Sunday 6 August 2017

مسلم معاشرہ اور مغربی تہذیب

مسلم معاشرہ اور مغربی تہذیب

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#86

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

انسان کے کردار پر اس کی سوچ کا گہرا اثر ہوتا ہے جس طرح کے عقائد ونظریات ہوں گے اعمال اس کے مطابق ہوں گے جس شخص کے خیالات پراگندہ ہوتے ہیں تو وہ اس کے اعمال ظاہرہ اور کردار پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک فرد کا معاملہ ہے اسی طرح کسی قوم کے اجتماعی رجحانات ایک اجتماعی سوچ وفکر ایک نیا تمدنی نقشہ قائم کرتے ہیں۔درحقیقت سوچ ہی سے اعمال کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ خاص سوچ وفکر ' نظریہ وعقیدہ جس کی بنیاد پر عمل وجود میں آتا ہے اس کو تہذیب کہتے ہیں۔اوراس فکر کے نتیجے میں جو انداز زندگی اور رہن سہن کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اس کو تمدن کہاجاتا ہے۔ 
مغربی تہذیب کا مطالعہ کرنے سے قبل یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اس تہذیب سے مراد وہ نظریات افکار اور خیالات ہیں جس کی وجہ سے اہل مغرب نے اپنا موجودہ تمدنی نقشہ (رہن سہن کا انداز ) قائم کیا ہوا ہے۔
ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کہ ان کے رہن سہن 'بودوباش میں کیا خوبیاں یا خامیاں ہیں ان میں جرائم پیشہ کتنے ہیں ؟ نشہ کرنے والوں کی شرح فیصد کیا ہے؟ اپنے تباہ شدہ خاندانی نظام سے کس قدر پریشان ہیں بلکہ ہم ان نظریات اور افکار کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے جن نظریات کی بدولت آج ان کی یہ حالت ہوگئی ہے۔
اکثراوقات کسی کے رہن سہن اور بودوباش کو تہذیب سمجھ لیاجاتا ہے حالانکہ یہ تمدن ہے تہذیب کے مطالعے کا مطلب ہے ان خیالات وافکار کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے وہ ایک خاص سمت کی طرف عملی طور پر جارہے ہیں۔
دور حاضر میں اہل مغرب کی حیران کن ایجادات اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی سائنسی ترقی کی بدولت غیر مغربی اقوام اس قدر مرعوب ہیں کہ اہل مغرب کی طرف سے آیا ہوا ہر نعرہ بغیر سوچے سمجھے قبول کیا جاتا ہے ادھر سے اٹھنے والے نعروں کی اپنے زعم وگمان کے مطابق تشریح کرکے اس کی پرُزور حمایت کی جاتی ہے۔
مثلاً آزادی کا نعرہ' مساوات کا فلسفہ نظریہ ارتقاء کا فلسفہ وغیرہ یہ سب اہل مغرب کی اختراع ہے۔
غیر مغربی اقوام نے ان نظریات کو تنقید کی نظر سے دیکھے بغیر مسلمہ اصول کے طور پر قبول کرلیا۔ اور ان نظریات کی تشریح اپنے گمان کے مطابق کرنے لگے مختلف قومیں اس بات پر مصرہیں کہ اِن کا مذہب ان نظریات کی بھرپورحمایت کرتا ہے کہ یہ نظریات اہل مغرب نے انہی سے اخد کیے ہیں بعض کلمہ گو مسلمان بھی دین اسلام سے ان خود ساختہ اصولوں کی توثیق پیش کرتے ہیں۔اورقرآن وسنت سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں بھی آزادی ہے،اسلام بھی مساوات کا حامی ہے' حالانکہ آزادی اور مساوات کا وہ مطلب جو اہل مغرب مراد لیتے ہیں اور ان کے مفکرین آزادی کی جو تشریح پیش کرتے ہیں اس طرح کا معنی مراد لینااسلام تو کیا دنیا کا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا آزادی 'مساوات اور دیگر نظریات جو اہل مغرب کی طرف سے آتے ہیں ان کی وہی تشریح وتعبیر معتبر ہوگی جو مغربی مفکرین بیان کریں۔ اس لیے کہ منشأ کلام متکلم خود بتایا کرتا ہے بات کرنے والا ہی اس چیز کا حق دار ہوتا ہے کہ بتائے میری مراد اس جملہ سے یہ ہے۔
جب اہل مغرب کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق اسلام کو ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اہل مغرب تو کجا مسلمانوں کو بھی اسلامی طریقہ زندگی قدیم' اجڈ اور فرسودہ نظرآنے لگتا ہے۔ اسی طرح جب مذہب کو عقل کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت سی چیزیں بالائے فہم ہونے کی وجہ سے عجیب معلوم ہوتی ہیں درحقیقت یہ کجی و نقص اسلام میں نہیں بلکہ اس آئینہ میں ہے جس کے ذریعہ اسلام کو دیکھا جارہا ہے۔
نقص ان ناقص آلات میں ہے جن سے دین اسلام کے اضلاع کو ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس لیے اہل مغرب کے مختراع اصولوں کا نقص واضح ہونے سے وہ تمام اعتراضات جو ان اصولوں سے جنم لیتے تھے ختم ہوجائیں گے۔
مثلاً :مساوات ایک مسلمہ اصول ہے۔مغربی مفکرین مساوات کا جو معنی بیان کرتے ہیں اس کی وجہ سے مندرجہ ذیل اعتراضات اسلام پر کیے جاتے ہیں ۔
1۔ میّت کا لڑکا اور لڑکی میراث میں برابر کے شریک کیوں نہیں؟
2۔ مرد وزن کی دیت میں مساوات کیوں نہیں ہے؟
3۔ طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں ملتا ہے؟
4۔ عورت جمعہ کا خطبہ اور امامت کیوں نہیں کروا سکتی؟
5۔ چار شادیاں مرد کرسکتا ہے عورت کو یہ حق کیوں نہیں ہے؟
6۔ طلاق کی عدت کے احکام صرف عورت پر لگتے ہیں مرد پر کیوں نہیں؟
یہ اعتراضات اس وقت ہوتے ہیں جب مساوات کو قدر یعنی حق وناحق' خیر وشر' اچھائی وبرائی جاننے کے آلے کے طور پر قبول کیاجاتا ہے۔
احکام شریعت میں صحیح وسقم 'ٹھیک اور غلط کا اندازہ لگانے کیلئے صرف اور صرف وحی الٰہی (قرآن سنت) پیمانہ بن سکتی ہے جو کچھ احکامات ان میں آگئے وہ حق اور سچ ہیں۔
باقی رہا فلسفہ مساوات تو حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام مساوات کا نہیں عدل کا حامی ہے احکامِ اسلام میں عدل ہی عدل ہے۔
نظریہ مساوات اور عدل میں فرق آئندہ اقساط میں ذکر کیا جائے گا۔

اہمیتِ موضوع

جب قومیں مغلوب ہوتی ہیں تو صرف شمشیر وسنان تیر وترکش ہی مغلوب نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم کی سوچ وفکر 'ذہنیت' اندازِفکر'زاویہ نظرتک متاثرہوتے ہیں۔ ان میں بھی غلامی کی جھلک نظر آتی ہے۔
مغل بادشاہوں کی حکمرانی کے بعد پاک وہند میں مسلمانوں کی جگہ انگریزوں نے لے لی اور تقریباً 200سال تک برصغیر پاک وہند انگریزوں کے زیر اثر رہا۔1947ء کے بعد اگرچہ خودمختار ریاستیں قائم کردی گئیں۔ مگر آزادی کے باوجود سوچ وفکر پر مغربی اقوام سے مرعوبیت کا بھوت سوار رہا اس مرعوبیت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
1۔ اپنی تاریخ سے ناواقفیت۔
2۔ سائنس وٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی۔
3۔ انگریز کا تیار کردہ نظام تعلیم و ذہن سازی۔
4۔ مغربی تہذیب (فکروفلسفہ) سے ناواقفیت۔
ان سب میں سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مغربی تہذیب کے فکر وفلسفہ کو سمجھا ہی نہیں اگر سنجیدگی سے اس کے اساسی افکاروعقائد مقاصد زندگی اور تصور حیات کو سمجھ لیتے تو یہ بات مغربیت کے غبارے سے ہوا نکال دینے کے لئے کافی ہوتی اور ہم اپنی روایات' اسلامی انداز زندگی وطرز معاشرت کو کبھی بھی ترک نہ کرتے۔
بہت سے حضرات مغربی تہذیب کو عیسائیت کے مترادف خیال کرتے ہیں' یا مغربی تہذیب (فکروفلسفہ) کو یورپی تہذیب کے مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں حالانکہ مغربی فکر ان دونوں سے الگ ایک جدا گانہ تصور ہے ۔ جداگانہ نظریہ حیات ہے ۔مغربی فکروفلسفہ(تہذیب ) کی کئی شاخیں ہیں۔
ماڈرن ازم Modernism
پوسٹ ماڈرن ازم Post Modernism
سیکولر ازم Secularism 
لبرل ازم Liberalism
روشن خیالی Enlightenment
ڈراون ازم   Atheism
مغربی تہذیب نہ تو عیسائیت کی روا دار ہے نہ ہی یورپی تہذیب کی پابند ہے بلکہ اس کے اپنے اصول ومبادی ہیں اپنے خاص نظریات وتصوراتِ زندگی ہیں جس میں کسی مذہب کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا اژدھا ہے جس نے تمام مذاہب سماویہ وغیر سماویہ کو نگلنے کی کوشش کی ہے جس میں کسی بھی مذہب خواہ وہ عیسائیت ہو یا یہودیت ہو ہندومذہب ہو یا اسلام اس کو صرف ایک فرد کا نجی معاملہ سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے۔
مغربی تہذیب کا مختصر خلاصہ صرف یہ نکلتا ہے کہ یہ انسانوں کا تیار کردہ ایک ایسا نظام زندگی ہے جس میں اعلیٰ اتھارٹی خدا کی بجائے انسان کے پاس ہے ۔ کیا چیز خیر(اچھی) ہے؟یہ خود بتائے گا کیا چیزشر(بری) ہے؟ اس کی تعیین بھی بندہ خود کرے گا اس تہذیب کا ماخذِ قانون قرآن یا کوئی اور کتاب مقدس کی بجائے انسانی حقوق کا عالمی منشور(Human Rights charter) ہے۔
جس میں بنیادی عقائد خدا 'رسول اور کتاب پر ایمان لانے کی بجائے بنیادی عقائد آزادی مساوات اورترقی کو قدر (یعنی اچھائی اور برائی جاننے کا پیمانہ) کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے۔جو ان بنیادی عقائد کو تسلیم نہیں کرتا یا انسانی حقوق کے عالمی منشورکو بطور قانون نہیں مانتا وہ انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہے ۔ اس تہذیب کی بنیادیں انہی ملحدانہ عقائد پرہیں مگر آج بہت سی اقوام اس کی رنگینیوں سے اس قدر متاثر ہیں کہ الفاظ کو ادا کرنے اور لباس کو پہننے تک میں انہی کی نقل اتاری جاتی ہے حتیٰ کہ بچوں کو امی ابو کی بجائے ممی ڈیڈی کہنا سکھایا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ چھوٹی سی بات ہے مگر اس سے ہمیں اپنے معاشرے کا رخ معلوم ہوتا ہے اور ان کے آئیڈیل کی شناخت ہوتی ہے ۔ جس طرح مٹی کی ایک چٹکی کو ہاتھ دراز کرکے ہوا میں چھوڑا جائے تو ہوا کا رُخ معلوم ہوجاتا ہے اسی طرح معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مثلاً روزبروز بدلتے الفاظ لباس میں کثرت سے ان کی مشاہبت اختیار کرنا۔ اپنے طریقہ زندگی کو فرسودہ 'قدیم اور غیر مہذب سمجھ کر چھوڑ دینا اور مغرب سے آنے والی ہر چیز کو حق سمجھ کر قبول کرنا نشاندہی کرتا ہے کہ ہماری قوم کا ذہن کس زاویہ سے سوچتا ہے۔
حتیٰ کہ بعض ہمارے بھائی مغرب کے حیران کن سائنسی انکشافات اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی ترقی سے اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ مداحین کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور ان کی تہذیب کی روشن خیالی اور نظم وضبط کے قصیدے پڑھتے ہیں اور مابہ الا شتراک چیزیں (جو چیزیں آپس میں مشترک ہیں )فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ اسلام میں بھی ہے جو چیزیں مغربی فکروفلسفہ اور اسلام میں یکساں نظر آتی ہیں ان کو بیان کرکے فخر کرتے ہیں کہ یہی عالی شان بات اسلام سے بھی ثابت ہوگئی۔ اور اعلان کرتے پھرتے ہیں اسلام میں بھی یہ چیز ہے اسلام بھی اس کا درس دیتا ہے اسلام کا بھی منشاء یہ چیزیں ہیں اہل مغرب نے فلاں فلاں چیزیں اسلامی تعلیمات سے اخذ کی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ایسی باتیں کرنے والا یا تو مغربی فلسفہ سے (تہذیب مغرب) سے ناواقف ہے یا پھر انتہائی درجہ کی مرعوبیت کا شکار ہوچکا ہے۔
حالانکہ یہ ایک بدیہی سی بات ہے کہ جب کوئی گروہ کسی اصطلاح کو استعمال کرتا ہے تو اس کا ایک اپنا پس منظر ہوتا ہے۔ اس کی مابعد الطبعیات ہوتی ہیں جس کا اثر اصطلاح کے مفہوم پر پڑتا ہے اس پس منظر کے آئینہ میں اگر اس اصطلاحی لفظ کو دیکھا جائے گا تو متکلم کی مراد تک صحیح رسائی ہوگی وگرنہ متکلم کی مراد واضح نہ ہو سکے گی اسی طرح مغرب میں جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مثلاً آزادی'مساوات' ترقی تو اس کا ایک پس منظر ہے مابعد الطبعیات ہیں اگر وہ سامع کے پیشِ نظرنہ ہوں گی تو آزادی کا مفہوم مساوات کا معنی اور ترقی کی منشاء صحیح نہ سمجھ سکے گا۔ اور ان الفاظ کی اسلامی تشریح کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ہمارے علاقوں میں ان الفاظ کی مابعد الطبعیات
اور ہیں۔اجمال کے ساتھ مثال ذکر کرتا ہو جس سے بات واضح ہوجائے گی ان شاء اﷲ۔
مثال نمبر 1:
لفظ(عدت) کا معنی ہے شمار کرنا' گننا' لیکن جب مطلقہ عورت سے کہا جائے کہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد تم شادی کرسکتی ہو اس سے پہلے جائز نہیں تو اس وقت لفظ عدت سے مراد تین حیض کی مقدار ہوگی اگر حیض اس کو نہیں آتا تو عدت سے مراد تین مہینے ہوں گے غرضیکہ اس وقت لفظ(عدت) ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔اس لئے شمارکرنا یا گننے والا معنی مرادلینا صحیح نہ ہوگا۔
اسی طرح مغربی دنیا میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں:
آزادی Freedom
مساوات Equality
ترقی Development
انسانی حقوق Human Right
نظریہ ارتقاء Theory of evolution
ان کے اپنے مابعد الطبعیات ہیں اگر یہ الفاظ اسلامی دنیامیں استعمال ہوں تو اس سے مراد کچھ اور ہوتا ہے اور اگر مغربی دنیا استعمال کرے تو اس کا کچھ اور معنی ومفہوم ہوتا ہے کیونکہ مابعد الطبعیات (پس منظر) الگ الگ ہے۔
مغربی فکر وفلسفہ میں مساوات اس وجہ سے ہے کہ تمام انسانوں کو عقل ودیعت کی گئی ہے لہٰذا حقوق میں سب مساوی ہوں گے عورت اور مرد برابر ہوں گے حق نکاح حق طلاق حق میراث میں بھی برابر ہوں گے جو حق مرد کوملے گا وہی عورت کو ملنا چاہیے۔
مگر اسلام میں مساوات اس بنیاد پر نہیں ہے کہ عقل میں سب برابر ہیں بلکہ اسلام میں مساوات اس وجہ سے ہے کہ اﷲ کے محکوم اور عبد ہونے میں سب مساوی ہیں اﷲ نے جو قانون جس کیلئے جیسا نافذ کردیا ہے اس کے نفاذ میں سب مساوی ہیں سب برابر ہیں۔جب اصطلاحات کی بنیادوں میں فرق ہے تو اس کا نتیجہ بھی الگ الگ نکلے گا۔ان مختلف نظریات سے تشکیل پانے والا عملی کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔
 اسلامی تصور مساوات سے اخوت قائم ہوگی کیونکہ سب ایک ایسے قانون کے پابند ہیں جس کی پابندی کرنا وہ عبادت سمجھتے ہیں اور نتیجتاً حفظِ مراتب بھی بحال رہیں گے ایسی فضاء قائم ہوگی جیسی مدینہ منورہ میں قائم ہوئی تھی۔
دور حاضر میں جب بھی بین الاقوامی سطح پر یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس وقت مساوات سے مراد وہ معنی ومفہوم ہوتا ہے جو مغربی فکر وفلسفہ میں ہے اسی طرح باقی تمام اصطلاحات کا بھی یہی حال ہے کہ مغربی فکر کا مفہوم ہی مراد ہوتا ہے اگر کوئی تاویل یا جہل کی وجہ سے دوسرا معنی مراد بھی لے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ کلام میں منشأ و مراد متکلم ہی طے کیا کرتا ہے نہ کہ کوئی دوسرا لہٰذا ضروری ہے کہ مغربی سوچ وفکر اور تصور زندگی کو مکمل پیچ وخم' تنقید وتشریح 'نتائج وانجام کے ساتھ آپ کے سامنے آسان زبان میں بیان کردیا جائے تاکہ ملحدانہ عقائد وافکار واضح ہوجائیں۔
جب مغربی تہذیب کا خبثِ باطن واضح ہوجائے گا تو مستقل طور پر رد کرنے کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ بحمداﷲ مسلمانوں میں اتنا ایمان موجود ہے کہ ان کی طبیعت ایسی مفسد چیز کو اسلام کے مقابلے میں کبھی بھی قبول نہ کرے گی۔
مغربی افکار کو جاننے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اسلام پر جو اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں اور جو شکوک وشبہات پیدا کئے جارہے ہیں ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ یہ اعتراضات اہل مغرب اسلام پر کیوں کررہے ہیں ان اعتراضات کی حیثیت کیا ہے؟ اعتراض کی نوعیت معلوم ہوجائے گی کہ اس اعتراض کا جواب اسلامی علمیت سے دیا جائے یا اعتراض ہی ہمیں تسلیم نہیں؟
اہل مغرب کی سوچ وفکر سے جوآدمی واقف ہے مغرب کی طرف سے آئے ہوئے ہر سوال کا جواب باآسانی دے سکتا ہے۔ 
کیونکہ جب ان کے بنیادی اصولوں کا نقص واضح ہوجائے گا تو ان اصولوں سے اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی خود بخود زمین بوس ہوجائیں گے۔
یہ بات واضح رہے کہ مغربی تہذیب ایک سازش نہیں ہے جسے اہل مغرب نے تمام ادیان کو ختم کرنے کے لیے تیار کیا ہو۔
بلکہ یہ ایک فکر ی یلغار ہے دنیا میں لذت پرستی کی زندگی گزارنے کی ایک تحریک ہے اس فکر کا مقابلہ بھی فکر سے ہوگا وگرنہ علاقہ تو مسلمانوں کاہوگا وطن بھی اسلامی پوری نسل کے نام بھی اسلامی مگر ذہن میں کفر بھرا ہوگا یہ کوئی اتنی مضبوط فکر وتحریک نہیں ہے جو اسلام کے سامنے کھڑی ہوسکے لیکن مسلمانوں میں سے بہت کم افراد ہیں جنہوں نے اس کے محاسبے کی فکر کی ہے جس دن اہل علم اس کے تعاقب کے درپے ہوگئے اسی دن اس کا آشیانہ بکھر جائے گا ۔ بلکہ یہ اتنی ناپائے دار ہے کہ خود بخود اس کا طلسم ٹوٹ رہا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا تھا:
"تمہاری تہذیب تمہارے خنجر سے خود کشی کرے گی"
:جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا"

مغربی تہذیب کی حالت تو یہ ہے کہ جن لوگوں (اہل یورپ) نے 300سال قبل اس کو منقش ہار سمجھ کر گلے سے لگایا تھا مگر یہ دلکش وخوشنما نظر آنے والا ہار درحقیقت ایک ایسا اژدہا نکلا جس نے ان کی نسلوں کو تباہ کردیا ان کے اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا، خاندانی نظام بکھر گیا,اپنے خالق و مالک کے ذکر سے دور ہو گئے، ہرفرد معاشرے میں تنہا ہوکر رہ گیا، عورت کا مقام ہوس پورا کرنے والے آلہ کے سوا اور کچھ نہ رہا، تمام ترمادی ترقی ہونے کے باوجود افراد بے قرار نظر آتے ہیں، تمام تر عیش وعشرت کے باوجود اپنی زندگی سے تنگ ہیں اور خود کشیوں کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے دنیاوی زندگی اپنی وسعتوں اور آزادیوں کے باوجود ان پر اس قدر تنگ ہے کہ یہ موت کو حیات پر ترجیح دینے پر مجبور ہیں بیٹا باپ کا وفادار نہیں بیٹی خاندان کے کسی فرد کی بات قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے اطمینان قلب کا تو جنازہ نکل گیا ہے۔
اور آج ہماری مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ ہماری آنکھیں چندھیا گئی ہیں ہزار ہا خامیوں کے باوجود مغرب سے آنے والی ہر بات ہر طریقہ ہر کلچر ہمیں اچھا لگتا ہے ۔ ان کا طرز زندگی معزز معلوم ہوتا ہے ۔مرعوبیت کا سحر اس وقت تک نہ ٹوٹے گا جب تک ہم مغربی نظر وفکر کو اس کی حقیقی شکل میں نہ دیکھ لیں۔ 
(حذف و ترمیم کے ساتھ تعارف تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...