Saturday 12 August 2017

روح کیا ہے؟؟؟



⁠⁠⁠⁠⁠                        روح کیا ہے؟؟؟


سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#92

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

حکم حاکم سے  نسبت رکھتا ہے۔ کسی بھی شخص کے حکم کو یا دھمکی کو ہم حکم قرار نہیں  دے  سکتے۔ حکم کی مخصوص ساخت ہے  جو حاکم سے  منسوب ہے۔ مثلاً  اگر ایک نوکر اپنے  مالک کو حکم دے  کہ آج سے  میں  نے  تمہیں  ملکیت سے  خارج کیا تو ہم اسے حکم نہیں  کہیں  گے  نہ ہی یہ حکم ہے  نہ ہی اس حکم کے  کوئی اثرات مرتب ہوں  گے  لہذا اس حکم کے  بعد بھی  مالک اور اس کی حیثیت برقرار رہے  گی۔ کیونکہ نوکر ایک بے  قوت شخص ہے اور ملکیت خود مالک کی لہذا نوکر کے  اس حکم سے  مالک اپنی ملکیت و اختیار سے  خارج نہیں  ہو سکتا اس لیے  کہ نوکر نہ تو کوئی قوت رکھتا ہے  نہ اختیار لہذا اس کا حکم بے  اثر ہے۔

جب کہ مالک جو ملکیت کا اختیار رکھتا ہے  صاحب اختیار حاکم ہے۔ لہذا جب حاکم نے  حکم صادر کیا  ! کہ میں  نے  آج سے  تمہیں  نوکری سے  برخواست کیا تو اس حکم کے  اثرات فوراً ظاہر ہوں  گے  اس حکم کے  تحت نوکر نوکری سے  برخواست ہو جائے  گا۔ یہ ہے  صاحب اختیار حاکم کے  حکم کے  اثرات۔ اسی قانون کے  تحت یہ کائنات اور اس کا ہر وجود (بشمول انسان) ایک خالق کے  حکم کے  زیر اثر ہیں۔ لہذا پوری کائنات مالک کائنات کے  حکم سے  حرکت پذیر ہے  وہ مالک جو پوری کائنات کا اختیار رکھتا ہے۔ یعنی اس کائنات کو وہی ہستی مسلسل متحرک رکھ سکتی ہے  جو اس کی مالک و مختار ہے۔ یعنی کائنات خالق کے  حکم سے  متحرک ہے اور انسانی حرکت بھی اس حکم کا اثر ہے۔ اب جاننا یہ ہے  کہ یہ حکم کیسے کائنات کو متحرک کر رہا ہے۔

13۔ ﴿یہ حکم مسلسل  جاری و ساری ہے اور  نشر ہو رہا ہے۔ ﴾

یہ حکم ایک مرتب پروگرام ہے اور یہ  ریکارڈ پروگرام خالق کے  حکم کے  مطابق مسلسل کام کر رہا ہے۔ لہذا پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات اسی پروگرام کے  مطابق مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ جیسے  کمپیوٹر کے  اندر مکمل پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور وہ اسی پروگرام کے  مطابق پوری بلڈنگ کو خودکار کنٹرول کرتا ہے۔ اسی طرح خالق کے  پروگرام (حکم )کے  مطابق پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان خالق کے  حکم سے  مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ لہذا حکم ہی حرکی قوت ہے۔یعنی خالق کاحکم ہی کائنات کی حرکی قوت ہے۔ ﴾

لہذا خالق کا حکم کائنات اور اس کی موجودات کو مسلسل حرکت و عمل کا پروگرام دے  رہا ہے۔

یعنی کائنات اور اس کی تمام موجودات کی حرکت کا سبب ایک ہی بڑی زبردست طاقتور ہستی ہے۔ 

سائنس بھی برسوں  کی تحقیق و جستجو کے  بعد آج اس نتیجے  پر پہنچی ہے  کہ یہ پوری کائنات کسی ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ اس کائنات کا نظام اتنا منظم، اتنا مربوط، اتنا پیچیدہ اور اتنا مکمل ہے  کہ دو طاقتیں  ایسے  منظم سسٹم کو نہ بنا سکتی ہیں  نہ ہی دو طاقتیں  ایسے  پراسرار نظم و ضبط کو برقرار رکھ سکتی ہیں ذرا سی غلطی پورے  سسٹم کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ یہ نتیجہ سائنسدانوں  نے  برسوں کی تحقیق و تجربات و مشاہدات کے  بعد نکالا ہے  کہ کائنات کا یہ نظم و ضبط کسی ایک ہی بہت بڑی قوت کا تابع ہو سکتا ہے۔ وہ قوت کیا ہے ؟  کیسے  یہ کائنات ایک قوت کے  تابع ہے۔ ابھی یہ سوال مزید حل طلب ہے۔ وہ سوال جو سائنسدانوں  نے  قائم کیا ہے  یا کسی بھی صاحب علم و عقل کی سمجھ میں  آ سکتا ہے  کہ کائنات کی حرکت کا سبب ایک قوت ہے  اب ہم اسی سوال  کو لے  کر آگے  بڑھیں  گے۔

ایک قوت کی یہ حرکت کیا ہے اور کیسے  ہے۔ یہاں  ہم نے  یہ وضاحت کی ہے  کہ یہ حرکت(کائناتی حرکت) خالق کے  حکم سے  ہے اور محض حکم سے  حرکت کیسے  ممکن ہے  اس کی وضاحت ہم ایک ادنیٰ زمینی مثال سے  کرتے  ہیں۔

مثال:۔  مشہور ٹیلی پیتھسٹ  "جیری بلوم"  چائنا گیا۔ وہاں  ایک ہوٹل میں  چائے  پینے  بیٹھ گیا۔ سامنے دیوار پر ایک اژدھا کی بڑی تصویر لگی تھی جیری کو شرارت سوجھی اس نے  آس پاس بیٹھے  لوگوں  کو ہراساں  کرنے  کے  لئے  ذہنی رو سے  اژدھا کو حرکت کرنے  کا  حکم  دیا۔ اژدھا میں  حرکت پیدا ہوئی تو آس پاس بیٹھے  ہوئے  لوگ ڈر گئے۔

ذہنی رو سے  مادی اشیاء کو حرکت دینے  کے  عمل کو سائیکوکینس (Psychokenesis)   کہتے  ہیں  اس لفظ کا عام مخفف (P.K)   ہے۔

ٹیلی پیتھی کی مشقیں  کرنے  والے  بہت سے  حضرات میں  سے  محض چند بہت ہی اعلیٰ صلاحیتوں  کے حامل ٹیلی پیتھسٹ کو یہ صلاحیت مدتوں  کی ریاضت کے  بعد حاصل ہوتی ہے  کہ وہ فریم میں  لگی تصویر ( یا بعض مادی اشیاء ) کو حرکت میں  لا سکتے  ہیں۔ لیکن یہ ماہر تصویر میں  مستقل حرکت پیدا نہیں  کر سکتا۔ اگر کوئی انسان اس تصویر میں مسلسل حرکت پیدا کر دے  تو وہ تصویر سے  زندوں میں  شمار ہو جائے  گی۔ عمر بھر کی ریاضت مشقت کے  بعد بھی ماہر کی استعداد محض اتنی ہوتی ہے  کہ وہ کسی بے  جان شے  میں  محض چند سیکنڈ کی وقتی حرکت پیدا کر دے۔یا اس کو مزید سمجھنے کے لئے جادو کی مثال ذہن میں رکھ لیں۔یا ایسا کرنے کے لئے جادو یا کسی اور علم کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔

ایک انسان کا حکم کسی مادی شے  کو  وقتی طور پر متحرک کر سکتا ہے  لہذا ایسا ہی حکم(حرکی قوت) ہے  خالق کا اور خالق کے حکم میں  وہ شدت ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت پر مجبور رکھتی ہے۔

جیسے  ٹیلی پیتھسٹ کے  الفاظ تصویر میں  وقتی حرکت پیدا کر سکتے  ہیں۔ تو خالق کے  الفاظ میں  وہ قوت وہ شدت ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل متحرک رکھے  ہوئے  ہے  یہ فرق ہے  بے  اختیار انسان اور با اختیار خالق کا۔

اگر یہ قوت اور اس کے  حکم کی شدت نہ ہو تو ہر شے بشمول انسان پتھر کی طرح بے  جان ہوں  بلکہ ان کا وجود ہی نہ رہے۔

لہذا ایک بے  جان کائنات (بشمول انسان) کو خالق کا حکم مسلسل حرکت میں  رکھے  ہوئے  ہے۔ اور پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں  وہی ہستی رکھ سکتی ہے  جو پوری کائنات کی مالک ہو۔

لہذا خالق کا حکم ہی حرکی قوت ہے۔ اور یہ حرکت مسلسل ہے۔ اور خالق کے  اسی حکم کو یہاں  ہم نے روح کہا ہے۔ یعنی روح خالق کا حکم ہے۔

14 ﴿لہذا روح بذات خود انرجی نہیں  بلکہ یہ کائناتی تسلسل ہے  خالق کے  حکم کا۔ ﴾

روح بذات خود قوت (انرجی) نہیں  بلکہ روح کی بھی قوت ہے۔

ہم جان چکیں  ہیں  کہ روح بذات خود ایک انرجی ہے  قوت ہے  جسم کی زندگی ہے  یہ انرجی (روح) جسم میں  ہے  تو جسم جسم ہے  زندہ ہے  یہ جسم میں  نہیں  تو جسم مردہ ہے  جسم جسم ہی نہیں۔ ہماری پوری زندگی اس روح کا پروگرام ہے۔ ہمارا سونا، جاگنا، مرنا، جینا، ماضی، حال مستقبل غرض ہر حرکت و عمل روح کا پروگرام ہے  روح کی اطلاعات ہیں  لیکن انرجی کے  اس سب سے  چھوٹے  وجود روح کے  پاس یہ انرجی یہ معلومات کہاں  سے  آئیں۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے  کہ یہ چھوٹا وجود خود بخود اتنا پاورفل ہے  یہ انرجی بذات خود انرجی ہے۔

اسی طرح ہر جاندار یا انسان میں  اس کا فیولAURA   جسم کو متحرک رکھتا ہے  لیکن یہ انرجی کا منبع نہیں۔ AURA  جسم کا فیول ہے  روح جسم کی زندگی روح ایک انرجی ایک قوت ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے  ہیں  کہ۔ ایک بلب روشن ہو تو یہ اس کی ذاتی روشنی نہیں  بلکہ یہ ایک طویل برقی سلسلے  سے جڑا ہوا ہے  یہ بلب کی روشنی اسی طویل سلسلے  کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح روح بھی ایک طویل برقی سسٹم حکم سے  جڑی ہوئی ہے۔ لہذا حکم جو کہ حرکی قوت بھی ہے  یہ حکم ایک باقاعدہ برقی سسٹم ہے۔


15 ﴿حکم ایک برقی سسٹم ہے۔ ﴾

کمرے  میں  ایک بلب روشنی بکھیر رہا ہے  اگر کوئی یہ کہہ دے  کہ یہ بلب تو خود بخود روشن ہے اور یہ بلب کی ذاتی روشنی ہے  تو آپ ایسے  شخص کو یقیناً احمق قرار دیں گے  جو قبل از مسیح کے  کسی دور سے  اٹھ آیا ہے  جسے  کچھ معلوم ہی نہیں۔ جب کہ آپ جانتے  ہیں  کہ آپ کے  اپنے  گھر کے  اندر بجلی کے تاروں  کا جال بچھا ہوا ہے  مین بورڈ لگا ہے  جس کا بٹن آن کرنے  سے  پورے  گھر میں  بجلی کی سپلائی شروع ہو جاتی ہے اور گھر کی سب اشیاء فریج، ٹی وی، استری میں  بجلی دوڑ جاتی ہے اور یہ سب اشیاء متحرک ہو جاتی ہیں اور مین سوئچ آف کرنے  سے  یہ حرکت رک جاتی ہے۔ یہ بجلی مین بورڈ میں  سے  بھی نہیں  پھوٹ رہی بلکہ بجلی کی تاروں اور کھمبوں  کے وسیع سلسلے  کے  ذریعے  آپ کے  گھر تک پہنچ رہی ہے۔ اور یہ تاریں  کھمبے  بھی بجلی کا منبع نہیں  ہیں بلکہ یہ بجلی پیچھے  کہیں  مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے  یا پھوٹ رہی ہے۔ یعنی بجلی کی سپلائی کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسی طویل سلسلے  کے  تحت آپ کے  گھر میں  روشنی ہے  ہر شے  متحرک ہے اور اسی روشنی میں  آپ ہر شے  کا نظارہ کر رہے  ہیں با لکل اسی برقی سسٹم کی طرح ایک مین پاور اسٹیشن سے  انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے  یہ بھی بجلی کی تاروں  کی طرح ایک طویل سلسلہ ہے  جو کائنات میں  پھیلا ہوا ہے۔ اسی طویل سلسلے  کے  تحت ایک مین پاور اسٹیشن سے  حرکی قوت یعنی حکم (روشنی + انرجی +پروگرام) کائنات کے  ہر وجود بشمول انسان کو پہنچ رہا ہے  یا انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے  جس سے  کائنات کا ہر وجود متحرک ہے  عمل کر رہا ہے۔ اور اسی سلسلے  کے  تحت کائنات کا ہر وجود بشمول انسان متحرک ہے۔ پاور اسٹیشن سے  ساری کائنات ایک برقی سسٹم سے  جڑی ہوئی ہے اور پاور اسٹیشن سے  کائنات کے  ہر وجود کو انرجی کی ایک مخصوص مقدار پہنچ رہی ہے  نہ زیادہ نہ کم۔


16 ﴿پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے۔ ﴾

پاور اسٹیشن سے  مراد وہ واحد قوت (خالق ) ہے  جو پوری کائنات کو اپنی آواز کے  ذریعے  اپنے  محض ایک حکم سے  متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ وہ واحد قوت کیا ہے  اس کی ماہیت کا اندازہ کرنا مشکل ہے  (بندہ ادراک نہیں  کر سکتا خالق ہی ادراک بن جاتا ہے)۔

پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے  اس کی وضاحت ایک مثال سے  کرتے  ہیں۔  مثلاً  ایک اندھیرا کمرا ہے  ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں  دیتا کچھ نظر نہیں  آتا۔ اگر اسی کمرے  میں  ایک بلب روشن کر دیا جائے  تو آپ کمرے  کی ایک ایک چیز کو دیکھ سکتے  ہیں، سب کو الگ الگ شناخت کر سکتے  ہیں اسی روشنی یا بجلی سے  تمام چیزوں  کو متحرک بھی کر سکتے  ہیں۔ یہی روشنی بند ہو جائے  تو کچھ نظر نہیں  آئے  گا کسی چیز کی شناخت ممکن نہیں  سب کچھ ساکت ہے۔ جیسے  کچھ ہے  ہی نہیں۔ یہی مثال ہے  پاور اسٹیشن کی، وہاں  سے  ایک طویل سلسلہ کے  تحت روشنیوں کا اخراج ہو رہا ہے  جس سے  کائنات اور اس کی تمام موجودات  موجود اور متحرک ہیں۔
 ہر شے  نظر آ رہی ہے۔
 ہر شے  کا تشخص واضح ہے ، شناخت ممکن ہے۔
یہ حرکت کا کائناتی سلسلہ ایک حکم کے  ذریعے مسلسل جاری و ساری ہے۔



17 ﴿لہذا  روح درحقیقت ایک حکم )پروگرام)ہے ، خالق کا حکم!﴾

یہاں  آ کر اب روح کی تعریف یا شناخت مکمل ہوتی ہے۔ روح کی مسلسل تعریف ہم نے  یہ کی ہے  کہ روح ایک نکتہ ہے ، یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے تمام تر اجسام کی اور یہ زندگی ہی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے  جو روح میں  محفوظ ہے یعنی یہ پروگرام ساکت نہیں  متحرک ہے۔ اور حرکت کا سبب ارتعاش ہے اور ارتعاش ایک آواز سے  پیدا ہو رہا ہے اور آواز خالق کائنات کی ہے۔ یہ حکم ہی حرکی قوت ہے اور حرکی قوت ایک کائناتی برقی سسٹم کا نتیجہ ہے اور یہ برقی سسٹم پاور اسٹیشن(خالق) سے مربوط ہے۔

یعنی اگر آپ روح کو دیکھنا چاہیں  تو یہ انرجی کا انتہائی چھوٹا وجود ہزار کوششوں  کے  بعد ایک نکتے کی مانند نظر آئے  گا جب کہ یہی انتہائی چھوٹا وجود جو ناقابل تقسیم انرجی ہے  لیکن یہ وہ انرجی نہیں ہے  جس انرجی کی تمام تر اقسام سے  آج ہم واقف ہیں۔ یہی انرجی اجسام کی زندگی ہے  یہی انرجی اجسام ترتیب دیتی ہے  اسی انرجی یعنی روح کے  اندر اجسام کے  تمام تر حرکت و اعمال کا پروگرام محفوظ ہے  یعنی انسان کا ماضی، حال، مستقبل روح کا مرتب پروگرام ہے  جس پہ تمام اجسام اپنی مرضی سے  عمل کر رہے  ہیں۔ اور یہ مرتب پروگرام اجسام کے  حرکت و عمل کے  ذریعے  متحرک ہے اور اسے  متحرک کرنے والی بھی یہی روح ہے۔ اور حرکت برقی سسٹم ہے اور اس حرکت کا سبب ارتعاش ہے  جو  لہروں  کی صورت میں  سفر کر رہا ہے۔ اور یہ ارتعاش ایک مسلسل آواز سے  جنم لے  رہا ہے اور یہ آواز خالق کائنات کی ہے۔ سادہ الفاظ میں  روح خالق کا حکم ہے۔ اور زندگی، حرکت، اعمال سب حکم کی خصوصیات ہیں۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ روح ہی اجسام کی زندگی ہے۔

روح ہی حرکت و عمل کا پروگرام ہے۔ اور یہ روح خالق کا حکم ہے۔ قُل الرّ وح مِن اَمرِربی۔ ترجمہ۔ کہہ دیجیے روح رب کا حکم ہے۔                  


18 ﴿انسانوں  میں  حکم کی خصوصیت کائناتی حکم(انسان کی اپنی روح) کی بدولت ہے۔ ﴾

روح خالق کا کائناتی حکم ہے اور ہر انسان کے  اندر روح موجود ہے  لہذا ہر وہ انسان جو اپنی روح کا استعمال جانتا ہے  وہ حکم کی خصوصیات استعمال کر سکتا ہے۔ 

مثلاً  حکم کی ایک خصوصیت یہاں  ہم نے  حرکت بیان کی ہے۔ اور خالق کے  حکم سے  کائنات مسلسل حرکت میں  ہے۔ جب کہ انسان خالق کے  حکم کی طرح کسی شے  کو مسلسل متحرک نہیں  رکھ سکتا۔ لہذا انسان کے  حکم کی خصوصیت محدود ہے۔

انسان کے  اندر یہی کائناتی حکم کی خصوصیت یعنی روح موجود ہے  یہی وجہ ہے  کہ انسان بعض بے حرکت اشیاء کو حرکت دے  سکتا ہے۔ اور یہ حکم کی صلاحیت بعض انسانوں  میں  دیکھنے  میں  آتی بھی ہے  لیکن خالق اور انسان کے  حکم میں  وہی فرق ہے جو صاحب اختیار اور بے  اختیار شخص کے  حکم میں  ہو سکتا ہے۔ خالق کے  حکم سے  کائنات مسلسل متحرک ہے  تو انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں  کو استعمال کر کے  بھی محض شعبدے  ہی دکھا سکتا ہے۔ جیسے  جیری بلوم نے  ذہنی رو سے  تصویری اژدھے کو وقتی حرکت دے  کر دکھایا تھا۔یا آج کل جیسے میجک کے ذریعے بعض شعبدے دکھائے جاتے ہیں ۔

آج روح کی اس قوت حکم کو  ذہنی قوت قرار دیا گیا ہے۔ اور اس ذہنی قوت کوسائیکوکائناسس (Psychokinesis)   یعنی  P.K   کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے  مطابق۔ یہ خیال کہ قوت ہزار ہا اقسام کی لہریں اور توانائیاں  ہیں  جو ہمارے  ارد گرد بکھری ہوئی ہیں۔ اس قوت کو استعمال کرنے  کے  لئے  انہیں یکساں  توانائی کے  گچھوں  میں  باندھنا پڑتا ہے  اس توانائی کی مدد سے  نظر آنے  والی چیزوں  کے الیکٹرونز کو بغیر گرم کئے  نرم بنایا جا سکتا ہے  موڑا، توڑا جا سکتا ہے ، حرکت دی جا سکتی ہے۔ مثلاً برطانوی نوجوان یوری گیلر (Urigeller)   بی بی سی ٹیلی ویژن کے  پروگرام میں  ذہنی قوت کے  ذریعے کانٹے  چمچے  موڑتا ہوا دکھایا گیا حتیٰ کہ اس نے کیمرے  کو گھورا تو گھروں  کے  اندر سامنے  لے  کر بیٹھے  ہوئے  چھری کانٹوں  کو بھی دوہرا ہوتے  دیکھا گیا۔

ایسے  ہی حکمMind Power   کے  کارنامے  دکھاتا ہوا نظر آتا ہے   "کرس اینجل " وہ بھی اپنی ذہنی قوت سے  کبھی ہوا میں  اڑتا ہے  کبھی پانی پہ چلتا ہے کبھی غائب ہو جاتا ہے۔بے شک ان کے پس پردہ کچھ خاص عوامل کار گر ہیں ۔مثلا ہاتھ کی صفائی ،میجک یا آنکھوں کا دھوکا وغیرہ
اس کے علاوہ اور بھی کافی لوگ اپنے خصوصی کارناموں کی وجہ مشہور ہیں جیسے  سابقہ سویت یونین کی نینا کلاجینا (Nina Kulagina) ، کیلیفورنیا (امریکہ ) کے  ٹیڈ او ونز(Ted Owens)  ، لندن انگلینڈ کی اسٹیلاسی (Stella C)  اور کیمبرج (انگلینڈ ) کے  میتھیو میننگ(Mathew Manning) وغیرہ ہیں۔

اس کے  علاوہ ہمارے  پاس مذہبی کتابوں  میں  بھی روحانی بزرگوں  کے  کمالات و کرامات اور پیغمبروں  کے معجزے  درج ہیں  جن میں  بعض ایسی خصوصیات دیکھنے میں  آتی ہیں جن کو ہر کوئی انسان سر انجام نہیں دے سکتا ہے۔

 انسانوں  میں  حکم کی ہر مثال چھوٹی مثال ہے۔ یہ خالق کے  حکم کے  مقابل نہیں  خالق کا حکم بہت بڑا حکم ہے  جس سے  بے انتہاء بڑی کائنات مسلسل متحرک ہے۔ خالق کائنات کے علاوہ حکم کی ایسی خصوصیت کسی میں  موجود نہیں اور نہ پائی جا سکتی ہے ۔
 بے  شک کچھ مردوں کو زندہ کرنے  یا۔بیماروں کو شفا عطا کرنے کی مثال ہی کیوں  نہ ہو۔ یہ صلاحیت بھی کچھ صالحین کو دی گئی اور ایسا وہ کرتے  تھے  مگر خالق کے  حکم سے  یعنی ایکسٹرا صلاحیتوں  کے  ذریعے۔ یہاں  ہم نے  حکم کی کچھ زمینی مثالیں  تحریر کی ہیں  ایسی مثالوں  کے  ڈھیر موجود ہیں  لیکن ان چند مثالوں  کو پیش کرنے  کا مقصد حکم کی اثر پذیری کا ثبوت فراہم کرنا ہے  ورنہ لوگ بے  دھڑک انکار کر دیتے  ہیں  کہ ایسا کیسے  ہو سکتا ہے  یا ایسا بھی کبھی ہوا ہے۔ تو لہذا یہاں  ہم نے حکم کا جو فلسفہ بیان کیا ہے  یہ انوکھا ضرور ہے لیکن پھر بھی اس کی دنیاوی مثالیں موجود ہیں۔

لہذا اب یہاں  حکم کی مختصر تعریف اور تعارف کے ساتھ ہی روح کی وہ تعریف مکمل ہوئی۔ جو ہم نے روح کیا ہے ؟  کے  عنوان سے  شروع کی تھی لہذا ہم نے  یہاں  روح کی انفرادی شناخت قائم کرتے  ہوئے روح کی ماہیت بیان کرتے  ہوئے  کہا تھا کہ ؛

روح ایک نکتہ ہے  یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے ، زندگی ایک مرتب پروگرام ہے ، یہ مرتب پروگرام متحرک ہے ، حرکت ارتعاش کے  سبب ہے  یہ ارتعاش ایک آواز کا ہے اور آواز ایک حکم ہے اور حکم خالق کائنات کا ہے اور یہ خالق کائنات کا حکم مین پاور اسٹیشن سے  نشر ہوا ہے اور ایک طویل سلسلے  کے تحت اس مین پاور اسٹیشن سے  مسلسل مربوط بھی ہے  تبھی انسان اور کائنات ایک پروگرام کے  تحت منظم و متحرک اور مجسم ہے۔ یہی روح جسم میں زندگی بھی جسم میں  حرکت و عمل کا سبب ہے۔ یہی روح اجسام بھی تخلیق کر رہی ہے  جسم ہیں  تو روح کی وجہ سے  انسان کی موجود گی اس کی حرکت و عمل سب کچھ خالق کائنات کے  حکم سے  ہے اور اس حکم کا وہ ہر لمحہ تابع ہے  یہ سلسلہ جہاں  ٹوٹتا ہے وہیں  انسان وجود سے  عدم ہو جاتا ہے۔


ہم اپنی بات ختم کرنے سے پہلے  روح کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 جیسا کہ روح کو خدا نے اپنی جانب براہ راست نسبت دی ہے۔ گوکہ ہم نسبت کی نوعیت نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ خدا نے اپنی روح (پھونک) انسان میں پھونکی۔ اس کو سمجھنے کے لیے اگر ہم ” دم ” کو لے لیں تو بات کچھ واضح ہوجائے گی۔ جس طرح ہمارے ہاں کسی پر دم کیا جاتا ہے تو پھونک ماری جاتی ہے۔ یہ دم کرنا دراصل اپنی جانب سےایک خاص روحانی تاثیر کو اس بچے میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ خدا کے پھونک پھونکنے کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں البتہ ہم دم کرنے کی مثال سے کسی حد اس عمل کو سمجھ سکتے اور اس کے مقاصد جان سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس پھونک یا روح کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی جبکہ انسان کا ایک ظاہری اور مادی وجود موجود تھا۔ اس پھونک یا روح کا جو مطلب سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے جس طرح اللہ نے اپنے ہاتھوں سے انسان کا ظاہری وجود مادے سے تخلیق کیا ، اسی طرح اپنی پھونک یا روح کے ذریعے انسان کا ایک باطنی وجود بھی تخلیق کردیا۔ اس کا فنکشن اس کے مادی وجود سے مختلف تھا ۔ اس کا کام غیر مادی امور کو طے کرنا تھا۔ مادی اور روحانی وجود میں ایک اور فرق یہ ہے کہ مادی وجود مادی دنیا (یعنی عالم ناسوت)اور غیر مادی وجود یعنی روح غیر مادی دنیا (عالم لاہوت )کے لیے مخصوص ہے۔ واضح رہے کہ لاہوت غیر مادی عالم کے لیے بولا جاتا ہے جس میں فرشتے، عرش ، لوح محفوظ اور امور تکوینی سب شامل ہیں۔
اگر ہم اپنے مادی وجود پر غور کریں تو یہ ہاتھ پاؤں چہرہ جسم ، دل گردے پھیپڑے اور دیگر اعضا پر مبنی ہے جن کا اپنا اپنا کام ہے۔ باطنی وجود کو دیکھیں تو ایک الگ دنیا انسان کے اندر موجود ہے۔ یہاں جذبات ، احساسات، خوشی ، غمی، بے چینی ، سکون اور اس طرح کی دیگر کیفیا ت ہیں جنہیں ہم محسوس کرسکتے اور ان کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن کسی کو دکھا نہیں سکتے۔
باطنی وجود کے اعضاء کا تعین اگر ہم مادی طور پر ہاتھ پاؤں اور چہرے وغیرہ کی طرح کرنا چاہیں تو ناکام ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے باطنی کیفیات کے لیے قرآن کو اصطلاح استعمال کرتا ہے وہ بھی ظاہری اعضاء سے مستعار لی ہوئی ہے ۔ جیسے قرآن نے بار بار باطنی کیفیات کا مرکز قلب یعنی دل کو ٹہرایا ہے ۔ چنانچہ قرآن جگہ جگہ اس باطنی وجود کو بیان کرتے ہوئے مختلف باتیں بتاتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے، ان کے دل ٹیڑھے ہوگئے، دلوں کو زنگ لگ گیا، دل اندھے ہوتے ہیں، دلوں پر مہر لگ جاتی ہے وغیرہ۔کبھی اسی باطنی وجود کے ایک مظہر یعنی تعقل کو بیان کرنے کے لیے قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ بدترین جانور ہیں۔ اسی طرح باطنی وجود کے سننے اور سمجھنے کو سماعت، بصارت سے تعبیر کرتا ہے۔ غور کریں تو عقل بھی نظر نہیں آتی ہے۔باطنی وجود کے چند مظاہر کو قرآن ایمان، یقین، خشوع، خضوع، انابت، اخبات وغیرہ سے تعبیر کرتا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح انسان کا ظاہری وجود ہے اسی طرح باطنی وجود بھی ہے۔ باطنی وجود کو صرف محسوس کیا جاتاہے ، انہیں دیکھا یا چھوا نہیں جاسکتا اس کے باوجود یہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی باطنی وجود ہے جو اللہ نے اپنی روح کے ذریعے یعنی پھونک کے ذریعے انسان میں پیدا کردیا۔ اب انسان دو عناصر کا مجموعہ بن گیا ایک مادی عنصر اور دوسرا غیر مادی یا روحانی عنصر۔ مادی وجود کو خدا نے کھنکناتی ہوئی مٹی سے تخلیق کیا اور غیر مادی وجود کو روح سے۔انسانی نفس دراصل مکمل شخصیت کا نام ہے جو اسی ظاہری و باطنی یا مادی و غیر مادی وجود وں کا مجموعہ ہے۔

یہاں  آ کر اب روح کی تعریف قدرے  مکمل ہوئی ہے لیکن محض تعریف ہوئی ہے  تعارف ابھی باقی ہے جس کا تذکرہ آگے  آئے  گا۔ اگر روح کی اس طویل اور پیچیدہ تعریف کو ہم سادہ چند لفظوں  میں  بیان کریں  تو ہمیں  یہ کہنا ہو گا کہ

   روح خالق کائنات کا حکم ہے۔


اب ہم مزید سہل انداز میں قرآن وحدیث کی روشنی میں روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ روح سے متعلقہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
اللہ تعالی ہر چیزکوپیدا کرنے والاہے ، اور روح بھی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس حقیقت وغیرہ کا علم تو اللہ تعالی کی خصوصیت ہے جس طرح کہ حدیث میں وارد ہے :

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسملم کے ساتھ ایک کیھتی میں تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھڑی پرسہارا لیے ہوۓ تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ یھودیوں کا وہاں سے گذر ہوا تووہ ایک دوسرے کوکہنے لگے کہ ان سے روح کے بارہ میں سوال کرو تووہ کہنے لگا کہ تمہاری کیا راۓ ہے کہ اس کےپاس چلیں تو ایک نے کہا نہیں کہیں وہ ایسی بات نہ کہہ دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ۔

وہ کہنے لگے کہ اس سے پوچھو توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارہ میں سوال کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اورجواب نہیں دیا تومجھے یہ علم ہوگيا کہ آّپ پروحی کا نزول ہورہا ہے تومیں اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگيا توجب وحی کا نزول ہوچکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

{ اوروہ آپ سے روح کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہ دیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اورتمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے } صحیح بخاری۔

اوراللہ تعالی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب وسنت میں روح کے کئ ایک اوصاف بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :

وہ قبض اورفوت ہوتی ہے اوراسے جکڑا اور کفن میں لپیٹا جاتا ہے ، وہ آتی اورجاتی ہے اوپرچڑھتی اورنیچے اترتی ہے ، اور وہ اس طرح نکل جاتی ہے جس طرح کہ آٹے سے بال نکلتا ہے ۔۔

انسان پر واجب ہے کہ وہ ان صفات کوجوکہ قرآن مجید اور سنت نبویہ میں وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان رکھے۔

جیسا کہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اوراس میں روح پھونکی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حديث میں بھی اس کا ذکرکیا ہے :

( اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایااوران میں روح پھونکی توآدم علیہ السلام نے چھینک ماری اورالحمدللہ کہا توانہوں اللہ تعالی کی اجازت سے ہی اللہ تعالی کی تعریف کی توآدم علیہ السلام کو ان کے رب نے کہا اے آدم اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے ان فرشتوں کے پاس جا‎ؤ جوبیٹھے ہوۓ ہیں انہیں جا کر السلام علیکم کہو توانہوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا پھرآدم علیہ السلام اپنے رب کی پاس واپس آۓ تواللہ تعالی نے کہا کہ یہ تیرا سلام ہے اور ان کا بھی آپس میں یہی سلام ہے ) سنن ترمذی نے اسے حسن کہا ہے دیکھیں سنن ترمذي ( 3290 ) ۔

اللہ تعالی فرشتے کومادررحم میں پاۓ جانےوالے بچے میں روح پھونکنے کے لیے بھیجتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں اس کا ذکر ہے :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اوروہ صادق ومصدوق ہيں کہ تم میں سے ہرایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک جمع کیا جاتا ہے پھراسی طرح چالیس یوم میں خون کا لوتھڑا اورپھر اسی طرح چالیس یوم میں گوشت کا ٹکڑا پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے تووہ اس میں روح پھونکتا ہے اوراسے چارچيزوں کا حکم دیا جاتا ہے اس کے رزق اورموت اور اسے عمل اورشقی یا سعید کےبارہ میں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4781 ) ۔

اور روح نیچے پاؤ‎ں کی انگلیوں سے اوپر کی جانب قبض کی جاتی ہے توجب وہ حلق تک پہنچتی ہے تومرنے والے شخص کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے اوراس کی آنکھیں اوپرکواٹھ جاتی ہیں ۔

ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضي اللہ عنہ کے پاس آۓ توان کی آنکھیں پھٹ چکی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بند کیا پھرفرمانے لگے : بلاشبہ جب روح قبض کی جاتی ہے توآنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1528 ) ۔

اورفرشتے روح سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( فرشتے تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح سے ملے تواسے کہنے لگے کیا تونے کوئی اچھا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے ملازموں سے کہا کرتا تھا کہ تنگ دستوں سے درگزر کرو تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے اس سے درگزر کردیا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1935 ) ۔

فرشتے روح قبض کرنے کے بعد اسے آسمان پر لے جاتے ہیں جس طرح کہ حدیث میں بھی وارد ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تواسے فرشتے مل کر بٹھاتے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے اس روح کی اچھی خوشبو ذکر کیا اور کستوری کابھی ذکر کیا ہے وہ کہتےہیں کہ آسمان والے کہتے ہیں زمین سے اچھی روح آ‏ئی ہے تجھ پر جس جسم میں توتھی اللہ تعالی اپنی رحمت کرے تووہ اسے لیکر اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں پھروہ کہتا ہے کہ اسے سدرۃ المنتھی تک لے جاؤ ۔

وہ کہتے ہیں کہ جب کافر کی روح نکلتی ہے ۔۔ اورانہوں نے اس کی گندی بدبو کا ذکر کیا اور لعنت کا بھی اور اہل آسمان کہتے ہیں کہ زمین سے خبیث روح آئی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اسے سجین کی طرف لے جاؤ ( جوکہ کفار کی روحوں کی جگہ ہے ) ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی علیہ وسلم نے اپنے ناک پر رکھا ہوا رومال ہٹایا ۔ صحیح مسلم ( 5119 ) ۔

روح نکلنے کےبارہ میں تفصیل سے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کی ہے :

براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں گۓ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے ، توانہوں نے اپنا س راٹھایا اور فرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار دھرائی پھر فرمانے لگے :

جب مومن بندہ اس دنیا سے آخر ت کی طرف جارہا ہوتا ہے توآسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں ان کےپاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے حتی کہ وہ اس کے سامنے حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سر کے قریب بیٹھتا اور کہتا ہے اے اچھی جان اپنے رب کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چلو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے ، توفرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور پلک جھپکتے ہی اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ جنتی کفن اور خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائی جانے والی سب سے اچھی قسم کی کستوری کی خوشبو نکلتی ہے ، تو وہ اسے لیکر اوپر چڑھتے ہیں تو وہ جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے یہ اچھی روح کس کی ہے ؟

تووہ وہ کہتے کہ یہ فلان بن فلان ہے دنیا میں اسے جس سب سےاچھے نام سے بلایا جاتا تھا حتی کہ وہ اسے آسمان دنیا تک جا کر اسے کھلواتے ہیں تو کھول دیا جاتا ہے تو اسے ہر آسمان والے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان تک جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے کی کتاب اعلی علیین میں لکھ دواور اسے زمین کی طرف لوٹا دو بلاشبہ میں نے انہیں اسی میں پیدا کیا اوراسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اسی میں سے نکالوں گا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں لوٹائی‏ جاتی ہے تواس کے پاس دوفرشتے آ کر اسے بٹھاتے اور اسے کہتے ہيں کہ تیرا رب کون ہے تووہ کہتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں اس شخص کے بارہ میں تیرا کیا خیال ہے جوتم میں مبعوث کیا گيا تھا وہ جواب دے گا وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں تیرا علم کیا ہے وہ جواب دیتا ہے میں نےکتاب اللہ کو پڑھا تو اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی تو آسمان میں آواز لگائی جاتی ہے کہ میرے بندے نے سچ بولا اس کے لیے جنت کا بستر لگا‎ؤ اورجنتی لباس پہناؤ اورجنت کی طرف دروازہ کھول دو ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے جنت کی ہوائيں اور خوشبو آتی ہے اور حد نگاہ تک اس کی قبر وسیع ہو جائے گی ، اور فرمایا کہ اس کے پاس خوبصورت وجیہ شکل اور خوبصورت لباس اور اچھی خوشبو میں ایک شخص آ کرکہتا ہے خوش ہو جاؤ یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ، تو وہ اسے کہے گا توکون ہے تیرے چہرےسے ظاہر ہو رہا ہے کہ توخیرلانے والا ہے ، وہ جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں ، وہ شخص کہے گا اے رب قیامت قائم کردے حتی کہ میں اپنے گھر اور مال میں چلا جاؤں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ جب کافر اس دنیا سے آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس آسمان سے اس کے پاس سیاہ چہروں والے کھردرا ٹاٹ لیے آتے اور اس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا اور کہتا کہ اے خبیث روح اپنے رب کے غصہ اور غضب کی طرف نکل ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو وہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے تواسے جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح کہ بھیگی ہوئی روئی سے سلاخ کھینچی جاتی ہے ، تووہ اسے پکڑ کر پلک جھپکتے ہی اس کھردرے ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں اور اس سے زمین پرپاۓ جانےوالے گندے ترین مردار کی طرح  بدبو آتی ہے تو وہ اسے لیکر اوپر چڑھتے ہیں وہ فرشتوں میں سے جس کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا کہ یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ کہتے ہیں یہ فلان بن فلان اس نام ساتھ جو زمین میں قبیح ترین نام اسے دیا جاتا تھا حتی کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے اور اسے کھلواتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :

{ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائيں گے اور وہ اس وقت تک جنت میں بھی نہیں داخل ہوسکتے حتی کہ سوئی کے نکے میں اونٹ داخل ہوجاۓ }

تو اللہ تعالی فرمائيں گے کہ اس کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر لکھ دو تو اس کی روح کو اوپر سے ہی پھینک دیا جاۓ گا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آيت پڑھی :

{ اورجو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے آسمان سے گرے تواسے پرندے اچک لے جائيں یا پھر اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر پھینکھ دے }

تواس کی روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آ کر بٹھاتے اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ جواب میں کہتا ہے ہاۓ مجھے توکوئی علم نہیں ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب دیتا ہے ہاۓ مجھے توکچھ علم نہيں ، وہ اسےکہتے ہیں اس شخص کے بارہ میں توکیا کہتا ہے جوتمہارے اندمبعوث کیا گيا ، وہ جواب کہتا ہے ہاۓ مجھے تواس کا علم نہیں ، توآسمان سے یہ آواز لگائ جاتی ہے کہ :

اس کے لیے آگ کا بستر لگا دو اور آگ کی طرف دووازہ کھول دو تو اس سے اس کی گرمی اوردھواں اوربدبو آتی ہے اورقبر اس پر اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ، اور اس کے پاس ایک قبیح الشکل گندے اور بدبودار کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تجھے تیری ناپسندیدگی کی خوشخبری ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ،وہ اس سے سوال کرے گا توکون ہے ؟ تیرا توچہرہ ہی ایسا ہے جوشر ہی شر لاتا ہے وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں تیرے برے اعمال ہوں ، تووہ کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر ۔ مسند امام احمد حدیث نمبر ( 17803 ) اوریہ حدیث صحیح ہے ۔

اورآخری زمانے میں اللہ تعالی ایک ایسی ہوا بھیجے گا جو ہر مومن کی روح کو قبض کر لے گی اس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتا ہے :

نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اور نزول عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اورعیسی علیہ السلام کی زندگی میں اچھی معیشت اور ان کے بعد اس وقت لوگوں کی سعادت کا بھی ذکر کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تو وہ اسی حالت میں ہوں گے تو اللہ تعالی ایک اچھی ہوا بھیجے گا جو انہیں ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اورمومن اور مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور سب سے شریر ترین لوگ باقی رہ جائيں گے جوگدھوں کی طرح سرعام مجامعت کریں گے توان پر قیامت قائم ہوگی ۔ صحیح مسلم ( 5228 )۔

اور نیند( جسے موت صغری کہا جاتا ہے ) کے وقت بھی روح قبض ہوتی ہے لیکن اسے کلی طور پر قبض نہیں کیا جاتا اسی لیے سویا ہوا شخص بقید حیات اور زندہ ہوتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اور اللہ تعالی ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے انہیں روک لیتا اور دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، بلاشبہ اس میں غورکرنے والوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں } الزمر ( 42 ) ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کووصیت کرتے ہوۓ فرمایا :

جب وہ سونے کے لیے لیٹے تویہ دعا پڑھے :

( بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ )

میرے رب تیرے ہی نام کے ساتھ اپنا پہلو رکھا اور تیرے ہی ساتھ اٹھاؤ‎ں گ اپس اگر تو میری جان روک لے تو اس پر رحم کر اور اگر تو اسے چھوڑ دے تو اس کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح تو اپنے نیک اور صالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔

اورجب وہ نیند سے بیدار ہوتو یہ دعا پڑھے :

( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ )

اس ذات کی حمدو تعریف ہے جس نے میرے جسم کو عافیت سے نوازا اور میری روح کومجھ پرلوٹایا اور اپنے ذکر کی اجازت دی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوروایت کرنے کےبعد حسن قرار دیا ہے سنن ترمذی ( 3323 ) ۔

روح کے متعلقہ یہ چند آيات اور احادیث صحیحہ تھیں جو آپ کے سامنے ذکر کی گئیں یہ تو تھا اسلامی نقطہ نظر
(بشکریہ الشیخ محمد صالح المنجدislamqa.org)

(استفادہ تحریر علم الانسان/روبینہ نازلی،ڈاکٹر قدیم مشرق/معین الدین۔الشیخ محمد صالح کی ویب سائٹ ۔وکی پیڈیا اور دیگر ذرائع
 سے حذف و ترمیم کے ساتھ مشترکہ مضمون تیار کیا گیا ہے )

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...