Saturday 26 August 2017

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#97

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

رجال الغیب سے استفادہ کرنے والے گروہ:

دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس عالم مخفی(جنات) سے استفادہ کرنے والے مندرجہ ذیل قسم کے گروہوں کا پتہ چلتا ہے۔

۱۔ رہبان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو تارک الدنیا ہو کر جنگلوں میں کوئی کٹیا یا خانقاہ بنا کر اس میں مقیم رہا کرتے تھے۔ تزکیہ باطن اور دل کو آئینہ بنانے میں مصروف رہتے۔ ان کا اصل مقصود ذات باری کا مشاہدہ کرنا ہوتا تھا۔ وہ لوگوں کو غیب کی خبریں بھی بتلایا کرتے تھے۔ ان کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّـهِ۔۔۔۔ (الحديد:27)
 اور رہبانیت [ترک دنیا] تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضاجوئی کے۔ 

پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس وقت ان میں سے بہت کم لوگ رہ گئے تھے آپ کی بعثت کی خبر سنتے ہی خانقاہوں والے اپنی خانقاہوں سے اور جنگلوں والے اپنے جنگلوں سے اور حصار والے اپنے حصاروں سے نکل کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی جس کا ذکر اس آیت میں ہے
 «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» (سورةالحديد:28)،
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان ﻻؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا،( یعنی عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا )اور تمہیں نور دے گا،( یعنی قرآن و سنت )
جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناه بھی معاف فرمادے گا، اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔

۲۔ کاہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لوگ چلہ کشی ضرور کرتے تھے، لیکن عام آبادیوں میں رہتے تھے۔ ان کا تعلق شیطانی روحوں(جنات کی دنیا) سے ہوتا تھا۔ "بخاری' باب الکہانہ" میں ہے کہ "کچھ لوگوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کاہنوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: ان کی باتیں محض لغو ہیں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کبھی تو ان کی بات سچ نکلتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ بات وہ ہوتی ہے جو کاہن شیطان سے اڑا لیتا ہے پھر وہ اپنے 'ولی' یعنی دوست کے کان میں پھونک دیتا ہے، تو یہ لوگ اس میں سو جھوٹ ملا لیتے ہیں۔

۳۔ جادوگر۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا تعلق خالص شیطانی اور خبیث روحوں یعنی خبیث جنوں سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ ایسی روحوں(جنوں) کو قابو کر کے لوگوں کو تنگ کرتے، انہیں نقصان پہنچاتے اور لوگوں میں اپنی ہیبت کا سکہ جماتے تھے۔ یہ لوگ ان روحوں(جنات) کے ذریعہ اشیاء کی ماہیت اور حقیقت تو نہیں بدل سکتے البتہ فضا کو متاثر کرتے اور ہیبت ناک بنا دیتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والے جادوگروں کے متعلق فرمایا:
سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُم
"ان جادوگروں نے حاضرین کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ان کو دہشت ناک کر دیا"
{سورہ الاعراف: 116}
گویا جادوگروں کی رسیاں فی الحقیقت سانپ نہیں بنی تھیں بلکہ لوگوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا اور وہ ان سے ڈر بھی گئے تھے۔

انتباہ:سابقہ سطور میں ہم نے جنات کے لفظ کو روح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یاد رہے جنات مخفی دنیا سے تعلق ضرور رکھتے ہیں لیکن "روح"نہیں ہیں بلکہ انسانوں کی طرح ان کا اپنا جسم ہے اور اس میں روح الگ سے ہے۔یہاں ہم نے روح کو دوسرے معانی میں استعمال کیا ہے۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ واضح احکام کی موجودگی میں رہبانیت نے اسلام میں کیسے راہ پائی۔ آخر رہبانیت میں وہ کیا کشش اور جاذبیت ہے کہ شرعی احکام و حدود کو پھلانگ کر لوگ اس میں جا داخل ہوئے؟
یہ کہنا سراسر غلط ہو گا کہ قرآن و حدیث میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں جو ارشادات پائے جاتے ہیں۔ وہ رہبانیت کی بنیاد ہیں۔ کیونکہ ان ارشادات کو سمجھنے والے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اجمعین تھے۔ لیکن ان میں ایسی رہبانیت کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ بلاشبہ دنیا اور اس کے مال و اسباب سے بے رغبتی دین کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ پورا دین نہیں۔ معاشرتی، معاشی اور عائلی حقوق کی ذمہ داریاں، جو زندگی کا نہایت ہی اہم حصہ ہیں، ان ارشادات سے ساقط نہیں ہو سکتیں۔
رہبانیت کو اختیار کرنے کے اسباب کچھ اور ہی ہیں، جو ہمارے خیال کے مطابق درج ذیل ہیں:

۱۔ روحانی ترقی یا آئینہ باطن کی صفائی

اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دنیا کے جھمیلوں میں پھنس کر کبھی یکسوئی کے ساتھ روحانی ترقی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے خیال میں روحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ نہیں، جو دنیا کے اندر سے ہو کر جاتا ہو، لہٰذا ''درویش'' قسم کے لوگوں نے اسے نیکی سمجھ کر اختیار کر لیا۔ جب کہ اسلام نے ایسی روحانی ترقی اور رہبانیت ہی کو مردود قرار دیا ہے۔ آج مسلمانوں میں ایسے ہی روحانی سلسلے پائے جاتے ہیں اور مراقبہ حال اور خانقاہوں میں اسلام کے نام پر یہی کام کروایا جاتا ہے۔ اسلام صرف ایسی روحانی ترقی کا قائل ہے جس کا راستہ دنیا کے اندر سے ہو کر آگے بڑھتا ہو۔ یہ روحانی ترقی تھوڑی ہو یا بہت، سب کچھ مقبول ہے، لیکن شریعت کی حدود کے اندر رہ کر ہونی چاہیے۔ اگر کوئی مسلمان زندگی کی بنیادی اور اہم ذمہ داریوں یا عبادات کو پس پشت ڈال کر ایسی روحانی ترقی کرتا ہے، تو اس کی حیثیت ہندو و جوگیوں اور سادھووں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور ایسی رہبانیت کو اسلام نے مردود قرار دیا ہے۔

یہ روحانی ترقی خواہ شرعی طریق سے ہو یا غیر شرعی طریق سے نتیجۃ انسان کا دل آئینہ کی مثل بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ جب توجہ کریں تو اپنے مخاطب کے احوال سے کسی نہ کسی حد تک مطلع ہو جاتے ہیں۔ {آج کے ماہر علم النفس اسے ہپناٹزم سے تعبیر کرتے ہیں}۔ یہی ان کی غیب دانی اور کرامت ہوتی ہے، جو عوام کیلیے بڑی باعث کشش ہوتی ہے۔ اس طرح ان لوگوں کو عوام پر حکومت کرنے، ان پر دھاک بٹھانے اور خدائی منوانے وغیرہ کا ایسا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ جو عام حالات میں نا ممکن ہوتا ہے اور دنیوی منفعت کے لحاظ سے ان کی دکان ایسی چمکتی ہے جو عام حالات میں ان کی ریاضت و مجاہدہ سے بدر جہا زیادہ محنت اور جدوجہد کا تقاضا چاہتی ہے۔ اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:

"خداوند ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ
درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری​"

جس طرح سلطان لوگوں سے اپنے مالی حقوق ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔ یہ لوگ نذر و نیاز اور چڑھاووں اور نذرانوں کی صورت کرتے ہیں، بلکہ اس لحاظ سے پیر فقیر سلطان سے بڑھ جاتے ہیں کہ سلطان کی حکومت تو محض اجسام پر ہوتی ہے، لیکن یہ دلوں پر اپنی دھاک بڑھاتے ہیں۔اور سادہ لوح عوام  ذہنی اور نفسیاتی غلام بناکر ان کی عزت و مال اور ایمان استحصال کرتے ہیں۔

یہ لوگ 'روحانی رسائل و جرائد ' کے ناموں سے رسالے جاری کرتے ہیں جس پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے:
"یہ پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے اور بندہ کو خدا سے ملا دیتا ہے۔
طلسماتی آئینوں، پھتروں،انگوٹھیوں  وغیرہ سے  مخفی مخلوق یعنی  با قول ان کے ارواح سے ملاقات کروائی جاتی ہے۔
سالہا سال کے مردہ انسانوں، شہداء اور اپنے اسلاف کی روحوں سے ملاقات کروائی جاتی اور دنیا و عالم برزخ کے پوشیدہ حالات کا بھی مشاہدہ کروایا جاتا ہے۔
(ماہ نامہ:آئینہ قسمت،اسٹرولجر علی زنجانی)
نیز ان لوگوں کا دعوی ہے کہ ہم مراقبوں کے ذریعے روحانی علاج کرتے ہیں، ہر مرض کو روحانی علاج سے دور کرتے ہیں، حالت بیداری میں اللہ تعالی اور اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کروایا جاتا ہے اور نیک لوگوں اور عزیز و اقارب کی روحوں سے بھی ملاقات کروائی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
حالانکہ یہ تمام دعوے جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں اور گیان دھیان، ریاضتوں،چلہ کشی اور مراقبوں کا ایسا کوئی نظام قرآن و سنت میں موجود ہی نہیں اور صحابہ کرام کا ایسا کوئی عمل نہیں رہا ہے، یہ سب ان کا خود ساختہ اور سراسر فریب ہے۔۔۔
اسی طرح روحوں سے باتیں کروانا بھی ایک دھوکہ اور جادوئی و شیطانی کام ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ روحوں کے حاظر ہونے کی حقیقت واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
"بسا اوقات مشرک لوگ کسی مردے کو پکارتے ہیں اور شیطان اس مردے کی شکل میں ان کے سامنے آجاتا ہے اور بعض اوقات شیطان کسی زندہ شخص کی صورت میں ان کے سامنے نمودار ہو جاتا ہے اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جسے ہم نے پکارا ہے حالانکہ وہ شیطان ہوتا ہے"
(مجموع الفتاویٰ، ج19،ص47)
ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ سورہ اخلاص کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
"بعض لوگوں نے اپنے شیخ کی دہائی دی اور ان کو شیخ کی صورت نظر آگئی اور بعض اوقات تو وہ شیخ ان کا کوئی کام بھی کر دیتا ہے جس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا شیخ حاضر ہوا تھا یا پھر کوئی فرشتہ اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا جو اس شیخ کی کرامت ہے۔ اس سے ان کا مشرکانہ عقیدہ اور زیادہ راسخ ہوجاتا ہے حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ اس طرح کے کام شیاطین، بت پرستوں کے ساتھ بھی کرتے رہتے ہیں اور وہ ان بت پرستوں کے سامنے بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے بعض کام بھی کر دیتے ہیں۔ لہذٰا یاد رہے کہ یہ تمام خیر القرون کے بعد کی پیداوار ہیں"
(تفسیر سورہ اخلاص:ص118)
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مرقبہ، چلہ کشی اور ریاضت وغیرہ سب غلط ہیں تو ان کا اتنا اثر کیوں ہے۔ ہمارے بہت سے کام کیسے ہوجاتے ہیں، تو ان کے وسوسوں کا جواب ابن تیمیہ کی بیان کردہ عبارت میں موجود ہیں کہ شیطان بت پرستوں کے بھی کام کر دیتا ہے تو کیا یہ ان کو بھی حق جانے گے۔۔۔۔۔۔؟

۲۔ کشف و مشاہدات

اسی صفائی قلب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ جنات کی دنیا یا رجال الغیب سے اپنا تعلق قائم کرتے، چلہ کشی کے ذریعہ انہیں قابو میں لاتے، قبروں پر معتکف(چلہ) ہو کر صاحب قبر کے موکل یا اس کے متماثل کسی موکل سے ملاقات کرتے، ان کے احوال معلوم کرتے اور غیب کی خبریں حاصل کر کے لوگوں کو بتلاتے ہیں۔ اگرچہ سارے کام شیطانی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن عوام کیا، خواص میں بھی اتنی تمیز نہیں ہوتی کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔ یہ مقام انہیں عوام میں اور بھی زیادہ پر وقار اور پر ہیبت بنا دیتا ہے۔

۳- مشاہدہ حق

ان لوگوں پر کچھ نہ کچھ تجلی ہوتی ضرور ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا، خواہ وہ شیطان ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو اور اس تجلی میں کیف و سرور بھی ہوتا ہے بعض لوگ اس مستی کی کیفیت کے حصال کیلیے بھی یہ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ پھر اس کیفیت کے حصول کیلیے اتنے بیتاب ہو جاتے ہیں کہ سماع و رقص جیسے مصنوعی طریقوں سے اپنے آپ پر یہ کیفیت طاری کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

۴۔ معاشرتی ذمہ داریوں اور شرعی تکالیف سے نجات

یہ لوگ چونکہ اپنے آپ کو خود بھی خدائی صفات کے حامل اور کوئی بالا تر مخلوق سمجھنے لگتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے معتقدین سے خدا کی بجائے اپنی پرستش کرانا شروع کر دیتے ہیں۔ پرستش سے مراد پوجا پاٹ نہیں، بلکہ حاجت روائی، مشکل کشائی اور نذر ونیاز وغیرہ ہیں۔ پھر کسی کی کیا مجال کہ وہ پیر صاحب یا عامل صاحب کی معاشرتی ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی پر معترض ہو اور اس طرح ان کے خلاف شرع اعمال و افعال سے متعلق کچھ کہہ کر راندہ درگاہ بن جائے۔

بعض حضرات سُکر کی حالت میں شرعی تکالیف کے رفع ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح کوئی بے ہوش یا دیوانہ آدمی جب تک وہ اس حالت میں رہے-شرعی احکام کا پابند نہیں ہوتا۔ اسی طرح صاحب وجد و حال پر سے بھی شرعی تکالیف اٹھا لی جاتی ہیں۔ یہ دلیل مذاق اور قیاس مع الفارق سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کی دیوانگی یا بے ہوشی اضطراری یا اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کہ ان لوگوں کی محویت خود پیدا کردہ بدعت ہے جس کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ میں کوئی سراغ نہیں ملتا، تو پھر اس اختیاری محویت پر اضطراری کیفیت کو منطبق کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

۵۔ شعبدہ بازیاں

ان لوگوں میں ایک کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جو نہ تو اہل دل ہوتا ہے، نہ صاحب حال، وہ محض اپنے لباس اور ہیئت کی تبدیلی سے ہی اس عالم رہبانیت کے معزز رکن تصور کیے جاتے ہیں، جیسے اکثر گدی نشین، مجاور اور ان کے خلیفے۔ یہ لوگ محض شعبدہ بازیوں سے عوام پر اپنی خدائی کی دھاک سجال رکھتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو رفاعی فرقہ کے ایسے ہی شعبدہ باز پیروں سے سابقہ پڑا تھا۔ یہ لوگ سیاہ کپڑے پہنتے، ہاتھوں اور گلوں میں لوہے کے کڑے یا طوق پہنتے تھے۔ آگ میں کود جاتے، انگاروں اور سانپوں سے کھیلتے تھے اور یہی ان کے اہل حق ہونے کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ نماز، روزہ اور دوسرے شرعی احکام سے یکسر غافل اور بے پرواہ تھے۔ اطراف و اکناف میں ان کے بے شمار معتقدین پھیل گئے تھے۔ امرائے سلطنت پر بھی ان لوگوں کا اثر تھا۔

امام موصوف نے بیانگ دہن یہ اعلان کر دیا کہ یہ لوگ محض شعبدہ باز ہیں اور رجال الغیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے مشتعل ہو کر حاکم وقت امیر افرم سے شکایت کی۔ امیر افرم نے فریقین کو بلا لیا اور طے یہ پایا کہ فریقین آگ میں کود جائیں، پھر جو جل جائے گا وہ جھوٹا اور جو بچ کر نکل آئے گا اسے سچا سمجھا جائیگا۔
امام موصوف نے یہ فیصلہ منظور کر لیا، مگر شرط یہ لگائی کہ فریقین آگ میں داخل ہونے سے پہلے سرکہ اور گرم پانی سے خوب بدن مل کر نہا لیں۔ امیر افرم نے وجہ دریافت کی تو آپ نے کہا کہ یہ لوگ مینڈک کی چربی، نارنج کے اندرونی چھلکے اور طلق کے پتھر وغیرہ پیس کر اپنے بدن پر مل لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آگ کا ان پر اثر نہیں ہوتا۔

امیر افرم نے امام صاحب سے پوچھا کہ اگر یہ لوگ غسل کرنے کی شرط مان جائیں، تو آپ آگ میں کودنے کو تیار ہیں؟ اس وقت امام صاحب نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے جو آپ کے اللہ پر توکل، عزم راسخ اور پختگی ایمان کی ایک زندہ جاوید مثال ہے۔ آپ نے فرمایا:

"ہاں۔ میں نے خدا سے استخارہ کیا ہے اور میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو میں بھی آگ میں کود جاوں۔ اور اگر ایسا کروں گا، تو یہ کوئی نئی بات نہ ہو گی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشینوں سے اس قسم کے خوراق و عادات کا ظہور کئی مرتبہ ہو چکا ہے اور ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے جب یہ لوگ اپنے رموز و ارشادات اور خوراق عادات امور سے اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔ تو ہم پر فرض ہے کہ شریعت کی حمایت میں اپنے جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کریں، اللہ ہم کو ضرور ایسی نشانیاں عطا فرمائے گا جن سے ہم ان کے خوراق عادات کا بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں۔"
جب اس فرقہ رفاعیہ کے پیروں نے امام موصوف کی یہ شرط اور ایسا جواب سنا، تو ان کے حوصلے پست ہو گئے اور صلح کی درخواست کی کہ اس معاملہ کو یہیں پر ختم کر دیا جائے اور معافی مانگ لی اور کہا کہ آئندہ ہم بدعتوں کو چھوڑ کر شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کریں گے۔
{امام ابن تیمیہ، مرتبہ، پروفیسر محمد یوسف کوکن، مدارس یونیورسٹی ص155، تاریخ دعوت و عزیمت، حصہ دوم، مرتبہ ابو الحسن علی ندوی، ص157}​

روحوں کے حاضر کرنے کا عقیدہ​

ارواح کو حاضر کرنے کا عقیدہ یورپ میں اٹھارویں صدی کے اوائل میں پھیلا۔ بہت سے مادہ پرست اور دینی علماء نے اس عقیدہ کی مخالفت کی مگر مرور ضمانہ کے ساتھ معتقدین اور مویدین بڑھتے گئے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں اس عقیدہ کی موافقت میں کئی کتابیں، رسائل اور اخبارات موجود تھے۔ اس عقیدہ کی ہوا مشرق کے اسلامی ممالک کو بھی لگ گئی۔

عالم اسلام کے بعض علماء اور بہت سے اہل قلم حاضری ارواح کے مذہب کے پیرو ہوگئے۔ ان مغربی اور مشرقی لوگوں کا دعوٰی ہے کہ حاضری ارواح سے متعلق کتابوں میں انہوں نے جو پڑھا اور اس مضمون کی اشاعت و حمایت پر توجہ دینے والے جرائد و رسائل کی جن باتوں کا انہوں نے مطالعہ کیا، ان کا تجزیہ کیا تو نتیجہ وہی نکلا جو انہوں نے کہا تھا۔ اس عقیدہ کے معتقد مسلمان یہ خیال خام رکھتے ہیں کہ عقیدہ مذکور عالم غیب، نبوت اور وحی کے انکار کے نظریہ و مذہب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
اس عقیدہ کے سرگرم حامیوں میں استاذ محمد فرید وجدی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب "الاسلام فی عصر العلم" میں 'مذہب استحضار الارواح عامل کبیر نشر الاسلام فی اروبا' {یورپ میں اشاعت اسلام کا زبردست محرک ارواح کو حاضر کئے جانے کا مذہب ہے} کے عنوان کے تحت کہا:

"یورپ میں استحضار ارواح کی سب سے بڑی خصوصیت ہماری نظر میں یہ ہے کہ اس سے مذہب مذکور کیلیے ایک کشادہ روشن دان کھل گیا ہے جس سے عالم روحانی کو جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے، نیز وحی نبوت کی باتیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ حالانکہ کوتاہ نظ اور طاہری حس کے قیدی اس نظریہ کو پھینکنے پر تلے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل سے یہ لوگ ادیان عقائد کے عزوشرف کو گرانا اور کم کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کا یہ مقصد کیوں کر پورا ہو سکتا ہے، جبکہ خالق یعنی اللہ تعالٰی اپنے مخلص بندوں کی تائید و مدد کی فیصلہ کر چکا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۔ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ ۔وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ۔فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ حَتّٰی حِیۡنٍ ۔وَّ اَبۡصِرۡہُمۡ فَسَوۡفَ یُبۡصِرُوۡنَ
"ہمارے بھیجے ہوئے رسول بندوں کیلیے ہمارا یہ فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے کہ ان کی مدد کی جائے گی اور ہماری فوج کے لوگ ہی غالب ہوں گے۔ ایک زمانہ تک ان سے اعراض کیے رہئے اور انہیں دیکھتے رہئے وہ بھی عن قریب دیکھیں گے"
{سورہ الصٰفت، آیۃ 171،175}

اس کے بعد موصوف استاذ محمد فرید نے طویل بحث کی اور اپنے مدعا پر کئی مغربی حضرات کی باتوں سے استدلال کیا ہے۔ حتٰی کہ اپنی کتاب کی پہلی جلد کا تہائی حصہ اسی بحث میں سیاہ کر دیا ہے، مگر اس کے باوجود زیادہ مناسب یہ ہے کہ حق بات کہی جائے کہ عقیدہ مذکورہ فاسد چیز ہے اور اسلام کے خلاف ہے۔ اگرچہ اس کی تائید کرنے والے کا خیال ہے کہ عقیدہ مذکورہ دین کا موید ہے۔ حاضری روح والا دعوٰی ان باطل دعووں میں سے ہے جنہوں نے اسلام کے خلاف جنگ کر رکھی ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ کی پشت پر نشانہ لگا رکھا ہے وہ اس طرح کہ سب سے پہلے اسلام اس بات پر قائم ہے کہ صرف اللہ تعالٰی کے عالم الغیب ہونے پر ایمان رکھا جائے اور یہ مانا جائے کہ انبیائے کرام علیہم السلام صرف مبلغ تھے۔
ارشاد الٰہی ہے:
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ
"اللہ تعالی عالم الغیب ہے وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا، مگر جس رسول کو چاہتا ہے کچھ بتلا دیتا ہے"
{سورہ الجن، آیۃ 26،27}

نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا:
قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں"
{سورہ الانعام، آیۃ:50}

رسول کو غیب پر اللہ تعالٰی کے اطلاع دینے کا سلسلہ وفات نبوی کے ساتھ ختم ہو گیا اور اب اس کا دروازہ بند ہو گیا، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و مرسلین کے خاتم ہیں۔
حاضری روح کا عقیدہ ایمان کے مذکورہ بالا بنیادی اور اساسی رکن کو منہدم کر دینا چاہتا ہے اور بزعم خویش معرفت غیب کا دروازہ کھول دینا چاہتا ہے اور آخرت کی طرف منتقل ہو جانے والی ارواح سے اس دنیا میں زندہ رہنے والے زندہ لوگوں کا ربط و تعلق قائم کرنے کیلیے ایک خیالی واسطہ بنا ہوا ہے۔

اس طریقہ سے ان خیالی ارواح نے اپنے تلامذہ کیلیے اخروی زندگی کی کامل خیالی تصویر بھیجنا شروع کر دی ہے۔ یہ خیالی زندگی ویسی نہیں ہے جس کا تصور اسلام پر ایمان لانے والے کتاب و سنت کی روشنی میں رکھتے ہیں۔ جس طرح کی اخروی زندگی کا اعتقاد و یقین ہم مسلمان رکھتے ہیں اس سے یہ زندگی کلی طور پر مختلف ہے۔
عقیدہ مذکورہ کے مطابق وہاں یعنی دنیائے آخرت میں ہماری دنیا کی طرح پہاڑ، دریا اور پھول، حیوانات اور حشرات الارض ہیں جو اپنے گھروں میں چلتے پھرتے ہیں اور ان کی ارواح جسم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور لوگ اپنے عقائد و مذاہب کے اختلاف کے باوجود وہاں دائمی نعمت میں زندگی گزارتے ہیں۔ جنت و جہنم کا جو اسلامی مفہوم و معنی ہے وہ عقیدہ مذکورہ والی آخرت میں نہیں ہے نہ وہاں فرشتوں کا کوئی نام و نشان ہے جس طرح اس دنیا میں انسان خیر و شر کی انجام دہی میں آزاد ہے اسی طرح وہاں بھی، وہاں ارواح آزاد ہیں جس سے چاہیں ملیں، جس کی چاہیں زیارت کریں، سیاسی، طبی اور ادبی امور حتٰی کہ مجرمین کی سزا اور پوشیدہ جرائم کی تحقیق پر بالکل دنیاوی امور کی طرح گفت و شنید کرتی رہتی ہیں۔"
{کتاب بحث تحضیر الارواح از عبد الرحمٰن عبد الخالق}

آدمی جب چاہے ارواح کو حاضر کر سکتا ہے اور ان سے خطاب کر سکتا ہے، یہ باتیں قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔جس کی مزید تفصیلات آئندہ اقساط میں آ رہی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ
"اور اگر میں علم غیب جانتا تو بہت سی بھلائی جمع کر لیتا اور مجھے برائی لاحق نہ ہوتی۔ میں تو صرف ایسے لوگوں کیلیے بشیر و نذیر ہوں جو ایمان رکھتے ہوں"
{سورہ الاعراف، آیۃ: 188}
یہ اعتقاد کہ اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی علم غیب رکھتا ہے خواہ ارواح ہوں یا کوئی اور۔یہ کفر ہے، مگر صرف بعض غیب کی باتوں کو اللہ نے اپنے رسولوں کو بذریعہ وحی بتلا دیا ہے۔ کیونکہ روح ان مخفی امور میں سے ہے، جن کی حقیقت اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا
"لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
{سورہ بنی اسرائیل، آیۃ 85}

اسلام سے پہلے اور بعد کے لوگوں نے حقیقت روح کی تلاش کی اور اس سلسلے میں کتابیں لکھیں، لیکن حقیقت تک نہ پہنچ سکے کہ دل کو اطمنان ہو اگرچہ بعض لوگوں نے اس کی یہ تعریف کی ہے:

"روح ایک جسم لطیف ہے جو بدن میں اس طرح سرایت کیے رہتی ہے، جیسے آگ کوئلہ میں"

مگر مسلمان اس میں شک نہیں کر سکتا کہ مردوں کی ارواح کو حاضر کرنے کا عقیدہ حسب ذیل وجوہ سے کتاب و سنت کے خلاف ہے۔
۱۔ روح ان امور غیب میں سے ہے جن پر اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی کو قدرت نہیں ہے۔
۲۔ مردوں کی ارواح دو طرح کی ہیں، ایک نعمتوں میں دوسری عذاب میں اور دنوں میں سے کسی کا حاضر کرنا ممکن نہیں۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین بدر کو ایک گڑھے میں پھینک دینے کا حکم دیا۔  پھر وہاں آکر آپ نے انہیں نام بنام پکار کر فرمایا: تم نے ان باتوں کو حق پایا جن کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ میں اسے حق پایا جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایسے لوگوں کو آپ کیا مخاطب کر رہے ہیں جو مردار ہو چکے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میری بات کو ان مقتولین سے زیادہ تم نہیں سن رہے ہو لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے"

جب ارواح سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا جواب نہیں دے سکتیں تو دوسرے لوگ انہیں کیسے حاضر کر سکتے ہیں؟ اور ان سے کیسے بات کر سکتے ہیں؟
یاد رہے مقتولین بدر کا سننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔اللہ تعالی کا ان کو سنانا ان کو ذلیل و خوار کرنا تھا۔
اللہ نے فرمایا:
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ(القران ۳۵:۸۰) 
اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انہیں نہیں سناسکتے جو قبروں کے اندر ہیں۔
پس عموما مردہ نہیں سنتا اور نہ ہی کوئی انسان کسی مردے کو کچھ سنا سکتا ہے لیکن اللہ جب چاہتا ہے مردے کو سنوا دیتا ہے اور مردہ سنتا ہے۔

مردوں کی ارواح کو حاضر کرنا  ناممکن میں سے ہے۔ ملائکہ کی ارواح کی حاضری کا مسئلہ رہ جاتا ہے۔ کوئی صاحب عقل اس میں شک نہیں کر سکتا کہ بشر ان  کو دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا چہ جائے کہ ان کی روح حاضر کر سکے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی روح فرشتہ کو حاضر کرنے کا دعوٰی کر سکتا ہے خواہ وہ جنون و حماقت و دعوٰی بازی کے کسی بھی درجہ کو پہنچ چکا ہو۔
مگر ارواح جن کو حاضر کرنے کو کچھ لوگ ممکن خیال کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے منکر ہیں۔ اگر ارواح جنات کی حاضری کو ممکن مان لیا جائے تو غیب دانی کے دعوٰی میں جنات کے اکاذیب کا پردہ قرآن مجید نے فاش کر دیا ہے اور اس دعوٰی کا باطل ہونا واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے سلسلے میں فرمایا:

مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ
"حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت پر جنات کو زمین کے کیڑوں مکوڑوں نے خبر دی، جنہوں نے ان کی لاٹھی کو کھا لیا تھا۔ جب حضرت سلیماں علیہ السلام گرے تو جنات کو معلوم ہوا {تو کہنے لگے} کہ اگر وہ غیب جانتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے"{سورہ سباء، آیۃ 14}

غیب ان امور سے ہے جنہین اللہ تعالٰی نے اپنے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ
"آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی زمین اور آسمان میں غیب نہیں جانتا"
{سورہ النمل، آیۃ:65}

نیز اسی طرح اگر سورہ یوسف پڑھے اور تو قصہ یوسف سے معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام معاملہ یوسف علیہ السلام میں سے کچھ بھی جانتے تو اس قدر عظیم غم نہ اٹھاتے۔جب رسول و پیغمبر علم غیب نہیں جانتے تو جن، فرشتے یا کاہن کیسے علم غیب رکھتے ہوں گے؟ کچھ لوگ شیاطین کو بھی حاضر کیا کرتے ہیں، لیکن اس میں فریب و شعبدہ بازی دخل ہے، اس سے انسانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور ان کے عقائد کو بگاڑا جاتا ہے۔
یہاں آپ کے سامنے شیخ فرضاوی کا وہ ارشاد پیش کیا جاتا ہے جس کو انہوں نے 'الاھرام کی جمیعتھ الروحیھ' کے سیکرٹری استاذ حسن عبد الوہاب سے نقل کیا ہے۔ سیکرٹری موصوف نے جمیعۃ الروحیہ سے استعفٰی دے دیا اور اس سے اپنے تائب ہونے کا اعلان کیا اور ایک تحریری اعلان شائع کیا جس میں لوگوں پر اس سلسلے میں اپنی رائے ظاہر کی۔ موصوف کے اس بیان کو اخبار الجمہوریۃ نے 23 رمضان سنہ 1379ھ کو شائع کیا ہے۔
"اللہ تعالٰی نے ماہ رمضان میں میرے دل سے ضلالت کا پردہ ہٹا دیا اور غیر مشکوک طور پر قطعی ثبوت کے ساتھ آخر میں میرے لیے یہ ثابت ہو گیا کہ جو شخصیات ظاہر ہو کر دعوٰی کرتی ہیں کہ ہم ان گھر والوں اور احباب کی ارواح کہتے ہیں جو پہلے مر چکے ہیں وہ درحقیقت شیاطین اور جنات کے ہمزاد ہیں، لوگوں کو شکوک میں مبتلا کرتے ہیں۔ میں اب اپنی زندگی کے اس بدبخت عرصہ کو الوداع کہتا ہوں اور اپنے اسلام کی تجدید کرتا ہوں اور دوبارہ ایمان لاتا ہوں"
جاری ہے۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...