Sunday 13 August 2017

مادی جسم کی پیدائش

مادی جسم کی پیدائش

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#95 حصہ دوم

باعث طوالت یہ مضمون  دو اقساط میں پوسٹ کیا گیا ہے۔حصہ اول پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک وزٹ کریں ۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/08/blog-post_47.html

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

۱۸۔ روح کہاں  ہے ؟

 ﴿روح بیک وقت ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾

یہ روح (Energy)خالق کائنات کا حکم ہے اور اسی حکم سے تمام کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم انرجی ہے  یہ انرجی حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی حکم انرجی یا روح سے 

ہر وجود اسی روح (Energy)سے  وجود ہے۔

ہر وجود اسی روح (Energy)سے  تخلیق ہو رہا ہے۔

؂ہر وجود اس کی عدم موجودگی سے  فنا ہو رہا ہے۔

ہر وجود اسی روح (Energy)سے  زندہ ہے۔

ہر وجود اسی روح(Energy) سے  متحرک ہے۔

ہر وجود اسی روح (Energy)کا ایک مقداری و مرکب فارمولہ ہے۔

یہی روح (Energy)مختلف مرکب حالتوں  میں  مختلف موجودات (وجود) ہے۔

یہ تمام موجودات جو انرجی ہی کی مختلف مرکب حالتیں ہیں  یہ موجودات انرجی ہی کی ایک شکل (AURA) سے متحرک ہیں۔

 خود کار مشینری روح (Energy)کے  پروگرام سے  متحرک ہے۔

 نظام عصبی کو تحریک دینے  والی روح (Energy)ہے۔

 DNAکے  پاس روح (Energy)کا پروگرام ہے۔

ہر خلیے  میں  روح(Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے۔
AURA میں  بھی روح (Energy)ہے۔

 دو خلیوں  کو مرکب کر کے  جسم بنانے  والی روح (Energy)ہے۔

جسم کے  ہر جوڑ ہر خلیے  میں  روح (Energy)اور اس کا پروگرام ہے۔

 روح (Energy)ہی کے  پروگرام سے  جسم کو جسمانی اعمال کی ہدایات وصول ہو رہی ہیں  جس سے  جسمانی عمل کی عملی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔

جب روح ((Energyخود ہی خود سے  مرکب ہو کر مختلف روپ دھارتی ہے  تو مختلف موجودات کی صورت میں  ظاہر ہوئی جس کو کبھی ہم مادہ کہتے  ہیں  کبھی پلازمہ، کبھی گیس، کبھی پانی، کبھی ہوا، کبھی آگ، کبھی درخت، کبھی پہاڑ، کبھی صحرا، کبھی دریا، کبھی جانور، کبھی انسان۔  جب یہ موجودات انرجی کے  خارج ہونے  سے  فنا ہو جاتی ہیں  یا جب انرجی یہ مرکب حالت چھوڑدیتی ہے  تو یہ موجودات فنا ہو جاتی ہیں  تو فقط پیور انرجی باقی رہ جاتی ہے اور یہی پیور انرجی ہی حقیقت ہے  باقی تمام موجودات مفروضے  ہیں۔

لہذا روح خالق کائنات کا حکم ہے  یہ حکم حرکت کا منظم و مسلسل پروگرام ہے اور اسی روح سے  مرکب تمام موجودات اسی حکم کے  منظم پروگرام پر عمل پیرا ہیں  لہذا ہر وجود کی موجودگی، حرکت و عمل، زندگی، ارادی و غیر ارادی اعمال کا منبع یہی روح ہے۔

 لہذا روح (Energy)جسم تخلیق کر رہی ہے۔ جسمانی مشینری کو چلا رہی ہے۔ اسی روح (Energy)کے  جسم میں  ہونے  کو ہم زندگی کہتے  ہیں اور اسی روح (Energy)کے  جسم میں  نہ ہونے  کو ہم موت کہتے  ہیں، اسی روح (Energy)کی تخلیق کو ہم جسم کہتے  ہیں اور اسی روح (Energy)کے  نہ ہونے سے  اسی جسم یا انسان کا کہیں  نشان بھی باقی نہیں بچتا۔ یعنی خود جسم انرجی کی ایک ہیت ایک مظاہرہ یا انرجی کا ایک مرکب ہے۔ یعنی جسم انرجی ہے  درحقیقت۔ (یعنی رب کا حکم)

کائنات اور اس کی تمام تر موجودات  بشمول انسان واحد انرجی کے  مختلف مظاہرے  ہیں کائنات کی واحد حقیقت انرجی ہے  جو رب کا حکم ہے۔

یعنی کائنات اور اس کی تمام تر موجودات  بشمول انسان خالق کا حکم (پروگرام، انرجی)ہے۔

۱۹۔ روح کائنات سے  مربوط ہے

﴿روح پوری کائنات سے  مسلسل مربوط ہے۔ ﴾

پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر رہی ہے  یہی انرجی مختلف موجودات کی شکل دھار رہی ہے  یہی انرجی ہر وجود میں  مختلف مقدار میں  موجود ہے  یعنی ہر وجود میں  پاور اسٹیشن سے  ہر لمحہ مربوط ہے۔

جیسے  بجلی مین پاور اسٹیشن سے  کھمبوں  تاروں  کے طویل سلسلے  سے  ہوتی ہوئی ہمارے  گھر تک پہنچ رہی ہے اور پورے  گھر میں  روشنی ہے  فریج ٹی وی، بلب غرض گھر کی ہر شے  اسی سے  چل رہی ہے  متحرک ہے۔  یعنی بلب جو روشن ہے  اس میں  بجلی مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے۔ یعنی یہ بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے  روشن ہے  لیکن یہ بجلی کے  تمام تر وسیع سلسلے  سے  مربوط بھی ہے  ایسا نہیں  ہے  کہ گھر میں  فقط بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے  روشن ہے ، ایسا نہیں  ہے  ریفریجریٹر کسی اور ذریعے سے  متحرک ہے  بلکہ جو بجلی بلب میں  ہے  وہی ٹی وی میں  بھی ہے ، اسی سے  ریفریجریٹر چل رہا ہے  وہی بجلی پنکھے  میں  ہے  وہی تاروں اور کھمبوں  میں  ہے  ہر وجود اسی بجلی کے  سلسلے  کا تسلسل ہے۔

لہذا روح جوکہ بذات خود انرجی ہے اور یہ روح پاور اسٹیشن کے  طویل سلسلے  سے  مربوط ہے  روح کائنات کے  ہر وجود سے  مربوط ہے۔ پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر کے  ایک طویل سلسلے  کے  تحت ہر وجود تک پہنچ رہی ہے اور کائنات کاہر وجود بشمول انسان انرجی کے  اس تسلسل سے  مسلسل مربوط ہے۔

۲۰۔ واحد حقیقت

لہٰذا ا کائنات اور اس کی تمام تر تخلیقات( موجودات بشمول انسان )
کی ایک ہی حقیقت ایک ہی اصل ہے اور وہ ہے انرجی(Energy)(روح یا رب کا حکم)۔ ﴾

کائنات کا ہر وجود اسی انرجی (Energy)کی مختلف شکلیں یا مرکبات ہیں۔

ہر وجود انرجی (Energy)کے  ایک ہی تسلسل کا حصہ ہے اور اس سے  مسلسل مربوط ہے۔

روح(Energy) ہر لمحہ کائناتی اجسام تخلیق کر رہی ہے۔

مادی جسم بھی روح(رب کا حکم(پروگرام) کی تخلیق ہے۔

یعنی کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات رب کا حکم(پروگرام) ہیں۔ اسی حکم پر عمل پیرا اور اس سے مسلسل مربوط ہیں۔

کائنات کی اصل کائنات کی واحد حقیقت کائنات کا تخلیقی مادہ  واحد انرجی (Energy)ہے  جو رب کا حکم ہے  یعنی جو کچھ بھی موجود ہے  یا وجود رکھتا ہے  سب رب کا حکم(پروگرام) ہے

ابتدا میں پیدائش کے  عنوان کے  ساتھ ہم نے  یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادر رحم میں  نطفہ نہیں  بلکہ روح جسم تخلیق کر رہی ہے  اب یہاں  تک پہنچ کر ہم اس نظریے  کی تفصیلاً وضاحت کر چکے  ہیں۔ تخلیق کے  عنوان سے  یہ وضاحت تو ہم کر آئے  ہیں  کہ رحم مادر میں  پورا انسان خود بخود یا محض نطفے  سے  نہیں  بلکہ روح کے  پروگرام کے  عین مطابق ترتیب پا رہا  ہے۔ اب یہاں  ہم یہ وضاحت کریں  گے کہ روح کا یہ پروگرام کیا ہے اور کیسے  روح کے  پروگرام کے مطابق جسم ترتیب وتخلیق پا رہا ہے۔

جسمانی ساخت 

 ﴿پیدائش کے  عمل میں  جسمانی ساخت روح کے  دو پروگراموں  سے  ترتیب پا رہی ہے۔ ﴾

  (1) موروثی پروگرام۔

  (2) ذاتی پروگرام۔

لہذا اب ہم یہاں  یہ وضاحت کریں  گے  کہ روح کا یہ پروگرام (جسمانی ترتیب کا فارمولہ)دو حصوں  پر مشتمل ہے۔ لہذا پیدائش کے  عمل میں  رحم مادر میں  جسمانی ساخت روح کے  پروگرام سے  تو ترتیب پا رہی ہے اور یہ روح کا پروگرام دو حصوں  پر مشتمل ہے۔

جسمانی ساخت سے  ہماری مراد مادی جسم یا پوری جسمانی شخصیت ہے  جس میں  جنس کا تعین، قد کاٹھ، رنگ و روپ اس کے  علاوہ عادات و اطوار کردار وغیرہ یعنی پوری انسانی شخصیت
یہ جسمانی ساخت ہر شخص کی مختلف ہے۔ اگرچہ دنیامیں اربوں  انسان ہیں  لیکن ہر انسان دوسرے  سے  مختلف ہے حالانکہ سب انسان ہیں اور ایک جیسے  جسم رکھتے  ہیں لیکن ایک ہی طرز کے  تمام اجسام ایک دوسرے  سے  مختلف ہیں۔ اور ہر انسان میں  یہ اختلاف اور انفرادیت پیدائش کے عمل میں  ہی مکمل ہو جاتی ہے  آئیے  دیکھتے  ہیں  کے  ہر انسان کے  اندر  پیدائش کے  عمل میں  یہ انفرادیت کیسے  جنم لے  رہی ہے۔  جسمانی پیدائش کا عمل نو ماہ کے  عرصے  پر مشتمل ہے اور یہ نو ماہ کا عرصہ دو ادوار پر مشتمل ہے  لہذا انسانی جسم کی تیاری کا عمل روح کے  دو مختلف پروگراموں  سے  ترتیب پا رہا ہے۔ اور یہی روح کے  دو مختلف پروگرام ہر انسان کو مختلف بنا رہے  ہیں۔

(۱)۔ موروثی پروگرام

﴿120دن تک بچے  کا جسم موروثی پروگرام (روح) سے  ترتیب پاتا ہے۔ ﴾

اسی موروثی پروگرام کے  تحت انسان وراثتی خصوصیات رکھتا ہے اور اسی روح کے  موروثی پروگرام کے  تحت ہر انسان نسل در نسل انسان ہے۔

یہ موروثی پروگرام بچے  کے  والدین کا پروگرام ہے  جو والدین کے  جراثیم سے  بچے  میں  منتقل ہو رہا ہے۔ ماں اور باپ دونوں  کے  جراثیم اپنی اپنی انفرادی روح (انرجی، پروگرام ) رکھتے  ہیں۔

لہذا یہ جراثیم یکجا ہو کر جسم کی ترتیب کا کام شروع کرتے ہیں  تو یہ کام ماں اور باپ کے  پروگراموں  پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہذا موروثی پروگرام میں  نطفے  کی کارکردگی نمایاں  ہے اور یہ نطفہ اپنا کام کر رہا ہے  ماں  باپ کے  روح کے پروگراموں  پر۔ اور ماں اور باپ کے  جراثیموں  کے  ذریعے بچے  کے  اندر ماں اور باپ کی وراثت منتقل ہو رہی ہے۔ اور ماں  کے  شکم کے  ذریعے  یہ وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی ہی چلی آ رہی ہے۔ لہذا

 وراثتی نوعی قانون

﴿پیدائشی وراثت پہلی ماں  کی کوکھ سے  منتقل ہو رہی ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گی﴾

لہذا یہ موروثی خصوصیات کا پروگرام ماں  کی کوکھ سے  ہر انسان میں  منتقل ہوتا ہے۔ موروثی پروگرام کائنات کی پہلی ماں  سے  چلا ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گا – اور اسی نسل در نسل وراثتی منتقلی کا نتیجہ ہے  کہ

(1)   ہر انسان دوسرے  انسان کی طرح انسان ہی ہوتا ہے  لہذا ابتدا کا انسان بھی ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ آج کا انسان ( ابتداء کا انسان حیوان تھا  یا انسان کا بتدریج ارتقاء ہوا یہ نظریہ  ہر قسم کے  نوعی قانون کے  خلاف ہے )۔

(2)   اسی وراثتی منتقلی کی وجہ سے  انسان اپنے  والدین سے  مشابہت رکھتا ہے۔

(3)   اسی  وراثتی منتقلی کی وجہ سے  انسان اپنے  خاندان سے  مشابہت رکھتا ہے۔

(4)   اسی وراثتی منتقلی کے  سبب سے  انسانوں  میں تقاضے  مشترک ہیں۔

لہذا وراثتی منتقلی کے  سبب ہی انسان کی جسمانی ساخت چال ڈھال، انداز، کردار اس کے  آباء و اجداد سے  مشابہ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ موروثی پروگرام ابتداء کے  انسان یا پہلی ماں سے  چل رہا ہے اور انتہا کے  انسان تک منتقل ہو گا  یعنی یہ موروثی پروگرام ماں  کے  پیٹ سے  نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ لہذا موروثی قانون کے  مطابق

کائنات کا پہلا انسان بھی آج کے  انسان جیسا انسان ہی تھا اور تمام انسان ایک ہی جوڑے  کی نسل ہیں اور یہ نوعی تسلسل آخری انسان تک منتقل ہو گا

لہذا  رحم مادر میں پیدائش کے  ابتدائی  120  دن ہر انسان کا جسم اسی نسل در نسل موروثی پروگرام یعنی والدین کے جراثیم سے  ترتیب پاتا ہے۔

ذاتی پروگرام 

 ﴿120  دن بعد رحم مادر میں  بچے کے  جسم کو ذاتی پروگرام (روح) مل جاتا ہے۔ یعنی باقی 150  دن بچے  کا جسم اپنے  ذاتی پروگرام(اپنی روح) سے ترتیب پاتا ہے۔ ﴾

لہذا  120  دن بعد بچے  کا جسم اسی ذاتی پروگرام (روح ) سے  ترتیب پاتا ہے۔ ذاتی پروگرام انسان کی ذاتی شخصی انفرادیت کا پروگرام ہے  لہذا رحم مادر میں باقی کے 150 دن جسم اسی ذاتی پروگرام(اپنی روح) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی ذاتی پروگرام کی وجہ سے ایک انسان تمام انسانوں  کی طرح ہونے  کے  باوجود اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے۔

ہر انسان دوسرے  انسان سے  مختلف ہوتا ہے  اس کی ذات، صفات، شکل، رنگ و روپ، قد کاٹھ، کالا گورا، کردار غرض ہر شے  دوسرے  انسان سے  مختلف اور منفرد ہوتی ہے  اسی انفرادیت کے  سبب ہم ہر انسان کو دوسرے  انسان سے امتیازی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں  ہر انسان میں انفرادیت روح کے  ذاتی پروگرام یا ذاتی روح سے  آتی ہے۔

جنس۔ جنس کا تعین بھی روح کے  پروگرام کے  مطابق ہوتا ہے۔ جو روح کا پروگرام ہو گا وہی جنس تخلیقی تکمیل تک پہنچے گی یعنی مرد ہو یا عورت مکمل مرد یا مکمل عورت نامکمل مرد یا نا مکمل عورت۔
ادھورا یا پورا زندہ یا مردہ، گورا یا کالا، لمبا یا چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت۔ ان سب باتوں  کا تعین روح کے پروگرام سے  ہوتا ہے۔

نطفے  کی کارکردگی یا وراثتی اضافے  کے  ساتھ جیسا روح کا پروگرام ہو گا ویسی ہی صورت تخلیقی عمل سے  گزر کر سامنے  آئے  گی اور یہ روح خالق کا علم یا حکم ہے۔ یعنی جو خالق کا حکم ہو گا وہی صورت ہو گی۔ یعنی خالق نے  جو کینوس پہ رنگ بکھیرے  وہی تصویر ابھری۔ جو خالق نے  چاہا اور جیسا چاہا ویسی ہی تخلیق سامنے  آتی ہے۔

لہذا ہر انسان کی جسمانی شخصیت دو حصوں  پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اپنی شخصیت میں  اپنے  آباؤ اجداد سے  بھی مشابہت رکھتا ہے اور اسی کے  ساتھ اربوں  انسانوں  کے درمیان اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھتا ہے  یعنی اپنی انفرادی شخصیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔

لہذا موروثی خصوصیات نطفے (موروثی پروگرام) کے  ذریعے اس میں  منتقل ہوتی ہیں اور ذاتی خصوصیات ذاتی روح کے ذریعے۔ یوں  روح کے  دو پروگراموں  سے  انسان کی شخصیت اور اس کی ظاہری جسمانی ساخت ترتیب پاجاتی ہے۔

  تناسب؛

رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا دوسرا مرحلہ ہے  تناسب

 ﴿ رحم مادر میں پیدائش کے  ہر مرحلے میں  مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔﴾

جسمانی مشینری انتہائی پیچیدہ مشینری ہے  اس کے  باوجود متوازن ہے۔ پیدائش کے  ہر مرحلے  میں  مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے  روح،
اربوں  انسان ہیں  ہزاروں  پیدا ہو رہے  ہیں۔ ہر ہر پیدا ہونے والا ایک مخصوص طریقے اور ترتیب سے  پیدا ہو رہا ہے اور جسم کو بہت ہی مناسب انداز میں  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔ اور ایسے  ترتیب دے  رہی ہے  کہ اربوں  انسان پیدا ہو چکے ہیں جو سارے  کے  سارے  انسان ہیں  ایک جیسے  بھی ہیں اور ایک دوسرے  سے  مختلف بھی ہیں اور متناسب بھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ جسمانی مشینری کو روح کیسے متوازن اور متناسب کر رہی ہے۔ روح جسم کو ہزارہا طریقے سے  متناسب بنا رہی ہے  جن میں  سے  کچھ کا یہاں  ہم تذکرہ کرتے  ہیں۔

خلیوں  میں  تناسب

﴿ خلیوں  کو بڑے  تناسب سے  بلڈنگ بلاکس کی طرح ترتیب دے  رہی ہے  روح۔ ﴾

اگرچہ کروڑوں  خلیوں  سے  جسم بنا ہے  یہ تو سب جانتے ہیں  مگر ابتداء میں  محض ایک جرثومے  سے  آغاز ہوتا ہے۔ پھر ماں اور باپ کے  جرثومے  مل کر بچے  کے  جسم کا آغاز کرتے  ہیں۔ اور ان جرثوموں  کو بلڈنگ بلاکس کی طرح جسمانی صورت میں  تخلیق و ترتیب دے  رہی ہے  روح یہ ایک سے  دو۔  دو سے  چار بڑھ رہے  ہیں  پھیل رہے  ہیں  ترتیب پا رہے  ہیں  روح کے  پروگرام کے  عین مطابق۔ یعنی خلیوں کے  تناسب کا پروگرام دے  رہی ہے  روح، خلیوں  کو متناسب کر رہی ہے  روح۔  سائنسدانوں  کے  مطابق خلیے  جسم ترتیب دے  رہے  ہیں
جی ہاں  خلیے  ہی بلڈنگ بلاکس کی طرح جسم ترتیب دے رہے  ہیں لیکن یہ کام وہ خود بخود نہیں  کر رہے  بلکہ خلیے جسم ترتیب دے  رہے  ہیں  روح کے  پروگرام کے  عین مطابق۔

اعضا ء کا تناسب

 ﴿اعضاء کو متناسب کر رہی ہے  روح﴾

اعضاء چھوٹے  بڑے  نہیں  ہیں۔ کم یا زیادہ نہیں  ہیں۔ اربوں انسان ہیں  ہر انسان میں  یہ اعضاء موجود ہیں  ہر عضو کی مخصوص ساخت اور خصوصیات ہیں ہر عضو اپنی جگہ صحیح اور فٹ بیٹھا ہے۔ ہر عضو کو جسم کی عین مناسبت سے  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔

لہذا  اعضاء ایک دوسرے  سے  ہم آہنگ بھی ہیں اور اپنا اپنا انفرادی کام بھی جانتے  ہیں۔

مثلاً دل جگر گردے  ہر عضو کی مخصوص ساخت ہے  ہر عضو کا اپنا مخصوص کام ہے  ہر عضو معتدل ہے  اپنے  کام میں  یہ نہیں  ہے  کہ دل اپنی رفتار سے  زیادہ دھڑک رہا ہے  یا گردے باقی جسم کے  مقابلے  میں  کم کام کر رہے  ہیں۔ ہر عضو پوری جسمانی مطابقت کے  مطابق ٹھیک ترتیب پا رپا ہے  کام کر رہا ہے اور اعضاء میں  یہ ہم آہنگی اور تناسب پیدا کر رہی ہے روح۔ ہر عضو کو  انفرادح ترتیب بھی دے  رہی ہے  اپنا انفرادی کام بھی سمجھا رہی ہے اور تمام اعضاء کو جسمانی مناسبت سے  بھی متوازن رکھے  ہوئے  ہے۔ لہذا ہر عضو جسم کی عین مناسبت سے  بالکل صحیح ہے  اپنی جگہ فٹ ہے۔ لہذا اعضاء کو صحیح تناسب سے  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔

جسمانی نظام میں  تناسب

 ﴿جسمانی نظام میں  تناسب پیدا کر رہی ہے  روح﴾

انسانی جسم ایک انتہائی پیچیدہ مشینری ہے اور اس پیچیدہ مشینری کا اندرونی وبیرونی نظام انتہائی متناسب ہے  کوئی بدنظمی کوئی بے  قاعدگی نہیں  ہر عضو اپنا مخصوص کام سرانجام دے  رہا ہے۔ ایسا نہیں  کہ کھانے  کا عمل تو واقع ہو گیا نظام انہضام بند ہے  یا دوران خون کام نہیں  کر رہا یا گردے  اپنے  کام سے  کوتاہی کر رہے  ہیں، یا ہاتھ بے  مقصد ہلے  جا رہے  ہیں، یا منہ چلے  جا رہا ہے۔ ایسا کچھ نہیں  ہے بلکہ ہر اندرونی و بیرونی عضو ہر وقت اپنے  مخصوص کام میں  مصروف ہے اور جسم کا ہر کام بڑے  موقع کی مناسبت سے  اپنے  وقت پر پروگرام کے  عین مطابق انجام پا رہا ہے۔

 اور دنیا کی یہ سب سے  پیچیدہ مشینری خودکار ہے  کیونکہ بظاہر یہ لگتا ہے  کہ اسے  کوئی چلا نہیں  رہا بلکہ یہ خود چل رہی ہے۔ جب کہ ایسا ہے  نہیں  بلکہ اس خود کار مشینری کو روح چلا رہی ہے  یہ جسمانی مشینری خود کار طریقے  سے کام کر رہی ہے  روح کے  پروگرام پر جیسے  کمپیوٹر اپنے مخصوص پروگرام پر خودکار کام کرتا ہے۔ اور روح خالق کا حکم ہے  لہذا خالق خود اس مشینری کو چلانے اور متحرک کرنے  والے  ہیں  لہذا بظاہر خود کار نظر آنے  والا پورا اندرونی و بیرونی جسمانی نظام روح کے  پروگرام کے  عین مطابق انتہائی متوازن اور متناسب ہے۔ جسمانی انتہائی پیچیدہ مشینری میں  اس نظام کو قائم کر رہی ہے  روح۔ اور جسمانی نظام میں  اس تناسب کو برقرار بھی رکھے  ہوئے  ہے  روح۔

لہذا جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ انفرادی طور پر بھی منظم ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی منظم ہے اور پیدائشی مراحل میں  ہر جسم کے  اندر یہ تناسب پیدا کر رہی ہے  روح۔

جسمانی ساخت میں  تناسب

﴿ ہر جسم میں  انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے  روح﴾

دنیا میں  اربوں  انسان ہیں  سب کے  تقریباً ایک ہی نوعیت کے اجسام ہیں۔ اجسام کی مشینری، اعضاء اجزائے  ترکیب سب ایک ہی جیسے  ہیں  لیکن تناسب کا اتنا حسین امتزاج ہے اجزائے  ترکیبی کا وہ فارمولہ ہے  کہ ہم ہر جسم کو الگ سے شناخت کرتے  ہیں۔ یہ نہیں  کہ تمام جسم ایک جیسی مشینری ہونے  کی وجہ سے  گڈمڈ ہو رہے  ہیں۔ ایک جیسی مشینری ہونے  کے  باوجود ہر وجود دوسرے  سے  الگ ہے  ہم ہر وجود کو دوسرے  سے  الگ شناخت کرتے  ہیں۔ یہ مرد ہے  یہ عورت، یہ احمد ہے  یہ مریم  جب کہ اگر انسان ایک جیسی مشینریاں  بنائے  تو ایک جیسی لاتعداد مشینریوں  میں سے  ہر ایک کو علیحدہ شناخت کرنا ناممکن ہے  جب کہ اربوں  اجسام میں  انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے  روح جو کہ رب کا حکم ہے  !  لہذا انسان یہ نہیں  کر سکتا جب کہ خالق نے  یہ خصوصیت محض اپنی مشینری انسان میں  رکھی ہے۔

انواع میں  تناسب

﴿انواع میں  تناسب قائم کر رہی ہے  روح جو رب کا حکم ہے  یعنی انواع میں  تناسب قائم کیا ہے  خالق نے  ﴾

دنیا میں  اور کائنات میں  بے  شمار موجودات لاتعداد انواع ہیں  سب کا نظام الگ اور متناسب ہے  ہر نوع اپنا انفرادی نظام رکھتی ہے  لہذا انسان کے  انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور شیر کے  شیر کا اور درخت کے  بیج سے  درخت اگتا ہے۔ اور ہر نوع کا نظام انتہائی متناسب ہے۔ اور انواع میں  تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔

جسمانی ساخت میں  بھی یہی حد درجہ کا تناسب قائم ہے جس کی وجہ سے  انسان تمام انواع میں  منفرد ہے۔

اپنی ذاتی حیثیت میں  منفرد ہے۔

ہر عضو منفرد اور متناسب ہے۔

جسمانی نظام میں  تناسب قائم ہے۔

اور ہر انسان متوازن و مناسب بالکل ٹھیک پورا انسان ہے۔

مادی جسم کو منفرد بنانے  کے  لئے  ہزار ہا قسم کے  تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔ جن میں  سے  چند کا یہاں  ہم نے تذکرہ کر دیا لہذا مادی جسم میں  پیدائش کے  دوسرے مرحلے  میں  روح جسم میں  تناسب قائم کر رہی ہے  اس کی تو وضاحت ہو گئی اب مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مرحلہ ہے  تقدیر۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کے  تیسرے  مرحلے  میں روح  تقدیر کے  عنوان سے کیا کر رہی ہے۔

(3) تقدیر: ہر کام مقرر تقدیر ہے

مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مر حلہ ہے تقدیر

۱۔ تقدیر کیا ہے

﴿تقدیر کتاب زندگی ہے  جس میں  انسان کی پوری زندگی درج ہے۔ (روح کی ایک صورت یہی مرتب شدہ کتاب ہے  ﴾

( ہم روح کی تعریف میں  یہ وضاحت کر آئے  ہیں  کہ روح زندگی ہے  انرجی ہے ، حکم ہے، اور مرتب پروگرام بھی ہے  اور روح کے  اسی مرتب پروگرام کو یہاں  ہم نے  تقدیر کہا ہے اور اب یہاں  ہم روح کی ایک اور خصوصیت یعنی تقدیر(مرتب پروگرام) کی وضاحت کریں  گے  کہ کیسے  مادی جسم کے پیدائشی مراحل میں  روح کا یہ مرتب پروگرام یعنی تقدیر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر خود بخود کام کرتا ہے  لیکن اپنے  اندر درج پروگرام(ہارڈ ڈسک) کے  عین مطابق یعنی کمپیوٹر میں پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے  مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر خود کار حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔

لہذا رحم مادر میں  آغاز پیدائش کے  120  دن بعد نئے  تشکیل پانے  والے  جسم کے  ہر یونٹ کو یہ تحریری پروگرام (تقدیر)یعنی ذاتی جسمانی تعمیر اور ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام مل جاتا ہے 

یہ تحریری پروگرام روح کے  ذریعے  پورے  جسم کو وصول ہوتا ہے اور اسی روح کے  ذریعے  جسم کے  ہر یونٹ کو اس کی حرکت و عمل کا مکمل پروگرام وصول ہو جاتا ہے  یہی پورے جسم اور جسم کے  ہر یونٹ کی حرکت و عمل کا تحریری پروگرام جو ہر یونٹ کے  مرکز میں  تحریر ہے۔ یہی تقدیر ہے۔

120 دن تک تو جسم نطفے  سے  پرورش پاتا رہا یعنی ماں اور باپ کے  جرثوموں  سے  لہذا 120  دن تک تو جسم والدین کے  جرثوموں  کے  پروگراموں  کے  مطابق ترتیب پاتا رہا۔

لیکن 120 دن بعد زیر تعمیر جسم کو اپنا ذاتی  تعمیر کا پروگرام یعنی تقدیر مل گئی ہے۔ اب اس کا  باقی جسم اسی اپنے  ذاتی پروگرام سے  ترتیب پائے  گا۔

اور یہی ذاتی پروگرام اس انسان کے  اندر( اربوں  انسانوں کے  درمیان) انفرادیت پیدا کرے  گا۔

لیکن کتابِ زندگی محض جسمانی ترتیب کا پروگرام ہی نہیں ہے  بلکہ یہ کتاب انسان کی پوری زندگی کی کہانی(مسودہ) ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ اس کتابِ زندگی(تقدیر) میں  جسمانی ترتیب کے  پروگرام کے  علاوہ کیا کیا لکھا ہے۔  تقدیر کتاب زندگی یعنی ایک تحریر تو ہے  لیکن اس مرتب کتاب میں  کیا لکھا ہے۔

تقدیر میں  کیا تحریر ہے

  ﴿یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ان چار ابواب کے  عنوانات درج ذیل ہیں۔

 (۱)عمل

(۲)رزق

(۳)عمر

(۴)انجام

لہذا کتاب تقدیر میں  ان چار عنوانات چار ابواب کے  تحت تحریری مواد موجود ہے۔ ﴾

 اب دیکھنا یہ ہے  کہ ان چار عنوانات کے  تحت چار ابواب کے اندر کیا تحریر ہے۔ لہذا تقدیر کا پہلا باب ہے  عمل آئیے دیکھتے  ہیں  اس باب میں  عمل کے  عنوان کے  ساتھ کیا تحریر ہے

(1) عمل

 ﴿کتاب زندگی (تقدیر)میں  انسان کا ہر عمل لکھا ہوا(ریکارڈ) ہے۔ ﴾

 ماں  کے  رحم میں  ۱۲۰ دن کے  بعد سے  لے  کر موت تک انسان نے  جوبھی حرکت اور جو بھی عمل کرنا ہے  وہ تمام پروگرام اس کتاب زندگی میں  تحریر ہے۔ جو چاہے  اپنی روح کی آنکھ سے  پڑھ لے۔

لہذا  120  دن بعد جب رحم مادر میں  بچے  کے  جسم میں  روح داخل ہوتی ہے   تو اس کا باقی جسم اسی ذاتی تحریر سے  تشکیل پاتا ہے۔ اس تعمیر کا سارا پروگرام اور پوری زندگی کی جسمانی حرکت و عمل کا پروگرام تقدیر میں  درج ہے۔

 ہاتھ ہلانا ہے ، چلنا ہے ، بیٹھنا ہے ، کھانا ہے ، سونا ہے ، جاگنا ہے۔ غرض ماں  کے  رحم میں  ۱۲۰ دن کے  بعد سے  لے  کر موت تک انسان جو بھی حرکت اور جو بھی عمل کرتا ہے  وہ اس کتاب زندگی میں  تحریر ہے۔   120 دن بعد رحم مادر میں بچے  کے  جسم میں  روح داخل ہوتے  ہی ہاتھوں  پیروں کی حرکت شروع ہو جاتی ہے   لہذا رحم مادر میں  ہی بچہ سننے  چونکنے اور محسوس کرنے  لگتا ہے۔ ایسا وہ غیر ارادی طور پر کرتا ہے اور بچے  کی یہ غیر ارادی حرکت و عمل کتاب زندگی میں  لکھی تحریر کی وجہ سے  ہے  لہذا پوری زندگی انسان اسی پروگرام کے  مطابق ارادی و غیر ارادی حرکت و عمل کرتا ہے۔ انسان کی پوری زندگی کا ہر عمل و حرکت کتاب زندگی میں  تحریر ہے اور اس تحریر کے  ذریعے  جسمانی عمل کیسے  واقع ہو رہا ہے  یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے  لہذا جسمانی عمل کیسے  واقع ہو رہا ہے  اس کا ذکر آگے  آئے  گا۔

ابھی جسمانی تعمیر کا فارمولہ مکمل نہیں  ہوا لہذا جب ہم مکمل فارمولے  سے  آگاہی حاصل کر لیں  گے  تبھی ہم یہ سمجھنے  کے  قابل ہوں  گے  کہ کتاب زندگی یعنی تقدیر میں  درج تحریر کے  ذریعے  کیسے  ذاتی جسمانی عمل واقع ہو رہا ہے۔ فی الحال ہمیں  یہ جاننا ہے  کہ کتاب زندگی میں کیا کیا لکھا ہے۔

(۲)رزق

﴿انسان کا رزق بھی تقدیر میں  لکھا ہے۔ ﴾

یعنی ہر انسان کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں  لکھا ہے۔ یہ رزق کتنا ہے  کہاں  سے  ملے  گا کب ملے  گا سب لکھا ہے۔ حتی کہ رزق پہ بھی لکھا ہے  کہ اسے  فلاں  کھائے  گا اور اس فلاں  کے  علاوہ اس کو کوئی دوسرا کھا نہیں  سکتا۔ اب اسی لکھے  ہوئے  کے  مطابق انسان اپنے  رزق کو پانے  کی کوشش کرتا ہے۔ کسی کو کم ملے  گا کسی کو زیادہ یہ ہے  رزق کے  مالک کی منصفانہ تقسیم اور کائنات کے  کاروبار کو چلانے کا منفرد طریقہ۔ لہذا اسی انفرادی تقسیم سے  کوئی امیر ہے کوئی غریب کوئی فقیر ہے  کوئی بادشاہ غرض زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کاروبار چل رہا ہے۔ اگر یہ منصفانہ تقسیم نہ ہو تو کاروبار حیات نہ چلے۔ ہر شخص کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں  لکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے  کے  لئے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً ایک بیت المال ہے  جہاں  ہر شخص کے  نام کا رزق پڑا ہے  تو انسان کوشش کرے اور جا کر اپنا رزق وصول کر لے۔

کچھ لوگ تھوڑی سی کوشش سے  اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں کچھ زیادہ کوشش کر کے  اپنا حصہ وصول کرتے  ہیں۔ وہ زیادہ کوشش زیادہ حاصل کرنے  کے  لئے  کرتے  ہیں لیکن زیادہ نہیں  پا سکتے  کیونکہ ہر شخص امیر بننا چاہتا ہے  مگر باوجود کوشش کے  ہر شخص امیر نہیں  ہو سکتا ایسے  دنیا کا کاروبار نہیں  چل سکتا  لہذا زیادہ کوشش سے  بھی انسان اپنا حصہ ہی وصول کرتا ہے  لہذا دنیا کے  سارے  کام چھوڑ کر صرف رزق کے  پیچھے  بھاگنا بھی عقل مندی نہیں  ہے۔ لیکن بعض ایسے  کاہل ہوتے  ہیں  کہ اپنا حصہ بھی وصول نہیں کرتے  ہاتھ پہ ہاتھ دھرے  ہی بیٹھے  رہتے  ہیں لہذا ایسے فقیروں  کا حصہ کوئی اﷲ کا بندہ بھیک کی صورت میں  ان کی جھولی میں  ہی ڈال جاتا ہے  لیکن یہ بات اچھی نہیں  یہ قابل شرم بات ہے  انسان کو حتی المقدور کوشش تو کرنی ہی چاہیے  تاکہ وہ اپنی روزی با عزت طریقے  سے  حاصل کر سکے۔

بعض دفعہ بعض مہربان لوگ اپنے  حصے  کے  رزق سے  زیادہ پا لیتے  ہیں  اس کی وجہ یہ ہے  کہ وہ دوسروں  کی مدد کرتے  ہیں  لہذا اضافی رزق دراصل ان لوگوں  کا رزق ہے  جو دوسروں  کی مدد پر صرف کرتے  ہیں  یعنی دوسروں  کے کام آ کر ان کی مدد کر کے  انسان اضافی رزق پاسکتا ہے۔ یعنی دوسروں  کا رزق جو وہ اپنے  ہاتھوں  سے  ان میں  تقسیم کرتا ہے۔

رزق لکھا ہوا ہوتا ہے  وہ مل ہی جائے  گا اور جتنا لکھا ہے  اتنا ہی ملے  گا۔ لیکن مختلف لوگ اپنے  ہی رزق کو دو مختلف طریقوں  سے  حاصل کرتے  ہیں۔ کچھ صحیح طریقوں سے  کوشش کرتے  ہیں  تو کچھ لوگوں  کی کوشش غلط ہوتی ہے۔

لہذا صحیح کوشش سے  اپنی قسمت کے  رزق کو کچھ لوگ حلال رزق میں  بدل لیتے  ہیں۔ اور کچھ لوگ غلط طریقے اختیار کر کے  اپنی قسمت کے  رزق کو حرام کر لیتے  ہیں۔ لہذا اپنا مقدر اپنا رزق بھیک میں  نہ مانگیئے  نہ ہی اس کے حصول کے  لئے  24  گھنٹے  دیوانے  بنے  رہیئے۔ دنیا میں اور بھی مفید کام ہیں۔

لہذا رزق تقدیر میں  لکھا ہے  اسے  حاصل کیجئے  مثبت کوشش سے  کم وقت میں  اگر رزق میں  اضافہ کرنا چاہتے ہیں  تو اپنے  جیسے  دوسرے  غریب انسانوں  کی مدد کیجئے۔

(۳)عمر

 ﴿کتابِ زندگی کے  کل صفحات تقدیر میں  تحریر ہیں۔ ﴾

ماں  کے  پیٹ سے  زندگی کے  اختتام تک کتنی عمر ہے  یہ تقدیر میں  تحریر ہے۔ ﴾

انسان کی زندگی ایک کتاب یا ایک فلم کی مانند ہے  چھوٹی کتاب ہے  یا موٹی ایک گھنٹے  کی فل ہے  یا تین گھنٹے  کی۔ اور انسان اسی مقرر فلم یا کتاب( تقدیر) کے  مطابق مقرر زندگی گزارتا ہے۔ اور جب یہ کتاب ختم ہو جاتی ہے  تو زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔

اسی طرح انسانی زندگی کسی کتاب یا فلم کی مانند ہے  ہر انسان کی کتاب کے  صفحات تقدیر میں  تحریر ہیں  ہر انسان کی زندگی کی فلم کے  گھنٹے  تقدیر میں  درج ہیں۔ کوئی لمبی عمر کا ہے  تو کوئی چھوٹی عمر کا۔ لہذا ہر دن زندگی کی کتاب کے  یہ صفحے  پلٹتے  ہیں اور انسان ان صفحات پے لکھی اپنی زندگی اپنی تقدیر اپنی مرضی سے  جیتا ہے اور بلآخر یہ کتاب زندگی ایک دن ختم ہو جاتی ہے اور جب تقدیر کی یہ تحریر ختم ہوتی ہے  تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہر دن یہ صفحات نہ پلٹیں  انسان کو زندگی گزارنے  کا  یہ مرتب پروگرام نہ ملے   تو انسان کے  اندر کسی بھی حرکت و عمل کا پیدا ہو نا محال ہے۔ یہ پروگرام انسان کو ملتا ہے  تو وہ اس پروگرام میں  رد و بدل کر کے  اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔ انسان یہ کتاب (تقدیر) خود نہیں  لکھتا بلکہ اسی خالق کی ودیت کردہ کتابِ زندگی کے  مسودے  میں  ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔

لہذا خالق کی ودیعت کردہ یہ کتاب زندگی کسی کی مختصر ہے  تو وہ جوانی میں  ہی مر جاتا ہے  کوئی ساٹھ ستر یا سو سال اور بعض تو دو سو سال کی عمر بھی پا لیتے  ہیں اور پچھلے  زمانوں  میں  تو لوگ ہزاروں  برس کے  ہوتے  تھے۔

لہذا جتنی عمر کتاب زندگی میں  درج ہے  اتنی ہی انسان کی عمر ہے۔ کتاب میں  جتنے  صفحات ہیں  اتنے  ہی انسان ماہ و سال دنیا میں  بسر کرے  گا۔ جب انسان کی زندگی کی یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے  تو انسان کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے  کتابِ زندگی کے  اوراق میں  اضافہ نہیں  کر سکتا۔ یعنی تقدیر میں  اس کی واپسی کا ٹائم بھی تحریر ہے۔ لہذا نسان ایک مخصوص مدت کی پہلے  سے  مقرر کردہ زندگی جیتا ہے۔ لہذا ماں  کے  پیٹ سے  زندگی کے اختتام تک کی تمام کتاب تقدیر میں  تحریر ہے اور جب یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے  تو انسان کی زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔

(۴)انجام

 ﴿انسان کے  اپنے  اندر اس کی تقدیر میں  اسکا انجام بھی لکھا ہواموجود ہے۔ ﴾

چونکہ انسان خالق کی تخلیق خالق کا علم ہے  لہذا خالق یقیناً جانتا ہے  کہ ہر شخص ذاتی ارادے  سے  کیا کیا عمل کرے  گا لہذا انسان کے  خالق نے  انسان کے  اندر اس کا انجام بھی لکھ دیا۔

جب کہ انسان کا علم ابھی اس حد تک نہیں  پہنچا کہ وہ اپنے ہی ارادوں  کو جان لے۔ انسان اس انجام کو اپنے  ذاتی ارادوں سے  پہنچتا ہے  انسان کو ہر عمل کی مثبت اطلاع ملتی ہے لیکن وہ اس اطلاع پر عمل ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ (جس کا تفصیلی ذکر آگے  آئے  گا عمل کے  عنوان سے )

اگر انسان کی پوری زندگی کے  مجموعی اعمال برے  ہیں  تو وہ برا انسان ہے  لہذا اس کا انجام بھی بد ہے۔

 زندگی میں  زیادہ اچھے  عمل کرنے  والے  کا انجام یہ ہوا کہ وہ پاس ہے  وہ اچھا انسان ہے۔ پاس یا فیل یہی نتیجہ، نتیجہ آنے  سے  پہلے  ہی لکھا ہے  تقدیر میں۔

اور یہ نتیجہ امتحانِ زندگی سے  پہلے  لکھا ہے  خالق نے  اپنے علم سے  اس لئے  کہ وہ ہر شخص کواور  اس کے  ذاتی عمل کو (جسے  خود ہر شخص نہیں  جانتا) پہلے  سے  جانتا ہے۔

اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں  ہے  کیونکہ خالق اس لئے سب کچھ جانتا ہے  کہ سب کچھ اسی کا ہے  اسی نے  سب کچھ پیدا کیا ہے۔ تو جس نے  پیدا کیا، جس کی ملکیت ہے  وہ کیوں  نہ جانے۔ درحقیقت تمام موجودات اور مخلوقات خالق ہی کا علم ہیں۔  

۳۔ تقدیر کے  دو حصے

 ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی مرتب کتاب تو ہے  لیکن انسان اس تحریر شدہ کتاب کا پابند نہیں ہاں  اس پوری کتاب میں  درج چند قوانین کا وہ پابند ہے۔ ﴾

جس طرح ریاست میں  انسان اپنی مرضی سے  رہتا ہے  وہ کسی کا پابند نہیں  ہوتا لیکن ریاست میں  اپنی مرضی سے رہنے  بسنے  کی باوجود اس پر کچھ ریاستی قوانین لاگو ہوتے  ہیں  جن کی اسے  پابندی کرنا ہوتی ہے  مثلاً وہ کسی کو قتل نہیں  کر سکتا، کسی کی چیز نہیں  چھین سکتا یعنی ریاست کے  قوانین کا وہ پابند ہے  لیکن قوانین کی پابندی کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ ریاست کا غلام یا پابند ہے  یا اس کی پوری زندگی اسی پابندی پر مشتمل ہے۔ یہ پابندی محض چند ضروری قوانین تک محدود ہے  وہ بھی ریاست کے  نظم و ضبط کے  قیام کے  لئے  اس ریاست میں  انسان پوری طرح آزاد ہے۔

اسی طرح انسان کے  اندر جو تحریر (تقدیر) ہے  وہ اس کا پابند نہیں  لیکن کچھ قوانین ہیں  جو اس پہ لاگو آتے  ہیں جن کا وہ پابند ہے۔ لہذا اسی ترتیب سے  تقدیر (کتاب زندگی) کے  دو حصے  ہیں۔

(۱) مرتب پروگرام  (۲) لازمی قوانین

(1) مرتب پروگرام                   

  ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی تحریری کتاب ہے  جس میں انسان کی پوری زندگی تحریر ہے لیکن انسان اس کا پابند نہیں  ہے  ﴾

 انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر میں  پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔

مثلاً تقدیر میں  تحریر ہے  کہ دوپہر کو ایک بجے  بھوک لگے  گی لہذا کھانا کھانا چاہیئے اسی تقدیر میں  لکھے  کے  مطابق دوپہر کو ایک بجے  بھوک لگے  گی اور کھانے  کی خواہش بیدار ہو گی۔ اب انسان اپنی تقدیر میں  لکھے  اس پہلے  سے  ترتیب شدہ پلان کا پابند نہیں  انسان اپنی مرضی کا مالک ہے  لہذا چاہے  توا س ترتیب شدہ پلان کی ترتیب بدل دے  یعنی ایک بجے  کھانا نہ کھائے یا کھانے  کے  بجائے  کچھ اور کھا لے  یا کھائے  ہی نہ۔ لہذا ہو گا وہی جوا نسان کی مرضی ہے۔

لہذا انسان کی مرضی وہ تقدیر کی فطری پروگرام پر عمل کر لے  یعنی ایک بجے  کھانا کھا لے اس کی مرضی تقدیر کے  اس مرتب پروگرام میں  رد  و بدل کر لے  یا اس پہ عمل ہی نہ کرے۔

اگر انسان اپنی مرضی سے  اسی تقدیری پروگرام پر عمل کرتا ہے  تو یہ فطری طرز زندگی ہے  یہ عمل صحیح ہے  اگر اس کے مدمقابل کوئی دوسرا مثبت عمل کرتا ہے  تو وہ بھی صحیح ہے۔ لیکن اس تقدیری پروگرام پر عمل درآمد کے  لئے  وہ کوئی منفی طریقہ اختیار کرتا ہے  تو یہ غیر فطری طرز عمل ہے۔  جو غلط ہے۔ لہذا انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پورا پروگرام تو اس کے  اندر تحریر ہے  لیکن انسان اس تحریر کا پابند نہیں  بلکہ انسان عمل کے  لئے  آزاد ہے۔

 ۲۔ لازمی قوانین

﴿انسان عمل کے  لئے  آزاد ہے  تو تقدیر میں  تحریر چند قوانین کا پابند بھی ہے۔ ﴾

جن میں  سے  چند کا یہاں  ہم ذکر کرتے  ہیں۔

(ا)  جسمانی ساخت:   رحم مادر میں  جیسا بھی انسانی جسم تیار ہوتا ہے  یہ محض انسان کی تقدیر ہے، رنگ، قد کاٹھ، دل گردے  ان کے  کام جیسے  بھی ہیں  یہ انسان کی تقدیر ہے لہذا انسان ذاتی ارادے  سے  خود اپنی شخصیت میں  ترمیم و اضافہ نہیں  کر سکتا۔

انسانی ارادے  کے  بغیر مرد یا عورت کا فرق یعنی جنس کا تعین تخلیقی عمل کے  دوران ہوتا ہے  کسی عضو میں  کمی پیشی بھی ہو سکتی ہے  عموماً ٹھیک مرد اور ٹھیک عورت پیدا ہوتے  ہیں  لیکن کوئی جنسی معذوری بھی ہو جاتی ہے ، جسم میں  کوئی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے ، کوئی کالا ہوتا ہے  کوئی گورا، کوئی موٹا کوئی پتلا، کوئی اندھا کوئی لنگڑا کوئی پیدائش کے  وقت ہی مرجاتا ہے  کوئی لمبی عمر جیتا ہے۔ یہ سب تقدیر کا پروگرام ہے  جو تقدیر کی صورت میں  تحریر ہے  جو خالق کا حکم ہے۔

(ب)  خود کار مشینری:۔   
جسمانی مشینری خودکار سسٹم کے تحت متحرک ہے اور اس مشینری کے  پاس اور مشینری کے  ہر عضو ہر یونٹ کے  پاس تحریری پروگرام موجود ہے  لہذا ہر عضو اسی تقدیر کے  پروگرام پر عمل پیرا ہے۔  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔

لہذا اس جسمانی سسٹم میں  انسانی ارادے  کا عمل دخل نہیں  بلکہ یہ روح کا تقدیری پروگرام ہے  لہذا ہر یونٹ اپنے تحریری پروگرام کا پابند ہے۔ اور جسم کا خود کار اندرونی سسٹم کتاب تقدیر کے  عین مطابق ہے۔ لہذا تقدیر روح کا تحریری پروگرام ہے  جو خالق کا حکم ہے  اسی سے  یہ خود کار مشینری متحرک ہے  اسی حکم سے  بند ہو گی نہ کہ انسان کے  ذاتی ارادہ سے۔

کچھ مزید قوانین

بعض جگہ انسان تقدیر کے  کڑے  قوانین کی زد میں  ہے مثلاً موت زندگی یہ انسان کے  اختیار میں  نہیں  کہ وہ نہ مرے  یا پیدا ہی نہ ہو یا جوانی میں  نہ مرے  یا سب لوگ امیر ہونا چاہتے  ہیں  یہ بھی ممکن نہیں  بعض دفعہ ہزار کوشش کے  بعد بھی انسان کے  ہاتھ خالی رہتے  ہیں۔ زمینی مادی قوانین کے  مطابق تو جو کام جو کوشش کی ہے  اس کا رزلٹ آنا چاہیے  لیکن عموماً ایسا نہیں  ہوتا۔ پیدائش کے  وقت، پیدائش کے  بعد، عملی زندگی میں  قدم قدم پہ ہمیں  اسی اٹل تقدیر کا تجربہ ہوتا ہے  جب ہم پوری پلاننگ پوری کوشش کے بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھتے  ہیں  جب وہ نہیں  ہوتا جو ہم چاہتے  ہیں ، یا ہم آئینہ دیکھ کر کہتے  ہیں  کہ مجھے  ایسا نہیں  ایسا ہونا چاہیے  تھا ہمیں  تقدیر کے  اس اٹل تحریری پروگرام کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے اور یہ تقدیر کے  اٹل قوانین کائنات کے  بیلنس سسٹم کا حصہ ہیں  اگر سب کچھ انسان کی مرضی اس کے  اختیار میں  ہوتا تو شائد کائنات اتنے  عرصے نہ چل سکتی جتنا کہ چل چکی ہے۔ دراصل ہمارا اور کائنات کا سسٹم کسی اور کے  ہاتھ میں  ہے اور یہ اٹل قوانین کائنات کے توازن کے  لئے  ضروری ہیں۔

 خلاصۂ تقدیر

خلاصہ یہ ہے  کہ انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے  اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے  کمپیوٹر میں  پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے  مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن انسان عمل کے  لئے  اس پروگرام کا پابند نہیں  بلکہ عمل کے  لئے  انسان آزاد ہے اور عمل انسان ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ لیکن انسان اپنی تقدیر میں  تحریر کچھ قوانین کا پابند بھی ہے  ان لازمی قوانین میں  اس کے  ذاتی ارادے  کا عمل دخل نہیں  ہے۔ یعنی انسان محض چند ضروری قوانین کا پابند ہے

لیکن انسان عمل ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے  انسان عمل کے لئے  آزاد ہے۔

یہاں  ہم مادی جسم کی پیدائش کے  فارمولے  کی وضاحت کر رہے  ہیں لہذا اس فارمولے  کے  تین نکات تخلیق، تناسب، اور تقدیر کی تو یہاں  وضاحت مکمل ہوئی اب اس فارمولے  کا اگلا چوتھا مرحلہ ہے  ہدایت۔

   (۴)۔ ہدایت

 بے  شک ان کے  پاس ان کے  رب کی طرف سے ہدایت آئی(۲۳)۵۳

مادی جسم کی پیدائش کا چوتھا مرحلہ ہے  ہدایت

۱۔ ہدایت کیا ہے

 ﴿اندر سے  ایک آواز اٹھ رہی ہے  جو ہر عمل کے  لئے  ہماری مثبت راہنمائی کرتی ہے۔ یہ"  ہدایت"  ہے۔ اور یہ ہدایت روح کی آواز ہے۔ ﴾

عموماً ہم اس اندر کی آواز کو  "ضمیر کی آواز"  کہتے  ہیں لیکن اس اندر کی آواز کا اصل نام " ہدایت ہے  "۔

اچھے  کام کی ترغیب، برے  کام کی ممانعت اور برے  عمل پر ملامت اسی آواز کی طرف سے  ہے اور اسی کو کہتے  ہیں ہدایت۔ اور انسان کو صحیح سمت کی طرف ہدایت دے  رہی ہے  روح۔ یعنی یہ آواز جسے  ضمیر کی آواز کہہ دیا جاتا ہے دراصل روح کی مسلسل اور مثبت ہدایات ہیں۔ یہ روح کی ہدایات دراصل ہر عمل کے  لیے  مثبت ترغیبی پروگرام ہے۔

لہذا انسان اچھا یا برا عمل تو اپنی مرضی سے  کر رہا ہے  لیکن اس سے  پہلے  کہ انسان اپنی مرضی کا عمل کرے  اندر کی یہ ہدایت انسان کی راہنمائی کر دیتی ہے  کہ جو عمل وہ کرنے  جا رہا ہے  یہ اچھا عمل ہے  یا برا۔ روح کی یہ ہدایت اچھے  عمل کی ترغیب دیتی ہے  تو برے  عمل کے  مضمرات بھی بیان کر دیتی ہے۔ لہذا اس ہدایت کی وجہ سے  انسان یہ جانتا ہے  کہ وہ جو عمل اپنی مرضی سے  کرنے  جا رہا ہے  وہ اچھا ہے  یا برا۔ لہذا انسان انجانے  میں  نہیں  بلکہ اپنی مرضی سے جانتے  بوجھتے  اچھا یا برا عمل کرتا ہے۔ لہذا روح کی ہدایت نہ صرف اچھے  برے  عمل کی وضاحت کر رہی ہے  بلکہ برائی کی مذمت اور غلط عمل پر ملامت بھی کرتی ہے  لہذا یہ انسان کی ذاتی مرضی ہے۔

چاہے  تو اس  "ہدایت "  پر عمل کر کے  اچھا عمل کر لے۔چاہے  تو اس  "ہدایت"  کو رد کر کے  برا عمل کر لے۔ لہذا انسان اپنے  اچھے  برے  عمل کا خود سو فیصد ذمہ دار ہے

۲۔ ہدایت کی دو صورتیں

﴿ ہدایت کی دو صورتیں  ہیں۔ ﴾

 (1) باطنی ہدایات

 (2) ظاہری ہدایات

 باطنی ہدایات:

﴿باطنی ہدایات انسان کو اپنے  اندر روح کی آواز کے  ذریعے  مل رہی ہیں۔ ﴾

یہ مثبت ہدایات ہر عمل کی اطلاع کے  ساتھ ہی موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ انہیں  مثبت ہدایات یعنی روح کی آواز کو ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے۔ یہ روح کی ہدایات مثبت ہدایات ہیں  انہی مثبت ہدایات پہ مبنی ہونا چاہیے  ہمارا طرز زندگی تبھی ہمارا طرز عمل اور طرز زندگی درست طرز زندگی قرار پائے  گا۔

لہذا اندر کی اس آواز کے  ہوتے  ہوئے  انسان یہ نہیں  کہہ سکتا کہ مجھے  تو غلط یا صحیح کا علم ہی نہیں  تھا۔ اور میں  نے  بد عمل انجانے  میں  کئیے۔ کوئی مجھے  بتانے  والا نہیں  تھا لہذا انسان کے  اچھے  برے  عمل کی راہنمائی کے لئے  روح کی ہدایات کے  علاوہ ایک اور صورت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اور وہ صورت ہے  ظاہری ہدایات۔

 ظاہری ہدایات:

﴿ ہر عمل کے  لئے  ہدایت کی ظاہری صورت ہے  آسمانی کتابیں۔ ﴾

لہذا کون سا عمل اچھا ہے  کون سا برا، کیا کام کرنا چاہیے اور کیا نہیں  کرنا چاہیے  اس کی مکمل ہدایات ہمارے  پاس باقاعدہ تحریری طور پر آسمانی کتابوں  میں  بھی موجود ہیں۔ وہی خالق جو انسان کے  اندر سے  اس کی ہر عمل کے  لئے  رہنمائی کر رہا  ہے  اسی نے  ظاہری صورت یعنی آسمانی کتابوں  کے ذریعے  بھی انسان کی رہنمائی کی ہے۔ یعنی آج ہر عمل کے لئے  ہدایات (ہر قسم کی اچھائی برائی کی تفصیلات)ہمارے باطن میں  ہدایات کی صورت  میں  بھی موجود ہیں اور ہمارے  پاس آسمانی کتابوں  کی صورت میں  بھی یہ تحریر موجود ہے۔

ظاہری ہدایات دراصل باطنی ہدایات کی ظاہری شکل ہیں  یعنی باطنی ہدایات روح (تقدیری ریکارڈ حرکت و عمل کا) ہیں  تو ظاہری ہدایات جسم (آسمانی کتابیں ) ہیں۔

یعنی ہر عمل کی تقدیری اطلاع موصول ہونے  کے  ساتھ ہی اس اطلاع پر عمل درآمد کے  لیے  ہدایات موصول ہونے  لگتی ہیں  وہ ہدایات دو طرزوں  میں  ہمارے  پاس موجود ہیں۔

(1)   روح کی آواز (باطنی ہدایات)

(2)   آسمانی کتابیں  (ظاہری ہدایات)

انسان کے  ذاتی ارادے  سے  کوئی بھی عمل کرنے  سے پہلے  ہر عمل کی پوری تفصیلات (کہ یہ عمل اچھا ہے  یا بُرا برا ہے  تو اس کے  کیا کیا مضمرات ہیں  اچھا ہے  تو اس کے کیا کیا فائدے  ہیں   )روح کی اس آواز یعنی ہدایات کے زریعے  انسان کو مل جاتی ہیں  لہذا ان ہدایات کے  آ جانے کے  بعد انسان یہ بہانہ نہیں  تراش سکتا کہ مجھے  تو خبر ہی نہیں  تھی اور یہ بُرا عمل مجھ سے  انجانے  میں  ہو گیا اگر مجھے  کوئی سمجھانے  بتانے  والا ہوتا تو میں  یہ بُرا عمل نہ کرتاجب کہ سمجھانے اور بتانے  والا خود اس کے  اندر (جسے  انسان نے  ضمیر کا نام بھی دے  رکھا ہے  )سے  اسے خبردار کر رہا ہے۔ لہذاہمارا طرز زندگی اور ہر عمل انہیں دو مثبت ہدایات میں  سے  کسی ایک ہدایت پہ مبنی ہونا چاہیے تبھی ہمارا طرز زندگی صحیح طرز زندگی ہو گا۔ اور اسی طرز زندگی میں  توازن اور ترتیب ہو گی۔

۳۔ ہدایت اور تقدیر میں  فرق

تقدیر۔ تقدیر انسانی زندگی کا مرتب پروگرام ہے  جس میں انسان کی پوری زندگی کے  ہر لمحے  کی پوری تفصیلات مرتب ہیں اسی مرتب پروگرام سے  ہر عمل کی اطلاع آتی ہے  تو انسان اسی اطلاع  میں  اپنی مرضی سے  ردو بدل کر کے  عمل کرتا ہے

 ہدایت۔ عمل کے  لئے  مرتب پروگرام (تقدیر)سے  اطلاع آ جانے  کے  بعد اس اطلاع پر عمل درآمد کے  لئے  مثبت ترغیبی پروگرام بھی ملنے  لگتا ہے  یہ ہدایت ہے  مثلاً

بھوک کی اطلاع تقدیری اطلاع ہے  اور
کھانے  کا عمل مثبت ہونا چاہیے  یہ اطلاعات ہدایات ہیں۔ تقدیر انسان کی پوری زندگی کا مرتب پروگرام ہے   جس پر انسان اپنی مرضی سے  عمل کرتا ہے  تو ہدایات ہر عمل کے لئے  مثبت ترغیب ہے۔ اس کی مزید تفصیلی وضاحت عمل کے باب میں  آگے  آ رہی ہے۔

خلاصۂ پیدائش:

سابقہ اسطور میں  میں  نے  مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ پیش کیا تھا لہذا پیدائشی فارمولے  سے  آغاز کر کے مسلسل وضاحت کے  بعد اب جا کر اس مادی جسم کے پیدائشی فارمولے  (تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات) کی وضاحت مکمل ہوئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے  کہ:

رحمِ مادر میں  نطفے  سے  لے  کر پیدائش تک جسم روح کے  پروگرام کے  عین مطابق تیار ہو رہا ہے۔
جسم کی تیاری کے  بعد تیار جسم کے  پاس اب پوری زندگی کی حرکت و عمل کا ا اپنا روح کا پروگرام موجود ہے۔ اور اب یہ نیا تیار انسان اسی روح کے  پروگرام کے  ذریعے  پوری زندگی اپنی مرضی کی حرکت و عمل کرے  گا۔

(ماخواذ علم الانسان حذف و ترمیم کےساتھ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...