Saturday 26 August 2017

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#99

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

الہام، کشف اور فراست کی حقیقت​

الہام کیا ہے؟

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ الہام کے معنی ہیں:
"کسی شخص کے دل میں کوئی بات القا کر دینا لیکن یہ لفظ ایسی بات کے القا کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے جو اللہ تعالٰی کی جانب سے کسی شخص کے دل میں ڈال دی جاتی ہے۔"
{مفردات القرآن بذیل مادہ 'لھم'}

الہام کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں: ایک صورت تو وہ ہے جس میں ہر انسان کے دل میں خیروشر کو پہچاننے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے اور یہی صلاحیت و استعداد بعض اہل علم کے بقول [فطرت] کہلاتی ہے جبکہ اس کا اللہ تعالٰی کی طرف سے ودیعت کیا جانا [الہام] کہلاتا ہے، قرآن کریم میں اس الہام کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا۔ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ
"قسم ہے نفس کی اور اسےدرست کرنے کی، پھر اللہ تعالٰی نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی"
{سورہ الشمس: 7،8}

الہام کی دوسری صورت یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالٰی کی طرف سے کسی نیک صالح مسلمان کے دل میں حالت بیداری میں کوئی اچھی بات ڈال دی جاتی ہے، جس کا تعلق مستقبل کی کسی غیبی بات سے ہوتا ہے۔ اگر یہ الہام انبیاء کی طرف کیا جائے تو یہ بمنزلہ وحی شمار ہوتا ہے، مگر غیر انبیاء کا الہام وحی نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ وحی کے مقابلہ میں انتہائی کمزور اور خواب کے مشابہ ہوتا ہے یعنی جس طرح حالت نیند میں سچے خواب کے ذریعے کسی غیبی امر سے مطلع کر دیا جاتا ہے، اسی طرح حالت بیداری میں بعض اوقات بذریعہ الہام کوئی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے اور پھر وہ اسی طرح پیش آتی ہے جس طرح اس کے بارے میں خیال [یا دوسرے لفظوں میں الہام] پیدا ہوتا ہے۔

الہام اور وسوسہ

اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان مقرر کر رکھا ہے۔ شیطان انسان کے دل میں وسوسے اور برے خیالات جب کہ فرشتہ اچھے خیالات پیدا کرتا رہتا ہے۔ جب کسی شخص کے دل میں اچھا خیال آئے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اسے ہی الہام بھی کہا جاتا ہے اور اگر کوئی برا خیال آئے تو پھر وہ شیطان کی طرف سے پیدا کردہ وسوسہ ہوتا ہے۔ انسان کے دل میں وسوسہ یا الہام پیدا کرنے میں فرشتے اور شیطان کی یہ کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند احادیث پیش کی جارہی ہیں:
۱۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن {شیطان} اور ایک فرشتہ ساتھی بنا کر مقرر کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی مگر اللہ تعالٰی نے اس شیطان کے خلاف میری مدد فرمائی ہے اور میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے، اس لیے وہ مجھے خیر ہی کا حکم دیتا ہے"
{صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان۔۔۔۔۔، ح 2814}

۲۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ابن آدم پر شیطان بھی اثر انداز ہوتا ہے اور فرشتہ بھی۔ شیطان اس طرح اثر اندا ہوتا ہے کہ وہ انسان کے دل میں برائی اور حق کی تکذیب ڈالتا ہے اور فرشتہ اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ انسان کے دل میں اچھائی اور حق کی تصدیق ڈالتا ہے۔ لہٰذا جس کے ساتھ یہ [فرشتے والا معاملہ] ہو تو وہ اس پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرے اور جس کے ساتھ دوسرا [شیطان والا] معاملہ ہو تو وہ اللہ تعالٰی سے شیطان مردود کی پناہ مانگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت آخر تک تلاوت فرمائی: 'شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے"
{جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ح 2988}

الہام، فراست اور کشف

اب یہاں اس سے ملتی جلتی دو چیزوں یعنی فراست اور کشف کی حقیقت کے بارے میں بھی تھوڑا سا مطالعہ فرما لیجیے۔

بنیادی طور پر 'فراست' سے مراد بصیرت و دانائی ہے۔ یہ دانائی مشاہدات و تجربات سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اور تعلیم و تدریس سے بھی۔ علاوہ ازیں بعض لوگوں کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ دانائی وہبی طور پر بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس فراست کو کرامت بھی کہا جاتا ہے اور یہ چیز بعض اوقات حالت بیداری میں اور بعض اوقات خواب کے ذریعے ودیعت ہوتی ہے۔

فراست بذریعہ کرامت

اس قسم میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض حضرات تو اس صورت کا مطلق انکار کرتے ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالٰی کسی شخص کے دل میں کوئی دانائی کی بات القا کریں۔ اسے محال سمجھنے کی وجہ یہ ذکر کی جاتی ہے کہ یہ تو وحی کی صورت ہے اور وحی انبیاء و رسل کیلیے خاص ہے۔ جب کہ بعض لوگ اسے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ صاحب فراست کو غیب دان اور بہت پہنچی ہوئی شخصیت ثابت کر سکیں۔

فراست بذریعہ مشاہدہ

فراست کی یہ قسم مسلم اور غیر مسلم کا فرق کیے بغیر کسی بھی ذہین و فطین کو حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ یہ وہبی نہیں بلکہ کسبی ہے اور اس میں ظاہری احوال دیکھ کر کوئی بھی دانا شخص اپنے تجربہ کی بناء پر کوئی درست بات بیان کر سکتا ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ
"یہ ایسا علم ہے جس کے ذریعے انسان کے ظاہری احوال مثلا رنگ، صورت، اعضاء و جوارح اور چال ڈھال سے اس کا اخلاق و کردار وغیرہ معلوم کر لیا جاتا ہے یعنی ظاہری کیفیت سے اندازہ لگا کر باطنی کیفیت معلوم کر لی جاتی ہے"
{مفتاح دار السعادۃ، ج ۱، ص۳۰۹، لسان العرب، ج۶، ص۱۶۰}

گویا یہ غیب دانی نہیں، بلکہ ظاہری حالات اور قرائن وغیرہ سے اندازہ لگا کر کسی مخفی بات سے پردہ اٹھانے کی ایک کوشش ہے۔ اور یہ کوشش کامیاب بھی ہو سکتی ہے اور ناکام بھی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا درج ذیل بیان بھی اسی نوعیت کا ہے، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کے سوال سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ یہ فقیہ ہے یا غیر فقیہ۔"
{قرطبی، ج۱۰، ص۴۱}

نیز اسی طرح ایک ڈاکٹر جب مریض کی بیماری کا مشاہدہ کرتا ہے تو مریض کی شکل و صورت و ہیئت سے اس کی بیماری کا اندازہ لگا لیتا ہے لہٰذا یہ کوئی علوم غیب میں سے نہیں بلکہ مشاہدات سے محض اندازے لگائے جاتے ہیں جو کبھی صحیح اور کبھی غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

فراست بمعنی کشف

بعض لوگ بالخصوص صوفیاء میں سے بعض حضرات نے فراست کا دائرہ اس قدر بڑھا لیا کہ بعض جگہ تو وہ نعوذ باللہ شریعت کی ظاہری حدود سے بھی متعارض ہوتے دکھائی دیتے ہیں مثلا یہاں تک کہا جاتا ہے کہ چلہ کشی، (مراقبہ)خلوت نشینی اور عبادت و ریاضت کے ذریعے فراست بڑھائی جا سکتی ہے اور باطنی طور پر اللہ تعالٰی کا دیدار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات کئی صوفیاء کے ہاں ملتی ہے، بالخصوص ابن عربی صوفی صاحب کی تحریروں میں ایسی کئی چیزیں ملتی ہیں۔ ان کے بقول انسان کی روح مجاہدوں اور ریاضتوں کے ذریعے فرشتوں کے ساتھ جا ملتی ہے اور جب یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو اس کیلیے اللہ تعالٰی حقیقی علوم کےدروازے کھول دیتا ہے۔
{دائرۃ المعارف، بذیل مادہ'الھام'}

اور بعض صوفیاء تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ:
"جس شخص کے اندر یہ 'نور فراست' جس قدر زیادہ ہو گا اس کا یہ مشاہدہ حق اتنا ہی قوی ہو گا"
{الرسالۃ القشیریۃ، ص639}

ان صوفیاء کے بقول مجاہدوں، ریاضتوں، مخصوص قسم کے وردوں،مراقبوں اور چلہ کشیوں سے یہ صلاحیت حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ آتا ہے کہ اگر ایسا فی الواقع ممکن ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت و رسالت کے بعد ایسا کوئی عمل کیوں نہ کیا؟ اسی طرح آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس طرح کی ریاضتیں، مجاہدے اور چلے کیوں نہیں کاٹے؟

اگر یہ کہا جائے کہ انہیں ضرورت ہی نہ تھی تو پھر انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کی اس کی تلقین کیوں نہ کی؟ بلکہ بڑا ضروری تھا کہ خود قرآن و حدیث میں ایسا کوئی حکم دے دیا جاتا کہ کشف کیلیے یہ یہ عملیات کیے جایئں اور رہتی دنیا تک اسے مستند حیثیت حاصل ہو جاتی، مگر پورا قرآن پڑھ جائیے آپ کو اس سلسلہ میں کوئی ایک بھی آیت نہیں ملے گی۔ اسی طرح ذخیرہ احادیث میں سے ایک بھی صحیح حدیث اس کی حمایت میں نہ ملے گی۔

کیا کشف کے ذریعے اللہ کا دیدار ممکن ہے؟

حتٰی کہ یہاں تک دعوی کر جاتے ہیں کہ ہم کشف کے ذریعے نہ صرف یہ کہ خود اللہ کا دیدار کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی دیدار خداوندی کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ صاف جھوٹ ہے کیونکہ دنیا میں اللہ کا دیدار جب حضرت موسٰی علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کیلیے ممکن نہ ہو سکا تو کسی اور کیلیے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسٰی علیہ السلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

"اور جب موسٰی ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو اس نے عرض کیا اے میرے رب۔ مجھ کو اپنا دیدار کرا دیجیے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں۔ ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو، وہ اگر اپنی جگہ بر قرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب ان کے رب نے اس [پہاڑ] پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس پہاڑ کے پرخچے اڑا دیے اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بے شک آپ کی ذات منزہ ہے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں"
{سورہ الاعراف: 143}

اس واقع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی نبی و رسول کیلیے دنیاوی زندگی میں دیدار الٰہی ممکن نہیں ہے تو کسی غیر نبی کیلیے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں صرحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ:
لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ
"اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہےاور وہ بڑا باریک بین باخبر ہے"
{سورہ الانعام: 103}

اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح انداز میں فرما دیا کہ:
"یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص بھی مرنے سے پہلے [یعنی دنیوی زندگی میں] اللہ تعالٰی کو ہر گز نہیں دیکھ پائے گا"
{صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر ابن صیاد، ح7356}

الہام و فراست اور کشف میں فرق

الہام اور فراست کے بارے میں حق بات یہ ہے کہ فراست کی وہ صورت جو بطور کرامت حاصل ہوتی ہے اس کے عطیہ خداوندی ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا دائرہ صرف اسی قدر ہے کہ بعض اوقات کوئی بات بذیعہ الہام انسان کے دل میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ودیعت کر دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ الہام اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک خاص انعام ہے اور اس کے لیے مراقبے، مجاہدے، چلہ کشی، خلوت نشینی، ریاضت وغیرہ کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام میں ترک دنیا، رہبانیت اور لمبی چوڑی ریاضتوں کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی صحابہ کرام ایسی مخصوص ریاضتیں اور مراقبے کیا کرتے تھے۔
صوفیاء کے ہاں الہام و فراست کے مقابلے میں کشف کی اصطلاح زیادہ معروف ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ چلہ کشی اور بدنی ریاضتوں کے ذریعے ایک مقام ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالٰی انسان کے دل پر حقائق منکشف کرنے لگتے ہیں، اسے ہی کشف سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے کئی درجات بیان کیے جاتے ہیں۔
حالانکہ الہام اور صوفیاء کے اس کشف میں بڑا فرق ہے اور پھر یہ الہام من گھڑت ریاضتوں کا حاصل نہیں بلکہ یہ خدائی انعام ہے جو صرف انتہائی متقی، ایماندار اور فرائض کی مکمل بجا آوری کرنے والے ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ
"جس کو اللہ تعالٰی نور [ہدایت] سے نہ نوازیں، اس کیلیے کوئی نور نہیں ہے"
{سورہ النور:40}

اتقوا فراسھ المومن۔۔۔۔۔ ایک غیر مستند روایت

فراست کے حوالے سے صوفیاء ایک روایت کو بہت بیان کرتے ہیں:
"مومن کی فراست سے بچو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے"
{ترمذی، ح 3127}
یہ روایت ضعیف ہے۔ امام ابن جوزی اور ابن عدی وغیرہ نے است مردود قرار دیا ہے۔
{دہکھیے: الضعفاء للعقیلی، ج۴، ص۱۲۹، الموضوعات، لابن جوزی، ج۳، ص۱۴۵، الکامل فی الضعفاء، ج۱، ص۲۱۰، ضعیف الجامع، ح۱۲۷، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، ج۴، ص۲۹۹،۳۰۲}​

الہام کی صحت کا معیار

جب ولی اللہ سے غلطی کا صدور ممکن ہے تو لوگوں کو اس کی تمام باتوں پر ایمان لانا ضروری نہیں، ہاں البتہ نبی ہو تو اور بات ہے اور ولی اللہ کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ان تمام چیزوں پر اعتماد کرے جو کہ اس کے دل پر القا ہوتی ہیں۔ اِلاَّ یہ کہ وہ موافق شریعت ہوں۔ اپنے الہام، مکالمہ اور مخاطبہ پر جسے وہ اللہ کی طرف سے سمجھے، بھروسانہ کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان سب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کسوٹی پر پرکھ لے اگر موافق ہو تو منظور کرے اور اگر مخالف ہو تو نہ قبول کرے اور اگر اسے معلوم نہ ہو کہ موافق ہے یا مخالف تو اس میں توقف کرے۔
(الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)
 
اعتکاف:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم و اجمعین میں اعتکاف کی ایک صورت رہی ہے جب کہ اعتکاف میں بھی جو تعلیمات دی گئی ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس میں نہ کوئی کفریہ و شرکیہ عمل کیا جاتا ہے، نہ ہی جنگلوں اور ویرانوں کی طرف نکلا جاتا ہے۔نہ نماز، روزہ وغیرہ کی بے حرمتی کی جاتی ہے بلکہ یہ تو عبادت میں رغبت و کثرت کیلیے مسنون و مستحب قرار دیا گیا اور وہ بھی سال بھر میں چند دن کیلیے۔
بعض لوگ مراقبے کے جواز کیلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غارِحرا میں عبادت کیلیے خلوت نشینی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ واقعہ نبوت و رسالت سے پہلے کا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا دیا گیا تو اس کے بعد آخر دم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بھی غارِحرا میں خلوت نشینی کیلیے نہیں گئے بلکہ دوسروں کو بھی ہر اس چیز سے روکتے اور منع کرتے جس سے ترک دنیا کی بو آتی۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلوں اور مراقبوں کو ناپسند کیاہے۔۔۔۔۔۔۔!جس کی تفصیلات سابقہ اقساط میں گزر چکی ہے۔

کشف کے متعلق الشیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ
آدمی کوجو کشف ہوتا ہے اس کی کئ ایک انواع ہیں ۔

ایک تو کشف نفسانی ہے جو کہ کافراور مسلمان کے درمیان مشترک ہے ، اور اس میں کشف رحمانی بھی ہے جو کہ وحی اور شرع کے طریقے سے ہوتا ہے ، اور اس میں سے کچھ شیطانی ہے جو کہ جنوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ نفس کو بیداری یا نیند کی حالت میں کچھ نہ کچھ کشف ہوتا ہے جس کا سبب بدن کے ساتھ قلیل سا تعلق یاتو بطور ریاضت یا اس کے بغیر ہے ، اور یہی وہ کشف نفسانی ہے جو کشف کی انواع میں سے پہلی نوع ہے ۔

لیکن عقلی اور شرعی دلائل سے جنوں(جنات) کا ثبوت ملتا ہے ، اور وہ جن لوگوں کو غائب اشیاء کی خبریں دیتے ہیں جیسا کہ بعض کاھنوں اور جن پر مرگی کے دوروں کا اثر یا پھر جنو‍ں کا سایہ ہوتا ہے ، اور ان کے علاوہ دوسروں پربھی ۔۔

لیکن یہاں پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا علم ہوجاۓ کہ ایسے امور کا وجود پایا جاتا ہے جو کہ اس عقل سے منفصل اور علاوہ ہے جیسا کہ جن جو کہ بہت سارے کاھنوں اور نجومیوں کوخبریں دیتے ہیں ، اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا علم بالضروۃ ہر اس شخص کو ہوتا ہے جو کہ اس سے متعلق رہا ہویا پھر اس تک خبر پہنچنے پر اسے علم ہوتا ہے ، اور ہم نے بھی اسے کئ ایک دفعہ بالاضطرار جانا ہے ، تو یہ مکاشفہ اور غیب کی خبریں مکاشفہ غیر نفسانی ہے جو کہ مکاشفہ کی دوسری نوع بنتی ہے ۔

اور تیسری قسم یہ ہے کہ : جس کی خبرفرشتے دیتے ہیں اور یہ قسم سب سے اعلی ہے جس پر بہت سے عقلی اور سمعی دلائل موجود ہیں ، توغیب شدہ اشیاء کی خبریں یا تو نفسانی اسباب اور یا پھر خبیث اور شیطانی اسباب اور غیر شیطانی اور یا پھر ملکی اسباب کی بنا پر ہوں گی ۔ الصفدیۃ ( 187- 189 ) ۔

اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے :

کشف جزئی مومن اور کافر نیک اور فاجروں کے درمیان مشترک ہے ، جیسا کہ کسی کے گھرمیں جو کچھ یا جو اس کے ہاتھ میں یا جو اس کے کپڑوں کے نیچے یا پھراس کی بیوی کا حمل مذکر و مؤنث بن جانے کے بعد اور جو کچھ دیکھنے والے سے دور رہنے والے کے حالات غائب ہیں وغیرہ کا اس کا کشف ہوتا ہے ۔

تو یہ سب کچھ بعض اوقات تو شیطان کی طرف سے اور بعض اوقات نفس کی جانب سے ہوتا ہے ،اور اسی لۓ اس کا وقوع کفار سے بھی ہوتا ہے مثلا عیسائی اور اسی طرح آگ اور صلیب کے پجاری ، اور اسی طرح ابن صیاد نے بھی جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چھپایا تھا اسے کشف کر دیا تھا ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ ( تو کاہنوں اور نجومیوں کا بھا‏ئی ہے ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کشف کو کاہنوں اور نجومیوں کا کشف ہی قرار دیا نہ کہ اس کی قدر کی ۔

اور اسی طرح مسیلمۃ کذاب جو کہ بہت بڑا کافر ہونے کے باوجود اپنے پیرکاروں کا مکاشفہ کیا کرتا اور انہیں یہ بتایا کرتا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں کیا کیا اور اپنے گھر والوں کو کیا کہا ہے ، یہ سب کچھ اسے اس کا شیطان اسے بتایا کرتا تھا تا کہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔

اور اسی طرح اسود عنسی اور حارث متنبی دمشقی جس نے عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں نبوت کا دعوی کیا اور اسی طرح کہ وہ لوگ جن کا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور شمار نہیں کرسکتا ، اور ہم اور دوسروں نے بھی ان میں سے ایک جماعت کو دیکھا ،اور لوگوں نے بھی رھبانوں اور صلیب کے پجاریوں کے کشف کا مشاھدہ کیا ہے جو کہ ایک معروف بات ہے ۔

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے ۔ مدارج السالکین ( 3 / 227 - 228 )

دوم :
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے " اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ " تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔

مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )

تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے - یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔

سوم :
اور جو کچھ صوفیوں کے ساتھ ہوتا ہے وہ کشف رحمانی نہیں بلکہ یا تو وہ کشف نفسانی ہے جس میں کفار بھی شریک ہیں ، اور یا پھر شیطانی ہے اور یہی شیطانی کشف زیادہ اور غالب ہے ۔

بات یہ ہے کہ کشف رحمانی تو ان اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے جو کہ اللہ تعالی کی شریعت پر چلتے اور اس کی تعظیم کرتے ہیں ، اور  صوفیوں اور عاملوں کا حال سب کے علم میں ہے کہ وہ اس طرح نہیں ہیں ، اور جو کچھ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ واقع ہوا اگر اسے کشف کا نام دینا صحیح ہے تو وہ کشف رحمانی ہے ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کے حادثہ کے متعلق کہتے ہیں :

اور اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ نداۓ مذکور اللہ تعالی کی طرف سے عمر رضی اللہ تعالی کو الہام تھا ، اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ محدث ہيں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لۓ لشکر کی حالت کا کشف کیا گيا اور انہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، تواس سے صوفیوں کا ان کے گمان کے مطابق اولیاء کے لۓ کشف پر استدلال کرنا اور دلوں میں جو کچھ ہے اس پر اطلاع پانے پر استدلال کرنا باطل بلکہ ابطل ہے ، یہ باطل کیوں نہ ہو اس لۓ کہ علم غیب اللہ تعالی کی صفات میں سے ہے اور سینہ کے بھیدوں پر بھی وہ اللہ تعالی ہی مطلع ہے ۔

مجھے معلوم نہیں کہ یہ لوگ کیسے اس زعم باطل کا شکار ہیں حالانکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ، سواۓ اس اس رسول کے جسے وہ پسند کر لے } الجن ( 26 - 27 )

تو یہ قصہ ثابت اور صحیح ہے ، اور ایک ایسی کرامت ہے جس سے اللہ تعالی نے نواز کرعمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عزت سے نوازا ، لیکن اس میں وہ چیز نہیں جس کا صوفی اور عامل لوگ دعوی کرتے ہیں کہ علم غیب پر اطلاع ہے بلکہ یہ تو ( شرعی عرف کے اعتبارسے ) ایک الہام ہے ، یا پھر عصر حاظر میں ( دل میں پیدا ہونے والا ) جو کہ معصوم نہیں ، بعض اوقات تو صحیح ہوسکتا ہے جیسا کہ اس واقع میں ہے ، اور بعض اوقات یہ غلط بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ انسان پر غالب اوقات میں ہوتا ہے ۔

تو اس لۓ یہ ضروری ہے کہ ہر ولی شریعت اسلامیہ کی اپنے اقوال و افعال میں پیروی کرے ، اور اس بات سے پرہیز کرے کہ وہ شریعت کے مخالف کوئی بھی کام نہ کرے کیونکہ اس مخالفت سے وہ اس ولایت سے خارج ہوجاۓ گا جس کی صفت اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمائ‏ ہے :

{ یاد رکھو اللہ تعالی کے ولیوں پر نہ تو کوئی اندیشہ ہےاور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاۓ اور ( برائیوں سے ) پرہیز کرتے ہیں } یونس ( 63 )

اور کسی نے کتنا ہی اچھا کہا ہے کہ :

جب آپ یہ دیکھیں کہ کوئی شخص ہوا میں اڑ رہا اور سمندر میں پانی پر چل رہا ہے اور وہ شریعت کی حدود کا خیال نہیں رکھتا تو بیشک وہ فریبی دھوکہ باز اور بدعتی ہے ۔ سلسلۃ احادیث صحیحۃ ( 3 / 102 - 103 )
  {بشکریہ:islamqa.info}
جاری ہے۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...