظریے کا خاتمہ کر دیا۔ لوئی پاسچر کے الفاظ ہیں ’’بے جان مادے سے زندگی کی شروعات کا دعویٰ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا ہے۔(Sidney Fox, Klaus Dose, Molecular evolution and the origin of life, New York:Marcel Dekker, (1977, p.2
پاسچر کے بعد بھی ارتقاء کے حامیوں کا یہی مؤقف رہا کہ پہلا جاندار خلیہ اتفاقیہ وجودمیں آگیا۔ لیکن اس سلسلے میں بیسویں صدی میں کئے جانے والے تمام تجربات ناکامی سے دوچار ہوئے۔ایک خلیہ کا اتفاقی وجود تو رہا ایک طرف، یہ بھی ممکن نہ ہوا کہ دنیا کی جدید ترین لیبارٹریز باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ایک خلیہ ہی تخلیق کر سکیں چناچہ اس سوال نے، کہ پہلا جاندار خلیہ کب وجود میں آیا، نے نظریہء ارتقاء کو آغاز ہی میں مشکلات سے دوچار کر دیا۔
مالیکیولی سطح پر نظریہء ارتقاء کے ایک نمایاں طرفدارپروفیسر جیفری نے اعتراف کیا ہے ۔
’’آج جبکہ ہم بیسویں صدی کو خیرآباد کہ رہے ہیں، ہمیں اب بھی اس غیر حل شدہ مسئلے کا سامنا ہے جسکے ساتھ ہم بیسویں صدی میں داخل ہوئے: زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی؟‘‘۔(Jeffery Bada, "Origins" Earth, February 1998,p.40) ۔
زندگی کے زندگی سے وجود میں آنے کے نظریے نے نہ صرف یہ کہ نظریہء ارتقاء کو بے بنیاد قرار دیابلکہ یہ بھی دکھایا کہ زمین پر زندگی پہلے دفعہ زندگی سے ہی وجود میں آئی، یعنی زندگی خدا کی تخلیق ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جو بے جان چیزوں میں جان ڈال سکتا ہے۔ قران پاک کے الفاظ میں۔
’’وہ خدا زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے‘‘۔ (سورۃ الروم .19 )
 
تخلیق – ایک واضح سچ

اب جبکہ سائنس نے ارتقاء کے نظریہ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،جسکے مطابق زندگی اتفاقیہ از خود وجود میں آگئی ہے، اور دوسری طرف اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ فطرت میں ایک کامل تخلیق موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہی تمام جانداروں کو وجود میں لانے کا سبب بنی.
نظریہ ارتقاء اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی محض اتفاق کا نتیجہ ہے، لیکن تمام سائنسی شواہد اسے غلط ثابت کرتے ہیں اور زندگی کی تخلیق کا منصوبہ اس بات سے بالا ہے کہ اسکی محض ایک اتفاق کے ذریعے وضاحت کی جائے۔
زندگی کے اتفاق سے وجود میں آنے کا نظریہ انیسویں صدی میں سامنے آیاجب زندگی کو بہت سادا سمجھا جاتا تھا۔ آج سائنسی برادری اس دعوے کو نامعقول سمجھتی ہے اور سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ زندگی ایک عظیم ترین خالق کا عمل ہے۔
چندرا وکرماسنگھے جو کئی سالوں تک اتفاق کے نظریئے کی تائید کرتے ر ہے وہ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں جس کا سامنا ان کو سائنسدان ہونے کے ناطے کرنا پڑا۔
’’سائنسدان ہونے کی تربیت کے ابتدائی دور سے ہی یہ بات مجھے ذہن نشین کروا دی گئی تھی کہ سائنس کسی بھی قسم کی خود سے گھڑی ہوئی چیز کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس خیال کو صرف دکھ سے جھٹک دینا پڑتا ہے۔ اس وقت میرے پاس اس نظریئے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی منطقی استدلال نہیں جو خدا کے ہونے پر بحث کرتا ہے۔ہم نے اپنا ذہن ہمیشہ کشادہ رکھا اب ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ زندگی کا منطقی جواب صرف تخلیق ہی ہو سکتا ہے نہ کہ محض حادثاتی طور پر چیزوں کا ترتیب پا جانا۔‘‘
اس صریح سچائی کو جاننے کے لئے کسی کو بائیو کیمسٹری کی لیبارٹری میں جانے یا Fossils دیکھنے کی ضرورت نہیں۔کوئی بھی اپنے ضمیر اور ادراک کا استعمال کر کے دنیا میں کہیں بھی تخلیق کی حقیقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ وہ باآسانی اپنے خالق کی لامحدود دانائی، علم اور طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے اگر وہ صرف اس بات پر ہی غور کر لے کہ وہ کیسے نشوونما پا کر ایک ایسا انسان بن گیا جو ان سطور کو پڑھ سکے اور سمجھ سکے اگرچہ کہ آغاز میں وہ صرف ایک بوند تھا۔ رحم مادر میں انسان کی تخلیق بذات خود ایک معجزہ ہے کہ کیسے نطفہ اور بیضہ کے باہم ملاپ سے ایک زندہ خلیہ بنتا ہے، یہ خلیہ اپنی تعداد بڑھاتا ہے ، پھر ان بڑھتے ہوئے خلیوں میں نامعلوم اور خفیہ طریقے سے تفریق ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ مخصوص طریقے سے ترتیب پا کر ہڈیاں، آنکھیں، دل ، خون کی شریانیں یا جلد بنا لیتے ہیں۔ اس بے عیب عمل کے اختتام پرایک تنہا خلیہ ایک انسان کی شکل ا.اختیار کر چکا ہوتا ہے۔اس تخلیق کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان سے مخاطب ہے۔
’’اے انسان! تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکے میں رکھا ہے۔ اس نے تجھے پید ا کیا ہے پھر برابر کر کے متوازن بنایا ہے، اس نے جس صورت میں چاہا تیرے اجزا کی ترکیب کی ہے۔‘‘(سورۃالانفطار . 6-8 )
اس دنیا میں کوئی بھی محض اتفاقیہ نہیں وجود میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا خالق  ہے اسی نے یہ کائنات اور تمام انسان تخلیق کئے۔اللہ تعالیٰ اپنی تخلیقی قوتوں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے
’’اے انسانو!تمھارے لئے ایک مثال بیان کی گئی ہے لہذا اسے غور سے سنو۔ یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے۔ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے کہ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں۔ افسوس کہ ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں پہچانی اور بیشک اللہ بڑا قوت والا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ ( سورۃالحج۔ 73-74).
 
سائنس کی ہر شاخ ارتقا٫ کو رد کرتی ہے۔ہر سائنسی دریافت زیادہ ٹھوس گواہی سے ڈارونیت کا انکار کرتی ہے۔
ارتقاء ایک سائنسی فراڈ ہے۔ کئی سالوں سے، ارتقاء پرست سائنس کے نام پر ارتقاء سے لوگوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ سائنس نظریہ ارتقا کا دشمن ہے. سائنس نظریہ ارتقاء کے خلاف ہے. سائنس اشتراکیت پسند اور مارکسِزم کا مخالف ہے. سائنس ملحد، مارکسِزم اور نظریہ ارتقاء کی سوچ کو تباہ کرتا ہے۔ سائنس ہی ہے جس نے نظریہ ارتقاء کے دھوکہ و فریب کو ریزا ریزا کیا ہے۔ یہ سائنس ہی ہے جس نے نظریہ ارتقاء کی تبیلغ کو سب سے بڑا جھٹکا دیا ہے۔ سائنس نے نظریہ ارتقاء کے فریب کو، جو سالوں سےلوگوں کو پیش کیا گیا، ہرا دیا ہے۔ سائنس نے ملحد فلسفہ کی بنیاد کو ہلاک کر ڈالا ہے۔سائنس نظریہ ارتقاء کو نیست و نابود کر دیتا ہے ، جب بھی یہ حالیہ مسئلہ بن جاتا ہے اور جب بھی یہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا، سائنس ارتقاء پسندوں کے لئے سب سے بڑا مسئلا بن کر سامنے آتا ہے۔

یہ سائنس ہی ہے جس نے ثابت کیا ہے کہ پروٹین اتفاق سے وجود میں نہیں آ سکتا۔

یہ سائنس ہی ہے جس نے خلیہ کی غیر معمولی دنیا کو ظاہر کیا ہے، اور دکھایا ہے کہ یہ محض اتفاق سے پیدا نہیں ہو سکتا۔

یہ سائنس ہی ہے جس نے اس حقیقت کو سامنے لایا ہے کہ ۳۵۰ ملین سے بھی زیادہ فوسلس کبھی ایوالو ﴿evolve﴾ نہیں ہوئے۔

یہ سائنس ہی ہے جس نے زندہ اجسام میں پیچیدگیوں کو منظرعام پے لایا ہے اور دکھایا ہے کہ یہ ارتقاء کے ذریعے کبھی بھی وجود میں نہیں آ سکتے تھے۔

یہ سائنس ہی ہے جس نے دکھایا ہے کہ ایک حیاتی کا دوسری میں تبدیل ہو جانا ناممکن ہے۔

سائنس کے آگے ارتقاء پرستوں کے سارے دعٰوے دم تور جاتے ہیں۔ سائنس ایک شاندار نتیجہ دیتا ہے جو کہ ڈارونیت پسندوں کو بلکل رد کرتا ہے جو کہ خود کے جھوٹ کو سائنس کے ذریعے چھپانا چاہتے ہیں۔ نا صرف سائنس دین کی خدمت کرتا ہے پر وہ ﷲ کی موجودگی کو بھی ثابت کرتا ہے۔ سائنس ان کے لئے ہے جو کہ ﷲ پے ایمان رکھتے ہیں۔ سائنس ایمان والوں کے استعمال کے لئے ہے۔ یہ حقیقت ایکیسوی صدی میں ارتقاء کے ماننے والوں کے ليے سر درد بن چکی ہے۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...