Friday 14 July 2017

مادے سے بھی آگے کا راز

مادے سے بھی آگے کا راز

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#67(حصہ سوم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

انسان کی ملکیت میں موجود ہرچیز فطری طور پر پرفریب ہے

یہ بات واضح، سائنسی طور پر ثابت اور منطقی ہے کہ انسان کا بیرونی دنیا سے کسی قسم کا براہِ راست واسطہ نہیں ہے۔اس کا رابطہ صرف اس دنیا کی ایک نقل سے ہے جس کو ﷲ تعالیٰ بلا رکاوٹ انسانی روح کے آگے پیش کرتا رہتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر اس صورتحال کا سامنا خلوص کے ساتھ بے دھڑک کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کسی کا گھر، اس میں موجود سامان، گاڑی، اس کا آفس، اس کے زمینیں، اس کا تمام مال، کپڑے، بیوی، بچے، دوست احباب حتیٰ کہ اس کی زندگی کی ہر چیز صرف اور صر ف اس کے دماغ میں موجود ہے۔ اپنے اطراف ہر چیز جس کا مشاہدہ انسان اپنی پانچ حسیات کے ذریعے کرتا ہے وہ اسی نقلی دنیا کا حصہ ہے۔ اس نقلی دنیا میں اس کا پسندیدہ گلوکار، کرسی کی سختی، کوئی خوشبو، سورج کی گرماہٹ، پھلوں کے خوشنما رنگ یا باہر اڑتی چڑیاں، پانی پہ تیرتی کشتیاں، اس کا ذرخیز باغ، اس کے آفس میں موجود کمپیوٹر تمام چیزیں شامل ہیں۔

دماغ خلیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جوکہ چربیلے اور لحمیاتی سالموں سے تشکیل ہوا ہے۔ اس کے اندر نیورون نامی عصبی خلئے بھی موجود ہوتے ہیں۔گوشت کے اس تودے میں بذات خود خاکوں کے مشاہدے کی، شعور کے استعمال کی، یا ”میں“ نامی وجود کو بنانے اور استعمال کرنے کی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔ ان تمام باتوں سے روح کی موجودگی واضح ہوجاتی ہے۔(تصویر نمبر ایک دیکھیں )

یہی اصلیت ہے کیونکہ دنیا تو صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔ انسان کی زندگی کے محدود دورانئے میں اس کا ان تمام مشاہدات کے ہاتھوں امتحان لیا جاتا ہے جن کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان مشاہدات کو ایک کڑے امتحان کی خاطر بے انتہا پرکشش اور جاذب نظر بنایا گیا ہے۔ قرآن میں آتا ہے:

﴿ لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور ﷲ ہے اس کے پاس اچھا ٹھکانا۔ ﴾ (سورة آل عمران، آیت۴۱)

دنیا میں ان گنت لوگ مال دولت، سونے چاندی، کپڑوں، گاڑیوں اور دوسری دنیاوی عیش و عشرت کے لالچ میں دین و ایمان کا سودا کرلیتے ہیں۔ ان کی سوچ اور محنت کا مرکز صرف یہاں کی دنیا ہوتی ہے اور اس کے پیار میں وہ آخرت کو بڑے آرام سےبھلا بیٹھتے ہیں۔ دنیا کا حسن ان کو دھوکے میں ڈال کر نمازوں، صدقوں اور دوسری عبادات سے کوسوں دور لے جاتا ہے۔ آخرت کی دولت ان کے ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ ان کے بہانے بیحد بودے ہوتے مثلاً مجھے بہت کام ہیں، مجھے وقت نہیں ہے، مجھ پرذمہ داریاں ہیں، یہ سارے کام کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا، یہ تو لوگ بڑھاپے میں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان کی زندگی اور کاوشوں کا محور دنیاوی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس خود فریبی کے متعلق قرآن میں آتا ہے کہ:

﴿ جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیاوی زندگی اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں۔ ﴾ (سورة الروم، آیت۷)

ان مخصوص تین اقساط میں جس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے وہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کو سمجھ لینے سے تمام نفسانی خواہشات اور حد بندیاں بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔اس سچائی کا اعتراف اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ ہر وہ دنیاوی شے جس کے لئے انسان محنت کرتا ہے مثلاً حوس سے جمع کیا گیا مال، اس کے دوست و احباب، اس کا جسم ،اس کے اونچے اونچے عہدے، اس کی دنیاوی تعلیم، اس کی شاندار تقریبات، غرض تمام چیزیں محض سایوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ان تمام کاموں میں صرف کیا گیا وقت اور محنت بیکار اور ضائع ہے۔

بہت سے لوگ ناسمجھی کے عالم میں اپنے آپ کو بیوقوف ظاہر کرتے ہیں جب وہ دنیا کے آگے اپنے مال، دولت، اساسوں اور زمینوں کا ذکر بے انتہا غرور سے اس طرح کرتے ہیں گویا ان کا ان تمام چیزوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا براہِ راست واسطہ ہے۔ کئی دولت مند لوگ اپنی اس دولت کا مظاہرہ دنیا کے آگے اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان سے برتر کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ اگر ان کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس ہوجائے کہ وہ صرف اپنے ذہنی مشاہدات پر غرور کررہے ہیں تو ان کا کیا ردِ عمل ہوگا؟ ان کے بہت سے خوابوں میں ان کی ملکیت بڑے بڑے گھر، بہترین گاڑیاں، سونے جواہرات اور روپے ہوتے ہیں۔ انہی خوابوں میں وہ بڑے بڑے کارخانوں کے مالک، اہم عہدیدار اور بیش قیمت پوشاک کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بالکل اس طرح جس طرح خوابوں میں موجود ان چیزوں پر غرور کرنے سے وہ تضحیک کا نشانہ بنیں گے اسی طرح وہ ”اصل “ دنیاوی چیزوں پر غرور کرنے سے اتنی ہی تضحیک کے مستحق ہیں کیونکہ خواب ہو یا ”اصل“ دنیا، دونوں ہی چیزیں صرف اس کے ذہن میں موجود خاکے ہیں۔جب لوگوں کو اصلیت کا احساس ہوتا ہے تو وہ شدید شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر طرح کی بدی اور دھوکہ دہی میں ملوث لوگ جوکہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے، حسد کرنے اور اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ بھی یہ جان کر شدید ذلت اور خواری کا شکار ہوتے ہیں کہ انہوں نے تمام بدی صرف ایک غلط فہمی کے ہاتھوں انجام دی۔ﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق کیا اور اس کی حقیقت کو فرداً فرداً ہر انسان پر آشکار کیا۔ کائنات میں موجود ہر چیز اور دنیا میں موجود ہر آسائش اور شے کا حکمران اور مالک صرف ﷲ ہے۔ قرآن میں آتا ہے۔

﴿ اور ﷲ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور ہر چیز پر ﷲ کا قابو ہے۔ ﴾ (سورة النساء، آیت ۶۲۱)

یہاں پر بتائی گئی تمام باتوں پر اگر غور کیا جائے تو اس حیرت انگیز اور غیر معمولی صورتحال کو سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ دنیا ایک ایسا کرہ ہے جو کہ صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اپنی مختصر زندگیوں کے دوران لوگ اپنے مشاہدوں کے ہاتھوں آزمائے جاتے ہیں جوکہ ان کو نہایت رنگین اور جاذب نظر معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان پرفریب مشاہدوں کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔(تصویر نمبر دو دیکھیں )

ایسی چیزوں کے لالچ میں دین کو زائل کردینا سراسر حماقت ہے جو کہ صرف ذہن کے خاکے ہیں اور جن کے اصل تک پہنچنا انسان کے لئے قطعاََممکن نہیں۔انسان اس طرح مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔ دنیا تو ہر محنت کے باوجود اتنی ہی ملتی ہے جتنا مقدر لیکن آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہاں پر یہ بات سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ زیر بحث سچائی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کی تمام ملکیتیں مثلاً مال و دولت، بیوی، شوہر، بچے، عہدے اور ہر تمنا کی گئی چیز مستقبل میں غائب ہوجائےگی اسی لئے بے معنی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا اپنی تمام ملکیتوں سے کسی قسم کا براہِ راست واسطہ نہیں ہے۔ یہ تمام چیزیں ایسے مشاہدات ہیں جن کو وہ اپنے ذہن کے ذریعے دیکھتا ہے اور جو کہ صرف ان خاکوں پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ ﷲ تعالیٰ اس کا امتحان لینے کے لئے اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں طرح کی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

یہ ممکن ہے کہ کوئی اس حقیقت کا برملا اعتراف نہ کرنا چاہے اور اس دھوکے میں رہنے کو ترجیح دے کہ اس کی تمام ملکیتوں کی واقعی کوئی اصلیت ہے ۔لیکن بالآخر اس کو ایک دن مرجانا ہے اور آخرت میں جب وہ اٹھایا جائے گا تو ہر چیز واضح ہوجائے گی۔ جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:

﴿ بے شک تو اس سے غفلت میں تھا تو ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔ ﴾ (سورة ق، آیت ۲۲)

اس دن اس کو ہرچیز صاف نظر آئے گی۔ اگر اس نے اپنی تمام زندگی تصوراتی مقاصد کے پیچھے بھاگتے گزاری تھی تو وہ شدید سے خواہش کرے گا کہ کاش وہ کبھی زندہ ہی نہیں رہتا۔

﴿ ہائے کسی طرح موت ہی قصہ چکا جاتی میرے کچھ کام نہ آیا میرا مال میرا سب زور جاتا رہا۔ ﴾ (سورة حج، آیات ۹۲، ۸۲، ۷۲)

اس کے برعکس ایک عاقلانہ آدمی کائنات کی زبردست حقیقت کو اپنی دنیا کے اندر موجودگی کے دوران ہی سمجھنے کی کوشش کرے گا تاکہ اس کا وقت خسارے کا سودا حاصل کرنے میں ضائع نہ ہو۔ وہ لوگ جو سرابوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنے خالق کو بھول جاتے ہیں ان کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ:

﴿ اور جو کافر ہوئے ان کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریت کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا اور ﷲ کو اپنے قریب پایا تو اس نے اس کا حساب پورا بھردیا اور ﷲ جلد حساب کرلیتا ہے۔ ﴾ (سورة نور،آیت ۹۳)

مادہ پرستوں کی منطق میں نقص

ان تینوں اقساط میں شروع سے ہی اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ مادے کی حیثیت مادہ پرستوں کے دعوے کے مطابق ایک مطلق شے ہر گز نہیں ہے بلکہ ایک ایسا سایہ ہے جس کو ﷲ تعالیٰ خلا سے تخلیق کرتا ہے اور جس کے اصل تک انسان کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن مادہ پرست بیحد ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ثابت کی گئی سچائی کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی نفی کرنے کی غرض سے ہر طرح کے بے بنیاد جوابی دعوے سامنے لے کر آتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سچائی ان کے کھوکھلے فلسفے کی دھجیاں اڑانے کے لئے کافی ہے۔

جورج پولٹزر ایک جذباتی مارکسی اور بیسویں صدی کے مادیت پسند فلسفے کے بڑے حمایتیوں میں سے ایک تھا۔ یہ ایک بس کی مثال کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مادے کے اصل تک پہنچ سکتا ہے۔ پولٹزر کے مطابق عینیت پسند فلسفہ دان بھی اپنی طرف تیزی سے آتی بس کو دیکھ کر جان بچانے کے لئے بھاگ اٹھتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی مادے کی اصلیت کا اعتراف کرتے ہیں۔۸۹۱

سیمیول جانسن ایک اور مشہور مادہ پرست تھا جس کو بتایا گیا تھا کہ انسان کے لئے اصل مادے تک رسائی ناممکن ہے۔ اس نے اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہا کہ وہ پتھروں کو لات مار کر ان کی اصل رو سے تعلق ثابت کرسکتا ہے۔“۹۹۱

پولٹزر کا معتبر صلاح کار اور مارکس کے ساتھ جدلیاتی مادہ پرستی کا بانی فریڈرک اینگلز بھی کچھ اسی طرح کی مثال دیتا ہے کہ” اگر ہمارا کھایا گیا کھانا محض مشاہدہ ہوتا ہے تو ہماری بھوک کبھی ختم نہ ہوتی۔“۰۰۲ اسی طرح کی کئی اور مثالیں اور” آپ مادے کی اصلیت کو سمجھ جائیں گے جب آپ کے منہ پر تھپڑ مارا جائے گا“ جیسے پر جوش فقرے مارکس، اینگز اور لینن جیسے مشہور مادہ پرستوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان تمام مثالوں کو خطرے میں ڈالنے والی بے ترتیب ترجمانی ان مادہ پرستوں کی بدولت ہے جو کہ اس فقرے ”ہم مادے کی اصل تک نہیں پہنچ سکتے“ کی تشریح اس نظریئے سے کررہے ہوتے ہیں کہ اس امر میں صرف قوت بصارت ہی کا عمل دخل ہے۔ ان کے خیال سے مشاہدہ صرف بصارت تک محدود ہے اور کسی چیز کو صرف چھولینا ہی انسان کو مادے کی اصل تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر کوئی گاڑی کسی آدمی سے ٹکراجائے تو کہا جاتا ہے کہ” دیکھو گاڑی نے آدمی کو ٹکر ماردی اسی لئے اس نے اصل مادے کا سامنا کرلیا“۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اس ٹکر کے دوران وہ آدمی جن تمام احساسات سے گزرتا ہے مثلاً لوہے کی سختی، ٹکر کی تکلیف، اس کے جسم کا درد اور دوسرے تمام احساسات اس کے ذہن کی پیداوار ہیں۔

خوابوں کی مثال

حقیقت تو یہ ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اپنی پانچ حسیات میں سے کسی کو نقطہ ابتداءبناتا ہے یا نہیں کیونکہ وہ کسی کے بھی ذریعے بیرونی دنیا کے اصل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس بات کی ایک پرمعنی مثال خوابوں میں دیکھی جانے والی ان تمام چیزوں کی ہے جوکہ اس آدمی کی جاگتی دنیا میں موجود نہیں ہوتیں۔ خوابوں میں بہت قابلِ یقین واقعات پیش آتے ہیں مثلاً سیڑھیوں سے گرجانا اور ٹانگ کا ٹوٹ جانا، شدید نوعیت کا کوئی اور حادثہ پیش آجانا، پیٹ بھر کر کھالینا اور اس کامکمل احساس بھی ہونا۔ یعنی کہ وہ تمام واقعات جوکہ اصل زندگی میں پیش آنا ممکن ہوتا ہے وہ خوابوں میں بھی پیش آسکتے ہیں اور ان کے ذریعے انسان خوابوں کے اندر بھی انہیں احساسات سے گزرتا ہے۔

خواب کے اندر گاڑی کے حادثے کا شکار آدمی اس خواب کے دوران ہی اپنی آنکھیں اسپتال کے اندر بھی کھول سکتا ہے اور یہاں اس کو یہ احساس بھی ہوسکتا ہے کہ وہ معزور ہوگیا ہے ۔لیکن ہر چیز پھر بھی خواب ہی رہے گی۔ اس کے علاوہ وہ خواب میں حادثے کے ذریعے اپنے موت کے فرشتوں کا آنا اور آخرت کی زندگی کا شروع ہونا بھی دیکھ سکتا ہے۔ خواب میں محسوس کئے جانے والے تمام محسوسات مثلاً سختی، تکلیف، رنگ اور دوسرے تمام احساس نہایت واضح اور تیز ہوتے ہیں۔ وہ اتنے ہی حقیقی ہوتے ہیں جتنا کہ جیتی جاگتی زندگی میں ہوتے ہیں۔ خواب میں کھائے جانے والے کھانے سے بھی اس کا پیٹ بھرجاتا ہے۔ اگرچہ کھانا اور پیٹ کا بھرجانا دونوں ہی مشاہدے ہیں۔ جاگتی دنیا کے اس لمحے میں وہ انسان اپنے بستر میں لیٹا ہوا ہے اور اس کا رابطہ کسی سیڑھی، گاڑی اور کھانے پینے کی اشیاءسے نہیں ہے۔ اس کو محسوس ہونے والے تمام احساس صرف اور صرف اس کے خواب تک محدود ہیں۔ خوابوں کی انسانوں کو بغیر کسی طبیعیاتی رابطے کے موجود ہونے کے باوجود ایسے واقعات سے گزارنے کی خاصیت اس بیرونی دنیا کی نشاندہی کرتی ہے جس کی اصل رو سے انسان کبھی بھی واقف نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی اصل حقیقت کا ادراک صرف ﷲ تعالیٰ کی کتاب میں موجود اس کے ارشادات ہیں کیونکہ پوری کائنات کا خالق ہی وہی ہے۔ مادی فلسفے پر یقین رکھنے والے خاص طور پر مارکسی لوگوں کو جب اس سچائی کے بارے میں بتانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اشتعال میں آجاتے ہیں اور پھر یا تو مارکس، اینگلز اور لینن کی جاہلانہ اور وسطی منطق کا حوالہ دینے لگتے ہیں یا پھر جذباتی دعوﺅں میں لگ جاتے ہیں۔

ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہی تمام دعوے اور حوالے وہ خوابوں میں بھی دے سکتے ہیں۔ اپنے خواب میں وہ ”ڈاس کا پیٹال“ کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جلسوں میں شریک ہوسکتے ہیں اور کسی کے ساتھ لڑائی بھڑائی کی تکلیف بھی اٹھاسکتے ہیں۔ اگر ان سے خواب میں پوچھا جائے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں تو وہ کہیں گے کہ وہ بلاشبہ حقیقت ہی دیکھ رہے ہیں ۔بلکہ اسی طرح جس طرح وہ جاگنے پر کہیں گے۔ لیکن چاہے خواب ہو یا جاگتی زندگی دونوں چیزیں صرف اور صرف مشاہدات پر مبنی ہیں جس کے ”اصل“ ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔

مشترک نظام اعصاب کی مثال

اب ذرا پولٹزر کی گاڑی کی حادثے کے بارے میں دی گئی مثال کا تجزیہ کیا جائے گا۔ اگر حادثے میں زخمی ہونے والے شخص کاعصبی نظام، جوکہ اس کی پانچوں حسوں کو اس کے دماغ کے ساتھ جوڑتا ہے، وہ کسی اور شخص، مثلاً پولٹزر کے دماغ سے اسی لمحے جوڑ دیا جائے جب حادثہ واقع ہوا تھا تو اپنے گھر کے اندر بیٹھے پولٹزر کو بھی حادثہ اسی شدت سے محسوس ہوگا جس طرح کہ پہلے والے شخص کو ہوا ہے۔ اس کی مثال اسی طرح ہے جس طرح ایک ہی ٹیپ ریکارڈر سے جڑے ہوئے دو لاﺅڈ اسپیکروں سے ایک ہی گانا نشر ہوتا ہے۔ پولٹزر کو گاڑی کے پہیوں کا چرچرانا، اپنے جسم کا گاڑی سے ٹکرانا، ہاتھ پیر ٹوٹنا، خون بہنا، اسپتال میں جانا اور حادثے سے متعلق دوسری تمام علامات ہوبہو زخمی آدمی کی طرح محسوس ہوں گی۔ اگر پولٹرز کی بجائے دنیا کے کسی بھی آدمی کو زخمی آدمی کے عصبی نظام سے جوڑدیا جائے تو وہ انہیں احساسات سے گزرے گا۔ اگر زخمی آدمی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوجائے تو دوسرے لوگ بھی بیہوش ہوجائےں گے۔ اگر اس حادثے سے متعلق تمام مشاہدات کو کسی آلے کے ذریعے محفوظ کرلیا جائے اور کسی کو بار بار ان مشاہدات کا سامنا کروایا جائے تو وہ بار بار اس حادثے سے متعلق ہر تفصیل سے گزرے گا۔سوال یہ ہے کہ پھر زخمی آدمی اور پولٹزر کو ٹکر مارنے والی کون سی گاڑی اصل گاڑی ہے؟ اس سوال کا کسی بھی مادہ پرست فلسفہ دان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ دونوں آدمیوں نے حادثے کی تمام تفصیلات صرف اور صرف اپنے دماغ میں محسوس کی ہیں۔ یہی اصول دوسری تمام مثالوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر کھانا کھاکر سیرابی محسوس کرنے والے اینگلز کا عصبی نظام کسی دوسرے آدمی کے دماغ سے جوڑدیا جائے تو وہ آدمی بھی کچھ کھائے بغیر ہی اینگلز کی طرح سیرابی محسوس کرے گا۔

اگر مادہ پرست جانسن کے اعصاب کو کسی اور دماغ کے ساتھ بھی جوڑدیا جائے تو جانسن کی طرح وہ بھی اپنے آپ کو پتھر کو لات مارتے ہوئے وہی تکلیف محسوس کرے گا ۔تو پھر کون سا کھانا اور کون سا پتھر اصل ہے؟ یہاں پر بھی مادی فلسفہ کوئی بھی متوازن جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس سوال کا درست متوازن جواب یہ ہی کہ اینگلز اور دوسرے شخص دونوں نے کھانا کھایا بھی ہے اور سیر بھی ہوچکے ہیں لیکن صرف اپنے اپنے ذہنوں میں۔ اسی طرح جانسن اور دوسرے نے بھی پتھر کو لات ماری ہے پر صرف اپنے اپنے ذہن میں۔

اب پچھلی دی گئی مثالوں میں ایک تبدیلی کردیتے ہیں جس میں گاڑی کے حادثے کے شکار آدمی کے اعصاب کو پولٹزر کے ذہن سے اور گھر بیٹھے پولٹزر کے اعصاب کو حادثے کے شکار آدمی سے جوڑدیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں پولٹزر یہی سوچے گا کہ اس کا گاڑی سے تصادم ہوا ہے جبکہ حادثے کے اصل زخمی کو اس تصادم کا احساس تک نہیں ہوگا۔ اس کے ذہن کے حساب سے وہ پولٹزر کے گھر میں بیٹھا ہے۔ یہی منطق کھانا کھانے اور پتھر کو مارنے کی مثالوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

یہ تمام مثالیں مادہ پرستی کے کٹر پن کو عیاں کرتی ہیں جس کا فلسفہ اس مفروضے پر کھڑا ہے کہ مادے کے علاوہ کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی مادے کے اصل سے براہِ راست رابطہ پیدا نہیں کرسکتا اور اسی لئے ہر چیز کے مادی ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ انسان جس کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے وہ صرف اور صرف اس کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ مشہور انگریز فلسفہ دان ڈیوڈ ہیوم اس نقطے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے:

”اپنی طرف سے میں جب بھی ’میں‘ کا تجزیہ کرتا ہوں تو میں ہمیشہ گرم یا ٹھنڈے، روشن یا تاریک، پیار یا نفرت اور تکلیف یا آسودگی کے مشاہدوں کے اوپر لڑکھڑاجاتا ہوں۔ اپنے آپ کو میں کسی بھی لمحے پر کسی مشاہدے کے بغیر پکڑ نہیں پاتا اور اس مشاہدے کے علاوہ کسی چیز کا معائنہ نہیں کرسکتا۔“ ۱۰۲

انسان کبھی بھی ان مشاہدوں کے باہر نکل کر مادے کے اصل سے رابطہ قائم نہیں کرسکتا۔ اسی لئے کسی بھی ایسے فلسفے کی تعمیر مکمل طور پر نامعقول ہے جس میں مادے کو ایک ایسے کلی وجود کا درجہ دیا جائے جس کو انسان براہِ راست محسوس کرسکتا ہو۔ نظریئے کے طور پر مادیت پہلے قدم سے ہی بے بنیاد ہے۔

دماغ کے اندر مشاہدات کے تشکیل پانے کا عمل فلسفہ نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے۔

مادہ پرستوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک جن باتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے وہ ایک فلسفی نقطہ نظر ہے۔لیکن سادہ سائنسی حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا بیرونی مادی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا رابطہ صرف اس کی ذہن کی پیدا کی ہوئی دنیا سے ہوتا ہے۔ یہ کوئی فلسفے کا معاملہ نہیں ہے۔ ِطب کی تمام تعلیم تفصیلی طور پر

ذہن میں  تشکیل ہونے والے خاکو ں اور احساسات کو بیان کرتی ہے۔۰۲ صدی کی سائنسی تحقیق، خاص طور پر طبیعیات کا شعبہ، اس بات کی خاص طور پر وضاحت کرتا ہے کہ انسان کبھی بھی مادے کے طبیعیاتی اصل تک نہیں پہنچ سکتا اور درحقیقت ہر شخص اپنے ذہن میں موجود اسکرین پر اپنی زندگی سے متعلق مشاہدے کرتا ہے۔ سائنس پر یقین رکھنے والے ہر شخص پر اس سچائی کا اعتراف لازم ہے چاہے وہ بت پرست ہو، لادین ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ حتیٰ کہ ﷲ کی ذات سے منکر مادہ پرست بھی سائنس کی حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے۔ اس لئے یہ اور بھی اچھنبے کا مقام ہے کہ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور جورج پولٹزر جیسے قدیم اور ناکافی سائنس سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی اس سادہ سچائی کو سمجھ نہیں پاتے۔ آج کے دور کی جدید سائنسی معلومات اور تکنیکی مہارت کے ذریعے اس مفصل سچائی کو سمجھنا اور بھی آسان ہے۔ مادہ پرست البتہ اس خوف سے منجمد ہیں کہ اگر وہ اس حقیقت کا ذرا سا بھی اعتراف کرلیں گے تو وہ الٹا اپنے ہاتھوں اپنے فلسفے کا مکمل طور پر خاتمہ کردیں گے۔

مادہ پرستوں کا عظیم خوف

بہت عرصے تک اس کتاب میں زیر بحث موضوعات کے خلاف ترکی کے مادہ پرست حلقوں نے کسی شدید یا نمایاں ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ خاص طور پر اس بات کے خلاف کہ مادے کا مشاہدہ صرف دماغ میں ہوتا ہے۔ اس سے یہ خیال ذہن میں آیا کہ شاید کتاب کا موضوع صحیح طور پر واضح نہیں کیا گیا اور اس میں مزید وضاحت کی گنجائش ہے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ بات سامنے آئی کہ مادہ پرست نہ صرف اس موضوع کی مقبولیت کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں بلکہ یہ مقبولیت ان کو ایک قسم کی خوف و ہراس کا بھی شکار کررہی ہے۔ مادہ پرستوں نے رفتہ رفتہ اس خوف و دہشت کا اظہار اپنے مخصوص جریدوں، کانفرنسوں اور شرکاءکے گروہ میں زور و شور سے مشتہر کرنا شروع کردیا۔ ان کی اس معاملے میں مایوس کن اور بے چین گفتگو کا انداز اس بات کا غماز تھا کہ وہ شدید قسم کے ذہنی خلفشار سے گزررہے ہیں۔ ان کے نام نہاد سائنسی فلسفے کی بنیاد نظریہ ارتقاءکی مکمل بربادی ان کے لئے بہت بڑی پریشانی کا سبب تھی۔ ان کو اب اس بات کی پریشانی لاحق ہوگئی کہ اگر مادے کی کلی شہنشاہیت کے اوپر سے بھی ان کی پکڑ اٹھ گئی تو یہ ان کے لئے نظریہ ڈارون کی تباہی سے بھی بڑی تباہ کاری کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ موضوع ان کے لئے ایک ایسا زبردست خطرہ ہے جوکہ مکمل طور پر ان کے معاشرتی نظام کو برباد کردے گا۔

یہاں پر بتائی گئی تمام باتوں پر اگر غور کیا جائے تو اس حیرت انگیز اور غیر معمولی صورتحال کو سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ دنیا ایک ایسا کرہ ہے جو کہ صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اپنی مختصر زندگیوں کے دوران لوگ اپنے مشاہدوں کے ہاتھوں آزمائے جاتے ہیں جوکہ ان کو نہایت رنگین اور جاذب نظر معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان پرفریب مشاہدوں کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔

کھڑکی سے باہر دیکھنے والا شخص باہر موجود تصویر کو نہیں دیکھتا بلکہ اس خاکے کو دیکھتا ہے جو کہ اس کا دماغ اس کو پیش کرتا ہے۔

1. روشنی
2. برقی اشارہ
(تصویر نمبر تین ملاحظہ کریں )

مادہ پرست حلقوں کی اس پریشانی اور دہشت کا سب سے صاف گو مظاہرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ منصف رینان پکنلو نے ”سائنس اینڈ یوٹوپیا“ نامی ایک رسالے میں کیا۔ اس رسالے نے مادہ پرستی کی حمایت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس رسالے میں چھپنے والے اپنے مضمونوں اور علمی حلقوں میں پکنلو نے اس کتاب کو مادہ پرستی کا سب سے خطرناک دشمن قراردیا ہے۔ پکنلو کو کتاب کے جس مخصوص موضوع نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ نظریہ ڈارون کو ناقص قراردینے والی یہی بات ہے۔ پکنلو نے اپنے حمایتیوں کو سختی سے اس بات کی تلقین کی وہ مثالیت کی آموزش سے بچے رہیں اور مادہ پرستی پر اپنے یقین کو ڈانوا ڈول نہ ہونے دیں۔ اس نے روس کے خونی اشتراکی انقلاب کے سربراہ لینن کو اپنی تبلیغ کا حوالہ بنایا۔ اس نے ہر ایک کو مشورہ دیا کہ وہ لینن کی ایک صدی پرانی کتاب ”میٹریلزم اینڈ ایمپیریو کریٹیزم“ یا ”مادیت اور شاہی تنقید“ کو پڑھیں اور لینن کی اس بات پر عمل کریں کہ اس موضوع پر ہرگز مت سوچو ورنہ تم مادیت کی نہج سے نکل جاﺅگے اور مذہب کی رو میں بہہ جاﺅگے۔ اس نے ’ سائنس اور یوٹوپیا ‘میں چھپنے والے ایک مضمون نے لینن کی کہی گئی مندرجہ ذیل باتوں کا حوالہ دیا:

”ایک دن تم اس ظاہری سچائی کو رد کردوگے جوکہ ہم کو احساس کی حس سے ملتی ہے۔ تم تو پہلے ہی عقیدہ پرستی کے خلاف ہر ہتھیار کھوچکے ہو کیونکہ تم نے اس بات پر یقین کرنا شروع کردیا ہے کہ مادی وجود کے علاوہ خدا یا کسی وجود کا علم محال ہے اور یہی بنیادی بات عقیدہ پرستی کی شرط ہے۔ ایک تو پنجہ ہاتھ آیا لیکن پوری چڑیا کھوگئی۔ ہمارے تمام جدید ایجابی فلسفے کے پیروکار مثالیت میں پھنس گئے ہیں جوکہ عقیدہ پرستی ہی کی ایک ہلکی شکل ہے۔ وہ اسی لمحے سے پھنس گئے جس وقت انہوں نے احساس کو بیرونی دنیا کا ایک خاکہ نہیں بلکہ ایک خاص عنصر تسلیم کرنا شروع کردیا۔ یہ کسی کا احساس نہیں، کسی کا دین نہیں، کسی کی روح نہیں، کسی کی مرضی نہیں۔“۲۰۲

ان الفاظ سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لینن کو نہ صرف اس بات کے بے حد پریشان کن ہونے کا احساس تھا بلکہ یہ اس کے اثرات اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ذہنوں سے بھی کھرچ کر نکال دینا چاہتا تھا۔

گو کہ یہ بات دورِ حاضر کے مادہ پرستوں کو بھی اتنا ہی پریشان کرتی ہے لیکن پکنلو اور دوسرے مادہ پرستوں کی پریشانی اس لئے اور بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ نظریہ ڈارون اور مادہ پرستی کے خلاف جنگ سوسال پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ زور و شور اور پراثر طریقے سے لڑی جارہی ہے اور کامیاب بھی زیادہ ہورہی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس موضوع کو ناقابل تردید ثبوت، حقائق اور دلائل کی بنیاد پر رد کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود مادہ پرست سائنسدانوں کی بڑی تعداد اس سچائی کے لئے بڑی سطحی سی حمایت کا اظہار کرتے ہیں کہ مادہ کے اندر اور مادے تک پہنچنا ناممکن ہے۔ اس خاص باب میں جس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے وہ کسی بھی شخص کی زندگی کا سب سے اہم اور جذباتی نوعیت کا موضوع قرار دیئے جانے کے لائق ہے۔ یہ بہت حد تک ناممکن ہے کہ ان سائنسدانوں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ اہم کسی موضوع کا سامنا کیا ہو لیکن پھر بھی ان کی اس موضوع پر تقاریر اور مضمونوں سے ظاہر ان کا رد ِعمل اور اندازِ بیان ان کی سطحی اور سرسری فہم اور شعور کی عکاسی کرتا ہے۔

مادہ پرستوں کے ردِ عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مادہ پرستی پر ان کے اندھے اعتقاد نے ان کی منطق کو اس حد تک معذور کردیا ہے کہ وہ اس موضوع کی تہہ تک پہنچنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ مثال کے طور پر رینان پکنلو کی طرح کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ رسالے ”بیلم وی ای یوٹوپیا“ کا مصنف الائڈین سینل کہتا ہے کہ ”نظریہ ڈارون کی تباہی کو بھول جاﺅ کیونکہ حقیقت میں سب سے زیادہ خطرناک موضوع تو یہ ہے۔“ اس نے لوگوں سے پرزور مطالبہ کیا کہ ”جو تم بولتے ہو اس کو ثابت کرو“ کیونکہ اس کو اچھی طرح سے احساس تھا کہ اس کا اپنا فلسفہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مصنف کی لکھی گئی کئی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ جو خود اس حقیقت کو اتنا بڑا خطرہ کہہ رہا ہے اس کو اس حقیقت کی گہرائی کا معمولی سا بھی شائبہ نہیں ۔مثال کے طور پر ایک مضمون جس میں سینل اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتا ہے اس میں وہ کہتا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسانی ذہن میں بیرونی دنیا ایک خاکے کی صورت میں ہی ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن اس کےبعد وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خاکے دو حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں، ایک حصے میں وہ خاکے ہوتے ہیں جن کے طبیعیاتی جوڑ موجود ہوتے ہیں اور دوسرے حصے میں وہ خاکے جن کے طبیعیاتی جوڑ نہیں ہوتے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم لازماً خاکوں کے بیرونی دنیا کے طبیعیاتی جوڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس دعوے کی حمایت میں وہ لکھتاہے کہ:

”مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ میرے ذہن میں موجود خاکوں کا بیرونی دنیا میں کوئی جوڑ موجود ہے کہ نہیں لیکن یہی اصول اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے جب میں فون پر گفتگو کرتا ہوں۔ جب میں فون پر گفتگو کرتا ہوں تو میں دوسرے سرے پر موجود آدمی کو دیکھ نہیں سکتا لیکن ہمارے درمیان کی گئی اس گفتگو کی تصدیق ہماری اگلی ملاقات پر کرسکتا ہوں۔“۳۰۲

ان تمام باتوں سے اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اگر انسان اپنے مشاہدات پر شک کرے تو وہ ان کے اصل کو دیکھ کر ان کی تصدیق کرسکتا ہے۔ یہ ایک واضح فریب ہے کیونکہ انسان کا مادے کے اصل تک پہنچنا ناممکن ہے۔ وہ اپنے ذہن سے باہر بیرونی دنیا کو ”ہاتھ لگانے“ کے لئے کبھی نکل ہی نہیں سکتا۔ فون پر کی گئی گفتگو کا حقیقی جوڑ ہے کہ نہیں؟ اس بات کی تصدیق اس شخص سے بالمقابل ملاقات سے ہوسکتی ہے۔ حالانکہ یہ تصدیق بھی دراصل ذہن میں پیدا ہوا ایک مشاہدہ ہی ہے۔

ان تمام باتوں کو لکھنے والے مصنف یہ سارے واقعات اپنے خوابوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سینل اپنی فون پر کی جانے والی گفتگو خواب میں بھی دیکھ سکتا ہے اور پھر اس کی تصدیق بھی خواب میں ہی اس شخص سے ایک بالمقابل ملاقات میں کرسکتا ہے۔ یا پھر پکنلو خواب میں ہی اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کو لینن کی ایک صدی پرانی کتاب پڑھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ چاہے وہ کچھ بھی کرلیں یہ مادہ پرست کبھی بھی اس بات سے انحراف نہیں کرسکتے کہ ان کے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات اور وہ تمام لوگ جن کے ساتھ انہوں نے گفتگو کی تھی وہ ان کے ذہنی مشاہدات کے علاوہ کچھ اور چیز تھے۔

تو پھر ان ذہنی خاکوں کے جوڑوں کی تصدیق کون کرسکتا ہے؟ کیا انسانوں کے بصارت کے مرکز میں موجود سایہ نما لوگ ان جوڑوں کی موجودگی کی تصدیق کریں گے؟ مادہ پرستوں کے لئے کسی بھی ایسے بیرونی ذرائع کو ڈھونڈنا ناممکن ہے جوکہ ذہن کے باہر موجود ”معلومات‘ ‘ کی تصدیق کرسکے۔ اگر کوئی اس بات کا اعتراف تو کرلے کہ یہ تمام مشاہدات ذہن میں ہی تشکیل ہوئے ہیں لیکن اس بات پر پھر بھی اصرار کرے کہ ان مشاہدات کی دنیا سے ”باہر“ نکلنا اور اصل بیرونی دنیا کے ہاتھوں کی تصدیق کرنا ممکن ہے تو پھر یہ اس شخص کی محدود مشاہداتی صلاحیت اور معذور منطق کو ثابت کرتی ہے۔ یہ تمام حقائق معمولی سی عقل و فہم اور منطق کے حامل انسان کے لئے بھی سمجھنا بہت آسان ہے ۔کسی بھی غیر متعصبانہ انسان کے لئے یہ بھی سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانی حسیات کی بیرونی دنیا تک پہنچ ممکن ہی نہیں۔ لیکن مادہ پرستی سے اندھا لگاﺅ لوگوں کی منطقی صلاحیات کو معذور کردیتا ہے۔

اپنے پچھلوں کی طرح جدید مادہ پرست بھی انہی شدید منطقی کمزوریوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جب وہ اس بات کو ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں کہ وہ کھانا کھالینے یا پتھروں کو لات ماردینے سے مادے کے اصل تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ کوئی حیران کن صورتحال نہیں ہے۔ ناسمجھی کی یہ کمزوری ،یعنی کہ دنیا اور اس کے واقعات کی معتبر منطق کے ساتھ تشریح ،دراصل بے دین لوگوں کی ایک عام علامت ہے۔ ﷲ تعالیٰ قرآن میں سورة مائدہ کی آیت ۸۵ میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ سمجھ بوجھ سے عاری لوگ ہیں۔

مادہ پرست تاریخ کے سب سے بڑے جال میں پھنس گئے ہیں

دنیا کے مادہ پرست حلقے جس پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں اس کی اس کتاب میں صرف تھوڑی سی ہی مثالیں دی گئی ہیں اور ان سب مثالوں سے ثابت ہے کہ مادہ پرست شدید ناکامی کا شکار ہیں۔ جدید سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ انسان مادے کے اصل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس بات کو سائنس نے صاف گو، پرزور اور پر اثر طریقے سے دنیا کے آگے پیش کردیا ہے۔ مادہ پرستوں کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ وہ مادی دنیا جس کے اوپر ان کے تمام فلسفے کی بنیاد ہے ایک ایسی مشاہداتی سرحد ہے جس کو وہ کبھی بھی عبور نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت کے سامنے ان کا کوئی زور نہیں چلتا۔ پوری انسانی تاریخ کے دوران مادیت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ چونکہ مادہ پرستوں کو اپنے اوپر اور اپنے فلسفے کے اوپر اتنا اعتماد تھا اسی لئے انہوں نے اسی خدا کے خلاف محاذ کھڑا کرلیا جس نے ان کو تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دینا شروع کردیا کہ مادہ ایک ابدی حقیقت ہے جس کا کوئی خالق نہیں۔ اپنی ہٹ دھرمی میں خدا سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے مادے کے وجود میں پناہ تلاش کرنی شروع کردی جس کے ساتھ ان کی خیال میں ان کا براہِ راست واسطہ ہے۔ اس فلسفے پر ان کی خود اعتمادی اتنی بڑھ گئی کہ انہیں بات کا یقین ہوگیا کہ کوئی بحث اس فلسفے کو غلط ثابت نہیں کرسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ مادے کی اصل نوعیت سے متعلق اس کتاب میں موجودہ حقائق نے ان لوگوں کو حیران کردیا۔ ان حقائق نے ان لوگوں کے فلسفے کی جڑوں کو برباد کردیا اور مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔وہ مادہ جس کے اوپر ان کی تمام سوچ، زندگی، ہٹ دھرمی اور انکا رکی عظیم و شان عمارتیں کھڑی ہیں وہ اچانک غائب ہوگیا۔کسی بھی انسان نے مادے کا اصل نہیں دیکھا اس لئے کسی فلسفے کا اس پر قائم کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ﷲ تعالیٰ کی ایک صفت بے دین لوگوں کے خلاف اس کی منصوبہ بندی ہے۔ سورة انفال کی آیت نمبر ۰۳ میں آتا ہے:

﴿ اور اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کردیں یا نکال دیں اور وہ اپنے ساتھ مکر کرتے تھے اور ﷲ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور ﷲ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔ ﴾ (سورة انفال، آیت نمبر۰۳)

ﷲ تعالیٰ نے مادہ پرستوں کو اس خیال میں مبتلا کرکے کہ مادے کا ایک ابدی اور دائمی وجود ہے اور پھر اسی یقین کے ہاتھوں ان کو ذلیل و رسوا کرکے ایک زبردست جال میں پھنسالیا۔ مادہ پرستوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کی تمام ملکیت، عہدے، معاشرے اور کل کائنات کبھی نہ ختم ہونے والی ابدی حقیقت ہے۔ انہی تمام چیزوں پر انحصار کرنے سے ان کا رویہ ﷲ تعالیٰ سے رعونیت پسند ہوچلا۔ اپنے غرور میں وہ ﷲ سے باغی ہوگئے اور اپنی بے دینی میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ اس تمام عمل کے دوران مادے پر ان کا یقین بھی سوا ہوگیا۔ ان کی سمجھ اتنی ناقص ہے کہ وہ یہ سادہ سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ﷲ ان کے چاروں طرف، اندر باہر ہر جگہ موجود ہے ( علم کے اعتبار سے)اور وہ ان کا حال ان سے بہتر جانتا ہے۔ بے دین لوگوں کا یہ حال ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔ سورة طور میں آتا ہے:

﴿ یا کسی داﺅں (فریب) کے ادارہ میں ہیں تو کافروں ہی پر داﺅں (فریب) پڑنا ہے۔ ﴾ (سورة طور، آیت ۲۴)

مادہ پسندوں کی شکست تو شاید تاریخ کی سب سے بڑی ذہنی شکست ہے۔ اپنے بڑھتے ہوئے تکبر کے ہاتھوں ہی ان کو دھوکہ ہوگیا اور ﷲ کے خلاف سازش کرنے کی دھن میں وہ خود ہی اس سازش کا شکار ہوگئے۔ سورة انعام میں ﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کے انجام کے متعلق فرماتا ہے:

﴿ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کئے کہ اس میں داﺅ کھیلیں اور داﺅ نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعور نہیں ﴾ (سورة انعام، آیت ۳۲۱)

اسی زمرے میں ایک اور آیت آئی ہے کہ:

﴿ فریب دینا چاہتے ہیں ﷲ اور ایمان والوں کو اور حقیت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں ﴾ (سورة بقرہ، آیت۹)

ان سازشوں کو تشکیل دیتے ہوئے بے دین لوگوں کے ذہنوں میں لمحے بھر کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کو پیش آنے والے تمام واقعات صرف اور صرف ان کے ذہنوں کی پیداوار ہیں اور ان کی ساری منصوبہ بندیاں بھی ان کے ذہن تک محدود ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ان کا ہر دوسرا کام ہے۔ اپنی بے عقلی میں وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ وہ ﷲ تعالیٰ کے ساتھ اکیلے ہیں اور اپنی منصوبہ بندیوں کے بُنے ہوئے جال میں خود گر رہے ہیں۔ماضی کے بے دین لوگوں کی طرح دوِ حاضر کے یہ بے دین لوگ بھی ایک ایسی حقیقت کے بالمقابل آچکے ہیں جوکہ ان کے شیطانی منصوبوں کا مکمل خاتمہ کردے گی۔ سورة النساءمیں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ ایمان والے ﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطان کا داﺅ کمزور ہے۔ ﴾ (سورة النسائ، آیت ۶۷)

ﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ان تمام منصوبوں کا انجام پہلے دن سے ناکامی ہے اور وہ اس آیت سے ایمان والوں کو خوشخبری دیتا ہے:

﴿ تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگے اور تم کو برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوں اور اگر تم صبر اور پرہیزگاری کئے رہو تو ان کا داﺅ تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا بے شک ان کے سب کام خدا کے گھیرے میں ہیں ﴾ (سورة آل عمران، آیت۰۲۱)

ایک اور آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ اور جو کافر ہوئے ان کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریت کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا اور ﷲ کو اپنے قریب پایا تو اس نے اس کا حساب پورا بھردیا اور ﷲ جلد حساب کرلیتا ہے۔ ﴾ (سورة نور،آیت۹۳)

مادیت باغی اور سرکش لوگوں کے لئے ایک سراب ہے کیونکہ جب وہ مادیت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو اس کا فلسفہ ان کے لئے صرف ایک فریب ثابت ہوتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ان کو اس سراب کے ذریعے دھوکے میں رکھتا ہے اور ان کو مادے کے بارے میں تمام مشاہدات حتمی اور دائمی محسوس ہوتے ہیں۔ یہ تمام نامور پروفیسر، ہیئت دان، ماہرِ حیاتیات، ماہرِ طبیعیات اور دوسرے کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اونچے پایہ کے سائنسدان اپنے عہدے اور اعلیٰ علم کے باوجود دھوکے میں آکر شدید ذلت کاشکار ہوتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ مادے کو خدا مان لیتے ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ وہ اس کے اصل تک پہنچنے سے قاصر ہیں وہ پھر بھی مادے کو یقینی اور حتمی مان کر اپنے تمام فلسفے اور فکریات کی بنیاد عقل کے اس عظیم دھوکے پر رکھتے ہیں اور اس کے متعلق سنجیدہ غور و فکر اور بظاہر پڑھی لکھی بحث و مباحثے میں دنیا کو الجھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی عقل ان کو کائنات کی سچائی کے بارے میں بحث کرنے کے لائق بنا دیتی ہے اور وہ اپنی محدود سمجھ سے ﷲ تعالیٰ پر تنقید کے بھی اہل ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال کو ﷲ تعالیٰ سورة آل عمران میں اس طرح بیان کرتا ہے:

﴿ اور کافروں نے مکر کیا اور ﷲ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور ﷲ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے ﴾ (سورة آل عمران، آیت ۴۵)

ایک عام انسان شاید دنیا میں لوگوں کی منصوبہ بندیوں سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن بے دین لوگوں کے خلاف ﷲ تعالیٰ کے منصوبے اتنے حتمی اور مضبوط ہیں کہ ان سے فرار حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ﷲ تعالیٰ کے عتاب سے کوئی پناہ نہیں اور اس کی پناہ صرف اس کے مالک، خالق اور ایک ہونے کے اعتراف سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ سورة النساءکی آیت نمبر ۳۷۱ میں آتا ہے:

﴿ تو وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مزدوری انہیں بھرپور دے کر اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے گا اور وہ جنہوں نے نفرت اور تکبر کیا تھا انہیں دردناک سزا دے گا اور ﷲ کے سوا نہ اپنا کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار۔ ﴾ (سورة النساء، آیت ۳۷۱)

مادہ پرستوں کو ایسے جال میں پھنسنے کی امید تھی ہی نہیں۔ ۱۲ ویں صدی کی تمام سائنسی اور تحقیقی طاقت سے لیس ہوکر وہ مزید پریقین ہوچلے تھے کہ ان کی ہٹ دھرمی اور انکار کا کوئی توڑ ہو ہی نہیں سکتا اور وہ اندھا دھند پوری دنیا کو بھی اپنے عقیدے میں شامل کرتے چلے جائیں گے۔ بے دین لوگوں کی اس مخصوص ذہنیت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:

﴿ تو دیکھو کیسا انجام ہوا ان کے مکر کا ہم نے ہلاک کردیا انہیں اور ان کی ساری قوم کو تو یہ ہیں ان کے گھر ڈھے پڑے بدلہ ان کے ظلم کا بے شک اس میں نشانی ہے جاننے والوں کے لئے۔ ﴾ (سورة النمل، آیت۰۵۔۱۵)

مادہ پرستوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کی ہر ملکیت دراصل ان کے ذہن کا حصہ اور محض ’مکر‘ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جیسے جیسے ان کے ہاتھ میں موجود ان کی ہر چیز مثلاً ان کے اثاثے، سونے، جواہرات، بچے، بیوی، شوہر، دوست، عہدے حتیٰ کہ ان کے جسم بھی جس کو وہ لافانی خیال کرتے تھے ان سے دور ہوتی جائیں گے تو وہ اس حقیقت کے بالمقابل آتے جائیں گے کہ یہ مادہ نہیں بلکہ ﷲ کی ذات ہے جوکہ لافانی اور ابدی ہے۔اس سچائی کا ادراک کسی بھی مادہ پرست کے لئے ایک ناقابل بیان تکلیف کا مقام ہے۔ وہ مادہ جس کے اوپر انہوں نے اندھا ایمان، اعتقاد اور یقین رکھا وہی ان سے دور ہوجاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں یہ صورتحال ”موت سے پہلے موت“ کے مشابہ ہے جس کے نتیجے میں وہ ﷲ کے ساتھ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ سورة مدثر آیت نمبر۱۱ میں آتا ہے:

﴿ اسے مجھ پر چھوڑ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ﴾ (سورة مدثر، آیت ۱۱)

یہ زبردست حقیقت کئی اور سورتوں میں بھی واضح ہے:

﴿ اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے جو مال و متاع ہم نے تمہیں دیا تھا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کا تم اپنے میں ساجھا بتاتے تھے بے شک تمہارے آپس کی ڈور کٹ گئی اور تم سے گئے جو دعوے کرتے تھے۔ ﴾ (سورة انعام، آیت ۴۹)

﴿ اور ان میں ہر ایک روزِ قیامت اس کے حضور اکیلا حاضر ہوگا۔ ﴾ (سورة مریم، آیت ۵۹)

اس آیت کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ مادے کو اپنا خدا ماننے والوں کو بھی ﷲ نے ہی بنایا ہے اور ان کو بھی ﷲ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے،چاہے وہ اس چیز کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔ روزِ محشر کے دن ہر انسان سے حساب لیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔

موضوع کی اہمیت

ان تین اقساط میں بیان کی گئی مادے کی اہمیت کے پیچھے پوشیدہ اصل راز کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔انسان کو نظر آنے والی ہر چیز پہاڑ، میدان ، پھول، سمندر، لوگ، غرض ایک ایک تنکا اﷲ تعالیٰ نے خلا سے تخلیق کیا لیکن وہ پھر بھی نظر آتا ہے اور موجود ہے ۔لیکن لوگوں کو یہ تمام چیزیں اپنی حسیات کے مشاہدوں سے ہی نظر آتی ہیں اور وہ اس سے مزید’ اصل‘ تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ایک ایسی سائنسی حقیقت ہے جس کو ہر طبی کتاب میں اہمیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ اس مخصوص کتاب کو پڑھنے والا اس کے اصل تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اصل کتاب میں سے نکلنے والی شعاعیں آنکھوں کی خلیوں کے ذریعے برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں جوکہ دماغ میں بصارت کے مرکز تک پہنچ کر کتاب کے خاکے میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس کتاب کو آنکھیں نہیں پڑھ رہیں بلکہ دماغ کے پچھلے حصے میں موجود بصارت کا مرکز اس کو اس مشاہدے میں تبدیل کررہا ہے جس کے ذریعے یہ کتاب نظر آرہی ہے۔ دماغ میں موجود کتاب اصل کتاب کی نقل ہے۔ اصل کتاب کی حقیقت کا علم صرف ﷲ تعالیٰ کو ہے۔ انسان وہی دیکھ رہا اور اتنا ہی دیکھ رہا ہے جتنا کہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مادے کا ذہن میں خاکہ موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ذہن مادے کی موجودگی کو مکمل طور پر رد کردے۔ بلکہ یہ تو مادے کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے کا ذریعہ ہے کہ انسان مادے کی اصل سے رابطہ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ گو کہ بیرونی دنیا میں موجود مادہ صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ ہر انسان کو نظر آتا ہے حتیٰ کہ ﷲ تعالیٰ کے کاموں پر معمور فرشتوں کو بھی یہ مادہ نظر آتا ہے،لیکن اس کے اصل کا علم صرف اللہ کو ہے:

﴿ اے محبوب وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماﺅ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ ﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو بے شک ﷲ جانتا ہے آسمانوں اور زمین کے سب غیب اور ﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ ﴾ (سورہ ق، آیت ۷۱۔۸۱)

ﷲ تعالیٰ بھی ہرچیز کو دیکھتا ہے اسی نے یہ پوری کائنات اس کی تمام تر تاریکیوں کے ساتھ تخلیق کی اور وہ اس کی ہر کیفیت اور ہر تفصیل سے آگاہ ہے۔ قرآن میں آتا ہے:

﴿ اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو اور پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہئے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا اور پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کےمقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے یہ ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواﺅ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کر دو اور ﷲ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ ﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۳۳۲)

ﷲ تعالیٰ ہر چیز کے بارے میں معلومات لوح محفوظ میں درج کرتا جاتا ہے۔ انسان کو جن باتوں کا علم بھی نہیں ان کا بھی اندراج اس کتاب میں محفوظ ہے۔ ﷲ اس کے بارے میں کہتا ہے:

﴿ اور بے شک وہ اصل کتاب میں ہمارے پاس ضرور بلندی و حکمت والا ہے۔ ﴾ (سورة زخرف، آیت ۴)

﴿ اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں۔ ﴾ (سورة نمل، آیت۵۷)

اختتام

اس کتاب کا موضوع کسی بھی زندگی میں آنے والی سب سے بڑی سچائی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس بات کو ثابت کردینا کہ بیرونی مادی دنیا صرف انسانی ذہن میں موجود ہے اور انسانوں کا اس دنیا کے ”اصل“ سے کبھی بھی کوئی واسطہ پیدا نہیں ہوسکتا ﷲ تعالیٰ کی موجودگی ،اس کی تخلیق کا اعتراف اور اس کی وحدانیت پر یقین دلانے کے لئے کافی ہے۔ جس شخص کو اس کتاب کے موضوع کی سمجھ آجائے وہ جان لے گا کہ دنیا دراصل وہ ہے ہی نہیں جو اس کو اب تک نظر آرہی تھی۔ یہ وہ حقیقی اور دائمی جگہ ہے ہی نہیں جس میں لوگ بڑے بڑے کمروں اور گاڑیوں میں تکبر کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے لوگوں سے لڑتے بھڑتے ہیں اور اپنی پوری زندگی کھوکھلے مقاصد کی تکمیل میں صر ف کردیتے ہیں۔ دنیا تو ذہن میں بننے والا ایک ایسا خاکہ ہے جس کے اصل تک انسان پہنچ ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں موجود ہر جاندار اور انسان کے لئے دنیا ان کے دماغ میں ایک خاکے کے سوا کچھ بھی نہیں جس کے اصل کو وہ کبھی بھی نہیں پاسکتے اور پھر بھی وہ اس زبردست حقیقت سے لاعلم ہیں۔یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جو کہ ﷲ تعالیٰ کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے اس مادی فلسفے کو مکمل طور پر کھوکھلا بنادیتی ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو سمجھ لینے سے مارکس، اینگلز اور لینن جیسے مادہ پرست نہ صرف پریشانی کا شکار ہوگئے بلکہ شدید غصے میں بھی آگئے اور اپنے پیروکاروں کو سختی سے تنبیہ کردی کہ وہ اس حقیقت کے بارے میں سوچیں بھی نہیں ۔ مادہ پرستوں کے ذہن اور سوچ اتنی ناقص ہوتی ہے کہ وہ اتنی سی بات کا ادراک بھی نہیں کرسکتے کہ بیرونی دنیا کے بارے میں ہر مشاہدہ ذہن کے اندر تشکیل ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہی اصل بیرونی دنیا ہے اسی لئے کسی اور خیال تک ان کی سوچ جاتی ہی نہیں۔ یہ لاعلمی عقل و فہم کی وہ کمی ہے جوکہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بے دین لوگوں میں موجود ہوتی ہے۔ قرآن میں آتا ہے:

﴿ اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہیغفلت میں پڑے ہیں۔ ﴾ (سورة اعراف، آیت ۹۷۱)

اپنے ذاتی غور و فکر کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی انسان اس سچائی کی مزید گہرائی میں جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اس کا اپنے ذہن کو تعصب سے پاک کرنا شرط ہے۔ اس کے بعد وہ ارد گرد موجود چیزوں پر غور کرے کہ وہ کیسی محسوس ہوتی ہیں۔ اگر توجہ سے صرف اسی کتاب کے بارے میں سوچا جائے تو یہ احساس ہو گا کہ اس کتاب کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچنے والا وجود صرف روح ہے جوکہ اس کتاب سے متعلق مشاہدات کو ذہن میں دیکھ رہی ہے۔ جس کسی کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی وہ مادیت کے اس فریب سے دور ہوجائے گا جس میں انسانیت پھنسی ہوئی ہے اور وہ بلاشبہ زندگی کی اصل سچائی کو پالے گا۔اس سچائی کو تاریخ میں کئی فلسفہ دانوں اور خدا پرستوں نے پالیا تھا ۔وحدة الوجود کا تصور بھی اس سچائی کی غلط تشریح اور کسی بھی خالق کی موجودگی کو رد کردینے کی وجہ سے دھندلا گیا تھا۔ امام ربانی نے اس تصور کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا۔ امام ربانی کے مطابق ”تمام جاندار اور ہر تخلیق ایک سایہ ہے جس کی اصل شناخت ﷲ کی ذات ہے۔“

امام ربانی، محی الدین ابن اعرابی اور مولانا کامی جیسے بلند پایہ اسلامی دانشوروں نے بھی اپنی منطق استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کو قرآن کے اشاروں سے اخذ کرلیا تھا۔ کچھ مغربی فلسفہ دانوں مثلاً جورج برکلی نے بھی یہی سچائی اپنی عقل و فہم سے حاصل کرلی۔ امام ربانی نے اپنے خطوط میں لکھا ہے کہ ”تمام مادی کائنات ایک خاکہ اور مشاہدہ ہے اور صرف ﷲ کی ذات ہی حتمی اور اصل وجود ہے۔

پوری تاریخ میں اس حقیقت کو سمجھنے والوں کی تعداد ہمیشہ محدود رہی ہے۔ امام ربانی جیسے بلند پایہ دانشور نے لکھا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کو یہ حقیقت بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتاکیونکہ شاید ان کو یہ بات کبھی بھی سمجھ نہیں آتی۔ لیکن دورِ حاضر میں یہ حقیقت سائنسی ثبوت کے ذریعے واضح اور ثابت کردی گئی ہے۔ پہلی دفع مادے کے حتمی نہ ہونے اور اس کے بارے میں انسانی سوچ اور معلومات کا نہایت محدود ہونے کو ٹھوس، صاف اور واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔اسی وجہ سے ۱۲ ویں صدی ایک فیصلہ کن تبدیلی کا دور ہے جس میں لوگ جوق در جوق اس الوہی سچائی کو سمجھ لیں گے اور ﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں گے۔ ۱۲ ویں صدی میں ۹۱ ویں صدی کے مادی معتقدات تاریخ کے کچرے کے ڈھیروں کی نظر ہوجائیں گے، ﷲ کی تخلیق اور موجوگی کا اعتراف کرلیا جائے گا اور وقت اور خلا کی غیر موجودگی کا تصور بھی واضح ہوجائے گا۔ انسانیت صدیوں پرانے فریبوں، نقابوں اور توہمات سے آزاد ہوجائے گی۔مادیت جیسا کوئی بھی سایہ صفت وجود یا تصور اس ازلی اور دائمی سفر سے انسانیت کو روک نہیں سکتا۔
 ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
http://ur.harunyahya.com)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...