Friday 28 July 2017

سوشل میڈیا اور دینی مدارس


سوشل میڈیا اور دینی مدارس

قسط نمبر 72 سے منسلک (حصہ دوم)

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

 دینیہ کے طلبأ و اساتذہ کے نام

ایک وہ زمانہ تھا،جب ہر چیز پر اسلامی چھاپ تھی، ہر فن کے رگ و ریشہ میں میں اسلام سرایت کرگیا تھا، سیاست، معیشت، تجارت، طب و صحت، تاریخ و سیاحت، ادب و فلسفہ، کیمیا اور منطق کے قلب و جگر میں علوم اسلامی نے اپنا نشیمن بنالیا تھا، ہرعلم و فن پر مسلم اسکالروں کی بالادستی قائم تھی، پوری دنیا اسلامی تعلیمات ہی کی روشنی میں سوچتی اور اس کی زبان میں لکھتی پڑھتی، بولتی اور تصنیف و تالیف کرتی تھی.
ہمارا ماضی اگر روشن اور تابناک ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے زمانہ کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا، زمانہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی، اسلام کا دفاع، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامی اسلوب میں کیا، اسلام دشمن عناصر جس ہتھیار سے مسلح ہوکر اسلام پر حملہ آور ہوئے، علماء نے اس کا دفاع اسی انداز سے کیا، جب فلسفہ سے اسلام پر یلغار ہوئی، تو علمائے متکلمین یہ کہہ کر خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ فلسفہ باطل ہے، یہ دہریت اور لادینیت پر مشتمل ہے؛ بلکہ اسلام کا دفاع کیا اور فلسفہ کا جواب فلسفہ سے دیا، صرف جواب ہی نہیں دیا، منطق اور فلسفہ کو مسلمان بھی بنادیا-
اس وقت اسلام پر جو منظم طریقہ پر یورش ہورہی ہے، اس میں سب سے اہم کردار پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کا ہے، تمام ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے، وہ جس خبر کو جس طرح چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں اور دل و دماغ پر بٹھا دیتے ہیں-
یہ ذرائع ابلاغ ہی کا کمال ہے کہ جس کے ذریعہ آج اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے اور تو اور مسلمان کا ایک طبقہ متأثر ہورہا ہے، ہمیں یہ کہنے سے دنیاوی مشکلات سے نجات نہیں مل سکتی ہے نہ صحافتی مہم اور حملہ کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اس باز پرس سے بچا جاسکتا ہے، کہ “ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، اور صحافت پر گندگی کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے،اخبارات، جرائد و رسائل اور سوشل میڈیا میں حوا کی بیٹیوں کی عریاں اور نیم عریاں تصویریں ہوتی ہیں۔
آج کی صحافت بے حیائی کو فروغ دے رہی ہے؛ اس لئے یہ ناجائز وحرام ہے” محض نفرت اور کنارہ کشی اس کاعلاج نہیں ہے، بلکہ حکمت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس میدان کو صاف کرنے کی ضروت ہے، اس کے ذریعہ جہاں اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کی جاسکتی ہے، وہیں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی نجی مجلسوں اور کمروں میں بیٹھ کر اظہارِ افسوس اور تبصروں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں، اپنے فنی و مادی وسائل کو بروئے کار لاکر ذرائع ابلاغ پر اپنا تسلط جمائیں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک، سوشل میڈیا کی طاقت اپنے حق میں استعمال کرنے کی جد وجہد کریں، اس میدان میں اہم پیش رفت کے بغیر مدارس اسلامیہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوسکتے ہیں، کم ازکم سوشل میڈیا میں تو ہم سرم گرم رول ادا کرہی سکتے ہیں۔

عصرِ حاضرمیں جبکہ مادیت پرستی کا اس قدر غلبہ ہے کہ ہر فرد اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مادیت کے حصول کے لیے کوشاں ہے ۔ اسی ماحول میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو ایک ایسی علمیت کو محفوظ کرنے میں صلاحیتیں صرف کررہے ہیں جس علمیت سے عالمِ کفر لرزہ براندام ہے ۔ ہمیں تو شاید احساس نہ ہو مگر عالمِ کفر جانتا ہے کہ یہ افراد نظامِ کفر کے لیے کس قدر خطرہ ہیں اس کائنات میں کسی بھی فکر ، تحریک، نظریات و تعلیمات خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی کسی میں اتنا دم نہیں کہ وہ مغربی نظام ِزندگی کے سامنے کھڑے بھی ہو سکیںچہ جا ئیکہ اس سسٹم کے مقابلے میں کوئی اور نظامِ زندگی (سسٹم) پیش کر سکیں۔
اس کائنات میں صرف ایک علمیت ایسی ہے جو اہلِ مغرب کے مبینہ سسٹم کے مقابلے میں کوئی دوسرا نظام زندگی (سسٹم) پیش کر سکتی ہے صرف اسی علمیت میں زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے ۔ میری مراد اسلامی علمیت ہے یہ محض نظریاتی نہیںہے بلکہ ایک طویل عرصہ تک اس کے مبیّنہ نظام ِزندگی پر عمل کیا جاتا رہا ہے ۔جس علمیت میں جمہوریت کی بجائے خلافت، سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے خاص احکام البیوع اور برٹش لاء کے مقابلے میں احکام القضاء تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔
الغرض عصرِ حاضر کا کفر اس علمیت سے دہشت کھاتا ہے اور جانتا ہے کہ اس علمیت کے
حاملین ہی کوئی ایسا نظام پیش کر سکتے ہیں جو موجودہ کفر کے لیے انہدام کا سبب بنے گا ۔ان کی نظر میں یہی لوگ دہشت گرد ہیں کیونکہ اس علمیت سے متاثر افراد کبھی بھی کسی دوسرے نظامِ زندگی پر مطمئن نہیں ہو سکتے ، ان کو اگر کبھی موقع ملا تو یہ اس علمیت سے پھوٹنے والے نظام کے احیاء کے لیے کوشاں ہوں گے ۔ بلکہ اجتماعیت پر اس خاص نظام کو نافذ کرنا اپنے دین کا تقاضا اور اس کے نفاذ میں کوتاہی کرنے کو جرم سمجھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اس دنیا کی کسی فکر ، خیال یا تعلیمات میں اتنا دم نہیں جو مغربی یلغار کا مقابلہ کر سکے۔ اور اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا سسٹم پیش کر سکے ۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسرے بہت سے مضامین کی طرح ذرائع ابلاغ کے بارے میں بنیادی علم کو بھی مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جس نے صرف اور صرف رضائے الہی کی خاطر خود کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ۔ دین حنیف کی اشاعت اور معاشرے میں اسلامی روایات کے فروغ کے لئے ہی صرف پاکستان میں ہی لاکھوں بچے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ آج کے دور میں دینی تعلیم کی طرف راغب ہونا کوئی آسان بات نہیں ۔ حکومتوں کے سفاک رویے اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی بھرمار کے باوجود آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں کہ جو دنیاوی عیش و
عشرت کو ٹھکرا کر منبر و محراب کے وارث بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ دینی مدارس کا رخ کرنیوالوں کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو وقف کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے مخلص اور بے لوث طبقے کو ابلاغیات کے جدید اصول و ضوابط سے آگاہی حاصل ہو کہ جن کو استعمال کرکے دعوت دین کے کام کو مزید موثر بنایا جا سکے ۔
ابلاغ کا علم دعوت دین کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلبہ میڈیاکے بارے میں جان پہچان ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کی یلغار ہی وہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ جس نے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح مدارس دینیہ کے طلبہ و طالبات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ آج کے بچے کمسنی سے ہی گھنٹوں الیکڑانک میڈیا سے مستفید ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کے استعمال کا بھرپور شعور رکھتے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ہماری نسلوں کو بدلا جا رہا ہے ۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی واحد صورت ان معصوم ذہنوں کو تفریح کے نام پر ہونیوالی سازشوں سے آگاہ کرنا ہے ۔

اس لئے اب ضروری ہے  کہ نصاب میں میڈیا سے متعلقہ مضمون شامل نصاب ہونے کی صورت میں یہ دینی مدارس کے طلبہ و طالبات خود کو مغربی و ہندو ثقافت کی یلغار سے بہتر طریقے سے محفوظ کر سکیں گے اور غیر ملکی پروپیگنڈے اور دھوکے کی سازش کے بارے میں کم از کم آگاہی ضرور حاصل کر لیں گے ۔

میڈیا کو برائی کی جڑ قرار دینے کی باتیں تو بہت ہو چکیں ، اب ہمیں چاہیے کہ اس ٹیکنالوجی کو دعوت دین کے لئے استعمال کرنے کی تدبیر کریں ۔ اگر مدارس کے طلبہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ طریقے سے میڈیا کو دینی تبلیغ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں تو یقینا فحاشی و عریانی اور کفر و الحاد کی یلغار کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے اور اگر ہماری ہمت جواب نہ دے تو معاشرتی تباہی پھیلاتے اس میڈیا کو اسلامی ثقافت و روایات کا امین بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ کیسے تفریح اور غیر جانبداری کی آڑ میں گمراہی پیھلائی جاتی ہے ۔ ان غیر ملکی چینلز کے اصل کردار اور مقاصد سے آگاہ کرنا ہو گا کہ جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہو رہے ہیں ۔

میڈیا کے مندرجات کو سمجھنے والے ہی مخالف پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کفار و سیکولر ذہنوں سے مقابلے کے لیے ہمارے ہر اول دستے یعنی مدارس دینیہ کے طلبہ کو یہ ہنر سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے استفادہ ہرگز بری چیز نہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ہوشمندی سے کام ضرور لینا چاہیے تاکہ آپ کو دھوکہ نہ دیا جا سکے۔ہمیں اپنے معاشرے کو اتحاد و یکجہتی کے رشتے میں پرونے اور اسلامی روایات کے فروغ کے لئے میڈیا کی مدد چاہیے ۔ اسی لئے میڈیا کے علم کو شامل نصاب کرنا ضرور ہے ۔ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اب کمیونٹی جرنلزم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس مقصد کے لئے باشعور افراد کی ضرورت ہے کہ جو بہتر طریقے سے اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر سکیں ۔ چھوٹے پیمانے پر ہونیوالی اس صحافت کا مواد بھی عام شہری ہی فراہم کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے طلبہ مدارس میں میڈیا کے استعمال سے آگاہ ہونگے تو ان کے لئے یہ سب کرنا آسان ہوگا ۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد بلکہ دوران تعلیم ہی یہ طلبہ اس قابل ہو جائیں گے کہ میڈیا کو اسلامی نہج پر چلانے کے لئے اپنا حصہ ڈال سکیں۔ کسی بھی عالمی یا ملکی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کر سکیں گے ۔ پرنٹ ، کمیونٹی ، براڈ کاسٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی رائے دینے کے قابل ہو جائیں گے ۔
مدارس میں میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ و طالبات سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ انتہائی سستا اور تیز ترین ذریعہ ہے ۔سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی ایک نئی قسم ہے ۔ موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کی بدولت پیغام رسانی انتہائی آسان ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں ہونیوالے کسی بھی واقعے کی خبر سیکنڈز کے اندر آپ تک پہنچ جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی ان نئی اقسام نے معاشرے میں اثرات ، اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے پرنٹ ،الیکٹرانک اور براڈکاسٹ میڈیا کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون اب ہر شخص کی ضرورت بنتا جا رہا ہے ۔ یہ ہر وقت آپکے ساتھ ہوتا ہے اور اسی لئے تیز ترین رسائی کا ذریعہ بھی ہے ۔ ٹی وی یا ریڈیو تو تب ہی ابلاغ کا کام کر سکیں گے کہ جب آپ اس جگہ جہاں یہ آلات موجود ہوں جائیں اور چلا کر اہتمام سے دیکھیں یا سماعت کریں ، اسی طرح اخبار سے مستفید ہونے کے لئے بھی اس کو خریدنے اور بغور پڑھنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا دائرہ کار اس حوالے سے کافی وسیع ہے ۔ یہ تو ہر وقت آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کے ذریعے معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی اب زیادہ تر موبائل فونز پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا معلومات کی فراہمی میں دیگر ذرائع ابلاغ سے سبقت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنی پسند کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے میڈیا کی تعلیم سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے کہ جیسے نادان ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا ۔ نوجوانوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویڈیو یا تصویر کہاں تک پہنچ سکتی ہے اور اس کے ذریعے کیا کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اگر بچوں کو موبائل ویڈیو کے اثرات سے آگاہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں ۔مذاق مذاق میں بنائی گئی ویڈیو کسی کی زندگی بھی لے سکتی ہے یا پھر کسی عزت دار گھرانے کو بدنام کیا جا سکتا ہے۔ اکثر اوقات شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں موبائل کیمرہ کا کثرت سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ نوجوانوں کو اس بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کس طرح ان کی زندگی کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اور یہ سب یقینا تب ہی ممکن ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں ان موضوعات کو زیر بحث لایا جائے ۔ مدارس کے طلبہ بھی میڈیا کی اس صورت کو استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ویڈیو کلپس کی کیا اہمیت ہے اور ان سے کیا کیا تبلیغی و دینی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ خوبصورت تلاوت ، نظم ، رنگ ٹونز ، نصیحت آموز موبائل کلپس کو عام کرنے سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کئے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اچھے مطالعے اور بولنے کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو چاہیے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا اور براڈ کاسٹ میڈیا کی طرف توجہ دیں ۔ آجکل تقریبا تمام بڑے شہروں میں مقامی ایف ایم ریڈیو سٹیشینز موجود ہیں ۔ ان کے پروگرامز مقامی طور پر ہی تیار ہوتے ہیں ۔ مدارس کے طلبہ ایف ایم ریڈیو کے لئے پروگرام تیار کر سکتے ہیں جو کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سنے گی ۔ اسی طرح سی ڈی چینلز کو بھی دعوتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مدارس کے اندر ہونیوالے مباحثوں اور اہم مسائل پر علمائے کرام کی تقاریر کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کے دیگر طبقات کو علم ہو سکے کہ دینی طلبہ کے اندر کس قدر صلاحیت موجود ہے۔ ویب سائٹس پر فورم ، بلاگس ، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس غرض بے شمار سہولیات موجود ہیں کہ جن کو استعمال کرکے دعوت دین کو بڑے پیمانے پر لوگوں میں پھیلایا جا سکتا ہے ۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب طلبہ کو یہ سب سیکھایا جائے ۔ پرنٹ میڈیا میں تودینی مدارس کے طلبہ کے لئے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مواد کو مکمل پیشہ ورانہ طریقے سے تیار کیا جائے ۔ دینی رسائل ۔ اخبارات کے دینی ایڈیشنز ، کالم ، ایڈیٹر کے نام خط کی صورت میں دینی طلبہ اپنی تحریریں شائع کرا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر مدارس میں میڈیا کی تعلیم دی جائے تو دینی رسائل کے لئے بھی اچھا مواد مل سکے گا اور روایتی طرز سے ہٹ کر ایسا مواد سامنے آئے گا کہ جو معاشرے کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔

اگرملک کے ایسے بڑے دینی مدارس کہ جہاں سینکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ ان میں سے ہر مدرسہ سال صرف چار سے پانچ ایسے نوجوان سامنے لا سکے کہ جو میڈیا کا کافی حد تک علم رکھتے ہوں ۔ انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر آتاہو ، وہ میڈیا پر آکر اپنا موقف بے دھڑک بیان کر سکیں تو یقینا ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہ کاریوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ 

حاصل کلام یہ کہ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی میڈیا ہماری معاشرتی ، سماجی اور دینی اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے تو ان حالات میں ہمیں آنیوالے چیلنجز کا بھرپور اتدارک کرنا چاہیے اور ان کے خاتمہ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہیے۔ نوجوان نسل کو آج فلموں ، ڈراموں ، اشتہارات ، خبروں ، انٹرنیٹ حالات حاضرہ کے پروگرامز وغیرہ کے ذریعے ہونیوالے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین حل ابلاغ عامہ کے علم کو شامل نصاب کر دینا ہے ۔ تاکہ ہم اپنی روایات کی حفاظت کر سکیں ۔ تاکہ ہماری خودمختاری پر آنچ نہ آنے پائے، ہمارے ملک میں اسلامی ثقافت و روایات کا بول بالا ہو اور ہم ایک باعزت و باوقار قوم کے طور پر کردار ادا کر سکیں

بات کو سمیٹتے ہوئے ہم آخر میں یہ کہیں گے کہ یوں تو ٹی وی وغیرہ کے مقابلے میں انٹر نیٹ کی شرعی حیثیت شروع سے جواز کی رہی ہے، لیکن مندرجہ بالا عبرت انگیز حالات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے منفی پہلو، اس کے مثبت پہلو سے کئی گنا بڑھ کرسامنے آ رہے ہیں۔خصوصاً ان نوجوانوں کے لیے یہ بے حد خطرناک ہیں، جن کے ذہن سادہ سلیٹ ہوتے ہیں اورجن پر کوئی بھی اپنے نظریات کی تحریر لکھ سکتا ہے، وہ تحریر جو اکثر اَن مٹ ثابت ہوتی ہے۔اس لیے نوجوانوں کو نیٹ استعمال کرنے کی کھلی آزادی دینے کی بجائے ان کی نگرانی بہت ضروری ہے۔اور یہ خاص ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈرون ازم اور پرونوگرافی کے برے اثرات سے ضرور آگاہ کریں۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے دونوں سلسلے کافی حد تک نوجوانوں کے ذہنوں پر اپنا مثبت اثرات ضرور چھوڑیں گے۔یہاں پر ہم قارئین سے ایک خاص التماس کرنا چاہیں گے کہ یہ سلسلہ یا کتاب اپنے دوست آحباب تخ پہنچانے کی بھر پور کوشش کریں ہو سکتا ہے کہ آپ کی اس کاوش سے کوئی مسلمان جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچ جائے۔اور آپ کے لئے ذریعہ نجات بن جائے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک مسلمان الحاد کی گھاٹیوں میں تب ہی اترتا ہے، جب اسے شکوک و شبہات اور وسوسے گھیر لیتے ہیں، اور وہ کسی سے اس کا جواب نہیں پاتے یا پھر اپنی عقل پر بھروسہ انہیں کسی سے کچھ پوچھنے نہیں دیتا، یوں اندر ہی اندر شیطانی وسوسے بالآخر خدا کے انکار کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وسوے ہر ایک کو آتے ہیں، اس لیے کبھی کوئی نوجوان اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے بڑی حکمت عملی سے اس کا ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے وسوسوں کو دور کرنے کے لئے تسلی  بخش جواب دینے کی کوشش کریں۔
اگر کوئی بہت بری طرح وسوسوں کا شکار ہو، تو کسی اہل علم  کے پاس لے کر جانا چاہیے، کیوں کہ کبھی براہِ راست جواب کی بجائے ایسے شک کے مریضوں کا علاج صرف الزامی جوابات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خیال میں ہر شبہ، ہر شک کا حل ایمان میں پختگی ہے۔
اور ایمان کی پختگی کے لئے اللہ والوں کی صحبت بہت ضروری ہے۔اگرچہ کتاب بھی ایک صحبت کی صورت ہی ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی فیس ٹو فیس صحبت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
خدا کرے فضلاء مدارس کی ایک ٹیم تیار ہوجائے جو اس میدان میں سر گرم ہو اور اسلام کی ترجمانی کرے۔
اور اعتراضات کا جواب دے۔

ان سطور کے ذریعے ہم اربابِ اختیار سے یہ مطالبہ کرتے ہیں۔کہ اللہ کی توحید کو بلند کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔ کیونکہ  یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام فتنوں سے ساری امت مسلمہ کی حفاظت اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین۔

میں اپنی اس کاوش کو منسوب کرتا ہوں اسی علمیت کی حفاظت میں کوشاں افراد کے نام ۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...