Tuesday 25 July 2017

نظریہ ارتقاء اور فتنہ پرویزیت

نظریہ ارتقاء اور فتنہ پرویزیت

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#78

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن

ذہن نشین رہے  اس کی تفصیلی معلومات 
"زندگی کی پیدا ئش: اللہ تعالی کی تخلیق یا ارتقا؟ "والے حصہ میں پیش کی جائے گی۔یہاں ہم صرف مغربی افکار سے مرعوب چند ایک قرآنی مفکرین کا مختصر جائزہ لیں گے جو اسلام کا لبادہ اڑھ کر عوام الناس کو گمراہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔

ہمارے ہاں مغربی افکار سے مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا. سرسید احمد خان نے جنہوں نے یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید متاثر تھے. اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا توا سے قبول کر لیا اور آج ادارہ طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے. سوچنے کی بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کو رد کر کے اس( یقینی علم) کو سینے سے لگانے کی کیا ضرورت تھی.
سائنسی نظریات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد سائنسی قانون (Law) بن جاتے ہیں، تب بھی انہیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا. بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کر سکتے ہیں. نیوٹن کے دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قرار دیا، یہی صورتحال اس کے قوانین حرکت کی ہے تو کیا ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف و تاویل کے ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قرار دیا جاسکتا ہے؟
پرویز صاحب نے اس نظریہ ارتقاء کو دو شرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ یہ زندگی خدا نے عطا کی تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکر و شعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ خداوندی کا نتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع ہوا. فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے.

اب سوال یہ کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفح روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ آدم علیہ السلام کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کر لیا جائے؟
تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہو جائے. مثلاً یہ کہ جب نوع انسانی پہلے سے چلی آ رہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کے سارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد واحد میں؟
اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھا اور یہ واقعہ کس دور میں ہوا تھا؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں. انسان کی تخلیق کے حوالہ سے اسی سلسلہ میں عنقریب تفصیلی اقساط آگے آ رہی ہیں جو قارئین کے لئے کافی مفید ثابت ہوں گی۔۔

نظریہ ارتقاء کے حق میں قرآنی دلائل

اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں.

پہلی دلیل سورہ نساء کی پہلی آیت ہے کہ

اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾

اے لوگو!اپنے اس پروردگار سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا. پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے. (1:4)

یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں. اور یہی کچھ کتاب وسنت اور آثار سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا. پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا. اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو بالآخر جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے.
یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے؟
لہذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام، زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور تولد وتناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیل گئے۔

دوسری دلیل سورہ علق کی ابتدائی دو آیات ہیں.

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم( اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے ( کائنات کو) پید اکیا اور انسان کو علق(جما ہوا خون)سے پیدا کیا (1,2:96)

علق کا لغوی مفہوم نر و مادہ کے ملاپ کے بعد نطفہ کا جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کر لینا ہے. کہتے ہیں عَلَّقَتِ الانثیٰ بِالوَلَدِ مادہ حاملہ ہو گئی) المنجد (اور چونکہ یہ جما ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کر لیتا ہے لہذا جونک کو بھی علق کہہ دیتے ہیں. ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرامعنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے.

رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائے زندگی کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورہ مومنون کی یہ آیت دور کر دیتی ہے.

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ

پھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر انسان کو نئی صورت میں بنا دیا. اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق ہے (14:23)

اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم علق سے وہ مفہوم سمجھ سکتے تھے جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں؟

ان حضرات کی تیسری دلیل سورہ نوح کی آیت

وَقَد خَلَقَکُم اَطوَاراً

حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے (14:71)

تمام مفسرین نے اطوار سے مراد وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں. اس پر بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جا چکے ہیں.

چوتھی دلیل سورہ نوح کی یہ آیت ہے.

وَاللّٰہ اَنبَتَکُم مِنَ الاَرضِ نَبَاتاً

اس کا پرویز صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ

ہم نے تمہیں زمین سے اگایا، ایک طرح کا اگانا

اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان نباتات اور حیوانات کے راستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے.

جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین سے پیدا ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں. اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یا کچھ اور بھی؟لغوی لحاظ سے یہ لفظ خلق یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے، کہتے ہیں نبت ثدی الجاریہ بمعنی لڑکی کے پستان پیدا ہو گے یا ابھر آئے. چنانچہ اکثرمفسرین نے انبت کا معنی پیدا کرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے. جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّاَنبَتَھَا نَبَاتاً حَسَناً

اللہ تعالیٰ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اوراسے اچھی طرح پرورش کیا. (37:3)

لہذا یہ آیت بھی ذو معنی ہونے کی بناء پر نظریہ ارتقا ء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی.

پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورہ اعراف کی درج ذیل آیت ہے.

وَلَقَد خَلَقنٰکُم ثُمَّ صَوَّرنٰکُم ثُمَّ قُلنَا لِلمَلٰئِکَةِ اسجُدُا لِاَدَمَ

یعنی ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری شکل و صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو. (11:7)

اس سے آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم علیہ السلام سے پہلے نوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم بعد میں ہوا ہے.

اس کا جواب یہ ہے کہ سورہ اعراف کی ابتداء میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ

اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو (3:7)

پھر آگے چل کر آدم علیہ السلام، آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآن میں حسب موقع صیغوں کا استعمال ہوا ہے. ان آیات کے مخاطب آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم علیہ السلام اور ان کے آباء و اجداد اور بھائی بند، جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ.

اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو(35:2)

ا گر آدم علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے آباء و اجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم علیہ السلام اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے.

نظریہ ارتقاء کے ابطال پر قرآنی دلائل

اب ہم قرآن سے ایسے دلائل پیش کریں گے جن سے نظریہ ارتقاء باطل قرار پاتا ہے.

پہلی دلیل. تخلیق انسانی کے مراحل

اللہ نے انسان کو تراب یعنی خشک مٹی سے پیدا کیا. (67:40)ارض یعنی زمین یا عام مٹی سے پیدا کیا. (17:71)اسے طین یعنی گیلی مٹی یا گارے سے پیدا کیا. (2:6)اسے طین لازب یعنی لیسدار اور چپکدار مٹی سے پیدا کیا. (11:37)اسے حَماٍ مسنون بمعنی بدبو دار مٹی اور گلے سڑے کیچڑ سے پیدا کیا. (26:15)اسے صلصال یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی سے پیدا کیا. (26:15)اسے صلصال کالفخار یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری سے پیدا کیا. (14:55)

یہ ہیں وہ مٹی پر وارد ہونے والے اطوار یا مراحل جن کا قرآن نے ذکر کیا کہ ان اطوار کے بعد آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا تھا. اور یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں ہی پورے ہو جاتے ہیں. مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ پوری طرح خشک کر دیا گیا. اب دیکھئے ان مراحل میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے کہ اس راستہ سے انسان وجود میں آیا ہے؟

دوسری دلیل

دوسری دلیل درج ذیل آیت ہے.

ہَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْـــًا مَّذْکُوْرًا

یعنی بلاشبہ انسان پر زمانے سے ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا(1:76)

اب دیکھئے دھر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز زمین و آسمان کی پیدائش سے ہوا. اور عصر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز تخلیق آدم سے ہوا. کیونکہ اللہ نے انسانی افعال و اعمال پر عصر کو بطور شہادت پیش کیا ہے، دھر کو نہیں. ارشاد باری ہے کہ اس دھر میں انسان پر ایک ایسا وقت آیا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا. اگر وہ نباتات، حیوانات یا بندر کی اولاد ہوتا تو یہ سب چیزیں قابل ذکر ہیں اور ان مراحل میں اربوں سال بھی صرف ہوئے تو ان کا نام لینے میں کیا حرج تھا؟ہمارے خیال میں یہی آیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرار دینے کے لیے کافی ہے.

تیسری دلیل

تیسری دلیل یہ آیت کریمہ ہے.

قالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۭ اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ

یعنی اللہ نے فرمایا

اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا(75:3)

متعزلین اور پرویزی حضرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تسلیم کرنے کے قائل نہیں لہذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا قدرت یا دست قدرت کر لیتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال ہوا ہے. یعنی اپنے دونوں ہاتھوں سے اب اگر ید کا معنی قوت یا قدرت کیا جائے تو اس لفظ کا کیا مفہوم ہو گا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دو قدرتوں سے بنایا ہے؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو پانی قدرت اور قوت ہی سے بنایا ہے پھر سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے.

چوتھی دلیل

نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل درج ذیل آیت کریمہ ہے.

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ

یعنی اللہ کے ہاں عیسی علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا انسان بن جا تو وہ انسان بن گئے(59:3)

9 ہجری میں نجران کے عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ آئے اور مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے موضوع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مناظرہ کی ٹھانی. عیسائی بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی. عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسی ٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو بتاؤ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا؟اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی. یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا ہی اللہ کے بیٹے یا اُلوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم علیہ السلام الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی. لیکن تم آدم علیہ السلام کو الہٰ نہیں کہتے تو مسیح علیہ السلام کیسے الہٰ ہو سکتے ہیں.

مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قرآن کاہے جو نہ عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے. اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے، وہ اس طرح کے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو آدم کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے اور اس مثلیت کی ممکنہ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں.

دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے. یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں.دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعے ہوئی ہو. یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے عام دستور یہی ہے. اوراس میں بھی آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں.
اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں. اس طرح یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے.

اگرچہ ہر قسم کے  سائنسی شواہد ارتقاء کی مسلسل نفی اور تخلیق کی گواہی دے  رہے  ہیں اس کے باوجود ارتقاء پرست تخلیق کو تسلیم کرنے  پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ ارتقائی نظریات سے  دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ جب کہ انسان پہ ہو رہی تحقیق اور  دیگر روح و نفس کے  کام بھی بے  تحاشا الجھ گئے  ہیں اور آج تک بے نتیجہ ہیں  آج تک روح نفس کی ہی شناخت نہیں ہوئی لہذا ماضی کے  تمام تر محقق اس نہج تک پہنچے  ہی نہیں  کہ یہ فیصلہ کر سکیں  کہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے  یا نہیں۔
درحقیقت انسانی تخلیق کے  حوالے  سے  سائنسدانوں، محققوں ، فلاسفروں  کو کوئی ایسا سرا نہیں  ملتا جہاں  سے  وہ آغاز کریں۔ صرف اور صرف مذاہب ہیں جو ابتدائی انسان کے  بارے  میں  ہمیں  معلومات فراہم کرتے  ہیں  اس کے  علاوہ ابتداء کے  انسان کے بارے  میں  ہمارے  پاس کوئی اور ذریعہ معلومات نہیں  ہے۔ اور جدید سائنسی نظریات کی بنیاد بھی مذہبی معلومات ہی ہیں۔ لہذا انسان کی ابتداء سے متعلق جو چند مفروضہ نظریات ہمیں  ملتے  ہیں اگرچہ انہیں  سائنسی نظریات کہہ دیا جاتا ہے  جب کہ یہ ثابت بھی ہو چکا ہے  کہ یہ نظریات نہ صرف یہ کہ غلط مفروضے  ہیں  بلکہ مذاہب سے  مستعار لئے  گئے ہیں۔ ( جیسے  کہ ارتقائی نظریات) اگرچہ ان نظریات کا ماخذ مذہبی اطلاعات ہیں  لیکن یہ مذہبی اطلاعات غلط نہیں  ہیں  بلکہ اس سلسلہ میں  ہم نے  تحقیق سے ثابت کیا ہے  کہ۔
انسان کا کبھی بھی کسی بھی قسم کا ارتقاء نہیں  ہوا بلکہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔

حرف آخر

آج بہت سے لوگ اللہ پر ایمان رکھنے کے بجائے بلاسوچے سمجھے، سائنس کے نام پر جھوٹ کے ایک پلندے کو سچ سمجھ کر قبول کر رہے ہیں. وہ جو "اللہ نے تمہیں عدم سے تخلیق کیا" سے نابلد ہیں، اتنے سائنسی ہیں کہ وہ اربوں سال پہلے کے "ابتدائی شوربے" (Primordial Soup) پر بجلی گر کر پہلے جاندار کے وجود میں آنے کا مفروضہ من و عن درست تسلیم کر لیتے ہیں.

نظامِ قدرت میں اتنے نازک اور اتنے زیادہ توازن ہیں کہ انہیں کسی "اتفاق" کا حاصل قرار دینا کھلی نا معقولیت ہو گا. وہ لوگ جو اپنے اذہان کو معقولیت دشمنی سے آزاد نہیں کرا سکتے، وہ کتنا ہی اصرار کیوں نہ کر لیں، مگر زمین اور آسمان میں اللہ کی نشانیاں اتنی زیادہ نمایاں ہیں کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا. اللہ تعالیٰ زمین کا، آسمان کا اور ان کے درمیان ہر شے کا خالق ہے. اس کے وجود پر دلالت کرنے والی نشانیاں ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں.یہ مختصر انسان کی تخلیق کے حوالہ سے ضمیمہ پیش کیا گیا ہے انسان کی تخلیق سے متعلقہ تفصیلی معلومات آئندہ اقساط میں  پیش کی جائے گی۔
کتاب اللہ واضح طور پر آدم اور حواعلیہما السلام کے بنفس نفیس اور براہِ راست وجود میں آنے کی گواہی دے رہی ہے۔آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک معجزہ تھی، ایک ایسی اٹل حقیقت جس کی، بذریعہ سائنسی ذرائع ، نہ تائید کی جا سکتی ہے اور نہ تردید۔ایمان بالغیب آخر اور کس چیز کا نام ہے؟ قرآن میں بیان کردہ معجزات اپنے اثبات کے واسطے بشری ذرائع کے محتاج نہیں؛کہ محدود انسانی عقل اس کا محاصرہ کرنے سے ہے ہی قاصر ہیں۔ نصوص سے البتہ یہی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک منفرد ترین واقعہ تھا، اور کائناتی عمل میں ایک یکتا قسم کی چیز۔

ماخوز از:ڈارون کا نظریۂ ارتقاء۔حذف و ترمیم کے ساتھ)
ذہن نشین رہے فتنہ پرویزیت  کی آبیاری کرنے والے بہت سے حضرات ہیں جن میں سے مولوی چراغ علی، سرسیداحمدخان، عبداللہ چکڑالوی، حشمت علی لاہوری، رفیع الدین ملتانی، احمددین امرتسری اور مسٹرغلام احمدپرویز وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان میں آخر الذکر شخص نے فتنہٴ انکار ِحدیث کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ انہیں اس فتنہ کے اکابر حضرات کی طرف سے تیارشدہ میدان دستیاب تھا جس میں صرف کسی غیر محتاط قلم کی باگیں ڈھیلی چھوڑنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس کام کا بیڑہ مسٹر غلام احمدپرویز نے اٹھا لیا جو کہ فتنوں کی آبیاری میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔عبد الرحمن کیلانی کی کتاب ’آئینہ پرویزیت‘ میں مدلل طریقے سے فتنہٴ انکارِ حدیث کی سرکوبی کی گئی ہے، اور مبرہن انداز میں پرویزی اعتراضات کے جوابات پیش کئے گئے ہیں۔جو اس لنک سے لوڈ کی جا سکتی ہے۔
http://kitabosunnat.com/kutub-library/aina-e-parwaiziat

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...