Saturday 22 July 2017

پروٹین کی تشکیل کے مراحل


تخلیقی انسان یا ارتقائی انسان

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#75

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

7- پروٹین کی تشکیل کے مراحل

نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ زندگی، ایک خلئے سے شروع ہوئی جو زمین کے ابتدائی ماحول میں اتفاقاً بن گیا تھا. آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خلئے کی ساخت کیسی ہوتی ہے، اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہیں، اور یہ کہ اسے "اتفاقیہ وجود" قرار دینا بجائے خود کتنی بڑی نامعقولیت ہے. یہ امر قابلِ غور ہے کہ آج بھی، جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں، خلیہ کئی حوالوں سے ہمارے لئے پراسراریت کا باعث ہے.

اپنے عملی نظاموں مثلاً مواصلاتی نظام، حرکی نظام اور خلئے کے انتظام و انصرام وغیرہ کے حوالے سے خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں. اس میں توانائی پیدا کرنے والے اسٹیشن بھی ہیں (جن سے حاصل ہونے والی توانائی، خلئے کے استعمال میں آتی ہے )، زندگی کے لئے مرکزی اہمیت کے حامل خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (ڈیٹا بینک) بھی ہے جہاں خلئے میں بننے والی کسی بھی پیداوار (شے ) کے بارے میں تفصیلات (معلومات) جمع ہوتی ہیں، جدید تجربہ گاہیں اور ریفائنریاں بھی ہیں جہاں خام مال کو قابلِ استعمال اور کارآمد شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے، پیچیدہ مواصلاتی نظام اور پائپ لائنیں ہیں جہاں سے خام مال اور تیار شدہ اشیاء گزرتی ہیں، اور خاص طرح کے پروٹینز سے بنی ہوئی خلوی جھلی بھی ہے جو خلئے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو قابو میں رکھتی ہے. یہ تو خلئے کے پیچیدہ نظام کی بہت معمولی سی جھلک ہے.

زمین کا ابتدائی ماحول تو بہت دور کی بات ہے. خلئے کی ترکیب اور کام کرنے کا طریقہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ اسے آج کی جدید ترین آلات سے لیس تجربہ گاہوں میں بھی "مصنوعی طور پر" تیار نہیں کیا جاسکا. خلئے کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز استعمال کرتے ہوئے آج تک خلئے کا ایک جزو (Organelle) بھی تیار نہیں کیا جاسکا (مثلاً مائٹو کونڈریا یا رائبوسوم وغیرہ)، پورا خلیہ تو بہت آگے کی بات ہے. ارتقائی اتفاقات کے تحت کسی اولین خلئے کا از خود وجود میں آ جانا اتنا ہی تصوراتی ہے جتنا ایک سینگ والا اُڑن گھوڑا (یونی کورن).

پروٹین کا اتفاقات کو چیلنج

بات صرف خلئے تک ہی محدود نہیں، بلکہ قدرتی حالات کے تحت ہزاروں سالمات سے مل کر تشکیل پانے والا پروٹین بنانا بھی ناممکن ہے.

پروٹین (Protein) وہ قوی الجثہ سالمات ہوتے ہیں جو امائنو ایسڈز کی خاص تعداد کے مخصوص ترتیب میں ملنے پر بنتے ہیں. یہی سالمات خلئے کے وجود کو بنیاد فراہم کرتے ہیں. اب تک دریافت ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا پروٹین بھی پچاس (50) امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے. مگر بعض پروٹین سینکڑوں اور ہزاروں امائنو ایسڈز کا مجموعہ ہوتے ہیں. خلئے کی کارکردگی میں پروٹین کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ پروٹین کی اپنی بنیاد، امائنو ایسڈز ہیں. لیکن اگر پروٹینی زنجیر میں غیر ضروری طور پر کسی امائنو ایسڈ کا اضافہ، کمی یا تبدیلی واقع ہو جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ پورا پروٹین ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے. نظریہ ارتقاء، جو امائنو ایسڈز کی "حادثاتی/ اتفاقیہ تشکیل" کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اپنی بنیادیں پروٹین کی تشکیل پر استوار کرتا ہے.

امکان (Probability) کے سادہ ترین حساب کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پروٹین کی کارآمد ساخت کسی بھی طرح سے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہو سکتی.

نظامِ قدرت میں کل 20 قسم کے امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں. انہی کی مختلف نسبتوں اور تناسبوں کے رد و بدل سے مختلف پروٹین بنتے ہیں. اب اگر ہم اوسط جسامت والا کوئی پروٹینی سالمہ فرض کر لیں جو 288 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہو، تو یہ امائنو ایسڈز 10300 مختلف طریقوں کے ذریعے مل کر 288 یونٹوں (امائنو ایسڈز) والی پروٹینی زنجیر بناسکتے ہیں. (10300 کا مطلب ہے 1 کے بعد 300 صفر!) ان تمام ممکنہ سلسلوں (زنجیروں ) میں سے صرف ایک زنجیر ایسی ہو گی جو ہمارے مطلوبہ خواص کا حامل پروٹین بنائے گی. اسے ریاضی کی زبان میں اس طرح سے کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا پروٹین حاصل ہونے کا امکان 10300 میں سے صرف ایک (1) ہے. امائنو ایسڈز کی باقی زنجیریں یا تو زندگی کے لئے بے کار ہوں گی یا پھر نقصان دہ. مطلوبہ خواص کا حامل مفید پروٹین "اتفاق سے" حاصل ہونے کا یہ امکان اس قدر کم ہے کہ اسے تقریباً ناممکن سمجھا جاسکتا ہے. مزید یہ کہ 288 امائنو ایسڈز والے پروٹین کی مثال خاصی کم تر درجے کی ہے. ورنہ بہت سے بڑے پروٹین ہزاروں امائنو ایسڈز تک کا مجموعہ ہوتے ہیں. جب ہم ان پر امکان کے اسی حساب کتاب کا اطلاق کرتے ہیں تو "ناممکن" جیسا لفظ بھی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے.

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک پروٹین کی اتفاقیہ تشکیل ناممکن ہے تو اس کے مقابلے میں لاکھوں پیچیدہ پروٹینز کا بیک وقت، اور اس قدر منظم انداز سے وجود میں آنا اور خلئے کی تکمیل کرنا، اس سے بھی لاکھوں گنا زیادہ ناممکن ہے. پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خلیہ محض پروٹینز کا مجموعہ نہیں ہے. خلئے میں پروٹینز کے علاوہ نیو کلیئک ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات اور متعدد انواع و اقسام کے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی پائے جاتے ہیں. . . اور یہ تمام کے تمام اپنی ساخت اور ذمہ داریوں، دونوں کے اعتبار سے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ، آپس میں پوری طرح سے ہم آہنگ اور متناسب رہتے ہیں.

یہاں تک آنے کے بعد ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خلئے کے لاکھوں پروٹینز میں سے کسی ایک کی تشکیل بھی نظریہ ارتقاء کی مدد سے بیان نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ خلئے کے ارتقاء پر بحث کی جائے.

ترکی میں ارتقاء کے مشہور اور مستند ترین ماہر، پروفیسر ڈاکٹر علی دیمر سوئے، اپنی کتاب "موروثیت اور ارتقاء" (Kalitim ve Evrim) میں سائٹو کروم سی (Cytochrome-C) نامی اہم خامرے کی اتفاقیہ تشکیل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"سائٹو کروم سی سلسلے کی (اتفاقیہ) تشکیل کا امکان صفر جتنا ہی ہے. یعنی اگر زندگی کے لئے کسی مخصوص (سالماتی) سلسلے کی ضرورت ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بننے کا واقعہ پوری کائنات (کی مجموعی تاریخ) میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہو گا. بصورتِ دیگر کسی ایسی مابعد الطبیعاتی قوت نے اسے تخلیق کیا ہو گا، جو ہماری سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے. آخر الذکر کو تسلیم کرنا سائنسی مقاصد کے اعتبار سے موزوں نہیں. لہٰذا ہمیں پہلا مفروضہ ہی ماننا پڑے گا".

ان سطور کے بعد ڈاکٹر دیمر سوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ امکان، جو صرف اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ یہ "سائنس کے مقاصد کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے" غیر حقیقت پسندانہ ہے:

"سائٹو کروم سی بنانے والا، امائنو ایسڈز کا خاص الخاص سلسلہ (اتفاقاً ) وجود میں آد لبحًاھرات الار جانے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے مکمل انسانی تاریخ لکھنا۔۔۔ اس پر یہ بھی مان لینا کہ بندر، ٹائپ رائٹر کی کلیدوں (Keys) کو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر دبا رہا ہے"۔

پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کا درست تسلسل ہی زندگی کے لئے کافی نہیں. اس کے علاوہ ان تمام کے تمام امائنو ایسڈز کا "بائیں ہاتھ والا" (Left Handed) ہونا بھی لازمی ہے. کیمیائی اعتبار سے امائنو ایسڈز کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو "بائیں ہاتھ والے" اور دوسری کو "دائیں ہاتھ والے" (Right Handed) امائنو ایسڈز کہا جاتا ہے. ان کی سہ جہتی ( 3 Dimensional) ساخت کے پیشِ نظر، ان امائنو ایسڈز کا باہمی فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ہمارا اور آئینے میں ہمارے عکس کا. اسی چیز کو "عکسی تشاکل" (Mirror Symmetry) بھی کہا جاتا ہے. گویا اگر ہم سیدھا (دایاں ) ہاتھ ہلائیں گے تو آئینے میں ہمارا عکس اُلٹا (بایاں ) ہاتھ ہلائے گا. امائنو ایسڈز کا فرق اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ سیدھے (دائیں ) ہاتھ سے لکھتے ہیں اور بعض لوگ اُلٹے (بائیں ) ہاتھ سے. بس یہی فرق دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز میں بھی ہوتا ہے. ان دونوں اقسام کے امائنو ایسڈز، قدرتی طور پر یکساں تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جڑنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں. اس کے باوجود، تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ جاندار اشیاء میں پائے جانے والے تمام پروٹینز، صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے مل کر بنے ہیں. اور یہ کہ اگر پروٹین کی سالماتی زنجیر میں دائیں ہاتھ والا کوئی امائنو ایسڈ شامل ہو جائے تو وہ اسے ناکارہ بنا دے گا.

اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں. فرض کیجئے کہ زندگی واقعی کسی اتفاق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی، جیسے کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے. ایسی صورت میں "اتفاق سے" بننے والے، دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو بھی یکساں تعداد میں ہونا چاہئے تھا. یہ سوال کہ آخر پروٹینز صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے کیوں بنتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تخلیق میں دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز نے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا، آج تک ارتقائی ماہرین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے. برٹانیکا سائنس انسائیکلو پیڈیا میں، جو ارتقاء کا زبردست حامی بھی ہے، مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں اور پروٹین جیسے پیچیدہ پولیمرز (Polymers) کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز صرف اور صرف بائیں ہاتھ والے ہیں. یہیں پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دس لاکھ مرتبہ سکّہ اچھالا جائے اور ہر مرتبہ اس کا صرف ایک ہی رُخ بار بار اوپر آئے. اسی انسائیکلوپیڈیا میں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سالمات کے دائیں یا بائیں ہاتھ والے ہونے کو سمجھنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس چیز کا حیرت انگیز طور پر براہ راست تعلق، زمین پر زندگی کی ابتداء سے ہے.

پروٹین میں امائنو ایسڈز کا صحیح تعداد، صحیح تسلسل اور مطلوبہ سہ جہتی ساخت کے ساتھ ترتیب میں ہونا بھی کافی نہیں. (کارآمد) پروٹین بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بازوؤں (arms) والے امائنو ایسڈز کے سالمات، مخصوص نوعیت کے بازوؤں والے دوسرے سالمات ہی سے جڑیں. اس طرح بننے والے بند "پیپٹائڈ بند" (Peptide Bonds) کہلاتے ہیں. امائنو ایسڈز ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بند بنا سکتے ہیں لیکن پروٹین صرف اور صرف انہی امائنو ایسڈز سے مل کر بنتا ہے جو آپس میں پیپٹائڈ بند بناتے ہیں.

تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ اگر امائنو ایسڈز آزادانہ طور پر آپس میں ملاپ کرنے لگیں، یعنی انہیں پابند نہ کیا جائے تو ان میں سے 50 فیصد پیپٹائڈ بند بنائیں گے جبکہ باقی کے 50 فیصد مختلف اقسام کے بند تشکیل دیں گے جو پروٹینز میں موجود نہیں ہوتے. مطلب یہ ہوا کہ درست طریقے پر کام کرنے کے لئے، پروٹین بنانے والے ہر امائنو ایسڈ کو دوسرے امائنو ایسڈز کے ساتھ (جو یقیناًبائیں ہاتھ والے ہوں گے ) پیپٹائڈ بند ہی بنانا پڑے گا. ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو منتخب یا مسترد کرے اور انفرادی طور پر اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ ہر امائنو ایسڈ، دوسروں کے ساتھ صرف پیپٹائڈ بند ہی بنائے گا.

ان حالات کے تحت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 500 امائنو ایسڈز والا بالکل درست پروٹین "اتفاقاً" بننے کے کیا امکانات ہیں:

درست ترتیب (تسلسل) سے ہونے کا امکان

1/10650 = 1/20500

بائیں ہاتھ والا ہونے کا امکان

1/10150 = 1/2500

پیپٹائڈ بند کے ذریعے متصل ہونے کا امکان

1/10150 = 1/2499

مجموعی امکان

1/10950، یعنی

10950 میں سے صرف 1 کا امکان!

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ امکان کس قدر کم ہے. یہ تو صرف کاغذی امکان ہے جو پہلی نظر ہی میں ناممکن سے بڑھ کر نظر آ رہا ہے ورنہ عملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے. ریاضی میں بھی اگر کسی واقعے کے ہونے کا امکان 1050 میں سے 1 ہو تو اس کی وقوع پذیری کا عملی امکان بھی "صفر" (0) ہی تسلیم کیا جاتا ہے.

جب 500 یونٹوں والے پروٹین کے اتفاقیہ تشکیل پانے کا امکان اس قدر ناممکن ہے تو بڑے پروٹینز، ناممکنات کی کن حدوں کو پہنچے ہوئے ہوں گے؟ شاید یہ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ناممکن ہوں. ہیموگلوبین کا پروٹین، جو ہمارے خون کا جزوِ لازم ہے، 574 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے. یہ نمایاں طور پر مذکورہ بالا مثال والے پروٹین سے بڑا ہے. اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے جسم میں موجود کھربوں سرخ خلیات میں سے ہر ایک خلئے میں لگ بھگ 28 کروڑ ہیموگلوبین پروٹینز موجود ہوتے ہیں. زمین کی متصورہ عمر بھی ایسے کسی سالمے کی اتفاقیہ تخلیق کے لئے کم ہے، خون کے سرخ خلیات کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے. اس تمام بحث کا خلاصہ اتنا ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک پروٹین کی تشکیل کے مرحلے پر ہی عدم امکان کی ٹھوکر کھا کر، منہ کے بل گرتا ہے. . . اور ناکام ہو جاتا ہے.

8- معجزاتی سالمہ: ڈی این اے

اب ہم پر یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ نظریہ ارتقاء کسی خلئے کی اساس بننے والے متعددو متنوع سالمات تک کی معقول وضاحت فراہم کرنے سے قاصر ہے. مزید برآں، جینیات (genetics) کی آمد اور نیوکلیائی ترشوں (Nucleic Acids)، یعنی ڈی این اے اور آر این اے کی دریافت نے نظریہ ارتقاء کے لئے مزید نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں.

1953ء میں ڈی این اے (DNA) پر جیمز واٹسن اور فرانسس کرک کی تحقیق نے حیاتیات کے میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا. کئی سائنسدانوں نے اپنی توجہ جینیات پر مبذول کر لی. آج، برسہا برس کی تحقیق کے بعد، سائنس داں ڈی این اے کی ساخت کی خاصی بڑی حد تک نقشہ کشی کر چکے ہیں. (اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2000ء بعنوان "جینوم اسپیشل" ملاحظہ فرمائیے. )

آئیے، اس موقع پر ڈی این اے کی ساخت اور کام کے بارے میں بنیادی معلومات کا خلاصہ کرتے ہیں:

ڈی این اے کہلانے والا عظیم و جسیم سالمہ انسانی جسم کے کھربوں خلیات میں سے تقریباً ہر خلئے کے مرکزے (Nucleus) میں موجود ہوتا ہے. اسی میں انسانی جسم کی ساخت سے لے کر چھوٹی بڑی تمام خصوصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں. ان پوشیدہ معلومات کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی "رموزی نظام"(Encoding System) استعمال ہوتا ہے. ڈی این اے میں تمام تر جینیاتی معلومات، چار خصوصی سالمات کی ترتیب کی شکل میں ہوتی ہیں. ان سالمات کو مختصراً G,T,Aاور Cکے انگریزی حروفِ تہجی سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بھی ہیں. مختلف انسانوں میں خدوخال یا دوسری خصوصیات کا فرق انہی چاروں "جینیاتی اساس" (Genetic Bases) کی ترتیب میں معمولی سے رد و بدل کا نتیجہ ہوتا ہے. اگر ہم انسانی جسم کو جینیاتی اساسوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اس کتاب میں کم و بیش سوا تین ارب (3,250,000,000) حروف تہجی ہوں گے.

کسی خاص عضو یا پروٹین کی تشکیل کرنے والی جینیاتی معلومات ڈی این اے کے جس خصوصی حصے میں ہوتی ہیں اسے "جین" (Gene) کہا جاتا ہے. مثلاً آنکھ کی تشکیل کے بارے میں معلومات، کئی جینز پر مشتمل ایک سلسلے میں موجود ہوتی ہیں، جبکہ دل کی ساخت اور کام وغیرہ کی ساری تفصیلات کے لئے جینز کا ایک اور سلسلہ مخصوص ہوتا ہے. خلیہ، پروٹین کی تیاری کے لئے انہی جینز سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرتا ہے. تین جینیاتی اساس مل کر ایک امائنو ایسڈ بنانے کا "حکم" تشکیل دیتے ہیں. (تفصیلات کے لئے: "یہ جو زندگی کی کتاب ہے". شمارہ جولائی 2000ء (جینوم اسپیشل)، صفحہ نمبر 38 تا 40).

اس موقع پر بعض تفصیلات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے. جین بنانے والے جینیاتی اساسوں کے (جنہیں نیو کلیوٹائیڈ کے متبادل نام سے بھی پکارا جاتا ہے ) سلسلے میں ہونے والی صرف ایک غلطی بھی اس جین کو خراب یا ناکارہ کر سکتی ہے. اگر ہم فرض کر لیں کہ انسانی جسم میں لگ بھگ دو لاکھ جین ہوتے ہیں تو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ لاکھوں نیوکلیوٹائیڈز کا "حادثاتی طور پر" باہم مل، صحیح تسلسل کے ساتھ آپس میں مربوط ہوکر، کارآمد جین در جین بنانا کس قدر ناممکن ہے. ارتقائی حیاتیات داں، فرینک سالسبری اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"ایک درمیانے پروٹین میں تقریباً 300 امائنو ایسڈز ہو سکتے ہیں. اسے کنٹرول کرنے والے ڈی این اے میں تقریباً 1000 نیوکلیوٹائیڈ (جینیاتی اساس) موجود ہوں گے. کیونکہ ڈی این اے کی زنجیر میں چار طرح کے نیوکلیوٹائیڈز ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے 1000 یونٹوں والی زنجیر میں یہ 41000 ممکنہ ترتیبوں میں پائے جاسکتے ہیں. تھوڑا سا حساب ہمیں بتاتا ہے کہ

10600 = 41000

یعنی 10 کو 600 مرتبہ اپنے آپ سے ضرب دینے پر ہمیں جو حاصل ضرب ملے گا، وہی یہ رقم ہو گی جس میں 1 کے بعد 600 صفر لگے ہوں گے".

اب ذرا غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ 1 کے بعد 11 صفر لگانے پر ہمیں "ایک کھرب" او ر1 کے بعد 13 صفر لگا کر "ایک پدم" جیسے عظیم اعداد حاصل ہوتے ہیں جہاں ہماری گنتی کے پیمانے بھی جواب دے جاتے ہیں. ذرا سوچئے کہ 1 کے بعد 600صفر والے کسی عد د کے سامنے ہماری اپنی قوت بیان بھی کتنی ناکافی محسوس ہوتی ہے؟ اس معاملے میں ارتقائی ماہر، پروفیسر علی دیمر سوئے یہ تک کہنے پر مجبور ہو گئے:

"کسی پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ (ڈی این اے یا آر این اے ) کے اتفاقاً تشکیل پانے کے امکانات درحقیقت ناقابلِ فہم حد تک کم ہیں. پھر کسی مخصوص پروٹینی زنجیر کی ارتقاء پذیری کے امکانات تو اس سے بھی کہیں کم تر ہیں".

ان تمام ناممکنات کے علاوہ، ڈی این اے اپنی دوہری چکر دار زنجیر جیسی ساخت کے باعث حیاتیاتی تعاملات میں براہِ راست حصہ نہیں لے سکتا. لہٰذا اسے زندگی کی ارتقائی بنیاد سمجھنا بھی ناممکن ہے.

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈی این اے، بعض خامروں (Enzymes) کی مدد سے اپنی نقلیں تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ خامرے بذاتِ خود انہی احکامات کے نتیجے میں بنتے ہیں جو "جینیاتی رموز" (Genetic Codes) کی شکل میں، ڈی این اے کے اپنے اندر محفوظ ہوتے ہیں. مطلب یہ کہ ڈی این اے اور خامرے، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں. اب یا تو یہ دونوں ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے "تخلیق" کیا گیا تھا. خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:

"نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا. ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے".

مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی. بعد ازاں سائنس میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہ عقدہ آج بھی ارتقاء پرستوں کے لئے لاینحل بنا ہوا ہے. قصہ مختصر یہ کہ نسل خیزی (تولید) میں ڈی این اے کی ضرورت، اس عمل میں بعض پروٹینز (خامروں ) کی لازمی موجودگی، اور ڈی این اے میں موجود ہدایات کی مطابقت میں ان پروٹینز کے استعمال ہونے جیسی ضروریات، ارتقائی نظریات کا ہوائی محل ڈھانے کے لئے کافی ہیں.

جنکر (Junker) اور شیرر (Scherer) نامی دو جرمن سائنس دانوں نے کیمیائی پیمانے پر ارتقاء کے لئے درکار تمام سالمات کی تشکیل کا عمل اور مختلف و متنوع کیفیات کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان مادوں کا نہایت مختلف حالات کے تحت وجود پذیر ہو کر، کارآمد انداز میں یکجا ہونا "صفر" امکان کا حامل ہے:

"اب تک ایسا کوئی تجربہ معلوم نہیں ہو سکاہے جس کے ذریعے ہم کیمیائی ارتقاء کے لئے درکار تمام ضروری سالمات حاصل کر سکیں. لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مختلف الاقسام سالمات انتہائی موزوں حالات کے تحت مختلف مقامات پر بنائے جائیں اور پھر انہیں ضرر رساں عوامل مثلاً آب پاشیدگی (hydrolysis) اور ضیاء پاشیدگی (Photolysis) وغیرہ سے بچاتے ہوئے، باہمی تعامل کے لئے ایک جگہ پر جمع کیا جائے". یعنی نظریہ ارتقاء ان ارتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہے جو مبینہ طور پر سالماتی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں.

اب تک جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امائنو ایسڈز اور ان کی حاصلات (Products) سے لے کر جانداروں کے خلیات بنانے والے پروٹینز تک، کچھ بھی زمین کے نام نہاد "ابتدائی ماحول" میں ہرگز (از خود) نہیں بن سکتا تھا. علاوہ ازیں دوسرے عوامل جیسے کہ پروٹینز کی نہایت پیچیدہ ساخت، ان کی دائیں یا بائیں ہاتھ والی ساخت، پیپٹائڈ بند بننے کی مشکلات وغیرہ، یہ سب اس ایک سبب کے مختلف اجزاء ہیں جو یہ تعین کرتا ہے کہ نہ تو زمین کے ابتدائی ماحول میں ان کا "اتفاق" سے بننا ممکن تھا اور نہ ہی انہیں مستقبل کے کسی تجربے میں حاصل ہی کیا جاسکے گا.

اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پروٹین حادثاتی طور پر کسی طرح سے بن گئے تھے تب بھی ان کی تشکیل بے معنی ہو گی. پروٹینز میں اپنی افزائش (Reproduction) کی قطعاً کوئی صلاحیت نہیں. پروٹین تو صرف ڈی این اے اور آر این اے جیسے سالمات میں پوشیدہ معلومات کی مطابقت میں بنتے ہیں. یعنی پروٹینز کی افزائش، ڈی این اے اور آر این اے کے بغیر ناممکن ہے. ڈی این اے کے رموز ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ ہر پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کی ترتیب کیا ہو گی. مگر وہ تمام لوگ جو اب تک ان سالمات کا مطالعہ کر چکے ہیں، انہوں نے ہی بڑے پیمانے پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے کا اتفاقاً بن جانا قطعاً ناممکن ہے.
جاری ہے۔۔۔
(ماخوز از:ڈارون کا نظریۂ ارتقاء/ہارون یحی)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...