Tuesday 11 July 2017

تخلیق کی سچائی

تخلیق کی سچائی

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#64

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
 
جانوروں کے اوپر عقلمند نقشہ: دھوکہ دہی اور نظر فریبی کی خاصیت

درخت کے تنے پر چھپا ہوا پتنگا پتوں کے درمیان کھوئے ہوئے کرم خور حشرے یا منطس-
شاخ کے اوپر چھپی ہوئی چھپکلی-
شاخ کے تنے پر بیٹھا ہوا الوّ-
(تصویر نمبر ایک دیکھیں )

کئی جانور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے دھوکہ دہی یا نظر فریبی کی خاصیت سے لیس ہوتے ہیں۔ جانور اپنے آپ کو چھپانے کی ضرورت دو طرح کی صورتحال میں محسوس کرتے ہیں ایک تو شکار کو پکڑنے کے لئے اور دوسراخود کوشکاریوں سے بچانے کے لئے۔ دھوکہ دہی کی خاصیت دوسرے تمام طریقوں سے اپنی خاص عقلمندی، مہارت، جمالیات اور منظم خصوصیات کے یکجا استعمال کی بناءپر الگ ہے۔ جانوروں کے اندر موجو دھوکہ دہی کی خاصیت حقیقتاً حیرت انگیز ہے جس سے درخت کے تنے کے اوپر بیٹھے کیڑے ےا پتے کے نیچے چھپے ٹڈے میں فرق کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔’ پتوں کی جوں‘ پودوں کے کانٹوں کے شکل کے ہوتے ہیں اور اس طرح بڑے آرام سے ٹہنیوں پر بیٹھ کر پودوں کا رس چوستے رہتے ہیں۔ اس طریقے سے وہاپنے سب سے خطرناک دشمن پرندوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ان کو پودوں کے کانٹے سمجھتے ہوئے پرندے ان پودوں پر بیٹھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

قیر ماہی

قیر ماہی کی کھال کے نیچے کروماٹوفور نامی تھیلیوں کی موٹی تہہ ہوتی ہے جن کا رنگ پیلا، لال، کالا اور بھورا ہوتا ہے۔صرف ایک اشارے سے مچھلی کے خلئے پھیل جاتے ہیں اور اس کی کھال کو مناسب رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ اس طرح سے قیر ماہی اس پتھر کا بھی رنگ دھارلیتی ہے جس پر وہ بیٹھی ہوتی ہے اور مکمل طور پر آنکھ سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ اس قدر کارآمد ہوتا ہے کہ قیرماہی اس کے ذرےعے زیبراجانور کے جسم پر موجود پیچیدہ سفید اور کالی دھاریوں کو بھی اختیار کرسکتی ہے۔۴۸۱

بینائی کے مختلف نظام

سمندروں میں رہنے والے کئی جانوروں کےلئے ان کی بصارت شکار اور دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔ اسی لئے ان جانوروں کی آنکھیں بھی پانی کے اندر کے ماحول کی مطابقت سے بہترین ہوتی ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی گہرائی کے ساتھ خاص طور پر ۰۳ میٹرکے بعد دیکھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔ لیکن اس گہرائی میں رہنے والے جانوروں کی آنکھیں اس ماحول کے لئے مناسب ہوتی ہیں۔ زمین پر رہنے والے جانوروں کے برخلاف سمندر میں رہنے والے جانوروں کی آنکھوں میں کروی شکل کے عدسے ہوتے ہیں جوکہ پانی کی کثافت میں بصارت آسان بنادیتی ہیں۔ زمین کے جانوروں کی چوڑی ترخیمی آنکھوں کے برعکس یہ کروی شکل عدسوں پر مشتمل آنکھیں پانی کے اندر اشیاءکو فاصلے کے باوجود قریب کرکے دکھاتی ہیں۔ جب دور کی کسی شے کو توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے تو آنکھ کے عدسوں کا پورا نظام آنکھ کے اندر موجود مخصوص عضلاتی نظام کے تحت پیچھے کی طرف کھنچ جاتا ہے۔

مچھلیوں کی آنکھوں کا کروی شکل کا ہونے کی ایک اور وجہ پانی کے اندر روشنی کا منعطف ہونا ہے۔ کیونکہ مچھلیوں کی آنکھ میں موجود پانی کی کثافت تقریباً باہر کے پانی کی کثافت جتنی ہی ہوتی ہے اسی لئے جب باہر کی شبیہ آنکھ کے اوپر منعکس ہوتی ہے تو نتیجے میں وہ منعطف نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے آنکھ کے عدسے کا مرکز مکمل طور پر پتلی پر پڑنے والی باہر کی شے کی شبیہ پر ہی رہتا ہے۔ انسانوں کے برعکس مچھلیوں کی قوت بصارت بہت تیز ہوتی ہے۔ ہشت پایہ جیسے کچھ سمندری جانوروں کی آنکھیں معمول سے بھی زیادہ بڑی ہوتی ہے تاکہ سمندر کی گہرائی میں روشنی کی غیر موجودگی کی تلافی ہوسکے۔ ۰۰۳ میٹر کی گہرائی کے بعد بڑی آنکھوں کی مچھلیوں کو اپنے آس پاس کے جانداروں کے جسم سے نکلنے والی شعاعوں کا اندازہ لگاکر ان کی موجودگی کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ اس گہرائی پر ان کا خاص انحصار اس کمزور نیلی روشنی پر ہوتا ہے جوکہ بیرونی روشنی کا واحد ذریعہ ہوتی ہے۔چونکہ جانوروں کی آنکھوں کو اس روشنی سے بے حد حساس ہونا لازمی ہے اسی لئے ان کی آنکھوں کی پتلیوں میں حساس نیلے خلیوں کی بھی بہتات ہوتی ہے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہے ہر جاندار کے ماحول کے حساب سے اس کی آنکھوں میں بھی مخصوص خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کی حکمت نے تمام جانداروں کو نمایاںخصوصیات کے ساتھ مکمل طور پر اس طرح تخلیق کیا ہے کہ زندگی ان کے لئے سہل ہوجائے۔

منجمد ہونے کا مخصوص نظام

کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا بند پودا

کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا امریکی گرگٹ کا شمار ان نایاب جانوروں میں ہوتا ہے بند پودا جوکہ پانی اور ہوا میں توازن قائم کرتے ہوئے حرکت کرتے ہیں۔(تصویر نمبر2 دیکھیں )

ایک منجمد ہوا مینڈک غیر معمولی حیاتیاتی ساخت کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے دل کی دھڑکن، نظامِ تنفس اور نظامِ گردش خون مکمل طور پررک جاتے ہیں۔ لیکن جب برف پگھلتی ہے تو یہی مینڈک زندگی کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے کہ گویا گہری نیند سے جاگا ہو۔ عمومی حالات میں اگر کوئی جاندار منجمد ہوجائے تو اس کو کئی مہلک خطرات لاحق ہوتے ہیں لیکن مینڈک ایسے کسی بھی خطرے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر منجمدگی کی حالت میں بڑیمقدار میں گلوکوس پیدا کرنے کی نمایاں خاصیت موجود ہے جس سے ایک زیابیطس کے مریض کی طرح اس کے خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ عام حالات میں مینڈک کی خون میں شکر کی مقدار ۵۔۱MMOL فی لیٹر اور انسانوں میں ۵۔۴MMOL فی لیٹر ہوتی ہے۔ لیکن منجمدگی کی حالت میںاس کے جسم مےں شکر کی مقدار ۰۵۵MMOL فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ گلوکوس کی یہ حد سے تجاوز کرتی مقدار عام حالات میں مہلک ہوتی ہے لیکن ایک جمے ہوئے مینڈک میں گلوکوس کی بڑھی ہوئی مقدار پانی کو خلیوں کے اندر روک کر سکڑنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ مینڈک کے خلیوں کی جھلی گلوکوس کے سرایت کرنے میں خاص طور پر مددگار ہوتی ہے جس کی وجہ سے گلوکوس با آسانی خلیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ جسم میں گلوکوس کی بڑھتی ہوئی مقدار نقطہ جمود کو بھی گھٹادیتی ہے جس کی بدولت جانور کے جسم کا بہت کم اندرونی مائع برف بن پاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ گلوکوس جمے ہوئے خلیوں کی نشوونما بھی کرتا ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران جسم کے قدرتی ایندھن کا کردار ادا کرنے کے علاوہ گلوکوس جسم میں کئی تحولی کیفیات مثلاً یوریا کی تالیف کو بھی روک دیتا ہے جس کے ذریعے خلئے کے اندر موجود نشوونما کے ذرائع کمزور پڑنے سے بچے رہتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مینڈک کے جسم مےں گلوکو س کی اتنی زیادہ مقدار اچانک کہاں سے آجاتی ہے؟ اس کا جواب کافی دلچسپ ہے۔ اس جاندار کے جسم کا ایک بہت خاص نظام اس کام کو انجام دینے پر معمور ہے۔جیسے ہی مینڈک کی کھال پر برف نمودار ہوتی ہے، ایک اشارہ جگر کی طرف جاتا ہے جس سے جگر اپنے اندر موجود گلائکوجن کو گلوکوس میں بدلنا شروع کردیتا ہے۔ اس اشارے کی نوعیت ابھی تک سمجھ نہیں آسکی ہے۔ اشارہ ملنے کے پانچ منٹ کے اندر اندر خون میں موجود گلوکوس کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔۵۸۱ اس طرح کا ناقابل یقین اور اعلیٰ نظام جس کے تحت ایک جاندار کا پورا تحولی نظام بوقت ضرورت بدل جاتا ہو صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی بے عیب تخلیق اور بہترین نقشے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے مکمل اور پیچیدہ نظام کا اتفاقیہ طور پر وجود میں آنا ایک انتہائی نامعقول تصور ہے۔

بطریل کاہم نسل لمبے بازوﺅں والا بحری پرندہ

موسمی کوچ کرنے والے پرندے مختلف طرح کی اڑان کے طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنی توانائی کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس بحری پرندے میں بھی ایسی ہی مخصوص اڑان کی خاصیت موجود ہے۔ یہ پرندے اپنی زندگی کا ۲۹ فیصد وقت سمندر کے اوپر گزارتے ہیں۔ ان کے بازوﺅں کی کل پیمائش ۳ سے ۵ میٹر ہوتی ہے۔ یہ پرندہ کئی گھنٹے تک اپنے پروں کو استعما میں لائے بغیر اڑ سکتا ہے۔ اس کے لئے وہ ہوا میں ہوا کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اپنے بازوﺅں کو ایک ہی مقام پر رکھ کر سبک رفتاری سے ”بہنے“ کا انداز اختیار کرلیتا ہے ۔چونکہ اڑان کے دوران پرندے کے پر استعمال میں نہےں ہوتے اسی لئے کسی عضلاتی قوت کا بھی استعمال نہیں ہورہا ہوتا۔ پر عضلاتی تہوں کے استعمال سے ہی اوپر نیچے ہوتے ہیںجس کے ذریعے پرندے اڑ پاتے ہیں۔ اڑان کے اس نظام سے پرندہ استعمال کی جانے والی توانائی کی بچت کرلیتا ہے۔ یہ مخصوص پرندہ بھی چونکہ اڑان میں پروں کے پھیلانے یا پھڑ پھڑانے کا استعمال نہیں کرتا اسی لئے اس کی توانائی ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ صرف اور صرف ہوا کے زور پر گھنٹوں اڑان اس کے لئے لامحدود توانائی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک ۰۱ کلو وزن کا یہ پرندہ ۰۰۰۱ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود اپنے جسم کا صرف ۱ فیصد وزن کھوتا ہے جوکہ بے انتہا کم ہے۔ انسانوں نے ان پرندوں کی ساخت اور پرکشش اڑان کے طریقے کو ملحوظ رکتے ہوئے بغیر انجن کے اڑنے والی ہوائی سواریاں ایجاد کی ہیں جن کو گلائڈر کہتے ہیں۔۶۸۱(تصویر نمبر تین دیکھیں )

ایک محنت طلب نقل مکانی

بحرالکاہل کی سامن مچھلی کے اندر انہی د ریاﺅں میں واپس جاکر بچے جننے کی خاصیت موجود ہوتی ہے جن میں وہ خود پیدا ہوتی ہیں۔اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سمندروں میں گزارنے کے باوجود یہ مچھلیاں تازہ پانی کے دریاﺅں میں انڈے دینے لوٹ آتی ہیں۔ اپنے سفر کا آغاز یہ موسم گرما کے اول دنوں میں کرتی ہیں۔ اس وقت اس مچھلی کا رنگ گہرا سرخ ہوتا ہے لیکن سفر کے اختتام پر اس کا رنگ کالا ہوچکا ہوتا ہے۔ سفر کے شروع میں وہ ساحل کے قریب قریب رہتی ہیں اور دریا تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ اپنی جائے پیدائش تک پورے استقلال اور دلجمعی سے پہنچنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔ طوفانی دریاﺅں کے اوپر سے کودتے ہوئے، پانی کی برقی رو کے خلاف تیرتے ہوئے، آبشاروں اور سمندری سیلابوں کے پشتوں میں سے گزرتے ہوئے وہ بالآخر اپنی جائے پیدائش تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔

اس ۰۰۵,۳ سے ۰۰۰,۴ کلو میٹر فاصلے کے سفر کے اختتام پر مادہ سامن کے انڈے اور نر سامن کا مادہ منویہ تیار ہوتا ہے۔ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچتے ہی مادہ سامن ۳ سے ۵ ہزار انڈے دیتی ہے اور نر سامن ان کو مادہ تولید سے بارور کردیتا ہے۔ اس سخت نقل مکانی اور انڈے دینے کے عرصے کے دوران یہ مچھلیاں بہت نقصان اٹھاتی ہیں۔ انڈے دینے کے بعد مچھلیاں بے دم ہوجاتی ہیں۔ ان کی دم پر موجود کھپرے کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور ان کی کھال سیاہ پڑنے لگتی ہے۔ نر سامن بھی انہی حالات سے گزرتا ہے۔ دریا بہت جلد ہی مری ہوئی سامن مچھلیوں سے بھرجاتا ہے لیکن پھر بھی سامن مچھلیوں کی نئی نسل اسی سفر کو دوبارہ طے کرنے اور اسی عمل سے دوبارہ گزرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ سامن مچھلی یہ مشکل سفر کس طرح مکمل کرلیتی ہے ؟ انڈوں سے نکلنے کے بعد وہ سمندر تک کس طرح پہنچتی ہے؟ اور پھر واپسی کا راستہ کس طرح تلاش کرتی ہے ایسے سوالات ہیں جن کا آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ گوکہ اس سلسلے میں کئی مفروضے سامنے آئے ہیںلیکنحتمی جواب کی آج بھی تلاش ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے جو سامن مچھلیوں کو ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ایک انجانی جگہ پر لوٹنے پر مجبور کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ان کا اور تمام جانداروں کا ایک حاکم موجود ہے جس کی مرضی سے یہ کامانجام پارہے ہیں۔ وہ حاکم پوری کائنات کا مالک ﷲ ہے۔(تصویر نمبر 4 دیکھیں )

پرندوں کے پروں میں نقشہ

ظاہری معائنے پر پرندوں کے پروں میں کوئی نمایاں اوصاف نظر نہیں آتے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ پر جوکہ نہ صرف ہلکے، مضبوط اور ناقابل نفوذ ہوتے ہیں، نہایت پیچیدہ ساخت کے حامل اعضاءہیں۔پرندوں کی اڑان کے لئے ان کا ہلکا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پروں کے اندر قراتےن لحمیات بکثرت موجود ہوتے ہیں۔ پر کے ڈنڈے کے دونوں طرف ۰۰۴ شاخیں موجود ہوتی ہیں جن میں مزید ۰۰۸ کنڈے ہوتے ہیں۔ ان ۰۰۸ کنڈوں کے سروں پر ۰۲ چھوٹے چھوٹے باریک ریشے ہوتے ہیں جوکہ ۰۰۸ متوازی کنڈوں کو کپڑے پر موجود زپ کی طرح جوڑے رکھتے ہیں کسی ایک پرندے میں ۰۰۷ کروڑ باریک ریشے ہوتے ہیں۔

پر میں موجود شاخوں اور کنڈوں کی پیچیدہ ساخت ایک بہت اہم کام انجام دیتی ہے۔ پروں کا آپس میں قریب اور مضبوطی سے جڑے رہنا بہت ضروری ہے تاکہ پرندے کی اڑان کے دوران یہ پر الگ الگ ہوکر یا کناروں سے گھس کر اڑان کے دوران ناکارہ نہ ہوجائیں۔ اس میکانیکی عمل کی وجہ سے پر اس مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں کہ نہ تو تیز ہوا ، نہ بارش ان کے درمیان خلاءپیدا کرکے ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے ۔نیچے کے پر بازؤں اور دم کے پروں سے بڑے پر سمت کا تعین کرنے ً مختلف ہوتے ہیں۔ دم کے نسبتا والے عمودی پتوار اور رفتار کو روکنے والے میکانیکی نظام کا کام انجام دیتے ہیں۔ بازوؤں کے پر سطح کا رقبہ بڑھادیتے ہیں اور اڑان میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔(تصویر نمبر پانچ دیکھیں )

کوآلابھالو۔آسٹریلیاکا مخصوص کیسہ دار جانور:

یوکلپٹس کے پتوں میں موجود تیل کئی ممالیہ جانوروں کے لئے زہریلا ہوتا ہے ۔یہ زہر یوکلپٹس کے درخت کا اپنے دشمنوں کے خلاف دفاع کا کیمیائی طریقہ ہے۔ لیکن ایک خاص جاندار ایسا بھی ہے جوکہ اس زہر کے باوجود صرف انہی پتوں پر گزارا کرتا ہے۔ یہ کوآلانامی کیسہ دار بھالو ہوتا ہے جوکہ نہ صرف یوکلپٹس کے درختوں میں اپنا گھر بناتا ہے بلکہ ان کے پتوں کو کھاتا بھی ہے اور ان سے پانی بھی حاصل کرتا ہے۔ دوسرے ممالیہ جانوروں کی طرح کوآلا درختوں میں موجود سیلولوس (جوکہ ایک نشاستہ دار مادہ ہوتا ہے) کو ہضم نہیں کرسکتا۔ اسی لئے وہ سیلولوس کو ہضم کرنے کے لئے خردنامیہ جانداروں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ جاندار زیادہ تر چھوٹی او ربڑی آنت کے ملاپ کے نقطے پر کثرت سے موجود ہوتے ہیں اور آنتوں کے نظام کے پچھلے سرے پر موجود کیسم نامی ایک غشائی تھیلی میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ کیسم کوآلا بھالو کے نظام انہضام کا سب سے دلچسپ حصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک برانگیختی کمرا ہوتا ہے جہاں پر وہ جرثومے تیار ہوتے ہیں جوکہ سیلولوس کو ہضم کرتے ہیں ۔اس عمل کے ذریعے کوآلا بھالویوکلپٹس کے پتوں میں موجود زہر کے اثرات کی تدیل کرلیتا ہے۔“۷۸۱(تصویر نمبر چھ دیکھیں )

ایک ہی جگہ رہ کر شکار کرنے کی صلاحیت

کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا امریکی گرگٹ کا شمار ان نایاب جانوروں میں ہوتا ہے بند پودا جوکہ پانی اور ہوا میں توازن قائم کرتے ہوئے حرکت کرتے ہیں۔(تصویر نمبرسات دیکھیں )

شمالی افریقہ کا بھنگے حشرے کھانے والا پودا اپنے لیس دار بالوں میں کیڑے مکوڑوں کو قید کرلیتا ہے۔ اس پودے کے پتے لمبے لال بالوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان بالوں کے سروں پر موجود سیال میں ایک خاص قسم کی مہک ہوتی ہے جوکہ کیڑےمکوڑوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ اس سیال کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ بیحد چپچپا ہوتا ہے۔ اس مہک کی طرف آنے والا کیڑا یا حشرہ ان بالوں میں چپک کر رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد پورا پتہ بند ہوکر اس کیڑے کو ڈھک لیتا ہے جوکہ پہلے ہی ان بالوں میں قید ہوچکا ہوتا ہے۔ پودا اس کو ہضم کرکے اس میں اپنی ضرورت کے لحمیات کو چوس لیتا ہے۔۸۸۱ کسی پودے کے اندر ایسی خاصیت کا موجود ہونا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلے جلے بغیر اپنی غذا کا مکمل اہتمام کرے بلاشبہ ایک خاص نقشے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس پودے کی اتنی مخصوص شکار کرنے کی صلاحیت کاا س کی اپنی مرضی اور منشاءسے اتفاقاً پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس صلاحیت کے پیچھے ایک زبردست خالق کا ہاتھ ہے اور اس بات کی سچائی کو نظر اندازکرنا ناممکن ہے۔

باسیلسک یا کوئی چھوٹا مریکی گرگٹ: پانی کے اوپر چلنے کا ماہر

بہت کم جاندار ایسے ہوتے ہیں جوکہ پانی کی سطح پر چل سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک باسیلسک کے نام سے جانا جاتا ہے اور وسطی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے پچھلے پیروں کے انگوٹھوں کے دونوں طرف پانی کو ڈھکیلنے کے لئے مخصوص اعضاءہوتے ہیں جوکہ صرف پانی میں کھلتے ہیں اور زمین پر چلنے کے دوران اوپر کو اٹھ جاتے ہیں۔ جب اس جانور کو خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہ جھیل یا دریا کی سطح پر بہت تیزی سے دوڑنے لگتا ہے اور اس کے پیروں کے یہ مخصوص اعضاءکھل کر پانی پر دوڑنے کی سطح میں اضافہ کردیتے ہیں۔۹۸۱باسیلسک اﷲ تعالیٰ کی شاندار تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (تصویر نمبر آٹھ دیکھیں )

نوری تالیف

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کو زندگی کے لائق بنانے میں نباتات ایک بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہوا کو صاف رکھنے کے علاوہ وہ زمین کے درجہ حرارت کو معتدل رکھتے ہیں اور ہوا میں دیگر دوسری گیسوں کے تناسب میں توازن قائم رکھتے ہیں۔ ہوا میں موجود آکسیجن بھی نباتات کی پیدا کردہ ہے۔ زمین پر کھانے پینے کا ایک بڑا حصہ بھی نباتات ہی فراہم کرتے ہیں۔ پودوں کی افزائشی طاقت ان کے خلیوں میں موجود مخصوص نقشوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس نقشے کے تحت ان کے اندر اور بھی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔(تصویر نمبر نو دیکھیں )

انسانی اور حیوانی خلیوں کے برعکس پودوں کے خلئےے سورج کی روشنی کا براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ سورج کی روشنی کی قوت کو کیمیائی قوت میں تبدیل کرکے اپنے اندر مخصوص طریقے سے جمع کرلیتے ہیں۔ یہ عمل نوری تالیف کا عمل کہلاتا ہے۔ دراصل یہ عمل خلیہ نہیں بلکہ کلوروپلاسٹ نامی جرثوموں کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ پودوں کا ہرارنگ بھی انہیں جرثوموں کی بدولت ہوتا ہے۔ یہ ہرے جرثومے صرف خوردبین کے ذریعے دیکھے جاسکتے ہیں او ریہ دنیا کی واحد ایسی تجربہ گاہےں ہیں جن میں سورج کی توانائی کو مربوط مادے کی شکل میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ نباتات کے ذریعے زمین پر پیدا کئے جانے والے مادے کی مقدار ۰۰۲ کروڑ ٹن فی سال ہے۔ یہ مادہ دنیا میں موجود تمام جانداروں کی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ مادہ ایک انتہائی پیچیدہ کیمیائی عمل سے وجود میں آتا ہے۔ کلوروپلاسٹ کے اندر موجود ہزاروں کلوروفل کے رنگ روشنی پڑنے پر بیحد تیز رفتاری سے کیمیائی ردِ عمل کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تیز رفتاری ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلوروفل میں پیدا ہونے والے کئی دوسری کیمیائی عملیات کا آج تک تعین نہیں کیا جاسکا ہے۔

سورج کی شعاعوں کو برقی اور کیمیائی قوت میں بدلنے کا عمل ایک حالیہ سائنسی دریافت ہے جس کے لئے جدید طرز کے تکنیکی آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک انتہائی چھوٹا، آنکھ سے اوجھل پودے کا خلیہ یہی کام لاکھوں سالوں سے بغیر کسی مسئلے یا رکاوٹ کے کئے چلا جارہا ہے۔ نوری تالیف کا یہ مکمل نظام تخلیق کا واضح ثبوت ہے۔ س نظام کو صرف اور صرف ﷲ نے اپنی مرضی سے تخلیق کیا ہے اور یہ کسی اتفاق کا نتیجہ ہرگز نہیںہے۔ پتوں کے ایک ایک خلئے میں ایک ناقابل فہم طور پر بہترین کارخانہ موجود ہے ۔یہ ﷲ تعالیٰ کے وجود کا نشان ہے جوکہ تمام کائنات کو پالنے والا ہے۔

پودوں کی خردبینی کارخانوں میں معجزاتی تقلیب عمل میں آتی ہے۔

سورج کی توانائی سے پودے نوری تالیف انجام دیتے ہیں جوکہ نہ صرف جانوروںبلکہ انسانوں کی بھی توانائی کی ضرورےات کو پورا کرتی ہے۔

1: توانائی۔2: غذا۔3: آکسیجن4: کاربن ڈائی آکسائیڈ۔
ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
یہ چند ایک مثالیں تھیں ورنہ ایسی لاکھوں مثالیں  پیش کی جا سکتی ہیں جن کے پیچھے ایک خاص قدرت کارفرما ہے۔
یہ کائنات انتہائی حسین و جمیل ہے۔ مخلوق کا حسن ‘خالق کے حسین و جمیل ہونے کا پتہ دیتا ہے۔چاہے آسمانوں میں تیرتی دلکش کہکشائیں ہوں یا زمین میں موجود گہرے سمندر ‘وسیع و عریض  نباتات جمادات حیوانات ‘ ہر جگہ قدرت کی کاری گری کے جلوے نمایاں ہیں۔ انسان کے فنی ‘ تمدنی اور تہذیبی ذوق نے اللہ تعالی کی اسی کاری گری کو نت نئے پہلوؤں سے اجاگر کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید زمین اور آسمانوں کے احوال سے متعلق تھوریز پیش کررہا ہے اور ساری کائنات‘ انسانی دریافتیں اور ایجادات ان کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہیں۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...