Tuesday 25 July 2017

ارتقاء پسندوں کی جعلسازیاں ( تصویروں کے ذریعے دھوکے بازی

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#77حصہ چہارم

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

11- ارتقاء پسندوں کی جعلسازیاں ( تصویروں کے ذریعے دھوکے بازی):

نظریہ ارتقاء کی صداقت جانچنے کا اہم ترین ماخذ، رکازی ریکارڈ ہے. جب اس کا محتاط اور غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ ریکارڈ ارتقاء کی حمایت کرنے کے بجائے اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے. اس کے باوجود، ارتقاء پرستوں نے رکازوں کی گمراہ کن توجیحات دے کر، اور اپنی طرف سے من پسند وضاحتیں پیش کر کے عوام کی بھاری اکثریت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ یہ ریکارڈ، ارتقاء کی تائید کرتا ہے.

چند مشکوک رکازات کی بنیاد پر ایسی توجیحات گھڑ لی جاتی ہیں جن سے ارتقاء پرستوں کا مقصد حل ہو جائے. بیشتر اوقات میں دریافت ہونے والے رکازات موزوں طور پر شناخت کے قابل نہیں ہوتے. یہ عموماً ہڈیوں کے بکھرے ہوئے اور نامکمل ٹکڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان سے دستیاب ہونے والی معلومات کو مسخ کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لینا بہت آسان ہوتا ہے. اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ارتقاء پرست انہی ادھوری رکازی باقیات کی بنیاد پر تصویروں اور ماڈلوں کی شکل میں "تنظیم نو" "(Reconstructions) کے نام پر جو کچھ پیش کرتے ہیں، وہ ارتقاء کی تصدیق کرنے والا محض ایک تخیل ہوتا ہے. اب کیونکہ بصری معلومات لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں، لہٰذا تخیل پر قائم کئے گئے یہ ماڈلز انہیں بہ آسانی قائل کر لیتے ہیں کہ ارتقاء پرستوں کے بتائے ہوئے عجیب و غریب جاندار، ماضی میں واقعی موجود تھے.

ارتقائی محققین تو یہ تک کرتے ہیں کہ صرف ایک دانت، جبڑے یا بازو کی ہڈی دیکھ کر انسان جیسے کسی تصوراتی جانور کی پوری تصویر بنا ڈالتے ہیں. اور پھر، اسے اس سنسنی خیز انداز سے عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جیسے وہ انسانی ارتقاء کو ثابت کرنے والی کڑیاں ہوں. انہی تصویروں نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں "(بندر نما) قدیم انسان" کا عکس قائم کرنے میں اہم کر دار ادا کیا ہے.

بچی کھچی ہڈیوں کی بنیاد پر کئے گئے یہ مطالعات کسی متعلقہ جاندار کی صرف عمومی خصوصیات کے بارے میں بتا سکتے ہیں. حالانکہ اہم ترین معلومات اور تفصیلات تو نرم بافتوں (یعنی چربی اور گوشت وغیرہ) میں ہوتی ہیں جو بہت جلد مٹی میں تحلیل ہو جاتے ہیں. نرم بافتوں کی فرضی وضاحت کے ساتھ ہی "تنظیم نو" کرنے والا ارتقاء پرست ہر اس چیز کو ممکن بنا دیتا ہے جو اس کے تخیل میں سما سکتی ہے. ہاورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ اے ہوٹن اسی طرح کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

"نرم حصوں کو بحال کرنے کی کوشش کہیں زیادہ خطرناک ہے. ہونٹ، آنکھیں، کان اور ناک کی نوک جیسے حصے اپنے نیچے موجود ہڈی پر کوئی سراغ نہیں چھوڑتے. لہٰذا آپ نینڈرتھل نما (Neanderthaloid) جانور کی کھوپڑی پر یکساں سہولت کے ساتھ کسی چمپانزی کے خدوخال یا ایک فلسفی کے نقش و نگار تشکیل دے سکتے ہیں. قدیم اقسام کے آدمی کی ایسی مبینہ تنظیم نو کی اگر کوئی سائنسی قدر و قیمت ہے، تو وہ بے حد معمولی ہے اور ممکنہ طور پر صرف عوام کو گمراہ کرنے کا باعث ہے. . . لہٰذا تنظیم نو پر بھروسہ نہ کیجئے".

جھوٹے رکازات بنانے کے لئے کئے گئے "مطالعات"

حقیقت میں ارتقاء کا ثبوت فراہم کرنے والے رکازوں کی عدم دستیابی کے بعد، بعض ارتقاء پرست ماہرین نے اپنے "ذاتی رکازات" بنانے کی کوششیں بھی کر ڈالیں. یہ کوششیں جنہیں انسائیکلوپیڈیا بھی "ارتقاء کی جعلسازیوں" کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں، اس امر کی واضح شہادت دیتی ہیں کہ نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریاتی ڈھانچہ اور فلسفہ ہے جس کا دفاع، ارتقاء پرست ہر حال میں کرنا چاہتے ہیں. اس طرح کی دو اہم اور بدنام ترین جعلسازیاں ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں:

پلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man)

1912 ء میں ایک مشہور ڈاکٹر اور شوقیہ معدومی بشریات دان (Amateur Paleoanthropologist) چارلس ڈاسن نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پلٹ ڈاؤن، برطانیہ کے مقام سے جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کے حصے ملے ہیں. اگرچہ یہ کھوپڑی انسانی نما تھی لیکن جبڑا نمایاں طور پر بندروں جیسا تھا. ان نمونہ جات کو "پلٹ ڈاؤن آدمی" (Piltdown Man) کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ رکازات پانچ لاکھ سال قدیم ہیں. علاوہ ازیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ رکازات انسانی ارتقاء کے ضمن میں حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں. چالیس سال تک اس "پلٹ ڈاؤن آدمی" پر متعدد مقالہ جات لکھے گئے، کئی تصاویر بنائی گئیں، وضاحتیں پیش کی گئیں اور اس رکاز کو انسانی ارتقاء کی فیصلہ کن شہادت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا.

مگر 1949ء میں جب سائنس دانوں نے ایک بار پھر اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ "رکاز" بڑی سوچی سمجھی جعلسازی تھا، اور جسے انسانی کھوپڑی کو گوریلے کی ایک قسم (Orangutan) کے جبڑے کی ہڈی سے ملا کر تیار کیا گیا تھا. فلورین تاریخ نگاری (Fluorine Dating) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ابتداء میں محققین نے دریافت کیا کہ انسانی کھوپڑی صرف چند ہزار سال پرانی تھی. اور نگوٹان کے جبڑے ہڈی میں دانت مصنوعی طور پر پھنسائے گئے تھے. علاوہ ازیں ان رکازات کے ساتھ ملنے والے "قدیم" اوزار بھی جعلی تھے جنہیں دھاتی آلات کے ذریعے یہ شکل دی گئی تھی. اوکلے، وائنر اور کلارک نامی ماہرین کا یہ مطالعہ 1953ء میں مکمل ہوا اور اسی سال عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا.

حتمی نتائج کے مطابق یہ کھوپڑی صرف 500 سال پہلے کے کسی آدمی کی تھی اور نچلے جبڑے کی ہڈی، شکار کئے ہوئے اور نگوٹان سے لی گئی تھی! بعد "مطالعات": ازاں اس کے دانتوں کو قطار کی شکل دے کر جبڑے میں لگایا گیا اور جوڑوں کو باریک ریتی سے گھس کر ایسے بنایا گیا کہ وہ کسی انسان سے مماثل دکھائی دینے لگیں. آخر میں ان سارے ٹکڑوں کو "قدیم" ظاہر کرنے کے لئے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ سے داغدار کر دیا گیا. (یہ دھبے، تیزاب میں ڈبوتے ہی غائب ہو گئے. ) اس تحقیقی ٹیم کا ایک رکن، لی گروس کلارک اپنی حیرت نہیں چھپا سکا. چنانچہ اس کے الفاظ تھے:

"مصنوعی خراشوں کی شہادتیں فوراً ہی آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہیں. عملاً یہ اتنی واضح تھیں کہ یہ پوچھا جاسکتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نے اتنے لمبے عرصے تک انہیں محسوس ہی نہ کیا ہو؟"

نبراسکا آدمی (Nebraska Man)

1922ء میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈائریکٹر، ہنری فیئر فیلڈ اوسبورن نے اعلان کیا کہ اس نے مغربی نبراسکا میں اسنیک بروک کے قریب سے ڈاڑھ (molar tooth) کا رکاز دریافت کیا ہے جو پلیوسینی عصر (Pliocene Period) سے تعلق رکھتا ہے. یہ دانت مبینہ طور پر بیک وقت انسان اور گوریلوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل دکھائی دیتا تھا. اس کے بارے میں سائنسی دلائل کا تبادلہ شروع ہو گیا. بعض حلقوں نے کہا کہ یہ دانت "پتھے کن تھروپس ایریکٹس" "(Pithecanthropus Erectus) سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ یہ دانت، جدید انسانی نسل کے زیادہ قریب ہے. مختصراً یہ کہ اس ایک دانت کے رکاز کی بنیاد پر زبردست بحث شروع ہو گئی اور اسی سے "نبراسکا آدمی" کے تصور نے بھی مقبولیت حاصل کی. اسے فوراً ہی ایک عد د "سائنسی نام" بھی دے دیا گیا: "ہیسپیروپتھے کس ہیرلڈ کوکی"!متعدد ماہرین نے اوسبورن کی بھرپور حمایت کی. صرف ایک دانت کے سہارے "نبراسکا آدمی" کا سر اور جسم بنایا گیا. یہاں تک کہ نبراسکا آدمی کی پورے گھرانے سمیت تصویر کشی کر دی گئی.

1927ء میں اس کے دوسرے حصے بھی دریافت ہو گئے۔ ان نو دریافتہ حصوں کے مطابق یہ دانت نہ تو انسان کا تھا اور نہ کسی گوریلے کا۔ بلکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس دانت کا تعلق معدوم جنگلی سؤروں کی ایک نسل سے تھا جو امریکہ میں پائی جاتی تھی، اور اس کا نام "پروستھی نوپس" (Prosthennops) تھا۔

12 اَپنڈکس ہرگز غیر ضروری نہیں

اِرتقاء پسند تو اِس حد تک گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس (Appendix) سلسلۂ اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ہے. حالانکہ اَپنڈکس جسم کے چند مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین (Tonsils) کا کام کرتی ہے. وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام اور اُن کی تِعداد کو باقاعدہ بناتی ہے. اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے اَفعال سراِنجام دیتے ہیں.

13 اَصناف کا تنوّع

اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا (Amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی. اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں. (حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) صرف پتنگوں کی 3لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں. پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے؟

مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں. جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں. رنگوں کے 10,000سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں. اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے. جیسا کہ:

چھپکلی اور مگرمچھ
بلی اور شیر
امریکی چوہا اور خنزیر

اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ اﷲ ربُّ العزّت نے (اپنی) مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے.

14 سائنسی علوم کی عدم قبولیت

مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں (مکمل طور پر) ناممکن قرار پا گیا ہے.

طبیعیات

علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا. پُر اَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے. اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے 2 یا 4 اَیٹموں کو ملا کر ہیلئم (Helium) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو "تھرمونیوکلیئربم" (Thermonuclear Bomb) ہی حاصل ہو گا (جس کے سبب) تمام ماحول "کھمبی" (Mushroom) کی شکل کے دُھوئیں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا.

ریاضی

ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے. اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں 39x1020 تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے 100کھرب سال گویا موجودہ کائنات کی عمر سے 500گنا زیادہ وقت میں مکمل ہو سکتی ہیں. ایک بوزنہ (Ape) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے 3x10520 تبدیلیوں کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِ اِستعمال لائیں تو بھی اُسے پانے میں قاصر رہیں گے. مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے 10124گناسے زیادہ بڑا نہیں ہے. اِن سب (حقائق) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء (کا یہ تصوّر) ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے.

حیاتیات

حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں. آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک "سسٹرن" (Cistron). . . جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے ) DNA (Deoxyribonucleic Acid)کی لمبائی ہوتی ہے. . . میں تبدیلی لا سکے. کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی. اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (Genes). . . جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں. . . ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں. اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی. چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا. جیسا کہ "نِلسن ہیریبرٹ" (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کچھ اَیسی ہیں کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے.

"پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر" (Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ (کی روشنی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلی، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں. وہ یہ بھی کہتا ہے کہ "پروفیسر ویزمین" (Prof. Weismann) کے ہاں "جاوا کے آدمی" (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے. اِسی طرح "پروفیسر گِش" (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے "نبراسکا کا آدمی" (Nebraska Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے.

یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا دیئے ہیں. گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک ہلا دی ہیں. اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ فرما لیجئے.

نظریہ ارتقاء پر مغربی مفکرین کے تبصرے

ہر میدان میں ارتقاء کو شکست فاش ہو جانے کے بعد خردحیاتیات (مائیکرو بائیالوجی) کے معتبر ماہرین آج "تخلیق" (Creation)کو حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں. (ایسے ہی چند لوگوں نے) اب اس نقطۂ نظر کا بھرپور دفاع کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہر شے ایک عظیم ترین خالق نے "تخلیق" کی ہے اور یہ کہ ہر شے اپنی جگہ پر خالقِ عظیم کی عظیم تر تخلیق کا ایک جزو ہے. اس حقیقت کو پہلے ہی سے بہت سے لوگ تسلیم کرتے ہیں. کھلے ذہن سے اپنی تحقیقی کاوشوں کا تجزیہ کرنے والے سائنس دان اس نقطۂ نظر کو "ذہین ڈیزائن" (Intelligent Design) کا نام دیتے ہیں.

ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں. (اسلام اور نظریہ ارتقاء)ڈی وریز (De Viries)ارتقاء کو باطل قرار دیتا ہے وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation)کا قائل ہے جسے آج کل فجائی ا ارتقاء (Emergence Evelution)کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے. (ایضاً، ص 59)ولاس (Wallace)عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے. (ایضاً، ص61 )
فرحو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے. )ایضاً، ص (61)میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی. (ایضاً، ص61 )
آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا. (ایضاً، ص 62 )
ہکسلے (Huxley)کہتا ہے کہ جو دلائل ارتقاء کے لیے دیئے جاتے ہیں ان سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع کبھی طبعی انتخاب سے پیدا ہوئی ہو. (ایضاً، ص 63 )
ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعاً ناقابل التفات ہے کیونکہ جن مقدمات پر اس نظریہ کی بنیاد ہے وہ قابل تسلیم ہی نہیں ہیں. (ایضاً، ص 63 )
دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء (اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا) محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے.
(تخلیق کائنات اور جدید سائنس)
جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات اور علمِ حیوانات کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen Jay Gold) نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے. (تخلیق کائنات اور جدید سائنس)
پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے.
اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے. مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں. (جمیع سائنسدانوں کے خیالات)

نظریہ ارتقاء کی مقبولیت کے اسباب

اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظریہ ارتقاء اتنا ہی غیر سائینٹیفک ہے تو یہ مقبول کیسے ہو گیا. تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پرچار کرنے والوں میں مادہ پرست، دہریت پسند اور اشتراکیت نواز سب شامل ہو جاتے ہیں. دہریت مادہ پرستی، لا ادریت اور اشتراکیت بذات خود الگ الگ مذہب ہیں. یہ نظریہ چونکہ الحاد اور اللہ کی ہستی سے انکار کی طرف لے جاتا ہے لہذا ان سب کو ایک دلیل کا کام دیتا ہے. ڈارون اصل الانواع لکھنے سے پہلے خداپرست تھا. یہ کتاب لکھنے کے بعد لا ادریت کے مقام پر آ گیا. پھر جب اور بھی دو کتابیں لکھ کر اپنے نظریہ میں پختہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کامنکر بن گیا اور اہل کلیسا نے اس پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگا دیا۔

نظریہ ارتقا اور اناکسی میندر

انسان کی تخلیق سے متعلق اناکسی میندر سے لے کر ڈارون تک کی تین ہزار سالہ تحقیق کی مسلسل ناکامی بتا رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب دی
گرانڈ ڈیزائن The grand design  کہ انسان کی تخلیق کے معاملہ میں خدائی بیان ہی درست ہے۔ خدائی بیان کوغلط ثابت کرنے کے لئے دنیا بھر کے بہترین دماغ لگ گئے اور انھوں نے تین ہزارسال تک مسلسل کوششیں کیں اور ناکام ہوئے، یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ اللہ تعالی کا بیان سچ ہے اور وہی انسانوں کا خالق ہے۔جس کی وضاحت ہم آئندہ اقساط میں کریں گے۔

ایک معروف یونانی سائنسداں اور فلاسفر اناکسی میندرAnaximander کا ماننا تھا کہ بچہ پیدائش کے وقت اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ زمین پر پہلا انسان اگربچہ پیدا ہوا ہو گا تو وہ ضرور مر گیا ہو گا۔ انسان کی تخلیق نومولود بچوں سے ممکن نہیں ہے۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء کا آغاز ہوا۔ گویا اناکسی میندر نظریہ ارتقا پر سوچنے والوں میں سے ایک تھا۔ اناکسی میندر' کاماننا تھا کہ زمین پھاڑ کر یا پانی کے اندر سے کوئی مچھلی یامچھلی کی شکل کا کوئی جانور نکلا ہو گا اسی کے پیٹ کے اندر انسان پرورش پاتا رہا ہوگا اور جب جوان ہوا ہوگا تومچھلی نے اسے زمین پرڈال دیا ہوگا: ویکی پیڈیا میں اس کے افکار ان الفاظ میں درج کئے گئے ہیں: اناکیسی میندرکی یہ سوچ صحیح تھی کہ پہلا انسان بچہ پیدا نہیں ہوا ہو گا۔ تاہم اس کی یہ سوچ کہ انسان بچہ پیدا نہیں ہوا ہو گا تو لامحالہ وہ کسی جانورسے ارتقا پا کرانسان بنا ہوگا، ایک ایسا دعوی ہے جس کے لئے کوئی دلیل اس کے پاس موجود نہیں ہے۔سارا مسئلہ بچے کا ہے۔ یعنی یہ فرض کرلیا گیا کہ نسل انسانی کی تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ پہلا انسان بچہ ہی پیدا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے توانسان جانورسے ارتقا پا کر انسان بنا ہو گا۔یہ کیوں سوچا گیا کہ جانورسے ایک پروسس چلا کر انسان کی تخلیق ہوئی۔ یہ کیوں نہ سوچا گیا کہ ایک انسان کے جوڑے سے انسان کو پھیلا دیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ وہ پہلا انسان کس طرح پیدا ہوا؟ تومذہب میں اس کا جواب پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ پہلے انسان کواللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس کے گوشت سے اس کے جوڑا کو نکالا اور پھر انھیں زمین پر بسا دیا اوران کے ذریعہ سے نسل انسانی کو روئے زمین پرپھیلا دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا۔۔۔۔۔۔۔-
[ اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک [ہی] مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں۔۔۔۔۔(سورة الحجرات:13۔ترجمہ محمد جوناگڑھی)
یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے “۔ یعنی آدم علیہ السلام ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حواء علیہا السلام کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی۔ 

لیکن اس سوچ میں ارتقائی سائنسدانوں اور فلاسفروں کے لئے ایک خطرہ تھا۔ وہ یہ کہ اس صورت میں یہ ماننا پڑتا کہ پہلے انسان کو اللہ تعالی نے پیدا کیا اور پھر وہی نسل انسانی کو زمین پر مسلسل پھیلا رہا ہے، شاید اسی لئے کچھ فرضی سائنسداں اسے ماننے سے انکار کرتے رہے کیوں کہ اللہ تعالی کے ساتھ ان کا بیر تھا۔لیکن دوسری صورت میں پھر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر انسان جانور سے پیدا ہوا تو وہ پہلا جانور کہاں سے آیا؟جیسا کہ اناکسی میندر کا ماننا ہے کہ انسان مچھلی کے پیٹ (یا کسی اور جانور )میں بڑھتا رہا اور پھر مچھلی نے اسے جوان کرکے زمین پر اگل دیا۔ تو پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مچھلی یا کہاں سے آ گئی؟ پہلی مچھلی کی تخلیق کس طرح ہوئی؟ اگر پہلی مچھلی بچہ پیدا ہوئی اور زندہ رہ گئی تو پہلا انسان بچہ پیدا ہو کر زندہ کیوں نہیں رہ سکتا؟ اورا گر معاملہ دوسرا تھا۔ یعنی پہلی مچھلی کو کسی اور صورت میں پیدا کیا گیا تھا تو پھر اسی صورت میں انسان کی تخلیق کیوں نہیں ہو سکتی۔ یعنی حیرت انگیز طور پر بلکہ معجزاتی ڈھنگ سے مچھلی یا کوئی جانور تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن انسان پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ایک عجیب سائنس ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ایک انسانی جوڑے کو آسمان سے ا تارا گیا اور پھر اس سے زمین پر نسل انسانی کو پھیلا دیا گیا تو یہ زیادہ عجیب وغریب اور نا قابل یقین بات معلوم پڑتی ہے یا یہ کہ آسمان سے ایک مچھلی اتری یا زمین پھاڑ کر ایک مچھلی نکلی اور پھر اس سے انسان پیدا ہوا۔ بلا شبہ پہلی بات زیادہ قرین قیاس اور عقل سے قریب معلوم پڑتی ہے۔اس کے برعکس دوسری بات اتنی بے تکی ہے کہ کوئی اس پر مشکل سے ہی یقین کر سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا کی تھیوری اسی قسم کی بے بنیاد سائنسی کہانیوں پر رکھی گئی ہے۔ انکسی میندر سے لے کر ڈارون تک جس نے ارتقا کی تھیوری کو آگے بڑھایا اور اس کے بعد تک یعنی کم وبیش تین ہزار سال کی مسلسل تگ ودو کے باوجود یہ نہیں ثابت کیا جا سکا کہ انسان کس طرح جانور سے انسان بن گیا۔ جانور سے انسان بننے کے درمیان جو بیچ کی کڑی تھی وہ کہاں رہ گئی؟ اس کڑی کو آج تک سامنے نہیں لایا جا سکا۔انسانی تخلیق پرسائنس کی تین ہزارسال کی مسلسل محنت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ جدید سائنس نے ڈارون کی تھیوری کو رد کر دیا۔ ترکی کے ایک معروف اسکالر اور سائنسداں ہارون یحی نے ڈارونزم ریفیوٹیڈ Darwinism refuted نامی ایک ضخیم کتاب لکھ کرنہایت علمی اندازمیں نظریہ ارتقا کی موت کااعلان کردیااوران کے اس اعلان کوتقریباً ساری دنیا نے تسلیم بھی کر لیا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھرجب میں اسے پوری طرح بنا دو ں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں توتم اس کے آگے سجدے میں گرجانا۔ 38:71-72دوسری جگہ ہے: " وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا"۔( 6—2)بائبل میں ہے:” خدا وند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کی تخلیق کی اوراس کے اندر زندگی کی روح پھونک دی اورانسان زندہ جاگتا ہوگیا"۔انسان کی تخلیق سے متعلق اناکسی میندرسے لے کرڈارون تک کی تین ہزارسالہ تحقیق کی مسلسل ناکامی بتارہی ہے کہ انسان کی تخلیق کے معاملہ میں خدائی بیان ہی درست ہے۔ خدائی بیان کوغلط ثابت کرنے کے لئے دنیا بھرکے بہترین دماغ لگ گئے اورانھوں نے تین ہزارسال تک مسلسل کوششیں کیں اورناکام ہوئے، یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ اللہ تعالی کابیان سچ ہے اور وہی انسانوں کا خالق ہے۔انسان نے آخر کار یہ جان لیا کہ انسان کی تخلق کے معاملہ میں نظریہ ارتقا کے نام پر جو باتیں بیان کی گئیں وہ سب سائنس کے نام پرکہی گئی غیرسائنسی کہانیاں تھی۔قرآن میں اس کی نشاندہی بہت پہلے ہی کر دی گئی تھی" اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے"
دراصل اسلام ہی وہ واحد دین ھے جو اپنی ہر بات اور ہر عقیدے و نظریے کی عقلی وضاحت پیش کرتا ہے
اسلام کسی بھی شئے یا معاملے میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے انتہائی معتدل و متوازن رستہ بتاتا ہے
اسلام ایک انسان کی پیدائش سے لیکر موت تک اسے ہر معاملے میں چاھے وہ کسی بھی شعبے کا ہو بہترین راہنمائی فراہم کرتا ہے
اسلام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے نظریے یا لادینیت کی کوئی وجہ باقی نہیں بچتی..

ماخوز از:ڈارون کا نظریۂ ارتقاء/حذف و ترمیم کے ساتھ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...