Thursday 13 July 2017

مادے سے بھی آگے کا راز

مادے سے بھی آگے کا راز

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#66

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اندرونی دماغ‘ کی بیرونی دنیا

ان تمام طبیعیاتی حقائق کے نتیجے میں یہ ناقابل تردید خلاصہ سامنے آتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن کو دیکھا، سنا اور محسوس کیا جاتا ہے اور جس کو انسانی ذہن ”دنیا“ ”مادہ“ یا ”کائنات“ تصور کرتا ہے وہ دراصل دماغ کے ذریعے ترجمانی کئے گئے برقی اشارات ہیں۔ انسان کبھی بھی دماغ سے باہر موجود مادے کے ”اصل“ تک پہنچ نہیں سکتا۔ وہ صرف باہر کی دنیا کا وہی خاکہ چکھ، سن اور دیکھ سکتا ہے جوکہ دماغ کے اندر تشکیل پاتا ہے۔

سیب کو کھاتے ہوئے ایک شخص کا سامنا اصل پھل سے نہیں بلکہ دماغ میں پیدا ہونے والے اس پھل کے بارے میں مشاہدوں سے ہوتا ہے۔ وہ جس چیز کو سیب سمجھ رہا ہوتا ہے وہ برقی معلومات پر مبنی اس کے دماغ کا اس پھل کی ساخت، مزا، خوشبو اور کیفیت کے بارے میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ اگر اس کے دماغ میں جاتے بصارت کے عصبوں کو اچانک کاٹ دیا جائے تو وہ سیب اس کے سامنے سے فوراً غائب ہوجائے گا۔ اسی طرح سونگھنے کی حس کے عصبوں کو اگر کاٹ دیا جائے تو قوت شامہ بھی اسی وقت ختم ہوجائے گی۔ خلاصہ یہ کہ یہ سیب دماغ کے برقی مشاہدوں کی ترجمانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

فاصلے جانچنے کی حس کا بھی اسی طرح تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی شخص کے اور اس صفحے کے درمیان موجود خلا صرف دماغ میں موجود خالی پن کا ایک احساس ہے۔ دور نظر آنے والی اشیاءدماغ کے اندر بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر رات کے وقت دکھنے والے ستاروں کو کئی نوری سال کے فاصلے پر تصور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت  میں یہ ستارے انسانی دماغ میں اس کی بصارت کے مرکز کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ جب ان سطروں کو پڑھا جاتا ہے تو ان کو پڑھنے والا شخص اپنےخیال کے برعکس اس کمرے میں موجود نہیں ہے بلکہ کمرہ اس کے اندر وجود ہے۔ جسم کے متعلق مشاہدہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ہم جسم کے اندر ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جسم بھی دماغ کے اندر بننے والے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ یہی اصول دوسرے تمام مشاہدوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دوسرے کمرے سے آنے والی آوازیں دراصل دوسرے کمرے سے نہیں بلکہ دماغ کے اندر محسوس کی جارہی ہوتی ہیں۔ کئی میٹر دور سے آنے والی آوازیں اور بالکل ساتھ بیٹھے شخص کی آوازیں دونوں دماغ کے سماعت کے مرکز میں محسوس کی جاتی ہیں جس کی پیمائش فقط چند مکعب سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مشاہدوں کے ان مخصوص مراکز کے علاوہ دائیں، بائیں، آگے یا پیچھے کے کسی تصور کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یعنی کہ آواز آگے، پیچھے، دائیں یا بائیں یا اوپر سے نہیں آتی ۔ایسی کوئی ”سمت“ نہیں ہے جہاں سے آواز واقعی آتی ہو۔ اسی طرح کوئی بھی خوشبو جس کا مشاہدہ کیا جائے وہ کسی بھی خاص فاصلے سے نہیں آتی۔یہ صرف ایک خیال ہے کہ قوتِ شامہ کے مرکز میں محسوس کی جانے والی بو باہر کی اشیاءکی ہے۔ کیونکہ جس طرح گلاب کا خاکہ قوتِ بصارت کے مرکز میں موجود ہوتا ہے اسی طرح ہر طرح کی بو بھی قوتِ شامہ کے مرکز میں موجود ہوتی ہے۔ باہر کی دنیا میں موجود گلاب کی اصل شکل یا خوشبو سے براہِ راست رابطہ ہو ہی نہیں سکتا۔انسانوں کے لئے باہر کی دنیا صرف ان برقی اشاروں کا مجموعہ ہے جو کہ دماغ تک پہنچتے ہیں۔ دماغ ان اشاروں کی ترجمانی کرتا ہے اور انسان اپنی غلطی کا احساس کئے بغیر اسی خیال میں رہتا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دنیا میں موجود مادے کی اصل اور فطری رخ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک سراسر دھوکہ ہے کیونکہ اپنی حسیات کی وجہ سے انسان باہر کے مادے تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔

انسانی دماغ ان اشاروں کی ترجمانی کرکے ان کو معنی دے دیتا ہے جن کو انسان بیرونی سمجھتارہتا ہے۔ یہاں قوت سماعت کی مثال لی جاتی ہے۔ انسانی دماغ کان کے اندر پہنچنے والی صوتی لہروں کی سنگیت میں بھی ترجمانی کرتا ہے۔ موسیقی بھی ذہن کے اندر پیدا ہونے والا ایک مشاہدہ ہے۔ اسی طرح آنکھ جب مختلف رنگوں کو دیکھتی ہے تو آنکھوں کے اندر روشنی کی مختلف طولِ موج پہنچتی ہے جن کو دماغ رنگوں میں بدل دیتا ہے۔ بیرونی دنیا میں کوئی رنگ نہیں ہے۔ نہ تو سیب لال ہے، نہ آسمان نیلا اور نہ درخت ہرے۔ ان کے رنگ صرف مشاہدوں کی وجہ سے رنگین ہیں۔ آنکھ کی پتلی میں ذرا سا بھی نقص رنگوندھا پن پیدا کردیتا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو نیلا رنگ ہرا نظر آتا ہے، کچھ کو لال رنگ نیلا جبکہ کئی لوگ ہر رنگ کو خاکستری رنگ میں ہی دیکھتے ہیں۔ اس مقام پر اس بات کی غرض ختم ہوجاتی ہے کہ باہر کی اشیاءرنگین ہے یا نہیں۔ آئرلینڈ کا مشہور مفکر جورج برکلی اس نقطے پر رائے زنی کرتا ہے:

”پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ رنگ، خاکے، حرکت اور باقی تمام خصوصیات یا حادثات دماغ کے بغیر ہی وجود میں ہیں۔ لیکن اس بات کے ثابت ہوجانے سے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز روح یا ذہن کے مشاہدوں کے علاوہ کسی قسم کا وجود نہیں رکھتی، ہمارے پاس مادے کی موجودگی کو درست سمجھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔“ ۴۹۱

خلاصہ یہ کہ آنکھوں کو رنگ اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ اشیاءرنگین ہیں اور ان کا انسان سے الگ کوئی وجود ہے بلکہ وہ رنگین اس لئے ہیں کیونکہ دماغ ان کو رنگین بناکر پیش کرتا ہے۔تو پھر انسان بیرونی دنیا کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے کا دعویٰ کس بنیاد پر کرسکتا ہے؟

انسانیت کا محدود علم

اب تک بیان کئے گئے حقائق کا ضمنی مفہوم یہ ہے کہ دراصل بیرونی دنیا کے متعلق انسان کا علم بے حد محدود ہے۔ اس کا علم اس کی پانچ حسوں تک محدود ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ان پانچ حسوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ ”اصل“ دنیا ہی ہے۔ اصل دنیا اس کے مشاہدے سے بہت مختلف بھی ہوسکتی ہے۔ اصل دنیا میں مزید گہرائی اور کئی اور ایسے وجود بھی ہوسکتے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہے۔ اگر انسان کائنات کے آخری کونے تک بھی پہنچ جائے تب بھی اس کی سمجھ اور علم محدود ہی رہے گا۔ ﷲ تعالیٰ نے کائنات کی ہر جاندار اور غیر جاندار چیز کو تخلیق کیا ہے اور اس کی بنائی ہوئی جاندار چیزوں میں صرف اتنی ہی سمجھ اور علم موجود ہوسکتا ہے جتنی وہ اجازت دے۔ قرآن شریف میں سورة بقرہ میں واضح ہے کہ:

﴿ ﷲ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کو قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بے اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کی پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں آسمان اور زمینیں اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔ ﴾ (سورةبقرہ، آیت ۵۵۲)

انسان ساری عمر جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ تمام خاکے دماغ کے اندر بینائی کے مرکز کے اندر تخلیق ہوتے ہیں۔ اس مرکز کا رقبہ چند کعبی سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ چاہے یہ کتاب ہو یا کھڑکی سے نظر آنے والا وسیع نظارہ، دونوں چیزیں اس چھوٹے سے خانے کے اندر سماجاتی ہیں۔ انسانی آنکھیں ان چیزوں کو ان کی اصل پیمائش کے حساب سے نہیں دیکھتیں بلکہ اسی پیمائش سے دیکھتی ہیں جس کا مشاہدہ دماغ کرتا ہے۔(تصویر نمبر ایک دیکھیں )

مصنوعی طور پر قائم کردہ بیرونی دنیا

انسان جس دنیا کو پہچانتے ہیں وہ ایک خاص طور پر بنائی گئی اور ریکارڈ کی گئی دنیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان صرف اپنے ذہن میں تعمیر کی گئی دنیا کو پہچانتا ہے۔ انسانی دماغ کے اندر دیکھے گئے مشاہدات کئی دفعہ مصنوعی ذرائع پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔

فرض کرلیتے ہیں کہ مصنوعی طریقوں سے دماغ انسانی جسم سے الگ ہوکر زندہ رہ سکتا ہو۔ اب ایک کمپیوٹر بھی سامنے رکھ لیتے ہیں جوکہ ہر طرح کے برقی اشارے پیدا  کرسکتا ہو۔ اب کسی دئے گئے ماحول کی آوازوں، خوشبوﺅں اور منظر کے متعلق مصنوعی طور پر برقی اشارے پیدا کئے جاتے ہیں۔ اب بجلی کی تاروں کے ذریعے اس کمپیوٹر کو دماغ کی حسیات کے مرکز کے ساتھ جوڑ کر ان اشاروں کو دماغ کے اندر ارسال کیا جائے تو دماغ اس ماحول کو دیکھ اور محسوس کرسکے گا۔ یہ کمپیوٹر دماغ کے اندر برقی اشاروں کے ذریعے اس شخص کا خاکہ بھی ارسال کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بڑے سے آفس میں کسی اہم عہدے دار کے کمرے میں موجود ہونے پر جو سننا، دیکھنا اور محسوس کرنا ممکن ہے وہ تمام اشارے اگر دماغ میں بھیجے جائیں تو وہ شخص یہی یقین کرے گا کہ وہ ایک بہت بڑے آفس کا اہم عہدیدار ہے۔ یہ تصوراتی دنیا اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ کمپیوٹر یہ اشارے بھیجتا رہے۔ اس شخص کے لئے اس بات کے علاوہ کسی اور چیز پر یقین رکھناممکن ہی نہیں رہے گا کہ اس کے دماغ کے علاوہ بھی کسی دنیا کا کوئی وجود ہے۔وہ اس لئے کہ دماغ کے اندر ایک دنیا قائم رکھنے کے لئے صرف درست حسیاتی مرکزوں تک برقی اشاروں کو پہنچانا ہی کافی ہے۔ ان برقی اشاروں اور مشاہدوں کا ذریعہ کمپیوٹر جیسا مصنوعی طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں نامور فلسفہ دان برٹرانڈرسل کہتا ہے:

”ٹیبل کے اوپر انگلیاں لگانے سے انگلیوں کی پوروں پر موجود منفی اور مثبت ذروں کے برقی ارتعاش سے چھونے کا احساس پیدا ہوتا ہے جوکہ جدید طبیعیات کے مطابق ٹیبل کے مثبت اور منفی ذرات کی قربت کا نتیجہ ہے۔ اگر انگلیوں کی پوروں پر ان ذرات کا ارتعاش کسی بھی طریقے سے پیداہوسکتا تو پھر ٹیبل کے وہاں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“۵۹۱

طبیعیات کی جدید تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ یہ تمام کائنات مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ مندرجہ ذیل سوال مشہور امریکی سائنسی رسالے ”نیوسانٹسٹ“ کی ۰۳ جنوری ۹۹۹۱ ءکی اشاعت کے سرورق پر آیا تھا۔ ”حقیقت سےبھی آگے: کیا کائنات بنیادی معلومات کا ایک مذاق اور مادہ صرف ایک سراب ہے۔؟“ اسی رسالے کے ۷۲ اپریل ۲۰۰۲ ءکی اشاعت میں ”کھوکھلی کائنات“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا ہے:

”آپ نے ایک رسالہ پکڑا ہوا ہے۔ یہ آپ کو ٹھوس محسوس ہوتا ہے اور اس کا خلاءکے اندر آزاد اور بے نیاز وجود ً بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے اطراف موجود دوسری اشیاء مثلا کمپیوٹر، چائے کی پیالی وغیرہ پر بھی یہی باتیں صادق آتی ہیں۔ گو کہ یہ تمام چیزیں اصل اور موجود ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک فریب ہے۔ یہ بظاہر ٹھوس اشیاءمحض عکس اندازی ہے جوکہ ہماری کائنات کی سرحدوں پر موجود دم بہ دم بدلتے نقوش سے ابھرتی ہے۔“

کسی بھی مادی رابطوں سے عاری مشاہدوں کے اصل ہونے کے بارے میں دھوکہ کھاجانا بہت آسان ہے۔ اکثر یہ غلط فہمی خوابوں میں ہوتی ہے جب لوگ ان جگہوں، لوگوں، چیزوں اور ماحول کو دیکھتے ہیں جوکہ مکمل طور پر اصل معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل محض مشاہدے ہوتے ہیں۔ ان خوابوں اور اصل دنیا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں طرح کے مشاہدے صرف دماغ کے اندر محسوس کئے جاتے ہیں۔

مشاہدہ کرنے والا کون ہے؟

انسان کے خیال میں وہ جس بیرونی دنیا میں رہتا ہے وہ بلاشبہ اس کے دماغ کے اندر تشکیل پاتی ہے۔ یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ اگر تمام طبیعیاتی اشیاءفطری مشاہدے ہیں تو پھردماغ کیا ہے؟ چونکہ دماغ بھی انسانی بازوﺅں، ٹانگوں یا کسی بھی اور شے کی طرح مادی دنیا کا ہی حصہ ہے تو کیا یہ بھی محض ایک مشاہدہ نہیں ہے؟ اس نقطے کی وضاحت ایک مثال سے کی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ دماغ میں کسی خواب کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اوراس خواب کے اندر اس شخص کا تصوراتی جسم، بازو، آنکھیں اور تصوراتی دماغ بھی ہے۔ اگر اس خواب کے دوران اس سے پوچھا جائے کہ تم کیا دیکھتے ہو؟ تو وہ اس کا جواب دے گا کہ میں اپنے دماغ کے اندر دیکھتا ہوں، حالانکہ وہاں پر کوئی اصل دماغ موجود نہیں ہے بلکہ صرف ایک تصوراتی جسم، تصوراتی سر اور تصوراتی دماغ ہے۔ خواب کے مختلف خاکے دیکھنے والا دماغ تصوراتی دماغ نہیں ہے بلکہ اس سے الگ کوئی دماغ ہے ۔کیونکہ خواب اور اصل زندگی کے ماحول کے درمیان کسی قسم کا طبیعیاتی فرق نہیں ہے ،اگر اصل زندگی میں اسی شخص سے پوچھا جائے کہ’ تم کیا دیکھتے ہو؟‘ اس کا یہ جواب دینا کہ ’ اپنے دماغ میں‘ ایک بہت ہی بے معنی جواب ہوگا۔ کسی بھی صورتحال میں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے والا وجود دماغ نہیں ہوتا ۔دماغ توصرف عصباتی ریشہ لحمی کا مجموعہ ہے۔

نقلی تحرک سے پیدا ہونے والی حقیقت

فی الواقع حقیقت کمپیوٹر کے اندر مختلف آلات کے ذریعے سہ ابعادی خاکوں کو زندگی سے قریب تر لاکر پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ ”حقیقی دنیا“ کے متحرک خاکے کئی شعبوں میں تربیت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فی الواقع حقیقت کا سب سے نمایاں وصف ان کو خاص آلات سے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ےہ بھلا دےناہے کہ یہ تصاویر اصل نہیں بلکہ صرف نقلی خاکے ہیں۔ اس لئے یہ مادی دنیا جوکہ حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہے وہ لوگوں کے ذہنوں پر اصل دنیا کی طرح ہی اثر انداز کروائی جاسکتی ہے۔اس نقلی تحرک کے ذریعے اےک شخص تصور کرسکتا ہے کہ وہ ایک پرندے کو نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ چھو بھی رہا ہے جبکہ اس پرندے کا دراصل کوئی وجود نہیں ہے۔تصویر نمبر2 دیکھی ۔

اس مضمون میں اب تک یہی بات باور کروائی گئی ہے کہ انسان کس طرح بیرونی دنیا کو اپنے دماغ کے اندر دیکھتا ہے۔ اس کا ایک خلاصہ یہ ہے کہ اس بات کا کبھی پتہ نہیں چل سکتا کہ باہر کی دنیا کی اصل حقیقت کیا ہے۔

یہاں پر دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہن کے اندر موجود ’خود‘ جوکہ اس دنیا کو دیکھتا ہے وہ دماغ نہیں ہوسکتا۔ دماغ ایک مکمل کمپیوٹر کا نظام ہے جوکہ اپنے اندر پہنچنے والی معلومات کی تصویروں میں ترجمانی کرتا ہے اور ایک اسکرین کے اوپر ان کی نمائش کردیتا ہے ۔لیکن کمپیوٹر نہ تو خود اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اپنے وجود کے ہونے کا شعور ہوتا ہے۔ دماغ کو اگر اس شعور اور سمجھ کی تلاش میں کھولا جائے تو وہاں صرف نامیاتی مرکبات اور لحمیاتی سالمے ملیں گے جوکہ جسم کے دوسرے اعضاءمیں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بڑا ریشہ لحمی جس کو انسان ’ میرا دماغ‘ کہتا ہے اس کے اندر تصویروں کو بذاتِ خود دیکھنے، ان کی ترجمانی کرنے یا شعور سے متعلق کچھ بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اندر کوئی ایسی چیز ہے جس کو انسان اپنا ’آپ‘ یا’ خودی‘ کا نام دے سکے۔

دماغ کے اندر پیدا ہونے والی تصاویر کے بارے میں لوگ اکثر جو غلطی کرتے ہیں اس کو مشاہداتی سائنسدان آر۔ ایل۔گریگوری اس طرح بیان کرتا ہے:

”اس معاملے میں سب سے بڑی خواہش جس سے ممکنہ طور پر دور رہنا چاہئے وہ یہ کہنا ہے کہ آنکھیں دماغ کے اندر تصاویر پیدا کرتی ہیں۔ دماغ کے اندر تصاویر کے ہونے کا مطلب ہے کہ دماغ کے اندر کوئی ایسی اندرونی آنکھ موجود ہے جو ان تصاویر کو دیکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دماغ میں آنکھوں کا موجود ہونا ضروری ہے جوکہ اس تصویر کو دیکھیں۔ غرضیکہ  آنکھوں اور تصویروں کا یہ سلسلہ لامحدود ہوجائے گا جوکہ ایک نہایت ہی نامعقول تصور ہے۔“۶۹۱

اس مسئلے میں صرف مادے کے اصل ہونے پر اصرار کرتے ہوئے مادیت پسند شدید پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان دیکھتی ہوئی آنکھوں کے پیچھے کون ہے؟ دیکھنے کے بعد مشاہدے اور ردِعمل کون کرتا ہے؟ مشہور مشاہداتی ماہرِ علم الاعصاب کارل پریبرام اس ضروری سوال پر روشنی ڈالتا ہے جوکہ سائنس اور فلسفے دونوں کے لئے ضروری ہے کہ مشاہدہ کرنے والا کون ہے:

”یونانی دور سے لے کر اب تک کے فلسفہ دانوں نے مشین کے اندر ”روح“ اور ”بڑے انسان کے اندر چھوٹا انسان“ جیسے کئی قیاس پیش کئے ہیں۔دماغ کو استعمال کرنے والا ”میں“ کدھر ہے؟ اصل سمجھنے بوجھنے کا کام کون کرتا ہے؟ یا پھر اسیسی کے سینٹ فرانسس کے الفاظ میں ”جس کو ہم دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں وہی اصل دیکھنا ہے۔“ ۷۹۱

یہ کتاب، کیمرہ حتیٰ کہ انسان کے سامنے موجود ہر تصویر کا مشاہدہ دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ کیا یہ اندھے، بہرے، بے شعور اقل بنیادی ذرات ایٹم ہیں جوکہ ان تصاویر کو دیکھتے ہیں؟ یہ خصوصیت صرف چند ایٹموں میں ہی کیوں ہے اور سب میں کیوں نہیں؟ کیا انسان کی سوچنے، سمجھنے، یاد رکھنے، خوش ہونے، اداس ہونے، حتیٰ کہ ہر کام کی صلاحیت ان ایٹموں کے سالموں کے اندر کیمیائی ردِ عمل پر منحصر ہے۔ ایٹموں کے اندر کسی قسم کی مرضی ڈھونڈنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے والا وجود ایک ماوری مادہ زندہ وجود ہے جوکہ نہ تو مادہ ہے اور نہ کوئی خاکہ ہے ۔یہ وجود مشاہدوں اور انسانی جسم کے درمیان تعاون پیدا کرتا ہے۔ یہ وجود روح ہے۔

کتاب کی ان سطروں کو پڑھنے والا باشعور اور عقلمند وجود محض ایٹموں، سالموں اور ان کے درمیان ہونے والے کیمیائی ردِ عمل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک روح کا نتیجہ ہے۔

مطلق اور کامل وجود

اب ایک نہایت ہی اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اگر انسان کے سامنے موجود دنیا صرف روح کے مشاہدے ہیں تو پھر ان مشاہدں کا کیا ذریعہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرض کرلیتے ہیں کہ انسانی ذہن میں مادے کا مشاہدہ صرف تصوراتی ہے اور اس مشاہدے کے ”اصل“ سے اس کا کبھی بھی واسطہ نہیں پڑسکتا۔ چونکہ مادہ بھی انسان کے لئے ایک مشاہدہ ہے اس لئے یہ تعمیر شدہ ہے یعنی کہ یہ بھی کسی اور قوت کا تعمیر کردہ ہے۔ اسکے علاوہ یہ تخلیق یا تعمیر رکی نہیں ہے بلکہ مسلسل ہے۔ اگر یہ مسلسل نہیں ہوتی تو اب تک غائب ہوکر مکمل طور پر کھوجاتی۔ بالکل اس طرح جیسے ٹی وی کی تصویر صرف اس وقت تک نظر آتی ہے جب تک اس کو نشریاتی اشارے ملتے رہتے ہیں ۔تو پھر انسانی روح کا خالق کون ہے جوکہ روح کے علاوہ زمین، ستاروں، سیاروں، تمام لوگوں اور ہر چیز پر بھی مستقل نگاہ رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم طاقت ہے جس نے تمام مادی کائنات کو نہ صرف تخلیق کیا ہے بلکہ مستقل اپنی تخلیق کو بنائے چلا جاتا ہے۔چونکہ یہ عظیم طاقت ایک عظیم الشان تخلیق کار ہے اس لئے وہ لازماً لامحدود قوت بھی رکھتا ہے۔ یہ تخلیق کار اپنی موجودگی اور انسانوں کی موجودگی کو اپنی بھیجی ہوئی کتاب میں مفصل طور پر بیان کرتا ہے۔وہ تخلیق کار ﷲ ہے اور اس کی کتاب قرآن ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ آسمان اور زمین یعنی کہ تمام کائنات مستحکم نہیں ہے۔ اس کی موجودگی صرف ﷲ کی تخلیق نے ممکن بنائی ہے اور یہ سب چیزیں اس وقت فنا ہوجائیں گی جس وقت ﷲ تعالیٰ اس تخلیق کوختم کرنے کا قصد کرلے گا۔ سورہ فاطر کی آیت ۱۴ میں آتا ہے:

﴿ بے شک ﷲ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے ﷲ کے سوا بے شک وہ حلم والا بخشنے والا ہے۔ ﴾ (سورہ فاطر، آیت ۱۴)

اس آیت میں بیان کیاگیا ہے کہ مادی کائنات ﷲ کی طاقت کے زیر اثر کس طرح پرورش پارہی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے کائنات، زمین، پہاڑ اور ہرجاندار اور غیر جاندار چیز کو نہ صرف تخلیق کیا ہے بلکہ ہر لمحے اپنی طاقت سے اپنی تخلیق کی مستقل پرورش، کفالت اور خیال بھی کرتا ہے۔ وہ الخالق ہے، تمام مادی کائنات کا تخلیق کرنے والا جوکہ خود تخلیق نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کے باہر یقینا ایک مادی کائنات وجود میں ہے جوکہ ﷲ کی تخلیق کردہ اشیاءپر مشتمل ہے۔ لیکن معجزاتی طور پر اپنی تخلیق کی اعلیٰ نوعیت کو اشکار کرنے کے لئے ﷲ تعالیٰ انسان کو یہ مادی کائنات ایک طلسماتی خیال، فریب نظر، سایہ اور خاکے کے طور پر دکھاتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی تخلیق کی کاملیت کے نتیجے میں انسان اپنے ذہن سے باہر موجود دنیا تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس اصل مادی کائنات کا علم صرف اور صرف ﷲ کو ہے۔ اوپر دی گئی آیت کی ایک اور تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ﷲ تعالیٰ مسلسل انسانوں کو دکھنے والی مادی کائنات کے خاکوں کی دیکھ بھال کرتارہتا ہے۔ (وﷲ اعلم) اگر ﷲ تعالیٰ انسانی ذہنوں کو دنیا دکھانا نہیں چاہے گا تو انسانوں کے لئے پوری کائنات غائب ہوجائے گی اور وہ کسی طور پر بھی اس تک پہنچ نہیں سکے گا۔ اس حقیقت کا ثابت ہونا کہ انسان کے لئے مادی کائنات سے براہِ راست واسطہ ممکن ہی نہیں کئی لوگوں کے ذہن پر مسلط اس سوال کا بھی جواب ہے کہ ”خدا کہاں ہے؟“

جیسا کہ شروع میں بتایا گیا تھا کہ کئی لوگوں کو ﷲ تعالیٰ کی قوت کا ادراک نہیں ہے اس لئے ان کے خیال میں ﷲ تعالیٰ آسمانوں میں کہیں موجود ہے اور دنیاوی معاملات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ ایسے ہر قیاس سے برتر ہے۔ اس منطق کی بنیاد یہ ہے کہ کائنات مادے کا مجموعہ ہے اور ﷲ تعالیٰ کی ذات اس مادی دنیا کے باہر ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح انسان کبھی بھی مادی کائنات تک براہِ راست پہنچ نہیں سکتا بالکل اسی طرح اس کو اس کائنات کے اصل جوہر کا بھی مکمل علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ انسان کو صرف اس خالق کا علم ہے جس نے تمام کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ اس سچائی کا اظہار کرنے کے لئے امام ربانی جیسے بڑے اسلامی عالم نے کہا ہے کہ واحد سچائی ﷲ کی ذات ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز سایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو نظر آنے والی ساری دنیا صرف انسانی ذہن کے اندر ہے اور اس کے لئے دنیا کے بیرونی حصے کو محسوس کرنا ناممکن ہے۔ اسی لئے یہ سوچنا کہ خدا مادی کائنات کے ”باہر“ ہے جس تک انسان پہنچ نہیں سکتا ایک غلط تصور ہے۔ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔علم کے اعتبار سے قرآن میں آتا ہے کہ:

﴿ ﷲ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کو قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بے اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کی پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں آسمان اور زمین اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔ ﴾ (سورةبقرہ، آیت ۵۵۲)
مادی وجود ﷲ کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن ﷲ مادے کو بلکہ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ہر چیز ﷲ کی تخلیق کی ہوئی ہے۔ قرآن میں آتا ہے:

﴿ آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے پورا باطن پورا خبردار۔ ﴾ (سورة انعام، آیت ۳۰۱)

ﷲ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ انسانی آنکھیں نہیں کرسکتیں لیکن ﷲ تعالیٰ انسان کے اندر باہر ہر سوچ اور ہر خیال کی خبر رکھتا ہے۔ اس کی مرضی اور علم کے بغیر انسان نہ تو کوئی لفظ منہ سے نکال سکتا ہے اور نہ سانس لے سکتا ہے ۔اپنی تمام زندگی کے دوران انسان جب بھی کوئی مشاہدہ کرتا ہے جوکہ اس کے قیاس سے بیرونی دنیا ہوتی ہے تو حقیقتاََ اس وقت اس کے سب سے نزدیک ﷲ کی ذات کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس اصلیت کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:

﴿ اور بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں۔ ﴾ (سورة ق، آیت ۶۱)

انسان جب یہ سوچتا ہے کہ اس کا جسم مادے سے بنا ہوا ہے تووہ اس اہم حقیقت کو سمجھ نہیں پارہا ہوتا۔ اگر اس کے خیال میں اس کا دماغ اس کا اصل ”خود“ ہے تو پھر اس کے لئے ”بیرونی دنیا“ ۰۲ سے ۰۳ سینٹی میٹر دور کے فاصلے سے شروع ہوجائے گی۔ لیکن جب وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو مادے کی شکل میں نظر آنے والی چیزیں صرف اس کے ذہن کے مشاہدات ہیں تو پھر اندر، باہر قریب اور دور اس کے لئے بے معنی ہوجائیں گے۔اس کو یقین ہوجائے گا کہ ﷲ تعالیٰ اس کے ہر طرف موجود ہے اور اس کے اتنے قریب ہے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس قربت کا اندازہ اس آیت سے ہوتا ہے:

﴿ اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۶۸۱)

انسان اگر یہ سمجھے کہ اپنے سب سے نزدیک وہ خود ہے تو وہ یقینا گمراہی کے راستے پر ہے۔ حقیقت تو اس کے برعکس یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ انسانوں سے خود ان سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ سورہ واقعہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ پھر کیوں نہ ہو جب جان گلے تک پہنچے اور تم اس وقت دیکھ رہے ہو اور ہم اس کے زیادہ پاس ہیں تم سے مگر تمہیں نگاہ نہیں۔ ﴾ (سورة واقعہ، ۳۸۔۵۸)

لیکن پھر بھی لوگ اس غیر معمولی اور زبردست سچائی سے صرف اس لئے ناواقف ہیں کیونکہ یہ سچائی ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ جیسے کہ امام ربانی نے کہا ہے کہ انسان جیسے سائے کی تمام قوت اور طاقت ﷲ ہی کی دی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں آتا ہے:

﴿ اور ﷲ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو ﴾ (سورہ صٰفٰت، آیت ۶۹)

کہ انسان کی ہر حرکت اور ہر سوچ صرف اور صرف ﷲ کی قدرت سے ممکن ہے ۔سورة انفال میں آیا ہے:

﴿ تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ ﷲ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ ﷲ نے پھینکی اور اس لئے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے بے شک ﷲ سنتا جانتا ہے۔﴾ (سورة انفال، آیت۷۱)

اس آیت میں خاص طور پر اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ کوئی بھی کام ﷲ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔چونکہ انسان صرف سائے ہیں اس لئے وہ معمولی سے بھی کام پر قادر نہیں۔ یہ صرف ﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا احساس ہے کہ انسان خود سے یا اپنی مرضی سے کوئی بھی کام کرنے کے لائق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام کام صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ممکن ہیں ورنہ نہیں۔ انسان اگر اس حقیقت سے نظریں چرا کر یہ سوچتا چلا جائے کہ وہ خود سے یا اپنے آپ سے سارے کام کرنے کے لائق ہے تو وہ بے شک اسی فریب میں رہے لیکن اس کی یہ طرزِ سوچ حقیقت کو بدلنے سے قاصر ہے۔
جاری ہے۔۔۔
ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
http://ur.harunyahya.com)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...