Saturday 26 August 2017

مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے؟

مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#101

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

مرنے کے بعد کیا ہوگا۔۔۔؟ اس سوال کا قطعی اور یقینی جواب صرف قرآن کریم اور متواتر احادیث ہی سے معلوم ہوسکتا ہے آج کوئی بهی شخص اپنے مراقبہ و مشاہدے کی بنیاد پر اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا، اس لۓ کہ جو شخص واقعة موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے وه پلٹ کر یہاں نہیں آتا۔

آج جو تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  جو مر کر زندہ ہوئے لوگوں  کا مشاہدہ کر رہے  ہیں  یا ESP   یا  OBE  کر رہے  ہیں انہوں  نے  زندگی، موت، انتقال سب کے  مشاہدات، تجربات حالات و واقعات کو گڈمڈ کر کے  رکھ دیا ہے (ایسا وہ روح و نفس، زندگی، موت اور انتقال سے  لاعلمی کی وجہ سے  کرتے  ہیں) اور اسی ملے  جلے  ملغوبے  سے  وہ نتائج اخذ کرتے  ہیں اور ظاہر ہے  اس بے  بنیاد کھچڑی سے  صحیح نتائج نکلنا محال ہے۔ESP ،OPE یا دیگر ذرائع  یہ سائنسدانوں کے اپنے ذاتی تجربات ہیں اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ماسوائے ان واقعات کے جو قرآن وسنت کے موافق ہوں ۔

انسان جسم +روح کا مجموعہ ہے۔ لہذا موت کی صورت جسم تو مر گیا لیکن سوال یہ ہے  کہ جسم کی موت کے بعد اس جسم میں  موجود روح  کا کیا ہوا۔ کیا جسم کے ساتھ وہ بھی مر گئی۔ کیا جسم کی موت کے  ساتھ ہی انسان کا اختتام ہو گیا۔        

 مادہ پرست تو ہمیشہ مادی جسم کی موت کو ہی انسان کا اختتام کہتے  رہے  ہیں۔ اور آج بھی یہی کہنا چاہتے  ہیں۔ لیکن آج اس ہٹ دھرمی کا کوئی جواز باقی نہیں  بچا جدید تحقیقات سے  یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ محض مادی جسم کی موت سے  انسان کا اختتام نہیں  ہوتا۔
سائنسدانوں  کے  پاس ابھی تک روح کے متعلق درست معلومات نہیں ہے۔جب وہ اس مسئلے  کا حل تلاش کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں  تو انہیں  ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ ہے۔ آواگون، لہذا وہ اس کا حل آواگون میں  ڈھونڈنے  کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح باطن کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  موت کے  بعد انسان  کی دیگر اجسام میں  موجودگی کو دوسرا جنم تصور کر لیتے  ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل خلاف عقل بات ہے۔ جس کو اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔

مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کے  حالات جاننے  کا ہمارے  پاس صرف ایک ذریعہ ہے ۔ اور وہ ہے مذہبی معلومات ۔                                             
ان مذہبی معلومات کو انتہائی محنت سے  ترتیب دینے  کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیشہ ان مذہبی معلومات سے  غلط نتائج اخذ کیئے گئے۔ اور انہی غلطیوں  سے  آواگون جیسے  نظریات نے  جنم لیا۔ 

انتقال کیا ہے۔؟

﴿لہذا جسم کی موت کے  بعد اس جسم میں موجود باقی انسان یعنی اس انسان کی روح اور نفس اس مردہ جسم کو چھوڑ کر کہیں  منتقل ہو گئے  بقیہ انسان کی اسی منتقلی کو انتقال کہتے  ہیں۔ آئیے  موت کے  بعد اس انتقال کی وضاحت کرتے  ہیں ﴾
انسان کی تخلیق جنت میں  ہوئی۔ انسان جنت کا رہائشی تھا وہیں  رہتا بستا تھا۔ ایک جرم کی پاداش میں سزا کے طور پر انسان کو مختصر مدتِ حیات کے  لئے  زمینی سیارے  پر منتقل کر دیا گیا۔ زمین پر اس کا قیام مختصر و محدود ہے  یہاں وہ کچھ عرصہ قیام کرے  گا پھر اُسے  واپس اپنی رہائش گاہ یعنی جنت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ اسی زمین سے  جنت کی طرف واپسی کے  عمل کو منتقلی یعنی انتقال کہتے  ہیں۔ انسان کا جنت سے  زمین تک آمد کا سفر تخلیقی عمل تھا تو اسی طرح انسان کا زمین سے  جنت(آخرت) تک کا سفر  انتقالی سفر ہو گا۔ جیسے  انسانی تخلیق کا عمل با لترتیب واقع ہوا تھا ایسے  ہی انسان واپسی کا سفر(انتقال) بھی با لترتیب طے  کرے  گا۔
انسان کا جنت سے  زمین تک کا  تمام سفر تخلیقی عمل پر مشتمل تھا۔ اور جیسے  انسان جنت سے  زمین پہ اُترا ہے  اسی طرح زمین سے  جنت کی طرف منتقل ہو گا۔ اور یہ واپسی کا سفر(انتقال)فنائی سفر ہو گا۔ اور جس طرح ہم نے  آمد کے  سفر کے  لئے  تخلیقی فارمولہ پیش کیا تھا اسی طرح اب ہمیں  فنائی سفر یعنی انتقال کی وضاحت کے  لئے  ایک انتقالی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔

انتقالی فارمولہ

﴿انتقالی فارمولے  کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی۔ یعنی انسان کی واپس منتقلی کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی

۱۔ مادی جسم کی موت۔

۲۔ نفس کی موت۔

۳۔ روح کی واپسی۔ ﴾

انسان جنت (آخرت) سے  آیا ہے اور وہیں جا رہا ہے۔

اب ہم انسان کے  اس انتقال کی وضاحت ایک مثال سے  کرتے  ہیں۔  فرض کیجئے ہمارے  درمیان ایک شخص ہے  جس کا نام زید  ہے۔ ہم سب زید  کے  کردار، خوبیوں، خامیوں اور اس کی تمام شخصیت سے  واقف ہیں۔ اسی زید کے  جسم میں  گولی لگی !  جس کے  نتیجے  میں اس کی روح نے  اس کا جسم چھوڑ دیا۔ یہ جسم مردہ ہو گیا !

لیکن زید اب بھی موجود ہے  !

وہی زید جسے  ہم سب جانتے  ہیں۔ جس کے  کردار اور شخصیت کو ہم پوری طرح جانتے  ہیں۔ وہی زید اپنی پوری شخصیت سمیت موجود ہے۔
بس فرق آیا ہے  تو یہ کہ اب اس زید نے  مادی جسم اپنے اوپر سے  اتار دیا اب وہ  مادی جسم کو اپنے  عملی ارادوں  کے لئے  استعمال نہیں  کر سکتا اس لیے  کہ مادی جسم اب مر چکا ہے اور انسان کی صلاحیتوں  کے  اظہار کے  قابل نہیں  رہالہذا انسان اعمال یا عمل کی دنیا سے  نکل آیا لہذا اب وہ مادی جسم کے ذریعے  اعمال سر انجام نہیں  دے  سکتا۔اب اس کو اپنی روح پر اختیار نہیں رہا کہ جب چاہے دنیا میں واپس آیے یا دوبارہ اپنے مادی جسم میں  داخل ہو کر دنیا کی زندگی جئے۔
یہ انسان جو زندگی (پیدائش) کی صورت میں  کہیں(جنت) سے  وارد ہوا تھا اب مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد وہیں  واپس جا رہا ہے اور موت کی صورت مادی جسم سے  منتقلی اس کے  ایک ہی سفر کی روداد ہے  یہ انسان کے  پہلے  جنم یا ایک ہی زندگی کی کہانی ہے۔ اور انسان کی آمد (پیدائش یا تخلیق) اور واپسی (منتقلی) کی روداد کو سمجھنے  کے  لئے   نفس اور روح کو جاننا ضروری ہے۔ روح اور نفس اور اس انتقال سے  لاعلمی کی بدولت آواگون کرما یا چکرا جیسے  نظریات نے جنم لیا ہے۔

موت کا مطلب

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انسان پر موت آتی ہے تو اس کی روح کو فرشتے قبض کر لیتے ہیں یعنی روح کو بدن سے نکال لیتے ہیں۔ گویا روح اور بدن میں جدائی کا نام موت ہے۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مَاتَ: موت (ضد حیات) بمعنی کسی جاندار سے روح یا قوت کا زائل ہو جانا۔ (م۔ل) جسم سے روح کا جدا ہو نا۔ 
(مترادفات القرآن مع فروق اللغویۃ ص۷۷۶ طبع مکتبۃ السلام لاہور)۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ موت کی وجہ سے جسم اور روح میں جدائی ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن تمام انسان زندہ ہو کر زمین سے نکلیں گے اور روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ قیامت سے پہلے روح کو جسم کی طرف نہیں لوٹایا جاتا سوائے دفن کے وقت، کہ اس وقت سوال و جواب کے لئے روح کو جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کا ذکر آتا ہے اور یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ البتہ روح کے لوٹائے جانے کے باوجود بھی میت بدستور میت ہی رہتی ہے کیونکہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں ہی دی گئی ہیں۔نیز یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔اس برزخی دنیا کا انسان نظارہ نہیں کر سکتا۔

وفات:
موت کے لۓ جو وفات کا لفظ استعمال کرتے ہیں وه قرآن کریم کے ایک لفظ “توفی” سے مأخوذ ہے، قرآن کریم سے پہلے عربی زبان میں یہ لفظ “موت” کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تها، عربی زبان میں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لۓ تقریبا چوبیس الفاظ استعمال ہوتے تهے، لیکن وفاة یا “توفی” کا اس معنی میں کوئی وجود نہ تها، قرآن کریم نے پہلی بار یہ لفظ موت کے لۓ استعمال کیا، اور اسکی وجہ یہ تهی کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے موت کے لۓ جو الفاظ وضع کۓ تهے، وه سب ان کے اس عقیدے پر مبنی تهے، کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، قرآن کریم نے “توفی” کا لفظ استعمال کرکے لطیف انداز میں انکے اس عقیدے کی تردید کی، “توفی” کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا، اور موت کے لۓ اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشاره کیا گیا ہے کہ موت کے وقت انسان کی روح کو اسکے جسم سے علیحده کرکے واپس بلالیا جاتاہے، اسی حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوے سوره زمر میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
«الله یتوفی الأنفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضی علیها الموت ویرسل الاخری الی أجل مسمی إن فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون»
یعنی الله تعالی انسانوں کی موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور جو لوگ مرے نہیں ہوتے، انکی روحیں انکی نیند کی حالت میں واپس لے لیتاہے، پهر وه جنکی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے انکی روحیں روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چهوڑ دیتا ہے، بےشک اس میں ان لوگوں کے لۓ بڑی نشانیاں ہیں جو غور فکر کرتے ہیں. (سوره الزمر 42)

لہذا مادی جسم کی موت کے  بعد جسم کا خاتمہ ہوا ہے  انسان کا اختتام نہیں  ہو گیا۔ بلکہ انسانی شخصیت میں  کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جس کی صورت کچھ یوں  بنی۔

موت سے  پہلے  کا انسان =(روح+نفس(لطیف اجسام)+مادی جسم)=زندہ انسان

موت کے  بعد کا انسان=روح+نفس(لطیف اجسام)=مردہ انسان
                                         
لہذا انسان کی روح تو جسم سے  نکل گئی لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں  ہو جاتا بلکہ انسان کی روح نکالنے  کے  لئے  باقاعدہ فرشتے  آتے  ہیں۔

اب اس حاضر انسان یعنی روح کے  لئے  رب نے  دو احکامات جاری کیئے  ہیں۔

۱۔ اس حاضر شخص کے  اعمال کا ریکارڈ(اعمال نامہ)، ریکارڈ روم(علیین یاسجیین) میں  محفوظ کر دو۔

۲۔ اس شخص کو حساب کے  دن( یومِ حشر) تک کے  لئے  ایک عارضی رہائش گاہ (برزخ) میں  منتقل کر دیا جائے۔

لہذا انسان نے  پوری زندگی اپنی مرضی سے  جو بھی اعمال سر انجام دیئے   اس کا پورا ریکارڈ  موت کے  بعد محفوظ کر دیا گیا اب انسان اس ریکارڈ میں  کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں  کر سکتا۔ یہ ریکارڈ دو مختلف جگہوں  پر محفوظ کیئے  گئے  ہیں۔

علیین

جن کے  اعمال  اچھے  ہیں  ان کے  لئے  الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام علیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں اچھے  لوگوں  کی زندگی کی ریکارڈ (ڈیٹا) محفوظ کیا گیا ہے۔

سجیین

جن کے  اعمال بُرے  ہیں  ان کے  لئے  الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام سجیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں بُرے  لوگوں  کی زندگی کی ریکارڈ محفوظ کیا گیا ہے۔

اب انسان کے  اعمال کا ریکارڈ تو علیین اور سجیین یعنی ریکارڈ روم میں  محفوظ کر دیا گیا ہے  اب انسان کسی دوسرے  تیسرے جنم کی فرضی داستان کے  ذریعے  اس ریکارڈ میں  ذاتی ارادے سے  کوئی رد و بدل نہیں  کر سکتا جب تک انسان زندہ تھا جب تک وہ اپنے  اعمال نامے  میں  رد و بدل کر سکتا تھا اچھے  اعمال کر کے  اسے  اچھا ریکارڈ بنا سکتا تھا لیکن مادی جسم کی موت کے  بعد یہ ریکارڈ اس سے  لے  کر ریکارڈ روم میں  محفوظ کر دیا گیا ہے  لہذا اب انسان اس ریکارڈ میں  کوئی رد و بدل نہیں  کر سکتا اب یہ ریکارڈ اچھا بُرا جیسا بھی ہے  اسی ریکارڈ کے  مطابق حساب کے  دن اس سے  حساب لیا جائے  گا۔ اعمال کا ریکارڈ تو محفوظ ہو گیا اب دیکھنا یہ ہے  کہ باقی انسان کہاں  گیا۔البتہ موت کے بعد بھی نیکیاں اور برائیاں انسان کے اعمال نامہ (ریکارڈ) میں جمع کی جاتی ہیں جیسا کہ فرمان نبی ہے:
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ (٢) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (٣) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے۔" (صحیح مسلم)

انسان کہاں  منتقل ہو گیا

موت کے  بعد انسان کو عارضی طور پر برزخ میں  منتقل کر دیا گیا ہے۔ اور انسان برزخ میں  حساب کا دن آنے  تک عارضی قیام کرے گا۔ موت کے  بعد انسان منتقل تو ہو گیا لیکن آخر انسان کہاں منتقل ہو گیا۔؟سوال یہ ہے  کہ یہ برزخ کیا ہے۔؟ اور یہ برزخ کہاں ہے۔؟ اور مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کہاں۔؟اور کس صورت۔؟ اور کن حالات میں  موجود ہے۔؟

عالمِ برزخ

لفظ ”برزخ“ لغوی لحاظ سے دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہاجا تا ہے اس کے بعد ہر دو چیز کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”برزخ“ کہا جاتا ہے۔
روح، دنیا میں بدن سے جدا ھونے کے بعد عالم برزخ  میں منتقل ھوتی ہے اور قیامت تک اسی حالت میں رہتی ہے-
اس عالم کو کبھی ”عالمِ قبر“ یا ”عالمِ ارواح“ بھی کہا جاتا ہے۔
عالم برزخ میں مکمل طور پر کسی کا حساب و کتاب  نہیں کیا جاتا ہے، اور انسان کے اعمال کے مطابق اسے مکمل حکم یا سزا نہیں ملتی ہے- اور نہ ہی موت کے بعد انسان کی روح کسی دوسرے انسان یا حیوان میں منتقل ھوتی ہے۔
مادی جسم کی موت کے  بعد ہر مذہب کے  لوگ اپنے  اپنے  رواج کے مطابق مردہ جسم کا انتظام کرتے  ہیں  کچھ مردہ جسم کو زمین کے  نیچے  قبر میں دفنا دیتے  ہیں ، کچھ جسم کو جلا کر اس کی راکھ دریا میں  بہا دیتے  ہیں، کچھ جسم کو چیل کووں کی خوراک بننے کے  لئے الگ رکھ دیتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ ۔
بہر حال جسم کے  ساتھ جو بھی ہو اسے  اس کی موجودہ حالت میں  قبر میں  رکھا جائے  یا جلا دیا جائے  یا ذروں  کی صورت میں  بکھیر دیا جائے  یا وہ چیل کووں یا انسانوں  کے  پیٹ میں  چلا جائے۔ جسم جہاں  بھی ہو گا اس کو جمع کرنا اللہ کے لئے نہایت آسان ہے۔
انسان کے  اعمال کے  مطابق انسان کی اس عارضی رہائش گاہ برزخ کو ترتیب دے  دیا گیا ہے۔
عموماً ہر شخص کی برزخی رہائش گاہ اس کے  اعمال کے  مطابق ہوتی ہے۔
اگر اعمال اچھے  یا بہت اچھے  ہیں  تو یہ برزخی رہائش گاہ اعمال کے  حساب سے  اچھی اور بہت اچھی ہو گی۔ اگر اعمال برے  ہیں  تو رہائش گاہ بھی اسی مناسبت سے  ہو گی۔ یعنی برزخی رہائش گاہ اعمال کے  حساب سے  حسبِ مرتبہ دی جائے گی۔

وہ انسان جس کا موت کی صورت میں  اختتام ہو گیا وہ اب نئے  جسم کے  ساتھ نئی دنیا میں  پھر جی اُٹھا ہے۔ یہ سب باطل گمان ہیں  جو مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  کی کوشش میں  قائم کئیے  گئے  در حقیقت ایسا کچھ نہیں  ہے۔ انسان جسمانی موت کے  بعد عملی زندگی کا اختتام ہو گیا ہے  اب انسان یومِ حساب کے  انتظار میں  برزخ میں  مخصوص حالات میں  کچھ دیر کو رُک گیا ہے۔ لہذا برزخ کا یہ عارضی قیام دوسرا جنم نہیں بلکہ ایک انسان کے  پہلے  جنم کی واپسی کی روداد ہے  جو مذاہب نے  صحیح بیان کی تھی لیکن انسان نے  اسے  بُری طرح اُلجھا کر خلط ملط کر کے  ان اطلاعات کو نت نئے  فلسفوں (آواگون، کرما، چکرا، ارتقائی وغیرہ )کی صورت میں  عام کیا گیا۔
اپنے  ان غلط نظریات کو آج تک ثابت تو کر نہیں سکا لیکن اپنے ان نظریات کو مذہبی عقیدے  تصور کر کے  ان سے  دستبردار بھی نہیں  ہو پا رہا۔
یہ نظریات نہ تو مذہبی عقیدے  ہیں  نہ ہی سائنسی نظریات ہیں محض غلط فہمیوں  پر مبنی غلط تاریخی مفروضے  ہیں  جن کی کوئی مذہبی یا سائنسی حقیقت نہیں  ہے۔

برزخ انتظار گاہ ہے

 برزخ دراصل ایک انتظار گاہ ہے اور اس انتظار گاہ میں فیصلے  کا دن آنے  تک انسان کو رُک کر انتظار کرنا ہے۔ جیسے  کوئی مسافر ویٹنگ روم میں  بیٹھ کر گاڑی کے  آنے  کا انتظار کرتا ہے  ایسے  ہی انسان برزخ میں  رُک کر منتظر ہے  حساب کے  دن کا یعنی برزخ ایک انتظار گاہ ہے  یہ کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں  ہے۔ سوال یہ ہے  کہ یہاں  انسان کو  برزخ میں ٹھہرا کر کیوں  انتظار کروایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ ابھی کچھ لوگ تو مر چکے  ہیں  برزخ میں  داخل ہو گئے  ہیں  لیکن ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں اور ابھی مر کر برزخ میں  داخل نہیں  ہوئے  لہذا باقی تمام لوگوں  کی مر کر برزخ میں  منتقلی تک انتظار کرنا ہے اور یہ برزخی انتظار قیامت پر ختم ہو گا۔

یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ مردے قبر میں زندہ ہیں؟ یہ سوال عام طور پہ وہ لوگ کرتے ہیں جو مردوں کے تعلق سے حد سے گزر جاتے ہیں.یہ غلط فہمی عام طور پر ان لوگوں کی جانب سے آتی ہے جو بزرگوں کو پکارتے ہیں مرنے کے بعد. اور کہتے ہیں کہ بزرگ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور ہم زندوں کو پکارتے ہیں.اور زندوں کو پکارنا  شرعا جائز ہے۔

جب مردے کہا تو زندہ کیسے ہوۓ؟ پہلی بات تو یہ ہے، مردہ تو مردہ ہی ہوتا ہے. ایک اعتبار سے مردہ ہے اور ایک اعتبار سے زندہ ہے. کس اعتبار سے مردہ ہے کس اعتبار سے زندہ ہے. دنیا کے اعتبار سے وہ مردے ہیں. برزخ کے اعتبار سے وہ زندہ ہیں. اور دنیا کی زندگی برزخ کی زندگی سے بالکل الگ ہے. ایک نئ زندگی ہے برزخ کی جس کی ابتدا دنیا کی زندگی کے خاتمہ سے ہوتی ہے، موت سے ہوتی ہے. جب تک کے دنیا کی زندگی ختم نہیں ہوتی برزخ کی زندگی شروع نہیں ہوسکتی.

وہ الگ سی زندگی ہے. تو مردے مردے ہی ہیں، زندہ نہیں ہیں، دنیا کے اعتبار سے. تو کیسے ممکن ہے کوئ شخص اپنے پیارے کو مرنے کے بعد اسے غسل دیتا ہے، کفن پہناتا ہے، نماز جنازۃ بھی پڑھتا ہے اور دفن بھی کر دیتا ہے، مردہ تھا یا زندہ تھا؟ کیسے ممکن ہے کہ کسی زندہ کو اس طریقہ سے غسل دے، کفن بھی دے،نماز جنازۃ بھی پڑھے اور دفن بھی کر دے؟ اور اسکا کیا مطلب ہوا مرچکا ہے مردہ ہے.

اور جو بھی اولیاء ہیں، صالحین حتی کے پیغمبر و رسول بھی وہ اسی طرح فوت ہو چکے ہیں، غسل دیا گیا، کفن دیا گیا، جنازۃ پڑھا گیا، دفن کیا گیا. دنیا سے چلے گیے تو دنیا کے اعتبار سے مردہ ہیں، برزخ کے اعتبار سے زندہ ہیں۔

پہلے یہ بنیادی بات سمجھ لیں. اب دلائل کی طرف آتے ہیں.

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

کل نفس ذائقة الموت
(ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)
سورۃ الانبیاء: 21 آیت: 35 ہر نفس سے مراد ہر انسان، ہر جانور ہر زندہ چیز

دوسری جگہ پر اللہ نے فرمایا:
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

ترجمہ: اور اللہ تعالی کی راہ میں شہیدوں کو (قتل ہوجانے والوں کو) مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم شعور نہیں رکھتے
(سورۃ بقرۃ آیت: 154)

اشکال اس آیت سے پیدا ہوتا ہے. اس آیت کے تعلق سے سیدنا ابن عباس کے خاص شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں کہ شہدا برزخ میں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے. جنت کے پھلوں میں سے وہ کھاتے ہیں. (تفسیر ابن جریر طبری)

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ شہدا کے لیے ہے وہ برزخ میں زندہ ہیں اور پھر صحیح مسلم کی یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی پوٹوں میں ہیں جو جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش کے نیچے ان کی قندیلیں ہیں۔
(ابن کثیر جلد 1، صفحہ 275 مترجم طبع مکتبہ اسلامیہ)

امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالی شہدا کو برزخ میں رزق عطا کرتا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ (برزخ میں) زندہ ہیں اور فرماتے ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کافر بھی برزخ میں زندہ ہے اور ان کو عذاب دیا جاتا ہے اور اس سے عذاب قبر بھی ثابت ہوتا ہے.

شیخ ڈاکٹرصالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے کسی بزرگ سے کہا کی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مردے جب مر جاتے ہیں. تو پھر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

تو پھر اس شخص نے کہا ہم ان کو پکارتے ہیں کیوں کہ وہ فائدہ دیتے ہیں وہ زندہ ہیں. پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں بل احیاء عند ربھم یرزقون (سورۃ ال عمران) اس پر شیخ صاحب نے کہا کہ اللہ نے کیا فرمایا یرزقون؟

کیا وہ (بزرگ) رزق دیتے ہیں یا ان کو (بزرگوں کو) رزق دیا جاتا ہے؟ اس نے شیخ صاحب کو جواب دیا: کہ اللہ تعالی نے فرمایا وہ رزق لینے والے ہیں۔ گویا معلوم ہوا کہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ مردے زندہ ہیں مگر برزخ میں. نہ ہی ان آیات میں ایسی کوئ دلیل ہے کہ مردوں کو پکارا جاۓ. برزخ میں سب سے افضل زندگی شہدا کی ہے اور ان سے افضل زندگی انبیاء کی ہے اور برزخ میں سب سے افضل زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.
آپ صلى الله عليه وسلم اپنی قبر میں برزخی زندگی کے ساتھـ زندہ ہیں ، آپ اپنی قبر میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں سے خوش وخرم ہیں، اور ان نعمتوں کا سبب آپ کے وہ بڑے بڑے کارنامے ہیں، جو آپ نے دنیا میں انجام دئے تھے، اللہ کی طرف سے آپ پر بہتر سے بہتر درود وسلام ہو، اور آپ کی روح آپ کے جسم میں دوبارہ نہیں پھونکی گئی ہے، کہ آپ پھر اسی طرح زندہ ہو جائیں، جس طرح کہ دینا میں تھے، اور جب تک آپ قبر میں ہیں اس وقت تک آپ کے جسم سے روح کا ملاپ اس طرح نہیں ہوگا کہ آپ زندہ ہوجائیں، جس طرح کہ قیامت کے دن آپ زندہ ہوجائیں گے، بلکہ یہ برزخی زندگی ہے، جو دینا اور آخرت کے درمیان کی زندگی ہے، اور اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ وفات پا چکے ہیں، جیساکہ آپ سے پہلے کے انبیاء اور دیگر لوگ وفات پا چکے ہیں،
چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:ﺁﭖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻛﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻧﮯﮨﻤﯿﺸﮕﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ، ﻛﯿﺎ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﺮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔اور فرمایا: ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺟﻮ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﻓﻨﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺻﺮﻑ ﺗﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺫﺍﺕ ﺟﻮ ﻋﻈﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
اور فرمایا: ﯾﻘﯿﻨﺎﺧﻮﺩﺁﭖ ﻛﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺕ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔ اس جیسی دیگر آیات ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو موت دے کر اپنے پاس بلا لیا ہے؛ اور اس لئے کہ صحابہ رضی الله عنهم نے آپ کو غسل دیا، کفن پہنایا، آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر تدفین کر دی، اور اگر آپ اپنی دنیوی زندگی کی طرح زندہ ہوتے، تو ہرگز آپ کے ساتھـ وہ کام نہ کرتے، جو دیگر اموات کے ساتھـ کئے جاتے ہیں، اور اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی الله عنها نے اپنے والد محترم صلى الله عليه وسلم کی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ آپ انتقال کر چکے ہیں، اور آپ کے اس یقین کی صحابہ میں سے کسی نے بھی مخالفت نہیں کی، بلکہ حضرت ابو بکر رضی الله عنه نے حضرت فاطمہ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انیباء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ہیں، اور اس لئے کہ صحابہ رضی الله عنهم مسلمانوں کے لئے آپ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کی خاطر جمع ہوئے، اور حقیقت میں خلافت کا یہ کام حضرت ابو بکر رضی الله عنه کے ہاتھـ پر بیعت کے ذریعہ مکمل ہوا، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دنیوی زندگی کی طرح زندہ رہتے، تو صحابہ ہرگز یہ کام نہ کرتے، تو یہ آپ کی موت پر ان کا اجماع ہے، نیز اس لئے کہ جب حضرت عثمان اور علی رضی الله عنهما کے عہدِ خلافت میں، اور اس سے پہلے اور بعد میں جب فتنے اور مشکلات بڑھ گئیں، تو صحابہ کرام مشورے کی غرض سے، یا ان مشکلات کا حل دریافت کرنے کی غرض سے آپ کے قبر کے پاس نہیں گئے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے، تو صحابہ اس سلسلے میں ہرگز تردد نہ کرتے، جب کہ انہیں ان حالات ومشکلات میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو گھری ہوئی اس مصیبت سے انہیں نجات دلاتا، اور جہاں تک آپ کی روح کا سوال ہے، تو یہ روح اعلی علیین میں ہے؛ اس لئے کہ آپ ساری مخلوقات میں افضل ہیں، اور اللہ نے آپ کو مقامِ وسیلہ عطا کیا ہے جو کہ جنت میں سب سے بلند مرتبے والا مقام ہے۔
(بشکریہ:علمی تحقیقات اور فتاوی جات دائمی کمیٹی alifta.com )
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...